بٹ کوئن کی شرعی حیثیت

محمدعبد اللہ بن شمیم ندوی

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر ادارہ اور ہر چیز ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ انسانوں نے پچھلی کئی صدیوں سے ہر شعبے میں بہت ترقی کی ہے۔ خاص طوپرر رواں صدی میں  ایجادات کا لامحدود سلسلہ چل پڑا ہے، جو انسان کی زندگی کو آسان سے آسان تر بناتی جا رہی ہیں۔

نئی دور کی ترقی کی اس راہ پر کرنسی بھی ترقی کی منازل طے کرتے ہوئی آگے بڑھ رہی ہے۔ کرنسی وقت کے ساتھ ساتھ اپنی حالت اور قیمت تبدیل کر رہی ہے۔ ابتدائی  دور میں خرید و فروخت کا عمل بارٹر سسٹم کے ذریعے ہوتا تھا (یعنی ایک چیز کے بدلے دوسری چیز)۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خرید و فروخت سونے چاندی کے عوض ہونے لگی۔ بعد میں سونے چاندی کے بدلے ایک رسید (ٹوکن) دیا جانے لگا جو سونے چاندی کے برابر کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس کے بعد ہر ملک نے اپنی کرنسی بنانا شروع کی۔ اس طرح ہر ملک نے اپنی کرنسی بنائی جسے پہلے سکے اور پھر کاغذ کا روپ دے دیا گیا۔ یوں کرنسی کے مختلف قسم کے نوٹ بننے لگے اور ہر ایک نوٹ کو الگ الگ قیمت دی گئی۔ بعد میں پلاسٹک کرنسی بھی ایجاد ہوئی جو ڈیبٹ کارڈ کی صورت میں اب موجود ہے۔ اب دھیرے دھیرے اس کی جگہ ڈیجیٹل کرنسی (جسے الیکٹرانک کرنسی بھی کہا جاتا ہے) لے رہی ہے۔ موجودہ دور میں نیٹ بینکنگ اس کی طرف ایک اہم پیش قدمی ہے۔

ڈیجیٹل کرنسی فزیکل کرنسی کے بالکل متضاد ہے جس کا کوئی فزیکل وجود نہیں لیکن اس کی قیمت فزیکل کرنسی کے برابر ہوتی ہے۔ اس سے ہر وہ کام ممکن ہے جو کسی بھی فزیکل کرنسی سے ممکن ہے۔

اس کرنسی کے متعلق سب سے پہلے ڈیوڈ چام (David Chaum) جو کہ ایک امریکن سائنٹسٹ تھا اور کمپیوٹر میں مہارت رکھتا تھا، نے دنیا کو بتایا تھا۔ اس نے 1983ء میں اپنے ایک ریسرچ میں بتایا کہ اگر ہم فزیکل کرنسی کے بجائے ڈیجیٹل کرنسی کو اپنے روز مرہ کے استعمال میں لائیں، تو بینک دیوالیہ ہونے سے بچ جائیں گے اور ملک آئے دن بحران کی دلدل میں بھی نہیں پھنسنے گا۔

ڈیجیٹل کرنسی فزیکل کرنسی کے بالکل متضاد ہے جس کا کوئی فزیکل وجود نہیں لیکن اس کی قیمت فزیکل کرنسی کے برابر ہوتی ہے۔ اس سے ہر وہ کام ممکن ہے جو کسی بھی فزیکل کرنسی سے ممکن ہے۔ چوں کہ یہ ایک نئی تحقیق تھی، اس لیے اسے زیادہ پزیرائی نہیں ملی۔ بعد میں اس کو کئی ممالک اور بینکوں نے زیر غور لایا لیکن اس کا کوئی مؤثر نتیجہ نہ نکل سکا۔

ڈیجیٹل کرنسی کے فوائد:

ڈیجیٹل کرنسی کی خاصیت یہ ہے کہ اس کی قیمت سپلائی اور ڈیمانڈ کے تحت بڑھتی اور کم ہوتی رہتی ہے۔ اس کرنسی کو ماڈل بنا کر بہت سارے ممالک اور بینکوں نے اپنی ڈیجیٹل کرنسی بنانے پر غور و فکر شروع کر دی ہے۔ آج کل آٹھ سو سے زائد کرنسی کی اقسام موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ہر سال نئی نئی کرنسی بن رہی ہے جس کے بہت سارے فوائد ہیں۔

سب سے بڑا فائدہ یہ کہ اسے کوئی آپ سے چھین نہیں سکتا۔ دوسرا فائدہ اس کے گم ہو جانے کا ڈر نہیں۔ تیسرا، آپ جہاں جاتے ہیں، یہ آپ کی پہنچ میں رہتی ہے۔

اس کرنسی کی سب سے بڑے مزے کی بات یہ ہے کہ اس کی قیمت دن بہ دن بڑھتی رہتی ہے اور چوں کہ یہ بلاک چینی ٹیکنالوجی پر مبنی ہے جس کے ذریعے اس کی ابتدا سے آخر تک کا ریکارڈ موجود رہتا ہے۔

ڈیجیٹل کرنسی کے مد مقابل فزیکل کرنسی کی قیمت دن بدن کم ہوتی رہتی ہے اور اس کے برعکس ڈیجیٹل کرنسی کی قیمت بڑھتی رہتی ہے جس کی ایک خاص وجہ ہے۔ کیوں کہ نوٹ لاکھوں کی تعداد میں نئے بنتے رہتے ہیں جبکہ ڈیجیٹل کرنسی کی تعداد فکس ہوتی ہے جو کمپنی کی ابتدا میں بلاک چین ٹیکنالوجی کے ذریعے فیکس کی جاتی ہے اور ایک بار اسے فیکس کرنے کے بعد اسے زیادہ یا کم کیا جاسکتا ہے۔

بٹ کوئن ایک تعارف:

بٹ کوئن ایک ڈیجیٹل کرنسی اور پئیر ٹو پئیر پیمنٹ نیٹورک ہے جو آزاد مصدر دستور پر مبنی ہے۔ اورعوامی نوشتۂ سوداکا استعمال کرتی ہے۔ بٹ کوئن کمانے یا حاصل کرنے میں کسی شخص یا کسی بینک کا کوئی اختیار نہیں۔ یہ مکمل آزاد کرنسی ہے جس کو ہم اپنے کمپیوٹر کی مدد سے خود بھی بناسکتے ہیں۔

بٹ کوئن کرنسی کا دیگر رائج کرنسیوں مثلا ڈالر اور یورو سے موازنہ کیاجاسکتا ہے، لیکن رائج کرنسیوں اور بٹ کوئن میں کچھ فرق ہے۔

سب سے اہم فرق یہ ہے کہ بٹ کوئن مکمل طور پر ایک ڈیجیٹل کرنسی ہے جس کا وجود محض انٹرنیٹ تک محدود ہے، خارجی طور پر ا س کا کوئی جسمانی وجود نہیں۔ اسی طرح بٹ کوئن کرنسی کے پیچھے کوئی طاقتور مرکزی ادارہ مثلا مرکزی بینک ہے، برطانیہ کے علاوہ کسی حکومت نے اسے بحیثیت مر کزی کرنسی قبول نہیں کیا ہے۔ کیونکہ اس کرنسی کوایک شخص براہ راست دوسرے شخص کو منتقل کرسکتا ہے اس کے لیے کسی بینک یا حکومتی ادارہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ تاہم انٹرنیٹ کے ذریعہ بٹ کوئن کو دیگر رائج کرنسیوں کی طرح ہی استعمال کیاجاسکتا ہے۔

بٹ کوئن کی ایجاد:

اس کی ایجاد  2008 میں ستوشی ناکاموٹو (Satoshi Nakamoto)  نامی ایک جاپانی سائنس دان نے کی  اور  3جنوری 2009کو اسے کرنسی بازار میں متعارف کرایا سے۔ اسے کرپٹو کرنسی بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ پبلک کی کرپٹو گرافی کے اصولوں پر مبنی ہے۔ یہ کرنسی حسابی عمل لوگوتھرم کی بنیاد پر کام کرتی ہے جس کیلیے کمپیوٹر کو انٹرنیٹ سے منسلک کرکے، کمپیوٹر کے پروسیسر سے کام لیا جاسکتا ہے۔ جس کمپیوٹر کا پروسیسر جتنا طاقتور ہوتا ہے اتنی جلدوحسابی عمل لوگرتھم کا سوال حل کرکے بٹ کوائن بناتا ہے۔

شروعات میں ا سے ایک طرح سے فراڈ سمجھ کر زیادہ تر لوگوں نے کنارہ کشی اختیار کرلی جبکہ کچھ لوگوں نے اس میں تھوڑی رقم لگا دی۔ شروع میں کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ چند ہی سالوں میں بٹ کوئن دنیا کی سب سے بڑی ڈیجٹل کرنسی بن جائے گا۔ کیونکہ2010میں ایک پیزا(Pizza )کے بدلے دس ہزار بٹ کوئن تک دینے کا آفر کیا گیا تھا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس کی قیمت بڑی تیزی سے آسمان چھونے لگی۔ یہاں تک کہ2013ء میں اس کی قیمت دو لاکھ روپے تک پہنچ گئی۔ یوں جن لوگوں نے اس میں پیسے لگائے تھے، اس وقت ان کی رقم کئی سو گنا زیادہ کی قیمت کی حامل ہوگئی۔ کیوں اور آج 20جنوری کو جب ہم یہ تحریر لکھ رہے ہیں اسوقت اس کی قیمت12950 $ڈالر یعنی 831599 روپے تک  پہونچ گئی ہے۔

بٹ کوئن کو ایک کرپٹو کرنسی cryptocurrency سمجھاجاتا ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ کرنسی بنیادی طور رازداری کے اصولوں کو ملحوظ رکھتی ہے۔ نیز اسے اپنی نوعیت کی واحد کرنسی سمجھاجاتا ہے لیکن در حقیقت اس طرح کی کم از کم 60 کرپٹو کرنسیاں انٹرنیٹ پر موجود ہیں جن میں سے 6 کرنسیاں اصل ہیں۔ چونکہ بٹ کوئن ایک آزاد مصدر کرنسی ہے اس لیے اس کی نقل اور اس میں کچھ اصطلاحات کرکے دوسری نئی کرنسی بنائی جاسکتی ہے۔ ا س لیے اس وقت تمام موجود کرپٹو کرنسیاں باستثناء رپل Ripple بٹ کوئن کی طرح ہی کام کرتی ہیں۔

بٹ کوئن ماہرین اقتصادیات کی نظر میں :

امریکہ کے ایوان بالا میں ایک مشہور مرکزی ادارہ تحقیق (Congressional Research Service) کے پیش کردہ مقالہ میں بٹ کوئن کا پورا جائزہ لیا گیاہے۔

بٹ کوائن کی اصلیت معلوم کرنے کے لیے مذکورہ مقالہ میں چند امور قابل غور ہیں جن کا ذکر درج ذیل ہے:

1۔ بٹ کوئن ایک غیر حسی کرنسی ہے جس کا کوئی جسمانی وجود نہیں، ا ورا س کا پورا مدار انٹرنیٹ پر ہے۔

2۔ بٹ کوئن ایک مکمل آزاد مصدر غیر حسی کرنسی ہے جس کے پیچھے کوئی طاقتور مرکزی یا حکومتی ادارہ نہیں۔ چنانچہ امریکہ کے وزارت خزانہ نے ا س کو غیر مرکزی قرار دیاہے۔

3۔ اس کرنسی کو دو لوگوں کے درمیان معاہدہ کرنے میں نوٹ کی طرح کسی ثالثی کی ضرورت نہیں۔

4۔ مروجہ کرنسی نوٹ کی طرح بٹ کوئن کو بھی سونے کی پشت پناہی حاصل نہیں۔

5۔ مارکیٹ میں بٹ کوئن کی طلب ورصد کا معیار کافی بلند ہے عوام بالخصوص تاجروں کا رجحان بٹ کوئن کے لین دین کی طرف بڑھتا جارہاہے۔

 6۔ بٹ کوئن کا استعمال دیگر رائج کرنسی مثلا: ڈالر اور یورو کی طرح ہورہاہے۔

معاشیات کے دو اہم قائدے:

بٹ کوئن کی شرعی حیثیت متعین کرنے سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہ جان لیں کہ شریعت اسلا می میں مال کسے کہتے ہیں، زر کا اطلاق کن کن چیزوں پر ہوتا ہے اور کسی چیز میں ثمنیت پیدا ہونے کی کیا کیا صورتیں ہیں۔ اس سے اس ڈیجیٹل کرنسی کی حیثیت متعین کرنے میں آسانی ہوگی۔

فقہاء کرام نے قرآن و سنت کی روشنی میں نے اقتصادیات اور معاشیات کے جو اصول و قواعد ا بیان کئے ہیں وہ در اصل انسان کو نقصان سے بچانے اور فائدہ سے ہمکنارکر نے کے لئے ہی ہیں۔

۱۔ ان میں سے پہلا اصول  ہے :  الضرر لا یزال(نقصان کا ازالہ کیا جائے گا ) یہ قائدہ اصل میں حدیث پاک ’’لا ضرر ولا ضرار ‘‘(نہ نقصان اٹھا یا جائے گا اور نہ پہونچا یا جائے گا) پر مبنی ہے:۔ اس اصل کو ارشاد خدا وندی:’’ لا تظلمون ولا تظلمون ‘‘(نہ تم ظلم کرو اور نہ ہی تم پر کیا جائے گا)سے بھی اخذ کیا جا سکتا ہے ۔ کسی بھی کرنسی کی شرعی حیثیت مقرر کرتے وقت ضروری ہے کہ اسلام کے اس تصور عدل کو کلید ی حیثیت دی جائے اور قدیم فقہاء کے اجتہادات اور فقہی جزئیات کو ثانوی درجہ پر رکھا جائے۔ کیونکہ فقہاء کرام کی آراء اپنے وقت اور ز مانہ کے لحاظ سے عین عادلانہ تھیں لیکن ضروری نہیں کہ بدلے ہو ئے حالات میں بھی یہ اقامت عدل کے لئے کا فی ہوں۔

اسی طرح اسلامی قانون کا ایک اہم مأخذــ’’عرف و عا دت‘‘ ہے۔ جن امور کے بابت نصوس موجود نہ ہوں اور کتاب و سنت نے صر یح رہنمائی نہ کی ہو ان میں لوگوں کا تعامل اور عرف و عادت خاص اہمیت رکھتا ہے۔ ور عرف و عادت کے تغیر سے احکام میں بھی فرق واقع ہوتا رہتا ہے۔ اسی کو علماء  نے ’’العادۃ محکمۃ‘‘اور ’’ الثابت کالنص کالثابت کا لعرف‘‘(عرف و عادت سے ثابت بات گویانص سے ثابت بات کی طرح ہوتی ہے)۔ چنانچہ کسی بھی کرنسی کی فقہی حیثیت متعین کرنے میں عرف و عادت کو نھی خاص اہمیت حاصل ہے۔ ( کرنسی نوٹ کی شرعی حیثیت:اسلامی فقہ کیڈمی۔ ص83)

کوئی چیز ثمن کب بنتی ہے:

 ثمن دراصل قدر کو کہتے ہیں یعنی وہ غیر حسی چیز جو کسی بھی شییٔ کی قدر((MarketValue متعین کرے۔

کسی بھی چیز مین ثمنیت ((Market Velue پیدا ہونے کی دو صورتیں ہیں۔ پہلا یہ کہ کچھ چیزیں تخلیقاََ ثمن ہوتی ہیں۔ چنانچہ صاحب ہدایہ لکھتے ہیں ’’بخلاف النقود لأنہ للثمنیۃ خلقۃََ‘‘ (نقود یعنی سونا چاندی کے سکے قدر و قیمت کے لئے ہی بنائے گئے ہیں )(ہدایہ ۳؍۶۵)

عہد صحابہ میں سونا اور چاندی  یہی دو چیزیں تھیں جن کو  بطور ثمن استعمال کیا جاتا تھا  سکے بھی انھیں کے ڈھلا کرتے تھے، سونے کے دینار ہوتے تھے اور چاندی کے دراہم۔

ثمنیت پیدا ہو نے کی دوسری صورت ’’اصطلاح ‘‘یعنی باہمی اتفاق ہے۔ اصطلاح سے مراد یہ ہے کہ لوگ عرف و عادت کے اعتبار سے کسی چیز کے ثمن ہونے پر اتفاق کر لیں۔ اور صاحب ہدایہ نے اسی چیز کی طرف اشاہ کرتے ہوئے فرمایا ہے : ’لأن الثمنیۃ بالاصطلاح‘‘(ہدایہ  ۳؍۹۳) یعنی کسی چیز کی مارکیٹ ویلیو عوام الناس  کے عرف و عادت سے پیدا ہوتی ہے۔ اسی لئے فلوس نافقہ یعنی وہ سکے جو گرچہ ثمن نہیں ہیں لیکن عوام مین ان کا چلن ہوگیا ہو، فقہاء نے ان کو بھی ثمن مین شمار کیا ہے۔ اسے غیر خلقی ثمن، یا ثمن اصطلاحی کہتے ہیں۔ (TERMINOLOGICAL CURRENCY )

اب سوال یہ ہے کہ کسی چیز کے ثمن اصطلاحی بننے اور اس کی ثمنیت پراتفاق ہونے کا اندازہ کس طرح ہوگا ؟

اس کی دو صورتیں ہیں: ایک تو یہ کہ عوام مین کسی کرنسی کا چلن ہوجائے اور حکومت بھی اس کو بطور کرنسی قبو ل کر لے۔ چنانچہ عرف ختم ہونے سے اس کرنسی کی ثمنیت بھی ختم ہو جائے گی۔ دوسری شکل ہے کہ حکومت اپنی جانب سے کسی چیز کو کرنسی مقرر کرے، اس لئے مجبوراََ عوام بھی اسے قبول کرے گی، اور حکومت کو اختیار ہے کہ وہ جب چاہے اس کی ثمنیت کو ختم کر سکتی ہے۔

ثمن کے ارتقاع کے متعلق انسائکلو پیڈیا برٹانکامیں لکھاہے کہ: ’’ ہر وہ چیز ثمنیت کی صلاحیت رکھتی ہے جس کا چلن، ا س کے کام گار اور نفع بخش تجربات کے مراحل سے گزرنے کے بعد، عرف عام میں بطور ثمن کے ہوجائے۔ اس کی واضح مثال مختلف زمانوں میں مختلف اشیاء کے اندر پائی جاتی ہیں ‘‘۔ چنانچہ انڈیا میں کوریز (چھلکوں سے بنے ہوئے چمک دار گولے)فیجی  میں ویل (حوتان) کے دانت، شمالی امریکہ میں تمباکو، یاپ کے جزیرہ میں قرض نما بڑے پتھر، ا ور جنگ عظیم دوم کے بعد جرمنی اور دنیا بھر کے قید خانوں میں سگریٹ کو بطور ثمن اور زر تبادلہ کے استعمال کیاجاتاتھا۔ ثمن کے ارتقاء میں امتیاز، ا ن اشیاء کے ایجاد واختراع سے ہوئی جن کا استعمال بطور ثمن کے ہوتاتھا۔

مال کی تعریف :

حقیقت یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں مال کا قطعی مصداق متعین نہیں کیا گیا ہے۔ اور قاعدہ یہ ہے کہ کسی چیزکا ضابطہ اگر نصوص میں اور لغت میں موجو د نہ ہو تو وہاں عرف کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ ’’کل ما ورد بہ الشرع مطلقاََ ولا ضابط لہ فیہ ولا فی اللغۃ یرجع فیہ الی العرف‘‘(الأشباہ للسیوطی ۱۹۶)

بٹ کوئن کی خصوصیات اورفقہائے کرام کے  مال کے ذکر کردہ تعریفات میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ چنانچہ  ر المختار وحاشیۃ ابن عابدین (رد المختار)(4/501)

المراد بالمال مایمیل الیہ الطبع ویمکن ادخارہ لوقت الحاجۃ، والمالیۃ تثبت بتمول الناس کافۃ او بعضھم، والتقوم یثبت بھا وباباحۃ الانتفاع بہ شرعا۔

اور شیخ مصطفی احمد الزرقا المدخل الفقھی العام  میں مال کی جامع تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

  المال: ھو کل عین ذات قیمۃ مادیۃ بین الناس۔ (۔ المدخل الفقھی العام (3/118)۔ ہر وہ چیزمال ہے  جو عوام الناس کے درمیان ایک مادی قیمت رکھتی ہو ۔ اس لئے مال کی حقیقت اور اس کا مصداق ہر عہد کے عرف و رواج کے اعتبار سے متعین ہوگا۔ اس لئے ایسا بھی ہوا کے بدلے ہوئے عرف کے پیش نظر فقہاء نے ایک وقت مین ایک چیز کو مال تسلیم نہیں کیا اور اس کی خرید و فروخت ناجائز قرار دیا۔ لیکن بعد کے ادوار میں عرف کی ہی وجہ سے اسے مال کی حیثیت سے قبول کیا گیا۔ جیسے کے شہد کی مکھی کو پہلے ’’حشرات الأرض‘‘ ہونے کی بنا پر ’’مال‘‘ نہیں مانا جاتا تھا لیکن جب لوگوں میں شہد کے لئے باضابطہ اس کی خرید و فروخت اور اس کو پالنے کا رواج ہوگیا تو فقہاء نے اسے بھی مال تسلیم کیا۔ چنانچہ شلبی نے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ لأنہ معتاد جوز للحاجۃ‘‘(کیونکہ اسکی خرید و فروخت کا عرف عام ہو گیا تھا اس لئے ضرورت کے مد نظر اس کو جائز قرار دیا گیا۔ (حاشیۃ شلبی علیٰ عین الحقائق ۴؍۴۹)

زرکی حقیقت:

زر کوعربی میں نَقْدکہتے ہیں اور مشہور لغت المعجم الوسیط میں نقد کا معنی یوں لکھا ہے:

النقد: (في البیع) خلاف النسیئۃ ویقال: درہم نقد: جید لا زیف فیہ(ج) نقود۔ والعملۃ من الذھب أو الفضۃوغیر ھما مما یتعامل بہ وفن تمییز جید الکلام من ردیئۃ، وصحیحۃمن فاسدہ۔

”خرید و فروخت میں نقد کا معنی ہوتا ہے: وہ شے جو اُدھار نہ ہو، نیز عمدہ قسم کا درہم جس میں کھوٹ نہ ہو، اس کو’درہم نقد’ کہا جاتا ہے۔ اس کی جمع نقود آتی ہے۔ اور نقد اس کرنسی کو کہتے ہیں جس کے ذریعے لین دین ہوتا ہو، خواہ سونے کی بنی ہو یا چاندی کی یاان دونوں کے علاوہ کسی دوسری چیز سے۔ عمدہ اور ردّی، صحیح اور فاسد کلام کے مابین امتیاز کرنے کے فن کو بھی ‘نقد’ کہتے ہیں۔ ”

فقہی لٹریچر میں نقد کا لفظ تین معانی کے لئے آتا ہے:

1۔ سونے چاندی کی دھاتیں خواہ وہ ڈلی کی شکل میں ہوں یا ڈھلے ہوئے سکوں کی صورت میں۔ چنانچہ فقہا کی عبارات میں سونے چاندی کے لئے النقدان کا لفظ بکثرت استعمال ہوا ہے۔

2۔ سونے چاندی کے سکوں کے لئے چاہے وہ عمدہ ہوں یا غیر عمدہ۔ سونے چاندی کے علاوہ کسی دوسری دھات سے بنے ہوئے سکوں کو فُلُوْس کہتے ہیں۔ اس معنی کے مطابق فلوس نقد میں شامل نہیں۔

3۔ ہر وہ چیز جو بطورِ آلۂ تبادلہ استعمال ہو، چاہے وہ سونے کی ہو یا چاندی، چمڑے، پیتل اورکاغذ وغیرہ کی شکل میں، بشرطے کہ اس کوقبولیت ِعامہ حاصل ہو۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ:۴۱؍۱۷۳)۔ عصر حاضر میں نقد کا لفظ اس تیسرے معنی کے لئے ہی استعمال ہوتا ہے۔ جبکہ اقتصادی ماہرین نقد(زَر)کی حقیقت یوں بیان کرتے ہیں :

’’إن للنقد ثلاث خصائص متی توفرت في مادۃ مَّا، اعتبرت ھذہ المادۃ نقدًا۔ الأولیٰ: أن یکون وسیطا للتبادل، الثانیاََ: أن یکون مقیاسا للقیم، الثالثۃ: أن یکون مستودعًا للثروۃ‘‘۔ (مجلۃ البحوث الاسلامی : عدد  ۱ص۲۰۰)

”زرکی تین خصوصیات ہیں جس مادہ میں بھی وہ پائی جائیں، وہ زر شمار ہو گا:

1۔ ذریعہ ٔ مبادلہ ہو

 2۔ قیمتوں کا پیمانہ ہو

3۔ دولت محفوظ رکھنے کا ذریعہ ہو

بلاشبہ اسلام کے ابتدائی ادوار میں مالیاتی لین دین سونے، چاندی کے سکوں کے ذریعے ہی ہوتا تھا اورسونے، چاندی کی زر ی صلاحیت بھی مسلمہ ہے، لیکن شریعت نے زر کے لئے سونے، چاندی کے سکوں کی شرط نہیں لگائی بلکہ اس معاملے میں بڑی وسعت رکھی ہے۔ مشہور مؤرخ احمد بن یحییٰ بلاذری کے بقول حضرت عمرؓ نے اپنے دور میں اونٹوں کی کھال سے درہم بنانے کا ارادہ کر لیا تھا مگر اس خدشے سے اِرادہ ترک کر دیا کہ اس طرح تو اونٹ ہی ختم ہو جائیں گے۔ جیسا کہ بلاذری نے ان کا یہ قول نقل کیاہے:

’’ہممتُ أن أجعل الدراھم من جلود الإبل فقیل لہ إذا لابعیر فأمسک‘‘۔ (فتوح البلدان؛۳؍۵۷۸)

”میں نے اونٹوں کے چمڑوں سے درہم بنانے کا ارادہ کیا۔ ان سے کہا گیا: تب تو اونٹ ختم ہو جائیں گے تو اس پراُنہوں نے اپنا ارادہ ترک کر دیا۔ ”

امام مالک فرماتے ہیں :

’’لو أن الناس أجازوا بینھم الجلود حتّٰی تکون لہا سکۃوعین لکرہتہا أن تُباع بالذھب والورق نظرۃ‘‘۔ (المدونۃ الکبریٰ :لتأکیر فی صرف الفلوس)

”اگر لوگ اپنے درمیان چمڑوں کے ذریعے خرید وفروخت کورائج کر دیں یہاں تک کہ وہ چمڑے ثمن اور سکہ کی حیثیت اختیار کر جائیں تو میں سونے چاندی کے بدلے ان چمڑوں کو اُدھار فروخت کرنا پسند نہیں کروں گا۔ ‘

یعنی اگر چمڑا بحیثیت زر رائج ہو جائے تو اس پر بھی وہی احکام جاری ہو ں گے جو درہم ودینار پر ہوتے ہیں۔ علامہ ابن نجیم حنفی خراسان کے امیر غطریف بن عطاء کندی کی طرف منسوب غطارفۃنامی دراہم جن میں ملاوٹ زیادہ اورچاندی کم ہوتی تھی، کی بحث میں رقم طراز ہیں :

’’وَذَکَرَ الْوَلْوَالِجِيُّ أنَّ الزَّکَاۃتَجِبُ فِي الْغَطَارِفَۃِ إذَا کَانَتْ مِائَتَیْنِ؛ لِأَنَّہاَا لْیَوْمَ مِنْ دَرَاھِمِ النَّاسِ وَإِنْ لَمْ تَکُنْ مِنْ دَرَاھمِ النَّاسِ فِي الزَّمَنِ الْأَوَّلِ وَإِنَّمَا یُعْتَبَرُ فِي کُلِّ زَمَانٍ عَادَۃُ أھلِ ذَلِکَ الزمان۔ ‘‘(البحر االرائق :باب زکاۃ المال)

”ولوالجی نے ذکر کیا ہے کہ غطارفہ جب دو سو ہوں تو ان میں زکوٰۃواجب ہو گی، کیونکہ اگرچہ پہلے زمانے میں یہ لوگوں کے درہم نہیں تھے مگر آج کل یہی ہیں۔ ہر دور میں اس زمانے کا رواج معتبر ہوتا ہے۔ ”

اس سے یہ امر پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتا ہے کہ شرعی لحاظ سے زر کے انتخاب میں سونے چاندی کی پابندی نہیں ہے، قیمتوں کو چانچنے کے لئے کسی بھی چیز کو معیار بنایا جا سکتا ہے بشرطے کہ اسے معاشرہ میں قبولیت حاصل ہو۔

بٹ کوئن کافقہی تجزیہ اور شرعی حیثیت

ہم نے اوپر ثمن اور مال وزر کی کی جو تعریفات بیان کی ہیں اور ان پر جو بحث کی ہے اسے اگر آپ اچھی طرھ سمجھ چکے ہیں تو بٹ کوئن کی شرعی حیثیت کو سمجھنے مین آپ کو آسانی ہو گی۔

اس مسئلہ پر سب سے اچھی گفتگو پاکستان کے تحقیقی ادارے صفہ کے محقق محمد عزیزقاسم نے کی ہے انھوں نے اپنی تحقیق کے ساتھ پاکستان کے کچھ مفتیان کرام کی آراء کو بھی نقل کیا ہے۔ ہم یہاں اسی کو بنیاد بناکر اس کی شرعی حیثیت پر گفتگو ریں گے۔

Bitcoin اور اس کی ہم مثل دیگر مجازی / غیر حسی crypto currencies اور فقہ اسلامی میں مذکور مال اور ثمن کی تفصیلات پرتفصیلی غور کرنے کے بعد Bitcoin کی شرعی حیثیت درج ذیل ہے:

1۔ Bitcoin   مال کے حکم میں ہے:Bitcoin  شرعی لحاظ سے  مال کے زمرے میں آتا ہے۔ مال کی تعریف فقہاء نے یہ کی ہے:’’ جس چیز کی طرف طبیعت (سلیمہ) مائل ہو، ا ور بوقت حاجت اسے محفوظ کرناممکن ہو‘‘ جیسا کے اہپر مال کی تعریف میں گزر چکا ہے۔ مال کی مذکورہ تعریف ڈیجیٹل کرنسی اور بالخصوص بٹ کوئن پر مکمل منطبق ہوتی ہے۔ دور حاضر میں ایسی بیسیوں اشیاء ہیں جنہیں غیر حسی ہونے کے باوجود شرعا بھی مال تسلیم کیا گیاہے۔ Bitcoin بھی مال کی تعریف میں بیان کردہ ان دونوں شرائط پر پورا اترتا ہے:

 ٔ٭اس وقت ہزاروں لوگ اس کے ذریعہ تبادلہ کررہے ہیں، کرنسیوں کے باہم تبادلے کے ریٹ بتانے و الی معروف ویب سائٹس Bitcoin کا ایکسچینج ریٹ بھی بتاتی ہیں، جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس کا عرف عام قائم ہوچکاہے۔

٭سے کسی بھی برقی آلہ (Electronic Device) میں محفوظ کیاجاسکتا ہے۔ اگر کوئی شخص اسے کسی آلہ میں محفوظ کرکے سالوں استعمال نہ بھی کرے تو وہ محفوظ رہتے ہیں۔ یہ ضائع اسی وقت ہوں گے جب وہ برقی آلہ گم ہوجائے یا خراب۔ ضائع ہونے کی صورت میں حکومت یا کوئی اور اتھارٹی اس کی ضامن نہیں اور اس کا بدل ادا کرنے کا پابند نہیں۔

اوپر مال کی تعریف میں تین بنیادی امور کا ذکر ہوا ہے۔ ایک یہ کہ مال اس کو کہاجاتا ہے جس کی طرف طبیعت سلیمہ مائل ہو۔ جس وک بعض فقہاء کرام نے شئی مرغوب  سے تعبیر کیا ہے۔ دوسرا یہ کہ اس شئی مرغوب کو بوقت حاجت محفوظ کرنا ممکن ہو۔ اور تیسرا یہ کہ اس شئی مرغوب کے لین دین کا عرف عام قائم ہوجائے۔ چنانچہ بٹ کوئن میں بھی مذکورہ تین اوصاف پائے جاتے ہیں، جس کی واضح دلیل یہ ہے کہ مختلف کرنسیوں کے ریٹ بتانے والے بیشتر، مشہور ومعروف، ویب سائٹ، بٹ کوئن کا بھی ریٹ بتاتے ہیں۔ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کا استعمال عرف عام میں قائم ہوچکاہے۔ ا ور جہاں تک بٹ کوئن کو محفوظ کرنے کی بات ہے سو اس کو بھی دیگر غیر حسی مال ومتاع (Vitrul Wealth) کی طرح برقی آلہ میں محفوظ کیاجاسکتا ہے

ا س سے یہ ثابت ہوا کہ یہ بذات خودمال ہے چیک یا ڈرافٹ کی طرح کسی اور کی رسید نہیں، اور کیونکہ ثمن عرفی کی ہلاکت کے وقت حکومت اس کا بدل ادا نہیں کرتی ہے

2۔ Bitcoin  ثمن خلقی ہے : پھر یہ شرعی لحاظ سے ثمن(ثمن اصطلاحی)(TERMINOLOGICAL CURRENCY (ا بھی ہے۔ شریعت میں ہر اس چیز کو ثمن رائج کہاجاتاہے جس کی لوگوں کے عرف میں مالیت ہو اور لوگ اسے بطور ذریعہ مبادلہ (کرنسی) کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیں ہم اوپر بتا چکے ہیں کہ آج کسی چیز کے ثمن اصطلاحی بننے اور اس کے ثمنیت پراتفاق رائے پیدا ہونے کی دوصورت ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ حکومت کسی چیز کو ثمن قراردیدے اور یوں عوام اس کو قبول کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ ا س کو اصطلاحی زبان میں زرقانونی اور Legal Tender کہاجاتا ہے۔ اوردوسری صورت یہ ہے کہ عوام میں خود کسی شئی مرغوب کا چلن ہوجائے اور اس کو ذریعہ تبادلہ تسلیم کرلی جائے۔

یہ بات بھی مسلم ہے کہ کسی شئی میں ثمنیت ہونے کی صلاحیت پائے جانے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ ا س کو حکومت نے زرقانی قررادیا ہو۔ چنانچہ کرنسی نوٹ کے ابتدائی مراحل میں جب اس کی کوئی خاص شکل وصورت نہیں تھی اس وقت لوگ سنار اور صراف سے سکوں کے عوض جاری کردہ وثیقہ اور سندیں حاصل کرتے تھے جس کو محض بھروسہ اوراعتماد کی بنیاد پر قبول کیا جاتا تھا۔ نہ اس کی کوئی قانونی حیثیت تھی اور نہ ہی اپنے حق کی وصولیابی میں ا س کو قبول کرنے پر کوئی مجبور کیاجاتاتھا۔ اور دورحاضر میں اس کی ایک واضح مثال چیک اور انعامی بانڈز ہے۔

تاہم ا س بات کی وضاحت ضروری ہے کہ بٹ کوئن در حقیقت وثیقہ کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ اس کا اساس کسی ملک کے نقود یا اثاث ہی ہے، جس کے تبادلہ سیا س کو استقلال حاصل ہو ا ہے۔ ا ور اس کے استقلال حاصل ہونے کے بعد اس کو لوگ یا تو خریدوفروخت میں ذریعہ تبادلہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں یا پھر اس کو استثمار کے لیے حاصل کرتے ہیں۔

بٹ کوئن کے مستقل بالذات ثمن اصطلاحی ہونے کے اور وثیقہ کی حیثیت نہ رکھنے کے چند وجوہات یہ ہیں :

1۔ بٹ کوئن کے ضائع ہونے کی صورت میں حکومت اس کا کوئی بدل ادا نہیں کرے گی۔ جبکہ مالی دستاویزات اور قرض کے سندات کے ضائع ہونے کے وقت حکومت کی طرف سے ان سندات کا بدل کا انتظام کیاجاتاہے۔

2۔ دور حاضر میں بٹ کوئن کا لین دین مروجہ کرنسی نوٹ کی طرح انجام دیا جارہاہے اور کسی کے خیال میں یہ نہیں ہوتا کہ وہ قرض کا لین دین کررہاہے، اور بدلہ میں بٹ کوئن بحیثیت وثیقہ کے حاصل کیا جارہاہے۔

3۔ جیسے آج کل کرنسی نوٹ کا استحکام سونے سے نہ رہا اسی طرح بٹ کوئن کو بھی کسی ثمن خلقی (سونا/چاندی) کی پشت پناہی حاصل نہیں۔ بٹ کوئن کی قدر وقیمت اس کے ماوری موجود کرنسی نوٹ ہی کی وجہ سے ہے۔

بٹ کوئن پر کرنسی نوٹ کے احکام نافذ ہوں گے:

 یہ بھی ایک حقیقت  ہے کہ مختلف ادوار میں کرنسی مراحل سے گزرتی رہی ہے ان تمام اقسام کی کرنسیوں کے ساتھ تبادلے کو فقہاء نے جائز کہاہے۔ چاہے اس کی مالیت کسی حکومت کے جاری کرنے سے پیداہوئی ہو جیسے کرنسی نوٹ جسے Legal tender کہاجائے یا محض لوگوں کے استعمال سے رائج ہوئی ہو، دوونوں صورتوں میں وہ شرعاً کرنسی کہلائے گی۔ لہذا Bitcoin اور دیگر ڈیجیٹل Virtual کرنسیاں شرعی لحاظ سے فلوس رائجہ کے حکم میں ہیں۔ ان میں ا کثر علامات کرنسی نوٹ کی ہیں اور ان کے تمام احکام وہی ہوں گے جو کرنسی نوٹ کے ہیں۔ جیسے:وجوب زکاۃ، سلم، استصناع۔، مضاربہ ومشارکہ میں راس المال ہونے کی صلاحیت، صرف، اور ربا، (البتہ ان دونوں میں فرق یہی ہے کہ کرنسی نوٹ کی ثمنیت حکومت کی مرہون منت ہوتی ہے۔ حکومت اگر ثمنیت باطل کردے تو ان کی کوئی قیمت باقی نہیں رہے گی جبکہ عوامی کرنسی کا چلن باصطلاح الناس قائم ہوتا ہے اوراس کے عرف کے ختم ہونے تک با قی رہتا ہے۔ عرف ختم ہونے کے بعد یہ سلعہ کے حکم میں ہوگا۔

الدرالمختار وحاشیۃ ابن عابدین (رد المختار) (5 /233)

بٹ کوئن کا جواز و عدم جوازعلماء عالم کی نظر میں :

جامعہ ازہر کے مفتی اعظم اور کچھ سعودی اور ترکی علماء نے اسے ناجائز کہا ہے۔ اور اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ اس کا تعاقب ممکن نہیں اور یہ ہر طرح کے حکومتی قوانین سے آزاد ہے اس لئے اس کے استعمال کے ذریعہ مجرمین کے لئے راستہ کھل سکتا ہے۔ خاص کر دہشت گرد تنظیمیں اس کا غلط استعمال کر سکتی ہیں۔

ہمارے ہندوستانی علماء نے ابھی تک اس مسئلہ پر اپنی رائے ظاہر نہیں کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بٹ کوئن کا مسئلہ ابھی ان پر غیر واضح ہے۔

پاکستان کے علماء میں سے بھی اکثر اس مسئلہ پر ہندوستانی علماء کی طرح ساکت ہیں لیکن کچھ علماء نے بٹ کوئن کو کرنسی حیثیت سے قبول کیا ہے اور اس کو جائز کہا ہے۔

شرعا تو کرنسی کے اجراء پر کوئی خاص قید وبند تو نہیں ہے۔ حکومت کے علاوہ افراد بھی فی نفسہ ا س کو جاری رکھ سکتے ہیں جیسے ’’بیع مقایضہ‘‘ میں (جس میں ثمن اور مبیع دونوں مال ہوتے ہیں جیسے گیہوں کی کپڑ ے سے بیع )فراد کسی بھی مشروع چیز کو ثمن بناسکتے ہیں۔

انتظامی رخ پر کرنسی کے جراء اور نظم ونسق پر بہت سے شرائط کا لحاظ رکھاجانا ضروری ہوگا۔ کرنسی خداع پر متنج نہ ہو، افراد کے کنٹرول کی وجہ سے اس میں تعامل کرنیو الوں کے حقوق کا تحفظ، حکومتی قوانین کی پاسداری اور اس طرح  کے دیگر انتظامی امور کا لحاظ ضروری ہوگا۔

لہذا بٹ کوائن فی نفسہ جائز زر مبادلہ ہے کیونکہ اس کی اساس اگر چہ خود کرنسی یا اثاثے تھے مگر اب یہ خودمستقل بالذات زرکا درجہ کسی نہ کسی حد تک رکھتا ہے، اورزر کے لیے کسی اثاثے یا نقود کی اساس پر ہونا ضروری نہیں جیسا کہ فیاٹ منی کے جواز پر علماء کی آرا ء سے یہ واضح ہوتا ہے البتہ اس کے جواز کے فتوی کے ساتھ قانونی اور انتظامی شرائط کا ذکرضروری ہے تاکہ مستفتی کو ا س کی صحیح حیثیت کا علم ہوسکے خصوصاً وہ ممالک جہاں یہ قوانین کے تحت ممنوعات میں شامل ہووہاں اس میں تعامل ناجائز ہوگا۔

الف۔ بعض ممالک نے اسے قانونی طور پر تسلیم کیاہے اورا س پر دیگر کرنسیوں کی طرح ٹیکس بھی لگایا ہے جیسے امریکا، جرمنی، ہالینڈاورا کثر ترقی یافتہ ممالک۔

ب)ٰ بعض نے اس سے منع نہیں کیا اور نہ ہی اس کیا ستعمال کے ضوابط Regulationsبنائے ہیں جیسے ہانگ کانگ۔

ج) بعض ممالک ا س معاملے میں بالکل ساکت ہیں جیسے پاکستان

اس قسم کے ممالک میں Bitconics کو بطور کرنسی استعمال کرنا جائز ہے۔

د)جن ممالک میں ا س کو ذریعہ تبادلہ بنانا قانونی طور پر منع ہے (ایسے ممالک بہت ہی کم ہیں ) ان میں ’’ حکمِ حاکم‘‘ کی وجہ سے اس کا استعمال جائز نہیں ہوگا۔

اب جہاں تک مصر کے مفتیٔ اعظم اور کچھ سعودی کے فتوے کی بات ہے تو وہ جس احتمال پر مبنی ہے وہ بھی قابل غور ہے کیونکہ کرپٹو گرافی کرنسی ہونے کی وجہ سے اس کے مالکان اور صارفین کاپتہ لگانا خاصا مشکل ہے، اس وجہ سے اس کا غیر قانونی استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔ 2013ء میں غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ویب سائٹ سلک روڈ کے 000، 144بٹ کوئن کو امریکی ایف بی آئی نے منجمد کردیا، اس وقت اس کی قیمت 28.5ملین ڈالرز تھی۔ اسی طرح جولائی 2016 کو امریکی اور یورپی پولیس نے دو بڑی ڈراک ویب کمپنیوں کو بند کیا تھااور ان کی کئی ملین ڈالر کی آل لائن کرنسی کو ضبط کر لیا تھا۔ جبکہ امریکی حکومت بٹ کوئن کے معاملہ میں دیگر حکومتوں سے زیادہ فراخ دلی سے کام لیتی ہے۔ چین میں یوان کے ساتھ بٹ کوئن کی فروخت پر پابندی ہے نیز بٹ کوئن منڈیوں (Exchanges) کے لیے بینک اکاؤنٹ رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔

لیکن اگر بٹ کوئن کی ابتداء2009 سے 2017 تک8 سالوں کاجائزہ ؎ لیا جائے تو اس کے غیر قانونی استعمال کی شرح ۱ یک فیصد بھی نہیں ہے۔ اور امسال سے اس کی سکیورٹی مین بھی خاصا اضافہ کر دیا گیا ہے نیز حکومتیں سکیورٹی اقدامات کے ذریعہ اس بات کو یقینی بنا رہی ہیں کہ ا س کا غیر قانونی استعمال نہ ہونے پائے۔ اس لئے اس ہلکے سے خدشہ کی وجہ سے اس کو ناجائز کہنا درست نہیں ہے۔ کیونکہ اگر معمولی خدشات کو ہی جواز و عدم جواز کا معیار بنایا جائے تو بازار تجارت میں موجود ہر اس چیز کی خریدوفروخت پر پابندی عائد کرنا ضروری ہوگا جس کے ذریعہ سے کسی نقصان کا اندیشہ ہو۔ مثلاََ بازار مین چھریاں اور چاقو گھریلو استعمال کے لئے فروخت ہوتے ہیں لیکن ان میں اس بات کا بھی احتمال ہے کہ کوئی انھیں بطور ہتھیار بھی استعمال کرلے۔ تو کیا صرف اس احتمال کی وجہ سے ان کی خریدو فروخت پر پابندی لگادی جائے گی؟ اسی طرح موجودہ کرنسی نوٹوں میں بھی اس بات کا احتمال موجود ہے کہ ان کو بھی کوئی غیر قانونی استعمال کر سکے۔ چنانچہ ہندوستان کی موجودہ حکومت کی جانب سے کی گئی نوٹ بندی کا سب سے بڑا سبب یہ بتایا گیا تھا کہ اس کا مقصد دہشت گردوں کو ہماری کرنسی کے غیر قانونی استعمال سے روکنا ہے ۔ دوسری جانب دنیا بھر کے اسمگلرس، سیاست دان، مالیاتی ادار ے ناجائز طریقے سے کمائے گئے پیسے کو قانونی شکل دینے کے لئے منی لاڈرنگ کا استعمال کر رہے ہیں، جبکہ حکومت کے نزدیک منی لانڈرنگ سب سے بڑا جرم ہے۔

لہٰذا جس خدشہ کو بنیاد بنا کر ڈیجیٹل کرنسی ناجائز قرار پاتی ہے وہ تمام خدشات کرنسی نوٹوں مین بھی میں موجود ہیں۔ اس لئے زیاداہ اسے زیادہ کراہت کے درجہ میں تو رکھا جاسکتا ہے لیکن عدم جواز کا فیصلہ نہیں سنایا جاسکتا۔

  جہاں تک ملکی قانون کی پاسداری کا لحاظ رکھنے کی اور قانون شکنی سے اجتناب کی بات ہو تو یہ ان خارجی امور سے وابستہ ہیں جن کا تعلق نظم ونسق سے ہے۔ اور انتظامی معاملات میں، عمومی اور اجتماعی فلاح وبہبود کے ملحوظ خاطر، ملکی قوانین میں بیشتر اوقات ترمیمات کی اور بعض اوقات منسوخ ہونے کی گنجائش ہوتی ہے۔ لہذا جن ممالک میں بٹ کوئن کے ا ستعمال کی ممانعت ہو ان ممالک میں اس کا استعمال شرعا بھی جائز نہیں ہوگا اور جن ممالک میں اس کے استعمال سے کسی بھی صورت میں ملکی قوانین وضوابط کی خلاف ورزی نہ ہوتو ان ممالک میں بٹ کوئن کو بطور مال وثمن استعمال کرنا جائز ہوگا۔

چند احتمالات اور قابل غور پہلو:

 صفہ اسلامک سینٹر نے اس کرنسی کے چند احتمالات ذکر کئے ہیں وہ یہاں حسب ذیل ہیں۔

 ٭کسی بھی کرنسی کے قانونی ہونے کے ؛لئے ضروری ہے کہ کوئی مجازومعتبراتھارٹی جو اس کی اجراء اور استخدام کو اپنی ذمہ داری پر جاری کرسکے۔ (یہ بات ثمن خلقی میں بھی تھی، لہذا مضر نہیں )

٭اس کے ضائع ہونے کے احتمالات کافی زیادہ ہیں۔ مثلا ً ہارڈ ڈرائیو کی خرابی پاس ورڈ(ُ(Password کا کم ہوجانا۔ (آئی ٹی کی اس ترقی کے بعد تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے یہ احتمال بے حیثیت ہے)

٭اس کا آخر تعاقب ممکن نہیں ہوتا، لہذا اس کے ذریعے مضرا شیاء مخدرات وغیرہ کی تجارت کو فروغ مل سکتی ہے۔ (اب حکومتونں نے بلوک چین کے ذریعہ اس کو ممکن بنا لیا ہے)

٭کرنسی نوٹ عو امی استحصال کا ذریعہ ہے (اگر چہ عرف وتعامل اور متبادل نہ ہونے کی وجہ سے اس کے استعمال کی اجازت ہے) نیز کرنسی نوٹس میں بہت سارے حدود وقیود ہیں جبکہ پیپرکرنسی کی جگہ عالمی کرنسی بننے کی جیسا کہ اس کے بنیادی مقاصد میں یہ بات شامل ہے کہ کرنسی کو ساری دنیا کے لیے ایک اور یکساں کیاجائے جیساکہ نیٹ کے ذریعے نشرکے اسلوب یکساں ہوچکے ہیں۔

٭Block Chain کے ذریعے صفقات کی حفاظت کافی حد تک باعث اطمینان ہے لیکن یہ سارا حفاظتی نظام جن آلات کے ذریعے ہوتی ہیں وہ کسی بھی وقت کرپٹ ہوسکتے ہیں۔ (اس کا زیادہ دنیا کا سارا فائینشل نظام ڈیجیٹلائز ہی چل رہاہے۔ لیکن غور کریں تو یہ امکان ہر جگہ موجود ہے

٭جب ایک قوت حاکم اس کے پیچھے نہیں تو ا س کے طلب ورسد کے طلب کا صحیح اندازہ اور اس کے تحت ا س کی حقیقی حالت کو کنٹرول کرنا یا معلوم کرنا ناممکن کے درجے میں ہے جس کی وجہ سے تعزیر وتبلیس بہت آسان ہے۔ (مسائل تو پیدا ہی کنٹرول کی وجہ سے ہورہے ہیں، اگر خالصتاً طلب ورسد پر ہو جیسے نقدین میں ہوتا ہے تو نہت بہتر ہے کیونکہ اصل نظام یہی تھا)

٭کرنسی ایسی چیز ہونی چاہیے ہر عام وخاص کی بروقت رسائی ممکن ہو اور اس میں یہ صفت نہیں۔ لیکن عوام کی بڑی تعداد اس کو استعمال کر رہی ہے اس لئے اس کو خاص کرنسی کہنا مناسب ہوگا۔

٭کرنسی ایسی ہونے چاہیے جس کی ریزگاری اور وحدات بآسانی دستیاب ہوں، یہاں بہت پیچیدہ طریقے ہیں، نیز ایک Bitcom کے ہزاروں اکائیاں بن سکتی ہیں جو ناقابل ضبط بھی ہیں۔

٭جرمنی کے علاوہ کسی ملک نے سرکاری سطح پر اس کی ثمنیت کی حیثیت تسلیم نہیں۔ ( لیکن اکثر ممالک اسے سند جواز فراہم کرچکے ہیں گر چہ وہ اس کی سرکاری سرپرستی نہیں کرتے )۔

٭اس طرح کرنسیوں کی ریٹ میں نامعلوم وجوہات کے غیر متوقع اورشدید اتار چڑھاؤ جاری رہتا ہے چنانچہ 6 جنوری 2014 میں ایک Bitcom کی ریٹ 917 ڈالر جب کہ اس سال دسمبر میں 330 ڈالر تک آگیاتھااور 2014 ء کا سب سے خراب اور باعث نقصان کرنسی ریٹ قرارپایا۔ اس وجہ سے بینک اس سے احتراز کرتے ہیں۔ (لیکن اگر اس کی ابتدا سے اب تک کے کی رپورٹ کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس میں لوگوں کواس میں نقصان بہت کم ہوا ہے جبکہ فائدے کا گراف بہت زیادہ ہے)۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔