علماء اور امراء کی اطاعت: اولی الامر کی روشنی میں

محمد ریاض علیمی

  اطاعت کا معنی ہے:

حکم ماننا، حکم کی تعمیل کرنا۔ قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا گیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کیا کرو اور سن کر اس سے منہ نہ پھیر‘‘و۔ (سورۃ الانفال:۲۰) ایک اور مقام پر ارشاد ہے: ’’اے ایمان والو! اللہ کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو اور اپنے اعمال باطل نہ کرو ‘‘۔ (سورۂ محمد: ۳۳) اسی طرح اللہ اور رسول کی اطاعت کے بعد اولی الامر کی اطاعت کاحکم دیا گیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان کی جو تم میں اولی الامر ہیں ‘‘۔ (سورۃ النساء: ۵۹)۔ احادیث مبارکہ میں بھی اولی الامر کی اطاعت کا خاص طور پر حکم دیا گیا، یہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا اور اس کی نافرمانی کو اپنی نافرمانی پر محمول کیا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی، اور جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی، جس نے میری نافرمانی کی تو اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ اور جس نے امیر کی نافرمانی کی تو اس نے میری نافرمانی کی۔ (بخاری: ۷۱۳۷)اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے میری اطاعت کی پس اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی، جس نے میری نافرمانی کی تو اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ اور جس نے امیر کی اطاعت کی تو اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی تو اس نے میری نافرمانی کی۔ (بخاری: ۲۹۵۷) ان روایات سے معلوم ہوا کہ اللہ کی اطاعت اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے بعد اولی الامر کی اطاعت ضروری ہے۔

اولی الامرسے مراد کون ہیں ؟

اس کی تفسیرمیں مفسرین نے مختلف اقوال نقل کیے ہیں۔ حضرت عکرمہ سے مروی ہے کہ اس سے مراد حضرت ابوبکر اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما ہیں۔ (طبری:۸؍۵۰۲) ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہم ہیں۔ (در منثور: ۲؍ ۵۷۵) حضرت مجاہد رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ اس سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ، فقہاء اور دین دا رلوگ ہیں۔ (در منثور: ۲؍۵۷۵)علامہ مظہری اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں : یہ لفظ فقہاء، علماء اور مشائخ کو بھی شامل ہوگا بلکہ بدرجہ اولیٰ ان پر صادق آئے گا کیونکہ یہ لوگ انبیاء کے وارث، اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے رسول کے احکام کو ذخیرہ کرنے والے ہیں۔ ابن جریر، حاکم اور دوسرے محدثین نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا کہ اولی الامر سے مراد فقیہ اور دیندار لوگ ہیں۔ ایک لفظ اس طرح بھی ہے کہ وہ اہل علم ہیں۔ (تفسیر مظہری:۲، ؍۱۵۲)امام جلال الدین سیوطی روایت نقل کرتے ہیں :حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اولی الامر سے مراد فقہاء اور دین دار لوگ، اللہ تعالیٰ کے اطاعت گزار جو دین کے معانی کو جانتے ہیں، نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اطاعت لوگوں پر لازم کی ہے۔ (در منثور: ۲؍۵۷۵)

 اسی طرح مفسرین نے اس سے مراد امراء یعنی حکمران بھی لیے ہیں۔ امام سیوطی لکھتے ہیں :حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اس سے مراد تمہارے امراء ہیں۔ (در منثور: ۲؍ ۵۷۴) ابو شیبہ اور دوسرے محدثین نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ اولی الامر سے مراد امراء ہیں۔ ایک میں یہ الفاظ ہیں ’’ہم امراء السرایا ‘‘ یعنی لشکروں کے امیر مراد ہیں۔ یہ لفظ عام ہے جو بادشاہوں، شہر کے امراء، قاضیوں اور چھوٹے بڑے لشکروں کے امیروں کو شامل ہے۔ (تفسیر مظہری:۲، ؍۱۵۱) درج بالا تفسیری اقوال کی روشنی میں بعض علماء نے اولی الامر سے مراد اہل علم اور فقہاء لے کر اسی کو مختار قرار دیا ہے اور بعض نے اس سے مراد امراء اور بادشاہ لے کر ان کی اطاعت کا حکم دیا۔ جبکہ بعض مفسرین نے اس میں علماء اور فقہاء دونوں کو شامل کیا ہے۔ جیساکہ علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اولی الامر سے مراد اہلِ فقہ اور اہلِ دین ہیں۔ حضرت مجاہد، حضرت عطاء، حضرت حسن بصری اور حضرت ابوالعالیہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد علماء ہیں۔ ظاہری بات تو یہ ہے کہ یہ حکم امراء اور علماء دونوں کو شامل ہے۔ (تفسیر ابن کثیر: ۲؍۳۴۵)

 چونکہ رسالت اور نبوت ختم ہوچکی، اسی لیے اولی الامر فرماکر حکم دیا گیا کہ اولی الامر کی اطاعت بھی لازم ہے۔ نیز اولی الامر سے مراد صرف علماء یا صرف امراء نہیں ہوسکتے کیونکہ دورِ حاضر کے پیشِ نظر عوام کے لیے دونوں طبقوں کی ضرورت ہے۔ کسی ایک طبقے کے بغیر زندگی گزارنا مشکل ہے۔ دینی مسائل میں علماء اصلاح فرماتے ہیں جبکہ ملکی معاملات میں امراء یعنی حکمرانوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ اسی لیے دونوں کی اطاعت ضروری ہے۔ اگر صرف علماء کی اطاعت مراد لی جائے گی تو حکمران اس سے خارج ہوجائیں گے جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ عوام الناس امراء کے بنائے گئے قوانین پر عملدرآمد کرنے میں پس و پیش سے کام لے گی اور ملکی نظام و انصرام درہم برہم ہوکر رہ جائے گا۔ اسی طرح اگر صرف حکمران مراد لیے جائیں تو علماء کی قدرو قیمت ختم ہوجائے گی۔ حالانکہ انسان کی پیدائش سے لے کر موت بلکہ موت کے بعد تک کے معاملات میں رہنمائی کرنے والے علماء ہی ہوتے ہیں۔ لہٰذا یہاں اولی الامر میں دونوں کو شامل کیاجائے گا۔

 لیکن یہاں یہ بات یادرہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہر صورت میں لازمی و ضروری ہے کیونکہ وہ خالق ہے۔ اللہ کی اطاعت کسی شرط کے ساتھ مشروط نہیں۔ اس کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور اولی الامر کی اطاعت کے متعلق یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بحیثیت مخلوق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور اولی الامر کی اطاعت میں کوئی فرق ہے یا نہیں ؟ نیز ان کی اطاعت بغیر کسی شرط کے ساتھ کی جائے گی یا اس کی کچھ شرائط ہیں ؟ یہاں علماء جواب دیتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اورامیر کی اطاعت میں ایک بہت بڑا فرق ہے۔ نبی معصوم ہوتا ہے اور نبی سے خطا متصور نہیں ہوسکتی۔ اس لیے جہاں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا گیا وہاں غیر مشروط اطاعت کا حکم دیا گیا۔ نبی کا ہر حکم واجب التسلیم اور اٹل ہے۔ جبکہ خلیفہ یا امیر کا معصوم ہونا ضروری نہیں۔ اس سے غلطی بھی ہوسکتی ہے، اس لیے اس کی مشروط اطاعت کا حکم دیا گیا۔ آیت میں بظاہر کوئی شرط نہیں لیکن احادیث مبارکہ میں اس کی شرط لگائی گئی ہے۔ شرط یہ ہے کہ وہ جب تک قرآن و سنت کے مطابق حکم دیتے رہیں تو ان کی اطاعت واجب ہے۔ اگر وہ خلافِ شریعت کسی بات کا حکم دیں تو ان کی اطاعت واجب نہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ذکر کیا کہ ایک مسلمان پر امیر کا حکم سننا اور اسے ماننا خواہ پسند ہویا نا پسند ہو’ واجب ہے جبکہ وہ اسے معصیت کا حکم نہ دے۔ جب وہ مسلمان کو معصیت کا حکم دے تو پھر امیر کی بات سننا اور اطاعت لازم نہیں۔ (بخاری: ۷۱۴۴)حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گناہ میں کسی کی اطاعت نہیں۔ بے شک اطاعت اچھائی میں ہے۔ (بخاری: ۷۲۵۷)حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: امام پر فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق فیصلہ کرے، امانت اداکرے۔ جب اس نے ایسا کیا تو رعیت پر فرض ہے کہ وہ امام کے حکم کو سنے اوراس کی اطاعت کرے۔ (تفسیر مظہری:۲، ؍۱۵۱)

قاضی ثناء اللہ پانی پتی لکھتے ہیں : امیر کی  اطاعت کا وجوب صرف ایسے حکم کے ساتھ خاص ہوگا جو شرع کے خلاف نہ ہو، جس پر آیت کا سیاق و سباق دلالت کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا اولی الامر کی اطاعت کا حکم انہیں عدل کرنے کے حکم کے بعد دینا اس بات پر تنبیہ ہے کہ ان کی اطاعت اسی وقت تک واجب ہے جب تک وہ عدل پر قائم رہیں۔ (تفسیر مظہری:۲، ؍۱۵۲)علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں : قرآن کی آیات او ر احادیث سے ثابت ہوا کہ علماء اور امراء دونوں کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اللہ کی اطاعت کرو یعنی اس کی کتاب پر عمل کرو، اور رسول کی اطاعت کرو یعنی اس کی سنت کو مضبوطی سے تھام لو اور اپنے حاکموں کی اطاعت کرو یعنی ان امور میں جن میں وہ تمہیں اللہ کی اطاعت کا حکم دیں۔ اور اگر وہ اللہ کی معصیت کا حکم دیں تو ان کی اطاعت نہ کرو کیونکہ اللہ کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت کرنا صحیح نہیں۔ (تفسیر ابن کثیر: ۲؍۳۴۵)

درج بالا احادیث سے ثابت ہوا کہ اولی الامر کی اطاعت کا حکم اس وقت تک ہے جب تک وہ حق کے موافق رہیں اور اگر وہ حق کے خلاف حکم دیں تو ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ اس قانون سے وہ لوگ خودبخود خارج ہوجاتے ہیں جو شریعتِ مطہرہ کے معاملات میں اپنی عقل کے گھوڑے دوڑاکرامت مسلمہ کے مسلمہ عقائد و نظریات کے خلاف نظریات پیش کرکے گمراہی پھیلاتے ہیں۔ اسی طرح اس قانون سے وہ حکمران اور امراء بھی خارج ہوجاتے ہیں جو خلافِ شریعت قوانین بناکر عوام الناس کو اس کے مطابق چلنے پر مجبور کرتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔