مسلم معاشرے کو مومن وکلا کی ضرورت ہے

ڈاکٹر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی

ربِ کائنات نے اپنے تخلیقی شاہکار انسان کو مشت خاک یعنی مٹی سے پیدا فرمایا جو مختلف النوع خصوصیات کا حامل ہے یہی وجہ ہے کہ ہمیں دنیا میں مختلف رنگت، طبائع، اہلیت اور صلاحیت کے حامل انسان نظر آتے ہیں۔ انسانوں کے درمیان پائے جانے والا یہ اختلاف اور تفاوت بندوں کے حق میں اللہ کی طرف سے ایک نعمت ہے لیکن جب اس میں نفسانی خواہشات اور شیطانی وساوس کا زہر کھل جاتا ہے تو آپسی رنجشیں، شخصی رقابیتں، حق تلفی، ظلم و جوراور قتل و غارت گیری کا بازار گرم ہوجاتا ہے۔ مظلوم اپنے ناکردہ گناہ سے خلاصی پانے، جھوٹے الزمامات سے بری ہونے اور انصاف کے حصول کے لیے عدالت کا رخ کرتا ہے تاکہ اسے اس کا جائز حق اور ذہنی سکون مل جائے۔ لیکن جب کسی انسان کو عدالت کے ماحول اور وہاں کی طویل المدت کارروائیوں کا تلخ تجربہ ہوتا ہے تو اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی دشمن کو بھی عدالت کی سیڑھیاں نہ چڑھائے چونکہ جو ایک مرتبہ عدالت کا رخ کرتا ہے پھر اسے ایسی لت لگ جاتی ہے کہ وہ بار بار عدالت کے چکر کاٹنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔اس عذاب کو بھگتنے میں کہیں نہ کہیں ہماری کوتاہیوں کا بھی دخل ہوتا ہے اگر ہم چاہیں تو حتی الامکان اپنے مسائل کا حل شریعت کی روشنی میں حل کرسکتے ہیں لیکن اس کے باوجود عدالت کا رخ اس لیے کرتے ہیں تاکہ ہمیں دنیوی منافع حاصل ہوجائیں۔

ہمارے اس ناعاقبت اندیشانہ رویہ کی وجہ سے آج ایک طرف مسلمانوں کا کروڑہا روپیہ اور وقت عدالت کی سالہا سال چلنے والی کارروائیوں میں ضائع ہورہا ہے تو دوسری طرف ہم ذہنی خلجان کا شکار ہورہے ہیں جس کے سبب بچوں کی تربیت پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ عدالت کا فیصلہ آنے تک حصول انصاف کے متمنی افراد کو جن نبرد آزما حالات سے گزرنا پڑتا ہے اس کی کئی ایک وجوہات ہیں مثلاً عدالت کا نظام، قانون کی باریکیاں، نزاکتیں اور پیچیدگیاں، جھوٹی گواہیاں، تعطیلات کی کثرت، بھارت یا ریاست بند کا بڑھتا ہوا رجحان، رشوت کا چلن، اثر و رسوخ کا بیجا استعمال، بعض وکلا کے دولت کے حصول کے لیے اپنائے جانے والے شاطرانہ ہتھکنڈے وغیرہ۔ مدعی یا مدعی علیہ اپنی طرف سے وکیل کو اس لیے مقررکرتے ہیں تاکہ وکیل، موکل کے معاملے کو عدالت کے سامنے قانونی اعتبار سے بہتر انداز سے پیش کرسکے تاکہ احقاق حق اور ابطال باطل ہوجائے اور جلد از جلد مظلوم کو ظالم کے ظلم سے نجات مل جائے لیکن یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ آج کل عدالت میں زیر دوراں اکثر معاملات انہی وکلا کی وجہ سے طول پکڑتے جارہے ہیں چونکہ بعض وکلا کی اکثر یہ کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اگلی تاریخ مل جائے۔

چونکہ یا تو وہ بحث کے لیے تیارنہیں رہتے، یا پھر فریق مخالف کی طرف سے تحائف کے عوض تاریخ بڑھانے کی ان سے خواہش کی جاتی ہے، یا پھر انہیں کسی دوسری عدالت میں حاضر ہونا ہوتا ہے وغیرہ۔اگر مسلم وکلا پوری مستعدی اور ایمانداری کے ساتھ مقدمات لڑنے کا تہہ کرلیں تو عین ممکن ہے کہ کئی مظلوم افراد کو انصاف حاصل کرنے میں سہولت ہوگی۔مثال کے طور پر فریقین میں سے کسی نہ کسی کا دعوی باطل پر مبنی ہوگا ہر دو فریق حق پر ہوں یہ ناممکن ہے۔ اس راز کو وکیل سے بہتر کوئی نہیں جانتا چونکہ جب کوئی وکیل کسی معاملے کو لڑنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے تو موکل اپنے تمام راز کی باتوں سے وکیل کو واقف کروادیتا ہے۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ وکیل اس بات سے اچھی طرح واقف ہوتا ہے کہ ان کا موکل حق پر نہیں ہے۔ عدل و انصاف اور انسانیت کا تقاضہ یہی ہے کہ وکیل اپنے موکل کو سمجھائیں کہ جھوٹا مقدمہ نہ لڑیں لیکن موجودہ معاشرے کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ بعض وکلا اپنے شخصی منافع اور دنیاوی مفادات کے لیے اپنے موکل کو نہ صرف جھوٹ بولنے کے لیے کہتے ہیں بلکہ جھوٹے شواہد تیار کرنے اور پیش کرنے کا طریقہ بھی سکھاتے ہیں۔

اس غلط روش کو صرف مومن وکیل ہی ختم کرسکتا ہے چونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ عمل ربِ کائنات کے حکم کی صریح خلاف ورزی ہے چونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے ’’ اور ایک دوسرے کی مدد کرو نیکی اور تقویٰ ( کے کاموں ) میں اور باہم مدد نہ کرو گناہ اور زیادتی پر‘‘ (سورۃ المائدۃ آیت 2)اپنے موکلین کو جھوٹ پر اکسانا یا جھوٹے شواہد اکٹھا کرنے یا پیش کرنے پر ابھارنا نہ صرف محولہ بالا آیت شریفہ کے حکم کے خلاف ہے بلکہ جھوٹ بولنے پر اللہ کی لعنت بھیجنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے ’’ پھر بڑی عاجزی سے (اللہ حضور) التجا کریں پھر بھیجیں اللہ تعالی کی لعنت جھوٹوں پر‘‘ (سورۃ آل عمران آیت 61)۔ اگر ہم حصولِ رزق کی بجائے رازق کی خوشنودی کے لیے اس غیر مومنانہ روش سے اجتناب کریں تو ہوسکتا ہے کہ مومن وکیل کے اس عمل سے دوسرے وکلا بھی متاثر ہوکر جھوٹے مقدمات لڑنے سے باز آجائیں اس طرح ایک طرف جھوٹے مقدمات دائر کرنے والوں کی ہمت ٹوٹ جائے گی تو دوسری طرف جعلساز مقدمات کی بھرمار سے عدالت کو بھی نجات مل جائے گی۔ بعض وکیل صاحبان ایسے بھی ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ ان کا موکل حق پر ہے لیکن وہ پوری فیس دینے کی استطاعت نہیں رکھتا اس لیے بعض وکیل صاحبان ایسے شخص کو قانونی امداد پہچانے سے صاف انکار کردیتے ہیں اور وہ موکلین جن کے بارے میں وکلا کو بھی کامل یقین ہوتا ہے کہ ان کا دعویٰ غلط ہے لیکن چونکہ وہ متمول حضرات ہوتے ہیں لہذا بعض وکلا ان کے کیس لڑنے کے لیے آسانی سے تیار ہوجاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ عدالت جس کا وجود مظلوم کو انصاف پہنچانے کے لیے ہوا ہے اسی مقام پر انصاف کا قتل عام کیا جارہا ہے جس کے سبب کئی کمزور و ضعیف الاعتقادی کا شکار افراد اپنے حق سے محرومی کے صدمے کو برداشت نہ کرتے ہوئے یا تو خودکشی کرلیتے ہیں یا پھر گمراہی کے راستے پر چل پڑتے ہیں اور خون ریز کارروائیوں میں ملوث ہوجاتے ہیں جس کے اثرات کئی نسلوں پر مرتب ہوتے ہیں۔ بحیثیت مسلمان ہم پر لازم ہے کہ ہم برائیوں کو روکیں نہ کہ انہیں بڑھاوا دیں۔ بعض وکلا مالی منفعت کے لیے فریق مخالف سے بھی روابط قائم کرلیتے ہیں جس سے نہ صرف حقدار کو انصاف میں ملنے پر تاخیر ہوتی ہے بلکہ بعض اوقات وہ اپنے جائز حق سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔ بعض مسلم وکلا ایسے بھی ہیں جو جج صاحبان کا اس قدر احترام کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ احترام کم پرستش زیادہ نظر آتی ہے۔ جج کے سامنے دونوں ہاتھ جوڑ کر اس قدر جھک جاتے ہیں جس طرح غیر مسلم حضرات دیوی دیوتائوں کے سامنے جھک جاتے ہیں۔ یہ نازیبا حرکت مومنانہ متانت و وقار کے بالکل مغائر ہے جس سے نہ صرف جذبۂ خودداری کو ٹھیس پہنچتی ہے بلکہ اس سے مسلمانوں کا وقار بھی مجروح ہوتا ہے۔

مذکورہ بالا حقائق اور اس طرح کے دیگر معاملات کی اصل دریافت کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ بعض وکلا ناتواں دماغ کے موہوم خیالات کا شکار ہوتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اس پیشہ کے لیے جھوٹ (جو تمام کجرویوں کا سرچشمہ ہے) کا استعمال اشد ضروری ہے اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی انسان جھوٹ بولتا ہے تو اسے موقتی دنیوی فائدہ ہوجاتاہے پھر وہ دوبارہ جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا ہے اس طرح وہ اس پر دوام و تسلسل کے ساتھ عمل کرنے لگتا ہے یہاں تک کہ جھوٹ بولنا اس کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہے اس طرح وہ جرائم، سیہ کاریوں اور گناہوں کے دلدل میں اس قدر دھنستا چلا جاتا ہے کہ پھر اس سے باہر آنے کے تمام دروازے اس کے لیے مسدود ہوجاتے ہیں۔ جھوٹ کی بنا پر ہم یقیناً دنیوی جج کو گمراہ کرسکتے ہیں لیکن کل بروز قیامت اس احکم الحاکمین کو کیا جواب دیں گے جس نے ہمارے اعمال کی تمام کلیات و جزئیات کو باریک بینی سے شمار کر رہا ہے۔ قرآن و سنت میں جھوٹ کے خلاف سخت ترین وعیدیں، واضح ترین دلائل و براہین اور قوی ترین پند و نصائح وارد ہوئے ہیں۔

جہاں تک تجارت کا تعلق ہے تو یہ بات مسلم ہے کہ ہر تجارت میں نفع و نقصان کا پہلو ہوتا ہے لیکن قرآن حکیم نے اپنے ماننے والوں کو ایسی تجارت کی طرف رہبری و رہنمائی فرمائی جس میں صرف نفع ہی نفع ہے نقصان کا کوئی تصور ہی نہیں۔ خالق کونین ارشاد فرماتا ہے ’’ اے ایمان والو! کیا میں آگاہ کروں تمہیں ایسی تجارت پر جو بچالے تمہیں دردناک عذاب سے (وہ تجارت یہ ہے کہ) تم ایمان لائو اللہ اور اس کے رسول پر اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے یہی طریقہ بہتر ہے اگر تم (حقیقت کو) جانتے ہو‘‘ (سورۃ الصف آیات10-11)

یعنی اگر ہم اپنی جانی و مالی منفعت کو اللہ اور اس کے حبیبﷺ کی تعلیمات پر قربان کردیں گے تو اللہ تعالی ہمیں دنیوی و اخروی عذاب سے بچالے گا۔ آج کے مسلم معاشرے کو ایسے مومن وکلا کی سخت ضرورت ہے جو دنیوی منفعت کو خاطر میں لائے بغیر زیر زمین مخلوقات کو بغیر کسی وسیلہ کے رزق پہنچانے والی ذات پر کامل بھروسہ کرتے ہوئے مومنانہ صفات کے مطابق عدالت میں مقدمہ کی پیروی کرنا شروع کردیں تواس عمل سے ایک طرف انسانیت کو فروغ ملے گا تو دوسری جانب ہمارا یہ عمل غیر مسلم وکلا برادری میں تبلیغ اسلام کا ایک خاموش لیکن موثر ذریعہ ثابت ہوگا جس کے بحیثیت مسلمان ہم سب مکلف ہیں۔ اگر مسلم وکلا اس طرح کا ماحول بنانے میں کامیاب ہوگئے تو ایک طرف یہ غریب، نادار، بے نوا اور حق سے محروم افراد و موکلین کے حق میں نعمت مترقبہ ثابت ہوگا تو دوسری جانب غیر مسلم وکلا برادری میں تبلیغ اسلام کا ایک خاموش لیکن موثر ذریعہ ثابت ہوگا جس کے بحیثیت مسلمان ہم سب مکلف ہیں۔

رہی بات رزق کی تو اللہ تعالی اپنے کلام میں مطیع وفرمانبردار بندوں کو یہ نوید سنائی ہے ’’انہیں کے لیے بشارت ہے دنیوی زندگی میں اور آخرت میں نہیں بدلتی اللہ تعالی کی باتیں یہی بڑی کامیابی ہے‘‘ (سورۃ یونس آیت 64)۔ نیک اور صالح سیرت رکھنے بندوں کی زندگی بھی سنورجاتی ہے اور عقبی بھی۔ اس کے برعکس اگر ہم اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی سے دنیوی محلات بھی تعمیر کرلیں تو نہ وہ ہمارے لیے دنیا میں طمانیت قلب کا سبب بن سکتے ہیں اور نہ اخروی نجات کا باعث۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفی ﷺ ہمیں قرآن اور صاحبِ قرآنﷺ کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین

تبصرے بند ہیں۔