مکہ میں ہندوستانی حجاج کے مسائل

سہیل انجم

مکہ مکرمہ میں ہندوستانی حاجیوں کو دو مقامات پر ٹھہرایا جاتا ہے۔ ایک حرم شریف کے قریب جسے گرین کٹگری کہتے ہیں اور دوسرے عزیزیہ میں۔ گرین میں تین مراکز ہیں جہاں عمارتوں میں حاجی قیام کرتے ہیں۔ جبکہ عزیزیہ کو ایک الگ شہر سمجھ لیجیے۔ یہاں سیکڑوں کثیر منزلہ عمارتیں ہیں جن میں مختلف ملکوں کے حاجی ٹھہرائے جاتے ہیں۔ گرین میں جو لوگ رہتے ہیں وہ حرم شریف تک دس پندرہ یا بیس منٹ میں پہنچ سکتے ہیں۔ یہ عمارتیں پہاڑوں پر تعمیر کی گئی ہیں۔ اس لیے معمر افراد کو ذرا دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے کئی حاجی ہیں جو اپنی پریشانیاں بیان کر رہے ہیں۔

گرین میں یہ سہولت ہے کہ اگر آپ صحت مند ہیں تو کبھی بھی حرم شریف میں آمد و رفت کر سکتے ہیں۔ البتہ وہاں باورچی خانے کی سہولت نہیں ہے۔ وہاں کے حجاج کو ہوٹلوں میں کھانا پڑتا ہے۔ یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کیونکہ وہاں پاکستانی ہوٹل تو بہت ہیں  لیکن ان کا کھانا اچھا نہیں ہوتا۔ اگر ہوٹل میں کھانے کی عادت نہیں ہے تو دو تین روز بمشکل کھایا جا سکتا ہے۔ ہم نے یہاں کے ہوٹلوں میں محض دو وقت کا کھانا کھایا اور حضرتِ معدہ نے احتجاج شروع کر دیا۔ البتہ مکہ کلاک ٹاور سے متصل الصفوا ٹاور میں چوتھی منزل پر کچھ ایسے ہوٹل ہیں جہاں آپ کھا سکتے ہیں۔ انھی میں ایک ہوٹل ’’ایشین فوڈس‘‘ ہے جو اہل کیرالہ چلاتے ہیں۔ وہاں قدرے بہتر کھانا ملتا ہے۔ اس طرح گرین میں جہاں حرم شریف کی قربت کا شرف حاصل ہے وہیں لذت کام و دہن کا مسئلہ بھی ہے۔ گویا دنیاوی لذت و آسائش کے عوض روحانی لذت و آسائش حاصل ہیں۔ یہ سودا گراں نہیں بلکہ بہت سستا ہے۔

گرین کٹگری میں حجاج کی پریشانیوں اور ان کو فراہم کی جانے والی سہولتوں کے بارے میں جب ہم نے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ ہندی میں استاد جناب رحمان مصور سے دریافت کیا تو انھوں نے کہا کہ یہاں تو ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ حجاج اگر بہت زیادہ سہولتوں کا مطالبہ کر رہے ہیں تو انھیں یہ بھی جاننا چاہیے کہ حج کمیٹی اور عمارت مالکان کے مابین کیا معاہدہ ہوا ہے۔ جب تک ہم یہ نہیں جانیں گے کہ کن کن سہولتوں پر اتفاق ہوا ہے تب تک ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ فلاں سہولت ہے فلاں نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے سہولتوں کی فہرست دیکھی ہے ان میں جن جن سہولتوں کا ذکر ہے وہ سب موجود ہیں۔ رحمان مصور اپنی والدہ اور اہلیہ کے ساتھ حج پر آئے ہوئے ہیں اور گرین کٹگری میں قیام پذیر ہیں۔

عزیزیہ حرم شریف سے تقریباً آٹھ کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔ یہاں سے حرم جانے کے لیے بسوں کا انتظام کیا گیا ہے۔ البتہ دو بسیں تبدیل کرنی پڑتی ہیں۔ مکہ کی ٹریفک پولیس نے ایسا نظم کیا ہے۔ عزیزیہ سے کچھ کلومیٹر کے بعد کنگ عبد العزیز روڈ پر ایک فلائی اوور کے پاس بڑے سے شیڈ کے نیچے بسوں کے ٹھہرنے کا ایک پوائنٹ بنایا گیا ہے۔ وہیں نزدیک سے دوسری بسیں لینی پڑتی ہیں جو سرنگ سے ہو کر باب السلام کے سامنے نصب کردہ خیموں کے پاس بنے اسٹینڈ پر رک جاتی ہیں۔ پھر اسی طرح واپسی بھی ہوتی ہے۔ البتہ چونکہ باب السلام کے سامنے تمام ملکوں کے حجاج ایک ہی جیسی بسوں میں بیٹھ کر کنگ عبد العزیز روڈ تک جا کر اپنی اپنی عمارتوں کی الگ الگ نمبروں کی بسوں میں بیٹھتے ہیں اس لیے یہاں زبردست رش ہوتا ہے۔ بالخصوص ہر نماز کے بعد لوگوں کا زبردست اژدحام ہوتا ہے۔ عشا کی نماز سے سوا نو بجے تک فارغ ہونے کے بعد اگر یہاں پہنچا جائے تو حشر کا عالم دیکھنے کو ملتا ہے۔ یکے بعد دیگرے بسیں آتی ہیں اور رضاکار حجاج کو ان میں بٹھاتے ہیں۔ لیکن ایک مارا ماری کی کیفیت ہوتی ہے۔ کچھ دوسرے ملکوں کے حجاج بس میں بیٹھنے کے لیے ایسی دھینگا مشتی کرتے ہیں کہ گویا اس میں نہیں بیٹھے تو دوسری بس نہیں ملے گی۔ مرد تو مرد خواتین بھی لڑنے مرنے پر آمادہ ہو جاتی ہیں۔

ایک روز عشا کی نماز بعد ہم نے کچھ دیر ٹھہر کر چلنے کا فیصلہ کیا۔ رات میں دس بجے کے بعد ہم اسٹینڈ پر پہنچے۔ دو تین بسیں آئیں اور فوراً فل ہو گئیں۔ ایک بس حجاج کو لے کر کنگ عبد العزیز پوائنٹ سے آئی۔ ابھی اس کے حاجی اتر ہی نہیں پائے تھے کہ انڈونیشیائی خواتین و مرد سوار ہونے کے لیے جد و جہد کرنے لگے اور بالآخر سوار ہو گئے۔ اترنے والے الگ پریشان اور چڑھنے والے الگ۔ کسی طرح ہم بھی سوار ہوئے۔ بچوں کو ایک نشست پر بٹھایا۔ بس رکنے کے بعد آگے کے لوگ ابھی اتر ہی نہیں پائے تھے کہ وہی خواتین اب اترنے کے لیے زورآزمائی کرنے لگیں۔ ہم آگے کی طرف تھے۔ ایک خاتون نے ہم کوجارحانہ انداز میں اشارہ کیا کہ اترو۔ ہم نے سامنے کی طرف اشارہ کیا کہ جگہ نہیں ہے۔ لیکن وہ عورت بضد تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ لوگوں کے سروں پر سے پھلانگ کر اتر جائے گی۔ اس نے جب دو تین بار ہمیں دھکہ دے کر اترنا چاہا تو ہم نے بھی قدرے سخت آواز میں اس کو Shut Up  کہہ کر خاموش کرنے کی کوشش کی۔ یوں محسوس ہوا کہ وہ ناخواندہ خواتین رہی ہوں گی ورنہ یوں غیر مہذب رویے کا مظاہرہ نہیں کرتیں۔ بعض اوقات بس ڈرائیور بھی جن میں بیشتر سوڈانی ہوتے ہیں، بہتر رویہ نہیں دکھاتے۔ جس کی وجہ سے حجاج ان پر چیختے چلاتے ہیں۔

بعض حجاج رضاکاروں پر بھی چیخنے لگتے ہیں۔ حالانکہ یہ مناسب نہیں۔ رضاکار بیچارے کیا کر سکتے ہیں۔ ایک رضاکار ملے جو دہلی کے بھجن پورا علاقے سے آئے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ چھ ماہ قبل آزاد ویزا پر آئے تھے۔ وہ حاجیوں کی خدمت کرکے کچھ ثواب کمانا چاہتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ یہ کام للہ فی اللہ کر رہے ہیں۔ کوئی تنخواہ نہیں لیتے۔ حج کرکے واپس دہلی چلے جائیں گے۔ حجاج کرام کو سوچنا چاہیے کہ یہ تو حج ہے۔ اس میں دشواریاں تو ہوں گی ہی۔ پہلے ہی حاجی کو یہ ذہن بنا کر آنا چاہیے کہ ہمیں ہر قسم کی مشقت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ہمیں صبر و شکر سے کام لینا ہوگا۔ لیکن بہت سے حاجی رضاکاروں کی صبر کرنے کی درخواستیں پائے حقارت سے ٹھکرا دیتے ہیں۔ ایک حاجی صاحب ایک پولیس والے سے بھڑ گئے۔ پتا نہیں کیا تلاش کر رہے تھے کہ اس کی گاڑی کی ڈکی کھلوا دی۔ حالانکہ یہاں کی پولیس بہت بد دماغ ہوتی ہے۔ لیکن اس نے صرف حاجی صاحب کا لحاظ کرکے خاموشی اختیار کی۔ جب ایک رضاکار نے جو کہ لکھنؤ کا ایک نوجوان تھا، انھیں سمجھانے کی کوشش کی تو حاجی صاحب اس پر بھی طیش کھانے لگے۔ وہ ہم لوگوں کی بس میں سوار تھا۔ اس نے ہم سے کہا کہ ’’یہ لوگ حج کرنے آئے ہیں، ان کو تو دعائیں کرنی چاہئیں۔ لیکن یہ لوگ غصہ کر رہے ہیں۔ اب بتائیے پولیس والے سے لڑنے کی کیا ضرورت تھی۔ وہ تو یہاں حاجیوں کا بہت احترام کیا جاتا ہے اس لیے وہ خاموش رہا‘‘۔ حاجیوں کا یہ رویہ درست نہیں ہے۔ یہاں کے رضاکار تو بہت معاون ہیں۔ ایک بار مغرب کی نماز کے بعد ہم عزیزیہ کی مسجد جامع بن محفوظ کے پاس مارکیٹ میں تھے کہ تین معمر خواتین اور ایک بزرگ پریشان حال سے دکھے۔ ان سے پوچھا گیا تو انھوں نے بتایا کہ وہ غلط نمبر کی بس میں بیٹھ کر آگئے۔ اب ان کی بلڈنگ نہیں مل رہی ہے۔ ہم ان کو لے کر اپنی عمارت کے پاس واقع تین نمبر اسٹینڈ پر لائے اور وہاں موجود رضاکاروں میں سے ایک سے ان کا مسئلہ بتایا۔ اس نے ان کا شناختی کارڈ دیکھا اور اپنے نقشے کو دیکھا اور پھر ان کو ان کی عمارت کے جانب لے کر گیا۔

بہر حال ذکر ہو رہا تھا بسوں کے انتظام کا۔ ان بسوں میں سوار ہونا اور پھر اترنا کسی جہاد سے کم نہیں۔ البتہ عزیزیہ سے جاتے وقت یہ دشواری نہیں ہوتی۔ عمارت کے سامنے متعدد بسیں لگی رہتی ہیں۔ آپ ان سے مذکورہ پوائنٹ تک آسانی سے جا سکتے ہیں۔ ہمیں بار بار یہ خیال آ رہا ہے کہ ابھی تو حج شروع ہونے میں کافی وقت ہے۔ ابھی یہ عالم ہے تو آگے کیا ہوگا۔ اندازہ یہ ہوا کہ بسوں کی تعداد بھی کم ہے اور جو پوائنٹ اور اسٹیشن بنائے گئے ہیں وہ بھی چھوٹے ہیں۔ جب لاکھوں حجاج کو ان بسوں سے آمد و رفت کرنی ہے تو بسوں کی تعداد بھی بڑھانی چاہیے اور رکنے کا پوائنٹ بھی۔ رضاکار بھی کم ہی ہیں۔ ان کی تعداد میں بھی اضافہ ہونا چاہیے۔

عزیزیہ میں کھانے پینے کی پریشانی نہیں ہے۔ یہاں تیس افراد پر ایک کچن کا انتظام ہے۔ خواتین باری باری سے کھانا پکا لیتی ہیں۔ بہت سی خواتین ایک بار میں دو دو وقت کا کھانا پکاتی ہیں تاکہ دقتوں سے بچ سکیں۔ البتہ ایک کچن میں صرف ایک ہی فریج ہے جو ناکافی ہے۔ چولھا بھی ایک ہی ہے۔ البتہ وہ چار برنروں والا ہے۔ بلڈنگ کے منتظمین کی جانب سے دو سلینڈر مفت دیے جاتے ہیں۔ اگر تیسرے کی بھی ضرورت پڑے تو اسے استعمال کرنے والے آپسی تعاون سے بھروا سکتے ہیں۔ صرف اتنا کرنا ہوگا کہ پیسے لے جا کر عمارت کے حارث کو دے دیں۔ وہ بھروا کر پہنچا دے گا۔ ایک سلنڈر تیس ریال میں بھرا جاتا ہے۔ اس طرح عزیزیہ میں لذت کام و دہن کا آپ خود انتظام کر سکتے ہیں اور اپنی پسند کا کھانا پکا اور کھا سکتے ہیں۔ جن لوگوں کو ہوٹلوں کے کھانے کی عادت نہیں ہے ان کے لیے یہ نظام بہت اچھا ہے۔ گرین میں ہر کمرے میں ایک فریج اور کپڑوں کی ایک الماری ہے جبکہ عزیزیہ میں یہ سہولت نہیں ہے۔ کم از کم ہم جس عمارت میں ہیں اس میں ایسی کوئی سہولت نہیں ہے۔ گرین کے حجاج کا کہنا ہے کہ جب ہم یہاں کھانا نہیں پکا سکتے تو فریج کس کام کا۔ فریج تو عزیزیہ میں ہونا چاہیے تھا تاکہ وہاں کے حجاج اس میں کھانے پینے کی چیزیں رکھ سکیں اور بوقت ضرورت گرم کرکے استعمال کر سکیں۔

ہر گزرتے لمحے کے ساتھ مکہ مکرمہ میں حجاج کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لاکھوں حجاج پہنچ چکے ہیں اور ابھی ان کے آنے کا سلسلہ جاری ہے جو آخر وقت تک چلے گا۔ جدہ ایئر پورٹ سے ہندوستانی حاجیوں کی آمد کا سلسلہ 28 جولائی کو شروع ہو چکا ہے۔ چنئی سے پہلی فلائیٹ صبح پوے نو بجے وہاں پہنچی۔ سفیر ہند احمد جاوید، قونصل جنرل نور الرحمن شیخ، قونصل حج محمد زاہد عالم اور قونصل قونصلر آنند کمار نے گلدستہ پیش کرکے حجاج کا استقبال کیا۔ نور الرحمن شیخ اور زاہد عالم نے ہندوستان کے خدام الحجاج کے ساتھ میٹنگ کی اور انتظامات کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ انھیں ضروری ہدایتیں بھی دیں۔

ادھر حرم شریف میں باب السلام کی جانب واقع بس اسٹینڈ کی طرف سے ہر پانچ سات منٹ کے بعد کوئی نہ کوئی قافلہ طلبیہ پڑھتے ہوئے حرم میں داخل ہوتا ہوا نظر آجاتا ہے۔ مختلف ملکوں کے حجاج کچھ اپنے چہرے مہرے سے اور کچھ لباس اور وردی سے پہچانے جاتے ہیں۔ ایران، عراق، سیریا، انڈونیشیا، ملیشیا، چین، وسطی ایشیا اور بعض دوسرے ملکوں کے حجاج الگ الگ رنگوں کے اسکارف باندھے ہوتے ہیں۔ مرد بھی اور خواتین بھی۔ یہ لوگ پچیس تیس کے گروپ میں ہوتے ہیں اور ایک جگہ جمع ہو کر آگے بڑھتے ہیں۔ ان کا ایک قاید ہوتا ہے جو کبھی ایک تختی اٹھائے ہوتا ہے اور کبھی یوں ہی بلند آواز میں طلبیہ اور دعائیں پڑھتا نظر آتا ہے۔ باقی حجاج اس کے پیچھے پیچھے چلتے ہیں۔ بعض اوقات یہ بھی دیکھنے کو مل جاتا ہے کہ پورا گروپ ایک ساتھ حمام میں داخل ہو رہا ہے اور ایک ساتھ نکل بھی رہا ہے۔ طواف اور سعی کے دوران بھی یہ گروپ قائم رہتا ہے۔ ان میں سے بعض کے ہاتھوں میں کتابیں بھی ہوتی ہیں جن میں سے دعائیں پڑھتے رہتے ہیں اور باقی ان کو دوہراتے ہیں۔ اب سعی کے لیے بیسمنٹ، گراونڈ اور پہلی منزل پر بھی حجاج کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ پہلی منزل اور چھت سے طواف کرنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ وہاں سے اوسط چال چلنے پر ایک طواف میں کم از کم سوا گھنٹہ لگتا ہے۔ جبکہ خالی اوقات میں مطاف سے بیس منٹ میں طواف ہو جاتا ہے۔ ایرانی خواتین سرتاپا ڈھیلے ڈھالے سیاہ برقعے میں ملبوس ہوتی ہیں۔ ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کے حجاج اپنے شناختی کارڈوں سے پہچانے جاتے ہیں۔

عزیزیہ میں جہاں ہمارا قیام ہے یہاں قریب ہی ایک بڑی مسجد واقع ہے جس کا نام ’’جامع بن محفوظ‘‘ ہے۔ جب ہم حرم نہیں جاتے تو اسی میں نماز ادا کرتے ہیں۔ تین منزلہ مسجد اذان سے بہت پہلے بھر جاتی ہے۔ بیسمنٹ میں خواتین کے پڑھنے کا نظم ہے۔ اس کے امام صاحب ہلکی نماز پڑھاتے ہیں اور نماز ظہر کے بعد حج کے موضوع پر مختصر سی تقریر کرتے ہیں۔ ہماری عمارت کے گراونڈ فلور پر واقع دو بڑے ہال مسجد کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ ایک میں مرد دوسرے میں خواتین پڑھتی ہیں۔  یہاں متعدد ہوٹل اور سپر مارکیٹ ہیں جہاں ضرورت کی اشیا دستیاب ہیں۔ ہر نماز کے بعد مسجد کے باہر بہت سے لوگ آواز لگا کر اپنا سامان فروخت کرتے ہیں۔

اب بیرون مکہ کے باشندوں کے لیے مکہ میں داخلہ بند ہو رہا ہے۔ جگہ جگہ پولیس تعینات ہو گئی ہے۔ No Intry کے اشارے لگا ئے جا رہے ہیں۔ حج کے دن قریب آنے کے ساتھ ساتھ یہاں عزیزیہ میں بھی کوئی گاڑی سے داخل نہیں سکے گا۔ گاڑی باہر پارک کرکے پیدل آمد و رفت کی جا سکے گی۔

 ہم عزیزیہ کی عمارت نمبر 175 میں ہیں۔ اس میں وہی حجاج ہیں جو ہمارے ساتھ دہلی سے مدینہ منورہ پہنچے تھے۔ یہیں سے ہم لوگوں کی واپسی 30 اگست کو ہوگی۔ دہلی کے حاجیوں کے دو واٹس ایپ گروپ ہیں۔ ایک گروپ دہلی اردو اکادمی میں برسرکار جناب محمد احمد چلاتے ہیں۔ وہ بیس برسوں سے حجاج کی مفت خدمت انجام دے رہے ہیں۔ ان کے تجربات کے پیش نظر مرکزی حج کمیٹی اور دہلی حج کمیٹی نے ان کو اپنا ٹرینر مقرر کیا ہوا ہے۔ جب تک دہلی سے پروازوں کا سلسلہ رہا وہ ٹرمنل ٹو پر رات کے وقت بلا معاوضہ ڈیوٹی انجام دیتے رہے ہیں۔ اس گروپ پر فارم پُر کرنے سے لے کر حجاج کی واپسی تک ان کے سوالوں کے تشفی بخش جواب دیے جاتے ہیں۔ اس گروپ کے کئی ممبران جو کہ عزیزیہ میں ٹھہرے ہوئے ہیں جانے کیوں بہت پریشان ہیں۔ ایک حاجی نے وائس میسیج پوسٹ کیا کہ یہاں کوئی سہولت نہیں ہے۔ ہم سب پریشان ہیں۔ لوگ دعاؤں کے لیے کہتے ہیں مگر دل سے بد دعا نکل رہی ہے۔ ایک حاجی صاحب نے لکھا کہ ہمیں تو کوڑے دان میں لا کر ڈال دیا ہے۔ کوئی آرام نہیں ہے۔ انھوں نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ ہم بس وقت کاٹ رہے ہیں۔ اس طرح مختلف قسم کی شکایتیں کی جا رہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سب لوگ یہ شکایت جناب محمد احمد سے ہی کرتے ہیں۔ انھیں شاید یہ لگتا ہے کہ یہ سب کچھ انھی کا کیا دھرا ہے۔ شاید ان لوگوں کو یہ نہیں معلوم کہ یہ انتظام حج کمیٹی اور عمارت مالکان کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت ہے۔ ہم نے محمد احمد صاحب سے سہولتوں کی فہرست منگوائی تو پتا چلا کہ اس میں جو کچھ درج ہے وہ سب مہیا ہے۔ بلکہ عمارت مالکوں کی طرف سے ہر حاجی کو پینے کے لیے آب زم زم مہیا کیا جاتا ہے اور لابی میں مفت وائی فائی کی سہولت ہے۔ بہت سے حاجی وہیں بیٹھے رہتے ہیں اور پتا نہیں کس کس سے کیا کیا باتیں کرتے ہیں یا ویڈیو کالنگ کرتے رہتے ہیں۔ مگر ایسا لگتا ہے جیسے یہاں حجاج کو فائیو اسٹار سہولتوں کی توقع تھی اور وہ اب بھی اسی کا انتظار کر رہے ہیں۔

اس تعلق سے محمد احمد کی تعریف کی جانی چاہیے کہ وہ ہر شکایت کا بہت ہی صبر و تحمل اور خنداں پیشانی کے ساتھ جواب دیتے ہیں اور ہر حاجی کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انھوں نے مدینہ اور مکہ میں تمام متعلقہ اداروں کے پتے اور فون نمبرس بھی فراہم کیے ہیں۔ حالانکہ یہ ان کا کام نہیں ہے۔ کوئی بھی شکایت ہو تو دہلی حج کمیٹی یا مرکزی حج کمیٹی یا پھر یہاں جو دفاتر واقع ہیں ان سے کی جا سکتی ہے۔ ہماری عمارت کی لابی میں ایک پوسٹر بھی چسپاں کیا گیا ہے جس پر مختلف نمبرس دیے گئے ہیں اور حجاج سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ کوئی بھی مسئلہ ہو ان نمبروں پر رابطہ کریں۔ اس کے باوجود لوگ ان نمبروں کے بجائے دہلی میں محمد احمد سے رابطہ کرتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو تمام شکایتیں بیجا ہیں۔ ہم کو کوئی پریشانی نہیں ہے۔ ہم نے متعدد حاجیوں سے گفتگو کی تو انھوں نے بھی بتایا کہ انھیں کوئی پریشانی ہے نہ کوئی شکایت۔ ایک حاجی صاحب نے بتایا کہ ان کا سامان دوسری بلڈنگ پر اتر گیا تھا۔ انھوں نے برانچ آفس میں جا کر رپورٹ لکھوائی۔ انھوں نے چوبیس گھنٹے میں سامان کی دستیابی کی یقین دہانی کرائی اور بائیس گھنٹے کے اندر ہی سارا سامان مل گیا۔ بہر حال یہ سب تو چلتا رہے گا۔ تمام لوگوں کو مطمئن نہیں کیا جا سکتا۔

تبصرے بند ہیں۔