مسلم عوتوں سے مودی کی محبت

حفیظ نعمانی

وزیراعظم کا من پسند اور وزیر قانون کا تیار کیا ہوا طلاق ثلاثہ بل راجیہ سبھا میں پھر پیش نہیں ہوسکا بل کے بے مصرف ہونے کے بارے میں رائے رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ جب سپریم کورٹ نے فیصلہ کردیا کہ ایک ہی نشست یا ایک ہی وقت میں دی گئی تین طلاق طلاق نہیں مانی جائے گی تو پھر اس احمقانہ جملہ کو تین بار کہو یا تیس بار فرق کیا پڑتا ہے؟ اور طلاق نہ ہونے کے باوجود طلاق دینے والے کو تین سال کی سزا دینا اس کے ساتھ سراسر ظلم ہے۔

اسی پارلیمنٹ نے بال وِواہ (بچوں کی شادی) کے خلاف قانون بنایا ہے اور سزا دینے کا اعلان کیا ہے جہیز لینے اور دینے والوں کے خلاف قانون بنایا اور انہیں سزا دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ کیا وزیر داخلہ بتا سکتے ہیں کہ ان دونوں غیرقانونی حرکت کرنے والے کتنے آدمیوں کو سزا دی گئی۔ ملک میں نابالغوں کی شادیاں بھی ہورہی ہیں اور کوئی بھی شادی جہیز کے بغیر نہیں ہورہی ہے اور جہیز کم لانے والی لڑکیاں جلائی بھی جارہی ہیں اور ماری بھی جارہی ہیں اور حکومت تماشہ دیکھ رہی ہے۔

وزیراعظم جن کو پروردگار نے پورے ملک کا مالک بنایا ہے اور جو ہر الیکشن کے وقت اپنے منصب سے نیچے اترکر عام لیڈروں کی طرح الیکشن لڑتے ہیں انہوں نے تسلیم کرلیا کہ کرناٹک میں جتنادل کو کانگریس نے اپنی حمایت دے دی جس کی وجہ سے اس کے ووٹ زیادہ ہوگئے اور اس نے حکومت بنالی۔ اسی طرح مدھیہ پردیش میں وزیراعظم کی پارٹی کے آٹھ ووٹ کم رہ گئے راجستھان میں بھی لگ بھگ ایسا ہی ہوا اور چھتیس گڑھ میں ان کو صرف 16  ووٹ ملے تو انہوں نے تسلیم کرلیا کہ حکومت کانگریس کی بنے گی تو پھر طلاق ثلاثہ کے بارے میں جب چند سو مسلم عورتیں حمایت میں ہیں اور کروڑوں عورتوں نے سڑکوں پر آکر کہا ہے کہ اس بل کو پاس نہ کیا جائے تو کیا اس لئے نہیں مانتے کہ ووٹنگ مشین نے نہیں بتایا۔ ان کو اگر شک ہے تو مہاراشٹر، بہار، اترپردیش، تلنگانہ، کرناٹک اور ہر اس صوبہ میں جہاں ہزاروں اور لاکھوں کے جلوس نکلے ہیں ان صوبوں کے وزیراعلیٰ سے معلوم کرلیں۔ گھر میں بیٹھ کر یہ مان لینا کہ کروڑوں مسلمان عورتیں چاہتی ہیں کہ قانون بن جائے اور شوہر کو سزا دے دی جائے صرف ضد ہے۔

ایک بات وزیراعظم نے کیا محسوس نہیں کی کہ جب جب لوک سبھا میں بل پر بحث کی تاریخ کا اعلان ہوتا ہے یہ میلے ٹھیلوں کی شوقین لوک سبھا کے اردگرد ایسے آتی ہیں جیسے نمائش دیکھنے آئی ہیں کوئی اکیلی آرہی ہے کوئی بچہ کو لئے آرہی ہے اور صبح سے شام تک وہیں ڈیرہ ڈالے پڑی ہیں ان میں سے اکثر وہ ہیں جن کو کوئی گھر میں نہیں رکھ سکتا اور کچھ ایسی بھی ہیں جن کے شوہر غلط ہیں۔ لیکن لوک سبھا کے تماشہ سے ان سے کیا مطلب؟ لوک سبھا میں تو ہر دن بل پیش ہوتے ہیں اور ان کا کسی نہ کسی سے تعلق ہوتا ہے۔ ہم نے نہیں دیکھا کہ اگر دھوبیوں کے لئے بل پیش ہوا تو وہ گدھوں کو لئے ہوئے ڈیرہ ڈال دیں۔

طلاق ثلاثہ بل کی حمایت میں بی جے پی کی ایک خاتون تقریر کررہی تھیں دورانِ تقریر انہوں نے کہا کہ پہلے ہندوئوں میں طلاق نہیں تھی۔ آگے یہ نہیں بتایا کہ پھر ہندوئوں نے طلاق کو دھرم کا حصہ کیوں بنایا؟

طلاق پروردگار کا انعام ہے قرآن شریف میں نہ صرف ایک باب یعنی سورئہ طلاق کے نام سے بلکہ دوسرے پارے میں بھی بہت کچھ ہے اور دوسری صورتوں میں بھی اس لئے کہ یہ دو زندگیوں کا نہیں دو گھروں کے بننے اور بگڑنے کا مسئلہ ہے۔ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں طلاق دینا اور طلاق لینا اتنا عام تھا کہ آج کی طرح اور ہندوستان کی طرح اس کا ذکر بھی نہیں ہوتا تھا اور نکاح بھی اتنا ہی آسان تھا کہ ایک صحابیؓ جو حضور اکرؐم کے ساتھ زیادہ تر رہتے تھے ان کے کرتہ پر ایک دن زعفران کا ایک ہلکاسا دھبہ آقا مولاؐ کو نظر آیا دریافت فرمایا کہ یہ کیا گرگیا؟ انہوں نے سرجھکاکر عرض کیا کل نکاح کیا ہے۔ نکاح کرنا اتنا اہم بھی نہیں تھا کہ اپنے آقاؐ کو شریک کرتے۔ حضوؐر نے فرمایا کہ ولیمہ ضرور کرنا چاہے ایک ہی بکری کاٹنا یہی حال طلاق کا تھا کہ کم عورتیں ایسی تھیں جو پہلے شوہر کے گھر میں ہوں اور کم شوہر ایسے تھے جن کی پہلی بیوی ہی آخری ہوں۔ وزیراعظم کا جو بھی مقصد ہو یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ مسلمان عورتوں کی محبت میں بل پاس کرانا چاہتے ہیں۔ ان سے زیادہ وہ لاکھوں عورتیں اور لڑکیاں رحم کے قابل ہیں جن کے شوہر گوشت اور کھالوں کا کاروبار کرتے تھے وہ صرف مودی جی اور یوگی کی بدولت بھوکی ہیں اور کپڑوں کو ترس رہی ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔