مسلم مجاہدین آزادی کا شہر ہے سنبھل

11؍ فروری کو جب پہلے رائونڈ کی پولنگ ہورہی تھی تو ٹی وی کے نمائندے ہر سیٹ پر جارہے تھے اور دکھا رہے تھے کہ پولنگ کیسی ہورہی ہے؟ مظفر نگر ضلع کی تحصیل کیرانہ میں این ڈی ٹی وی کے رپورٹر نے لائن میں لگے ایک خوش لباس اور خوش شکل نوجوان سے معلوم کیا کہ کیرانہ میں جو ہندوئوں کی فرار کا موضوع تھا اس کا کیا اثر ہے؟ اتنا سننا تھا کہ وہ تعلیم یافتہ نوجوان پھٹ پڑا اور اس نے سارا الزام ٹی وی والوں پر رکھتے ہوئے کہا کہ میڈیا کے پروپیگنڈے کی وجہ سے ہی ہماری یہ حالت ہوگئی ہے کہ ہم اپنے کو کیرانہ کا بتاتے ہوئے شرماتے ہیں۔

کیرانہ کے فتنہ پرداز ممبر پارلیمنٹ حکم سنگھ نے یہ فتنہ کھڑا کیا تھا۔ انھوں نے سستی شہرت حاصل کرنے اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے یہ کہنا شروع کردیا تھا کہ کیرانہ میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ انھوں نے ہندوئوں کا رہنا دوبھر کردیا تو سیکڑوں ہندو اپنے مکانوں کو تالے لگاکر اور گھر چھوڑ کر دوسرے شہروں کو بھاگ گئے اور میڈیا کے رپورٹر جب وہاں گئے تو وہ مکان دکھائے جن میں تالے لگے تھے۔ لکھنؤ میں بی جے پی کی ایک میٹنگ ہورہی تھی اس میں گجرات کے مسلمانوں کے خون میںرنگے ہاتھوں والے امت شاہ نے اپنے فتنہ پرور انداز میں ایک زہریلی تقریر کرڈالی اور جب ہر ایجنسی نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ کیرانہ کے کافی مسلمان بھی کوئی کام نہ ہونے کی وجہ سے کہیں جاچکے ہیں اور حکم سنگھ فضا کو خراب کرنا چاہیے ہیں۔

بات صرف کیرانہ کی نہیں ہے، ہروہ بستی، قصبہ یا شہر جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں، ایک چپراسی اور لیکھ پال سے لیکر وزیر اعلیٰ تک حکومت کی نظر میں رہتے ہیں اور ہر ذرا سی بات پر شور ہونے لگتا ہے کہ ہندو ا قلیت میں ہیں۔اور ان کی جان خطرہ میں ہے۔ یہ ان حالات میں ہورہا ہے جبکہ پولیس انتظامیہ اور عدلیہ سب ہندو ہیں۔ اور ہر ذراسی بات پر وہ بستی پاکستان کہی جانے لگتی ہے۔ کل روزنامہ انقلاب میں ان کے نمائندے ا فروز عالم ساحل کی ایک رپورٹ سنبھل کے متعلق چھپی ہے۔ اس کی چار کالمہ سرخی میں کہا گیا ہے کہ ’’مسلمانوں کاخوشحال علاقہ سنبھل اب القاعدہ چیف کی بستی کے نام سے جانا جاتا ہے‘‘۔ ہم جو خود سنبھل کے رہنے والے ہیں اور سیکڑوں افراد پر مشتمل ہمارا خاندان آج بھی وہیں ہے اور ہر دل یا کوئی آتا ہے یا کسی سے بات ہوتی ہے اور ہم خود میڈیا سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہمیں آج تک معلوم نہیں ہوا کہ ہمارے سنبھل کو القاعدہ چیف کی بستی کہنے کی میڈیا کے کچھ کتوں کی ہمت ہوئی ہے۔

ہمیں فخر ہے کہ ہم سنبھل کے رہنے والے ہیں اور اس دیپا سرائے کے رہنے والے ہیں جس کے بارے میں انقلاب نے لکھا ہے کہ دیپا سرائے محلہ کسی زمانہ میںمسلمانوں کی خوشحالی کی پہچان تھا۔ 2015ء میں دو افراد کی گرفتاری کے بعد میڈیا نے اسے القاعدہ چیف کی بستی کہنا شروع کردیا ہے۔ میڈیا کا ٹی وی اب سب سے زیادہ مقبول ہوگیا ہے اور جتنے بھی چینل ہیں اس کے مالک ہندو ہیں۔ اس وجہ سے اتفاق سے رپورٹر کی حیثیت سے کوئی نام مسلمان کا آجاتا ہے۔ اورہندو رپورٹروں میں اکثریت ان کی ہے جو آر ایس ایس کی شاکھائوں سے نکل کر آتے ہیں۔ اور وہ یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ مسلم اکثریت والے شہروں کو القاعدہ، لشکر اور پاکستان سے کس طرح جڑا ہوا دکھائیں۔ دو لڑکوں کی گرفتاری وہ بھی اتنے غریب کہ انقلاب کے مطابق نہ ان کے پاس مقدمہ لڑنے کے پیسے ہیں اور نہ بار بار دہلی جانے کے پیسے اور وہ جو کام کررہے تھے وہ بھی برباد ہوگیا۔

گرفتار کرنے والے اندھوں کو یہ نظر نہیں آیا کہ ملک سے اور اپنے سنبھل سے غداری بھی کریں اور چٹنی روٹی کھائیں؟ اگر ان کے مکان دیکھتے ہی دیکھتے کوٹھی بن گئے ہوتے اور ان کے دروازہ پر سائیکل کے بجائے 10 لاکھ کی کار کھڑی ہوتی تو ان کو القاعدہ سے یا آئی ایس آئی سے جوڑا جاتا۔ ساحل صاحب نے ان کے گھروں کی اور ان کی غربت کی تفصیل لکھی ہے۔ ایسے غریبوں پر ہاتھ ڈالا ہی اس لیے جاتا ہے کہ مقابلہ نہ کرسکیں۔ رہی دیپا سرائے کی خوش حالی کی بات تو وہ پہلے زمینداری کی وجہ سے خوش حال تھی اور اب کاروبار کی وجہ سے خوشحال ہے۔ اور سنبھل کے ہندوئوں ا ور حکومت کا دردِ سر ان کی خوشحالی ہی ہے۔ ان سے کوئی مسلمان خوش حال نہیں دیکھاجاتا۔

سنبھل میں اکثریت میں اور خوشحال ہونے کے باوجود نہ جانے کتنے مسلمان ہیں جو سنبھل کے باہر ہیں۔ وہ نہ ہندوئوں کے ڈر سے ہیں نہ حکومت کی زیادتی اور جانب داری کی وجہ سے ہیں بلکہ دنیا کے رواج کے مطابق ہیں اور سنبھل کے نہ جانے کتنے ہندو بھی سنبھل سے باہر ہیں۔ ہمارے والد نے سنبھل اس وقت چھوڑا جب دو گائوں میں زمینداری بھی تھی اور کھنڈ ساری شکر کا کاروبار بھی تھا۔ وہ اپنے علم کے مطابق کام کرنا چاہتے تھے جس کے لیے سنبھل میں آسانیاں نہیں تھیں۔ ہمارے سگے تایا بھی کہیں پڑھانا یا علمی کام کرنا چاہتے تھے وہ بھی آگرہ اور مراد آباد میں رہے جبکہ وہ نہ صرف ایک زمیندار کے بیٹے تھے بلکہ ان کی بیوی بھی زمیندار تھیں۔ ہمارے ایک خالو مہاراشٹر میں رینجر ہوئے جبکہ وہ بہت بڑے زمیندار کے اکلوتے بیٹے تھے۔ میرے بڑے بھائی لندن چلے گئے اور میرے ایک بیٹے سعودی عرب اور دوسرے دہلی میںہیں۔ اپنی امنگوں  اور اولاد کی تعلیم و ترقی کے لیے گھر چھوڑنا الگ بات ہے اور جان کی حفاظت کے خیال سے گھر چھوڑنا الگ ہے۔

سنبھل میں اقبال محمود ایم ایل اے ہیں وہ اکھلیش کی وزارت میں وزیر بھی ہیں اس کے باوجود سنبھل کو القاعدہ چیف کی بستی کہا گیا ۔ ہمیں فخر ہے کہ پاکستان بنوانے میں سنبھل کے مسلمانوں نے کوئی حصہ نہیں لیا اور لاکھوں کی آبادی ہوتے ہوئے مسلمان سنبھل سے کم اور دیپا سرائے سے شاید دو چار ہی پاکستان گئے۔ جنگ آزادی میں سنبھل کے مسلمانوں اور دیپا سرائے کے مسلمانوں نے خاص طور پر مولانا محمد اسمٰعیل، مولانا عبدالقیوم، منشی معین الدین اور منشی فرید الدین اور دوسرے مسلمانوں نے جتنا حصہ لیا ہے اتنا گوبند بلتھ پنت، سمپورنانند یا سی بی گپتا نے بھی نہیں لیا ہوگا لیکن حکومت کسی پارٹی کی ہو اس کے نزدیک مسلمانوں کی قربانی اس قابل نہیں ہے کہ اس کا ذکر کیا جائے۔

ہندوستان میں گجرات اور پنجاب ایسے صوبے ہیں جہاں سے لاکھوں آدمی دنیا کے ملکوں میں روزی روٹی کے لیے گئے ہیں اور پورے ہندوستان سے ہندو مسلمان اور سکھ جسے موقع ملا ہے وہ گیا ہے، انھیں بھی کیا مسلمانوں نے جانے پر مجبور کردیا؟ ایسے معاملات میں حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو وہ ایسا رویہ رکھتی ہے کہ خون خرابہ تو نہ ہو لیکن نہ اس سے ہندو ناراض ہوں اور نہ مسلمان۔ اور یہ ان کی مجبوری بھی ہے، اس لیے کہ انھیں دونوں کے ووٹ چاہئیں۔ہم کیرانہ اور ہر اس جگہ کے مسلمانوں سے کہنا ضروری سمجھتے ہیں جہاں ان کی تعداد زیادہ ہے کہ وہ ہندوئوں سے برادرانہ تعلق رکھیں تاکہ وہ خود حکم سنگھ جیسوں کو جواب دے دیں۔

افروز عالم ساحل نے لکھا ہے کہ سنبھل کے دیپا سرائے کو دیکھ کر کسی پاشی کالونی کے ہونے کا احساس ہوتا ہے وہاں کی سڑکیں پتلی توہیں مگر ایسی صاف جیسی عام طور پر مسلم بستیوں میں نہیں ہوتیں۔ عالیشان مساجد اور مدرسے اور تعلیم کا نظارہ وغیرہ۔ لیکن ساحل صاحب نے یہ نہیں لکھا کہ دیپا سرائے کوئی محلہ نہیں بلکہ سنبھل کا مغربی حصہ ہے جس میں صرف ترک قبیلہ آباد ہے اور جس کی تعداد لاکھ نہیں تو کچھ اس سے کم ہوگی اور دیپا سرائے میں دس سے زیادہ محلے ہیں اور پوری دیپا سرائے میں صرف اتنا ہی نہیں کہ کوئی ہندو نہیں ہے بلکہ نہ کوئی سید ہے نہ پٹھا ن صدیقی ہے نہ فاروقی اور نہ عثمانی۔ وہ ایک کنبہ تو نہیںلیکن ترکوں کا ایک قبیلہ ہے اور نہ صرف عالیشان مکانات ہیں بلکہ ہر میدان کے چوٹی کے لوگ ہیں  اور دینداری دوسرے مسلم شہروں سے زیادہ ہے۔ یہ وہی سنبھل ہے جہاں دسمبر میں عالمی تبلیغی اجتماع ہوا تھا جس میں حکومت کی رپورٹ کے مطابق 32 لاکھ انسانوں نے شرکت کی تھی اور ان کے تین دن کھانے کے خرچ کا زیادہ حصہ سنبھل کے مسلمانوں نے برداشت کیا تھا۔ ان سب باتوں کے بعد ہندو میڈیا جلن حسد اور نفرت کی وجہ سے اگر اسے القاعدہ چیف کی بستی کہے تو وہ چاند پر تھوکنا جیسا ہے۔ سنبھل ہرحال میں مجاہدوں اور عالموں کی بستی ہی رہے گا اور وہاں کے عالم دنیا میں مسلمانوں کی دینی اصلاح کا کام کرتے رہیںگے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔