ابھی سے ذہن میں سب زاویے زوال کے رکھ!

  امریکہ میں ٹرمپ کے برسرِ اقتدارآنے اور ان کی حکومت پر چندایام گزرنے کے دوران ہی عالمی سطح پر جوصورتِ حال ابھرکر سامنے آرہی ہے، اس سے تقریباً ساری دنیا میں تشویش پیداہوگئی ہے، ایساگمان کیاجارہاتھاکہ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران جوکچھ بھی کہاتھا، وہ محض لوگوں کورجھانے اور ان کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے کہاتھااور جب وہ پاورمیں ہوں گے، توایسے اقدامات کرنے سے گریزکریں گے، جن سے عالمی منظرنامے پرامریکہ کی لچک دار پالیسی ، داخلی سطح پرپائے جانے والے تہذیبی تنوع ، مذہبی رنگارنگی اوربقاے باہمی کے عمومی رجحان کونقصان پہنچنے کااندیشہ پیداہو؛لیکن حیرت کی بات ہے کہ ٹرمپ نے20؍جنوری کوتختِ صدارت پر براجمان ہوتے ہی دھمال کرناشروع کردیاہے۔یوں تواپنے پڑوسی ممالک کے تئیں بھی ان کارویہ جارحانہ ہی ہے، مگرخاص طورسے مسلمانوں کے تئیں ان کے دل میں خاص قسم کی نفرت بیٹھی ہوئی ہے، انھوں نے انتخابی مہم کے دوران کہاتھاکہ صدربننے کے بعدوہ امریکہ میں مسلمانوں کے داخلے پرپابندی لگادیں گے، جس پرانھوں نے صدربننے کے بعد فوری طورپر عمل بھی کرنا شروع کردیااورآناًفاناًمیں 90؍دنوں کے لیے سات مسلم اکثریتی ملکوں کے شہریوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی کا حکم نامہ جاری کردیا، وہ توبھلاہوامریکی عوام ، میڈیا اور امریکی عدالت کاکہ سب نے مل کر ٹرمپ کی اس مجنونانہ پالیسی کوروبہ عمل آنے سے روکنے کی کوششیں کیں اوروہ اس میں کامیاب بھی رہے اوربالآخرعارضی طور پر ہی سہی، اس احمقانہ فیصلے پر عمل نہیں ہوا۔

     البتہ ڈونالڈٹرمپ کے اس متعصبانہ رویے کے اثرات زمینی سطح پر ضرورمحسوس کیے گئے؛چنانچہ مغرب میں پہلے سے موجوداسلاموفوبیاکی لہرتیزترہونے لگی ہے، حالیہ دنوں میں خودامریکہ میں اور اس کے پڑوسی ملک کناڈامیں دوبڑے حملے ہوئے اور دونوں مسلمانوں کے مذہبی مرکزیامسجدپر کیے گئے، ان حملوں میں کئی لوگ شہیدبھی ہوئے اور زخمی بھی۔حالاں کہ دوسری طرف کنیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈونے ٹرمپ کے فیصلے کے فوراًبعد مسلمانوں سے ہم آہنگی کااظہارکرتے ہوئے کہاتھاکہ وہ اپنے ملک میں اُن تمام مسلمانوں اور مہاجرین کاخیر مقدم کرتے ہیں ، جنھیں امریکہ میں داخل نہ ہونے دیاجائے، اس کی وجہ سے مسلمانوں میں خاص طورسے ان کے تئیں محبت واحترام کے جذبات پیداہوئے اور انسانیت پسندحلقوں نے ان کے بیان کوایک مثبت طرزِ فکر کے طورپردیکھتے ہوئے اسے قابلِ تعریف و تحسین قراردیا۔کناڈاکے شہرکیوبیک کے اسلامی مرکزپرہونے والے دہشت گردانہ حملے کے متاثرین سے بھی انھوں نے ملاقات کی، دلاسہ دیااور انھیں کناڈاکالازمی اور قابلِ قدرجزقرادیتے ہوئے ملک کے تمام مسلمانوں کے حقوق ، عزتِ نفس اور احترام کے تحفظ کے عہدکودوہرایا۔اس کے علاوہ خود امریکہ میں بھی سیاست سے تعلق رکھنے والے اہم اشخاص، بیوروکریٹس، انسانی حقوق کے تحفظ میں سرگرم افراد اور ادارے مسلمانوں کے ساتھ اظہارِیکجہتی کے لیے کھل کر میدان میں آئے اورانھوں نے ٹرمپ کی متعصبانہ پالیسیوں کاپوری جرأت کے ساتھ ردکیا۔

    موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ ٹرمپ امریکی میڈیااورعدالت دونوں سے بھڑے ہوئے ہیں ، گذشتہ دنوں جہاں انھوں نے ایک عام مجمع میں میڈیااہل کاروں کے سامنے ہی اُنھیں برابھلاکہا، وہیں اب ان کے فیصلے پر وفاقی عدالت کے روک لگانے کی وجہ سے عدالت بھی ان کی تندگوئی کی زدپرآگئی ہے، وہ عدالتی فیصلے کوسیاسی بتاتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اگرامریکہ میں کوئی انہونی ہوئی، تو اس کی ذمے داری عدالت پر ہوگی، سات مسلم ممالک کے شہریوں کے امریکہ میں داخلے پرپابندی ان کے نزدیک اتنی معقول ہے کہ اسے ہائی اسکول اسٹینڈرڈکاایک بوداطالبِ علم بھی درست قراردے گا، مگرعدالت اس کوماننے کے لیے تیارنہیں ، افسوس کی بات تویہ ہے کہ امریکہ، جو فی الوقت عالمی منظرنامے پر طاقت ورترین ملکوں میں نمایاں سمجھاجاتاہے، وہاں کاصدرانتہائی اوچھا طریقہ اختیارکرتے ہوئے ٹوئٹرکے ذریعے ملکوں کو دھمکا رہاہے اورانھیں تباہ کرنے کی باتیں کررہاہے۔حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ میدانِ سیاست کاآدمی ہی نہیں ہے، وہ ایک کاروباری انسان تھااوراسے اسی شعبے میں رہناتھا، مگر حالات ایسے بنے یابنادیے گئے ، جن میں خوداوباماسرکاراوران کی پارٹی کابھی کسی نہ کسی حد تک رول رہاہے، کہ امریکی عوام کی ایک تعدادنے تبدیلی کی خواہش میں ٹرمپ جیسے ناتجربہ کار، بے ہنگم انسان کوصدارت کی کرسی پر فائز کردیا۔

روزروزاس کی جانب سے تازہ’’ کارنامے‘‘ سامنے آرہے ہیں ، اب یہ خبربھی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اخوان المسلمون کودہشت گردتنظیم قراردینے پر غور کررہی ہے، اس کے ساتھ ساتھ ایران کے پاسدارانِ انقلاب کوبھی اسی خانے میں ڈالاجائے گا۔حالاں کہ دوسری جانب اس قسم کے اشاروں کے سامنے آنے کے بعدفوراً بعدہیومن رائٹس واچ نے امریکہ کومتنبہ کیاہے اورکہاہے کہ اخوان ایک طویل عرصے سے سرگرمِ کارہے ، جس کامعتدل اسلام پسندانہ سیاسی نظریہ ہے اور اس کا دائرۂ کار پوری دنیامیں پھیلاہواہے، اگراس تنظیم کودہشت گردقراردیاگیا، توعالمی سطح پر اس کے اندوہ ناک نتائج رونماہوں گے اور بے شماربے گناہ انسانوں کے ساتھ ناانصافی کااندیشہ پیداہوجائے گا۔

    ان تمام احوال کے پس منظرمیں مغربی میڈیا، امریکہ کے نمایاں اخبارات اور تجزیہ کاروں کی رائے یہ ہے کہ ٹرمپ ذہنی اور شعوری طورپراس درجہ پختہ کارنہیں ہیں ، جوامریکی ریاست کانظم و انتظام سنبھالنے اور اس کی خارجہ و داخلہ پالیسیوں کو بنانے اوران پر عمل پیراہونے کے لیے ضروری ہے، ان کااندیشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں سیاسی اعتبار سے امریکہ ایک غیر معلوم ، مگرتباہ کن منزل کی طرف گامزن ہونے والاہے اور روزبروزامریکی صدرکے اقدامات اور ارادوں سے ایساہی لگ بھی رہاہے۔ ٹرمپ کایہ رویہ مغرب کے دائیں بازوکی قوتوں کوبھی شہہ دے رہاہے اوراس کے نتیجے میں امریکہ ہی نہیں ، پورے مغرب میں اسلاموفوبیاکے بے بنیادتصورکوتقویت فراہم ہورہی ہے، مغرب میں قیام پذیر مسلمان ذہنی و نفسیاتی طورپرخوف و ہراس میں مبتلاہوگئے ہیں ؛ حالاں کہ ان خطوں کے زیادہ تر عوام کشادہ ظرف ہیں اور نظریات وخیالات کے اختلاف کوزندگی کاحصہ قراردیتے ہوئے ایک ساتھ زندگی گز ارنے کواپنے معمول کاحصہ بنائے ہوئے ہیں ، مگر جب امریکہ جیسے ملک کاصدرتمام ایک ارب سات سوملین مسلمانوں کودہشت گردفرض کرکے ان کے خلاف تند وتیزجملے بازی کرتارہے گا، تواس سے لوگوں کامتاثرہونایقینی ہے۔اگر یہی حالات رہے ، تومغرب میں مسلمانوں کے خلاف ایک نئی فکری ونظریاتی کشیدگی پیدا ہوجائے گی اورپھراس کی زدمیں بھی دنیاکے لاکھوں کروڑوں مسلمان آجائیں گے، 2001ء میں نائن الیون کے سانحے کے بعدجونئربش نے عالمِ اسلام کے خلاف علانیہ جنگ چھیڑکردسیوں ملکوں کوتہہ وبالاکیاتھااوراب ٹرمپ اپنے انتہاپسندانہ خیالات کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف محاذآرائی پرآمادہ ہے؛حالاں کہ دوسری جانب ایک روشن ترین حقیقت یہ بھی ہے کہ خود امریکہ میں اس کے خلاف نہایت مضبوط اورطاقت ورمحاذموجودہے، اعلیٰ سرکاری اداروں ، تنفیذی مشنریزاور عدالتوں کے معززارکان ٹرمپ کی پالیسیوں کوامریکہ کے مفادات کے خلاف سمجھتے ہیں اوراس لیے ایسے بیشتر لوگ شروع دن سے ٹرمپ کی کھل کر مخالفت کررہے ہیں ۔

    بات اگر ہم مسلم ملکوں کی کریں ، توایک ایران ہے، جواولاً تواس کے شہریوں کے داخلے پر پابندی لگانے کی وجہ سے اورپھرمشرقِ وسطیٰ میں مداخلت کے حوالے سے ٹرمپ کے ٹوئٹ کی وجہ سے امریکہ کے خلاف کھل کرسامنے آگیاہے؛بلکہ ٹرمپ کی دھمکی کے جواب میں روحانی نے کارروائی کی بھی دھمکی دی ہے، قابلِ ذکرہے کہ حکومت سنبھالنے کے فوراً بعدسے ہی ایران ٹرمپ کے خاص نشانے پر ہے، انھوں نے اپنی صدارت کے ابتدائی دنوں میں ہی ایران کے بلیسٹک میزائل کے تجربے اورعراق میں سرگرم جنگجوگروپ ’’القدس‘‘پرخاص طورسے اعتراض کیاتھا، گزشتہ ہفتہ امریکی سلامتی کونسل کے مشیرنے بلسٹک میزائل کے تجربے پروارننگ دیتے ہوئے کہاتھاکہ امریکہ ایران کے خلاف کوئی بھی کارروائی کرسکتاہے، پابندی والامعاملہ ایران کے ساتھ پہلی بار نہیں ہوا ہے، 1980ء میں جب امریکہ کے صدرجمی کارٹرتھے، تب طہران میں 52؍ امریکی سفارت کاروں کااغواہوجانے کے بعدبھی ایرانیوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی لگادی گئی تھی، گزشتہ 37؍سالوں سے امریکہ وایران کے درمیان سفارتی تعلقات نہیں ہیں ، البتہ ایرانیوں کوامریکہ میں داخل ہونے کی اجازت ہے، اِس وقت ٹرمپ ایران کوایک خاص نگاہ سے دیکھ رہے ہیں ، ان کاموقف ہے کہ ایران کی مشرقِ وسطیٰ میں مداخلت بڑھتی ہی جارہی ہے اوردہشت گردی کے فروغ میں بھی ایران حصہ لے رہاہے، انھیں شرقِ اوسط میں اپنے حلیفوں کی بھی یقیناً فکرہوگی، سوٹرمپ کھل کر ایران کودھمکیاں رہے ہیں اور دوسری طرف ایران بھی جرأت مندانہ جواب دے رہاہے، 10؍فروری کواسلامی انقلاب کی یادگارکے موقع پربرپاقومی جشن میں صدرروحانی نے لمبی تقریرکی اوراس دوران بھی انھوں نے امریکہ کونشانے پر لیا، جبکہ سڑکوں پرامریکی جھنڈے بچھائے گئے تھے، جسے لوگ روندتے ہوئے چل رہے تھے اورلوگوں کے ہاتھوں میں بڑے بڑے پلے کارڈس تھے، جن پر’’مرگ برامریکہ‘‘اور’’مرگ برٹرمپ‘‘جیسی عبارتیں تحریرتھیں ۔

    مگردوسری طرف جہاں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے دبے لفظوں میں ٹرمپ کے اس فیصلے کی گویاتایید کی گئی، وہیں دوسرے ممالک کی جانب سے کسی طرح کے مثبت یامنفی ردِ عمل کااظہارنہیں کیاگیا۔اصل بات تویہ ہے کہ ایران بھی صرف ماحول میں توازن پیداکرنے کے لیے امریکہ کو دو بدو جواب دے رہاہے، جبکہ بقیہ اسلامی اورعربی ملکوں میں سے بیشترمیں خوداندرونی طورپرہی باہمی بالادستی کی خوں ریزلڑائی چل رہی ہے، تووہ بے چارے ٹرمپ یاامریکہ کی جانب کیاتوجہ دیں گے، جن ملکوں کی جانب سے دبے لفظوں میں تاییدی بیانات آئے، وہ اپنے آپ کوتحفظ فراہم کرنے اورمستقبل قریب میں کسی ممکنہ خطرے سے بچنے کے پیشِ نظرہی جاری کیے گئے ہیں ۔پس سیاسی یاحکومتی سطح پرمسلمانوں کی نمایندگی کادعویٰ کرنے والے طبقے سے کسی قسم کے خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی، البتہ جومسلمان مغربی ملکوں میں آبادہیں یاجومشرقِ وسطیٰ یادیگرافریقی وایشیائی ملکوں سے ہجرت کرکے وہاں جابسے ہیں ، ان کے لیے لمحۂ فکر ہے۔

اجتماعی طورپراہلِ علم و دانش مسلمانوں کی ذمے داری ہے کہ وہ ان ملکوں میں رہتے ہوئے اپنے تشخص کے تحفظ کے لیے ہر ممکن طریقے پرغورکرنے کے ساتھ ان پر عمل کریں ، باہمی افہام و تفہیم اوربین المذاہب مکالمہ آج کے دورمیں کسی بھی دوطبقوں کے مابین پائی جانے والی غلط فہمیوں کودورکرنے میں اہم کردار ادا کرتاہے، اس پربھی زوردینے کی ضرورت ہے۔امریکی مسلمانوں کی جانب سے حالیہ دنوں میں ایک خوش آینداقدام دیکھنے کوملاکہ انھوں نے ٹیکساس اور ہیوسٹن کی مسجدوں میں آتشزدگی کے واقعے اورٹرمپ کے اعلان کے بعدمختلف مسجدوں میں عام اجتماعات کا انعقاد کیا اور ان میں ہر مذہب کے لوگوں کو دعوت دی گئی، اس موقع پرائمہ اورعلمانے لوگوں کوبتایاکہ مسلمان مساجدمیں کیاکرتے ہیں اور ان کے دین کی تعلیمات کیا ہیں ۔یہ طریقہ بھی مغرب میں لوگوں کواسلام سے قریب لانے کاایک مؤثرذریعہ ثابت ہوگا، اگریہ سلسلہ مضبوطی کے ساتھ جاری و ساری رہے، تومغرب میں تبلیغ ِاسلام کابھی دائرہ پھیلے گااور لوگوں کے دلوں میں اسلام یامسلمانوں کے تئیں جوچندبدگمانیاں ہیں ، وہ بھی بخوبی طورپر دورہوجائیں گی۔پھراگر اقتدار پر قابض مٹھی بھرلوگ سیاسی روٹی سینکنے یااپنی بیمارذہنیت کاثبوت دینے کے لیے مسلمانوں کونشانہ بناناچاہیں بھی، توکامیاب نہیں ہوسکیں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔