مسلم لڑکیوں کا ارتداد: اگر اب بھی نہ جاگے تو

ڈاکٹر عابد الرحمن

کچھ سال پہلے ’لوجہاد‘ کے جھوٹے اشوکے بعد کچھ انتہا پسند ہندو تنظیموں نے اعلان کیا تھا کہ آ نے والے دنوں میں وہ مسلمانوں کے اس ’ لو جہاد ‘ کوروکنے کے لئے ’ بہو لاؤ بیٹی بچاؤ ‘ تحریک شروع کریں گی جس کا مقصد ہندو لڑ کیوں کو ’ لو جہادی ‘ عناصر کے جال میں پھنسنے سے بچا نا اور ساتھ ہی ہندو قوم کو مسلم یا عیسائی لڑکیوں سے شادی کرنے اور انہیں اپنی بہو کے طور پر قبول کر نے کے لئے تیار کرنا ہوگا۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ ’ بہو لاؤ، بیٹی بچاؤ‘ تحریک مسلمانوں کے ’ لو جہاد ‘ کی طرح غیر قانونی نہیں ہوگی۔ مسلمان اپنی اصل ( مسلم ) شناخت چھپا کر ہندو لڑکیوں کو دھوکہ دیتے ہیں یا پھر پیسے کے ذریعہ ان کو اپنے جال میں پھنسا تے ہیں۔ لیکن ہم دھوکہ دہی بالکل نہیں کریں گے بلکہ جو مسلم یا عیسائی لڑ کیاں خود ہو کر ہندو لڑکوں سے شادی کر نے پر تیار ہوں گی ان کی مدد کریں گے ان کی حفاظت کریں گے اور انہیں محفوظ پناہ بھی فراہم کریں گے، انہیں خود انہی کی مرضی کے مطابق ہندو بنائیں گے اور’ شدھی کرن ‘ کے بعد ان کی شادی کروائیں گے اور ساتھ ہی ساتھ ہندو لڑکوں کے والدین کو بھی سمجھائیں گے کہ وہ ایسی شادیوں کو قبول کریں‘۔

مغربی بنگال میں خاص طور سے اس تحریک کو عمل میں لایا گیا تھا اور بڑی کامیابی حاصل کر نے کا دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ ایک سال میں کم از کم پانچ سو مسلم اور عیسائی لڑکیاں ہندو ہوئی چکی تھیں۔ انڈین ایکسپریس کی ایک صحافی نے مغربی بنگال کا دورا کر کے کئی ایسی لڑکیوں سے ملاقات بھی کی تھی جواپنی پسند کی شادی کر کے ہندو ہوئی تھیں اور انہیں اس پر خوشی بھی تھی، اور وہ اپنی مدد کر نے کے لئے ہندو تنظیموں کی شکر گزار بھی تھیں۔ حال ہی میں مہاراشٹر سے بھی ایسی ہی خبر ہے جس کے مطابق کئی مسلم لڑکیوں نے ہندو لڑکوں کے ساتھ شادیوں کے لئے رجسٹریشن کروایا ہے، سوشل میڈیا میں بھی کئی تصاویر اور ویڈیو ز ایسے چل رہے ہیں کہ جن میں مسلم لڑکیوں کو ہندو لڑکوں کے ساتھ اور ہندو ہوتے ہوئے یعنی شدھی کرن کرواتے ہوئے اور مندروں میں یا ہندو رواج کے مطابق شادی کرتے ہوئے دکھا یا جارہا ہے، سوشل میڈیا کی یہ تصاویر کتنی سچ ہیں یہ تو نہیں کہا جا سکتا لیکن رجسٹریشن والی خبر قابل اعتبار ہوسکتی ہے۔ اس خبر سے ایسا لگتا ہے کہ مغربی بنگال سے شروع ہوئی ’بہو لاؤ بیٹی بچاؤ‘ تحریک یہاں بھی پہنچ چکی ہے اور بہت منظم اور منصوبہ بند سے طریقے سے شاید پورے ملک میں بھی چل رہی ہے۔ اس خبر سیامت کو تشویش لاحق ہونا فطری تھی سو ہوئی، امت نے اجتماعی طور پر اسکا سختی سے نوٹس لیا ہے، امت کاہر زندہ ضمیر پریشانی اور رنج و غم کا اسیر نظر آرہا ہے،جو زندگی کی علامت ہے۔ لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم سب پھر سے مرجاتے ہیں دوبارہ تھوڑی دیر کے لئے اس وقت تڑپ کر اٹھ بیٹھتے ہیں جب کوئی حادثہ کسی کم دھار خنجر کی طرح ہمارے پہلو میں چبھتا ہے۔

تین چار سال پہلے مغربی بنگال میں ’بہو لاؤ بیٹی بچاؤ‘ کے تحت مسلم لڑکیوں کو ہندو بنانے کا جو اعلان کیا تھا اور اس میں جس کامیابی کا دعویٰ کیا تھا اگر اس وقت ہم ملک گیر پیمانے پر چوکنا ہوجاتے اور شور شرابے سے آگے بڑھ کربہت خاموشی اور منظم اورمنصوبہ بند طریقے سے قانونی، ایمانی اور عملی کام کرتے تو شاید آج مہاراشٹر کا المیہ سامنے نہ آتا۔ ویسے مسلم لڑکیوں کی ہندوؤں سے شادیاں ہمارے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہمارے اندر اس طرح کی کئی مثالیں پہلے سے موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ پڑھے لکھے، معاشی طور پر مستحکم اور امت کی بالائی تہہ (Creamy layer) سمجھے جانے والے کئی گھرانوں کی لڑکیوں نے غیر مسلم لڑکوں سے شادیاں کر رکھی ہیں لیکن اس وقت ہم میں تشویش نہیں تھی اس وقت ہم نے اس معاملے کو ذاتی معاملہ یا ایک فرد کا گناہ کہہ کر چھوڑ دیا تھا بلکہ نظر انداز بھی کرتے رہے تھے اس وقت نہ ہماری قومیت جاگی تھی اور نہ ہی غیرت و حمیت۔ دراصل ہم منافق ہیں اور نا انصاف بھی۔ ہمارا معاشرہ ایسا ہو گیا ہے کہ کوئی امیر کتنا بھی بڑا گناہ کرے ہم اسے اس کا ذاتی فعل کہہ کر نظر انداز کر دیتے ہیں لیکن اگر کوئی غریب نا دانستگی میں بھی کوئی معمولی گناہ کر لے تو ہم اسکی ایسی کی تیسی کر دیتے ہیں بھرے چوک میں اس پر وہ تعن و یشنیع کی جاتی ہے کہ خدا کی پناہ! یہی نہیں بلکہ اس غریب کا سماجی بائیکاٹ بھی کیا جاتا ہے اور اسے مسلمانی سے خارج کر نے کی باتیں بھی ہوتی ہیں۔ لیکن اب یہ معاملہ پوری امت میں پہنچ چکا ہے اب اس میں کریمی لیئر کی کوئی تخصیص باقی نہیں رہی۔ اس معاملے کو لے کر آج جو اتھل پتھل اور تشویش ہمارے اندرپیدا ہوئی ہے اگر اسکا عشر عشیربھی اس وقت ہوتی جب ہمارے معاشرے کی تعلیمی اور معاشی اعتبار سے بالائی سطح کی بیٹیاں ہندوؤں سے شادیاں رچا رہی تھیں تو آج یہ نوبت نہ آ تی، نہ ہماری بیٹیاں غیر مذہب کے مردوں سے اپنی پسند کی شادی کر نے کی ہمت کرتیں اور نہ ہی غیروں کی لالچ اور مکر و فریب کے لئے آ سان چارہ ہوتیں۔

ویسے ہماری لڑکیوں میں جو یہ فتنہء ارتداد سر ابھار رہا ہے اس کے لئے بھی ہم ہی اس کے ذمہ دار ہیں کہ یہ فتنہ دراصل دین بیزاری سے شروع ہو رہا ہے اور ہماری نئی نسل میں دین بیزاری کے بیج بھی دراصل ہماری نقلی اور جھوٹی دینداری ہی بو رہی ہے۔ دین کے تئیں ہمارا رویہ منافقانہ ہے، ہمارے قول و فعل میں تضاد ہے، ہم دین کی صرف باتیں کرتے ہیں ہمارے اعمال میں دین کہیں نظر نہیں آتا، ہمارا یہ طرز عمل ہماری نئی نسلوں کو بھی ہماری ہی طرح جھوٹا دیندار بنا رہا ہے ایسے میں ٹی وی سیریلس فلموں ڈراموں میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعہ اورہمارے دشمنوں کی طرف سے چلائی جانے والی درپردہ مہمات اور تحریکات اور محرکات ان جھوٹے دینداروں کو پوری طرح اپنی چپیٹ میں لے کر ارتداد تک پہچا ئے دے رہے ہیں۔ مسلم لڑکیوں میں موجود فتنہء ارتداد کا ایک سبب اور ہے اور وہ یہ ہے کہ آج کل ان کی تعلیم اور اعلیٰ تعلیم پر لڑکوں کی بہ نسبت زیادہ دھیان دیا جارہا ہے، لڑکیاں بھی لڑکوں کی بہ نسبت آگے بڑھ رہی یا بڑھائی جارہی ہیں ان میں احساس برتری پیدا ہو رہا ہے یہ احساس برتری انہیں اپنے مستقبل کے محفوظ ہونے کے تئیں مشکوک کئے دے رہا ہے، ان میں اپنے لائق پارٹنر نہ ملنے کا خدشہ پیدا ہورہا ہے اور وہ اس لائق پارٹنر کی تلاش میں ارتداد تک پہنچ رہی ہیں۔ ارتداد کی یہ لہر حالانکہ بہت زیادہ نہیں لیکن جس رفتار سے بڑھ رہی ہے، انتہائی تشویشناک ہے۔

 یہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ رہنے یا سوشل میٖڈیا میں شور وغل کر کے سوجانے کا وقت نہیں ہے۔ اسے روکنے کے لئے ہمیں بہت منظم منصوبہ بند اور تیر بہ حدف لائحہء عمل تیار کر پورے اتحاد اور اتفاق کے ساتھ اسے مکمل خلوص کے ساتھ برتنا ہوگا۔ ہر معاملہ کو مخالفین کی سازش سے جوڑ کرسارا زور انہیں لعن طعن کرنے میں صرف کر کے اصل سبب کو جوں کا توں چھوڑ دینا دراصل مسئلے کو کم کر نے کے بجائے مزید تیزی سے بڑھا تا ہے سو اس معاملہ میں بھی سازش کی بو سونگھنے کے بجائے ارتداد کا اصل سبب تلاش کرنا اور اسکا سد باب کرنا ضروری ہے، حالانکہ اس معاملہ میں مخالفین کی سازش اور کارستانی سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن ہماری لڑکیاں اس سازش کے لئے اتنا نرم چارہ کیسے ہوئی جارہی ہیں اس کی خبر لینا اور اس کا کوئی تیر بہ حدف توڑ نکالنا بھی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ایک اور بات کہ اس معاملہ میں انتہائی خاموشی سے کام کیا جانا چاہئے کیونکہ یہ سماجی اور سیاسی طور پر بہت حساس معاملہ ہے اس میں شور جتنا زیادہ ہوگا ہمارا کام اتنا ہی بگڑے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسکول اور کالج جانے والی ہماری لڑکیوں کے ریکارڈ س ہماری نظر میں ہونے چاہئے، اداروں میں ان کی حاضری اور رویہ سے بھی ہم با خبر رہنے چاہئے لیکن ہمیں یہ بھی سمجھ رکھنا چاہئے کہ محض اپنی لڑکیوں کی نگرانی اور جاسوسی اس مسئلہ کا حل نہیں ہے، اس مسئلہ کے حل کے لئے ہمیں اپنی بنیاد چیک کر نی ہوگی اور اپنی لڑکیوں کو درست بنیاد سے جوڑنا ہوگا۔ اس کے لئے سب سے پہلے ہمیں اپنی دینداری درست کر نی ہوگی منافقانہ طرز عمل ترک کرنا ہوگا، ہماری لڑکیوں اور نئی نسل کے سامنے عملی طور پر مکمل دینی ماڈل پیش کرکے ان کے دین و ایمان کواتنا مضبوط کرنا ہوگا کہ کوئی لالچ، کوئی خدشہ یا کوئی ڈر انہیں ارتداد کی طرف نہ جھکا سکے۔

 اس معاملہ میں سازش کے پہلو پر کام کرنا بھی ہمارے لئے ضروری ہے ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ جن مسلم لڑکیوں کے مرتد ہوجانے کی خبر ہے وہ خود اپنی مرضی سے نہ ہوئی ہوں بلکہ ان کو کسی لالچ کے ذریعہ یا ڈرا دھمکا کر پھنسا یا گیا ہو، تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ان لڑکیوں یا ان کے والدین رشتے داروں تک پہنچیں اور اصل وجہ معلوم کریں اور پھر اس کے مطابق اپنا لائحہء عمل تیار کریں، ہو سکتا ہے کہ ان لڑکیوں کے ہندو ہو جانے کے پیچھے غربت کی مجبوری کار فرما ہو، تو ہمیں اس کا علاج کرنا چاہئے اور ذکوٰ ۃ کے ربانی اور نبوی ﷺ احکامات پر ایمانداری اور دیانتداری سے عمل کر کے ہم غربت کے اس مرض کا علاج بہت آ سانی سے کر سکتے ہیں۔ اور اگرڈرا دھماکا کر زبردستی کر کے اور دادا گیری کے ذریعہ ان لوگوں کواس جال میں پھنسایا جا رہا ہے تو اس کے لئے ہمیں کڑی قانونی چارہ جوئی اور ہر سطح پر مقابلہ کے لئے تیار رہنا ہوگا اور اس میں ہم اسی وقت کامیاب ہو سکتے ہیں جب ہم متحد ہو کر ’ بنیان مرصوص ‘ ہو جائیں وگرنہ یہاں بھی مسلکی اورجماعتی انتشار رہا تو ہمیں ابھی سے بے ضمیری، بے غیرتی اور بے شرمی کی نیچ زندگی کی تیاری کر لینی چاہئے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔