ہم جنس پرستی

 الطاف جمیل ندوی

انسان کو اللہ تعلیٰ کی تخلیق کردہ کائینات میں ایک اعلیٰ و ارفع مقام حاصل ہے اور بنی آدم اپنی اس حثییت اور مقام کو بھلا کر اور اسے صرفِ نظر کرتے ہوئے سفلیت کی اتھاہ گہرائیوں میں ہی گرنا پسند کرے تو سمجھ لیجئے کہ اسے مقام انسانیت کے جس عظیم مرتبہ پر فائز کیا گیا تھا، اسے اس نے فراموش کرکے اپنے لئے ایک ایسی راہ کا انتخاب کیا جو اسے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں جالے ڈوبے گی۔ اللہ تعلیٰ نے انسان کی ہر ضرورت کا خیال رکھتے ہوئے اور اس کی تکمیل کے لئے جائز راستے کا انتخاب کیا ہے۔ نسل انسانی کو آگے لے جانے کے لئے اوراس کی جائز ضرورت کے لئے خالق کائینات نے جہاں اس کے لئے انواع و اقسام کی غذائیں اور دیگر چیزیں فراہم کی ہیں وہی اس کی جنسی تسکین کے لئے اس ہی کی جنس میں سے جائز انتخاب کے بعد حلال ٹھرایا ہے۔ یوں انسان کی نسل بھی آگے بڑھتی ہے۔ یہ انتظام نہ ہو تو ہر سو انارکی، بے راہ روی اور سماج کا تانا بانا بکھر جائے گا۔

 انسان کو اللہ تعلیٰ کی جانب سے اس طرح کے انتطام کے بعد ادھر اُدھر تانک جھانک کے بجائے اسی جائز ذریعہ کو اختیار کرلینا چاہئے تھا لیکن وائے افسوس انسان نے یہاں بھی اپنی اُپج سے کام لے کر پاک طریقہ کو تج دے کر ایک ایسی راہ اختیار کرلی کہ اس کا ذکر کرتے ہی گھن آتی ہے۔

ہم تو گرے ہوئے انسان کو کبھی جانور کہتے ہیں یا حیوان ِحالانکہ حیوان شعور، عقل و آگاہی کے جوہر سے محروم ہونے کے باوجود اس طرح کی گندی حرکت نہیں کرتا لیکن ایک حضرت انسان ہے کہ پاک و طیب ذرائع کو چھوڑ کر ان چیزوں کے پیچھے پڑجاتا ہے جو ظاہر و باطن میں گندگی کے ڈھیر کے مماثل بھی نہیں۔

 حیوان فطرت کے مقابل نہیں جاتے اورکبھی بھی غیر فطری طریقوں کا سہارا نہیں لیتے۔ وہ فطرت کے عین مطابق زندگی گزارتے ہیں۔ بسایک انسان ہے جو حیوان ناطق ہی ہے لیکن اُس نے فطرت کے خلاف بغاوت کا اعلان کرکھا ہے اور ابتدائے آفرینش سے اس پر عمل پیراہے۔

     جنس مخالف میں انسانوں میںکشش رکھی گئی اسے سکون و راحت کا ذریعہ بنایا گیا۔ اسے حیوانوں نے ہو بہو اپنا ل یا لیکن اس کے برعکس انسان نے کئی اور طریقے وضع کئے اور اپنے جنسی تسکین کے لئے کبھی اپنے ہی ہم جنس سے حض حاصل کرنے کی کوشش کی اور کبھی اور نیچے گرکر جانور کے ساتھ بھی جنسی عمل کرکے اپنے اندر کے شیطان کو تسکین پہنچانے کی کوشش کی۔ یہ ہم جنس پرستی انسانوں میں پائی جاتی ہے لیکن حیوان ابھی تک اس وبا سے بچے ہوئے ہیں۔ کیا پتہ کل ان میں یہ لعنت ظاہر ہو کہ انسان کی صحبت میں انسان حیوان بن جاتا ہے اور جس جانور کو عقل، شعور اور آگاہی نہ ہو، ممکن ہے وہ نقل کرتے ہوئے انسان تو نہ بن جائے لیکن انسان کی اس عادت خبیثہ کو اپنا کر انسان کا قائم کردہ ریکاڑ توڑے۔

ابھی تک تو حیوانوں کی نسل نے اس سلسلے کو اپنانے سے انکار کرتے ہوئے انسان کوعملاََ شکست فاش دی ہے اور اس بات پر حیران و پریشان ہے کہ انہیں درندہ صفت کہہ کر یہ خلیفة الارض اپنی بڑائی کا اعلان تو کررہا ہے لیکن جنسی تسکین کے لئے جنس کی تمیز کئے بغیر اپنی ہوس پوری کررہا ہے۔ حیوان تو خیر سے ایسے معاملات میں بری ہیں لیکن کیا کہئے کہ ایک انسان جسے مہذب اور اشرف المخلوقات ہونے پر فخر و غرور ہے اورس قدر اوچھے کام انجام دے کہ اپنے لئے عذاب اللٰہی کو دعوت دے رہا ہے۔

 بات ہورہی ہے ہم جنس پرستی کی جسے قانون کے محافظین نے یہ کہہ کر صحیح جتلایاکہ یہ انسانیت کی آزادی ہے کہ ان کے حقوق انہیں دئے جائیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انسان آزاد ہے۔ اسے اپنے جسم اور اسے تسکین پہنچانے سے متعلق پابند نہیں کیا جاسکتا۔ بس پھر کیا تھا،قانون سازی کی گئی۔ اس پر پابندی یا معیوب سمجھنے پر دلائل پیش کئے جانے لگے اور بالآخر اس غیر فطری جنس پرستی کے لئے دروازہ کھول کر معاشرے کی تباہی کا سامان کیا گیا۔ نام نہاد مہذب دنیا میں اس وبا کو پسند کرنے والوں کو من کی مراد ملی۔ گھر گرہستی کے جھمیلوں سے راہ فرار اختیار کرنے والوں کے وارے نیارے ہوئے۔ نقارے بج اٹھے، جشن منایا گیا، شادیانے بجائے اور جھوم اٹھے۔

اس حد تک اخلاقی گراوٹ کا مظاہرہ کرنے کے باوجود کچھ سعید روحیں چیخ اٹھی، وہ چلائے، رویا، ماتھا پیٹا، دہائی دی۔ دنیا کو سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ سب غلط ہے۔ لیکن نقار خانے میں طوطے کی آواز کون سنتا ہے۔ ان سنی کی گئی اور فخراََ انسان کی آزادی کا اعلان کیا گیا۔

 سوال یہ ہے کہ عدلیہ کے چند افراد کیسے صائب رائے ہوسکتے ہیں۔ کیا وہ انسان کی فطرت سے متعلق رائے دینے اور صلاح دینے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں کیا وہ فطرت کے اصولوں کے خلاف انسان کی رہنمائی کرسکتے ہیں۔ کیا وہ ہر بات صحیح طور سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

مصنف حضرات کیا بتانا پسند کریں گئے کہ آپ کس تہذیب کی بات کررہے ہیں۔ تہذیب کا مطلب اگر ہندو ازم ہے تو اس مذہب میں تو ایسی بے ہودگئی کا کہیں تصور بھی نہیں عیسائیت میںا گرچہ آزاد خیالی کی حد تک اجازت ہے لیکن اسے مکمل تصور کے طور کبھی بھی تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ پھر اس تخئیل شیطانی کا ماخز کہاں اور کیا ہے۔ جہاں تک میں نے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ وہ یہ ہے کہ یہ انسان کی مذہب بیزاری کے ساتھ ساتھ آزاد خیالی ہے کہ انسان ہر چڑھتے سورج کے ساتھ اخلاقی طور گرتا جارہا ہے اور حق یہ ہے کہ دنیا میں کسی بھی مذہب نے اسے کبھی بھی جائز نہیں ٹھرایا ہے۔

 دنیا کے اکثر ممالک جن مین چند مسلم ممالک بھی ہیں اس لعنت کی وبا میں مبتلاءافراد موجود ہیں اور کھلے عام اس بہودہ پن کی تشہیر بھی کرتے رہتے ہیں۔ ان لوگوں نے ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انجمنیں بنائی ہیں۔ بے بسی کا رونا روتے ہیں۔ اپنے حقوق طلب کرتے رہتے ہیں اور غلاظت میںغوطہ زن ہونے کے لئے ایک طرف خود کو مادر پدر آزاد ہونے کے لئے سند جواز ڈھونڈ تے پھر رہے ہیں اور دوسری طرف اسے جائز قرار دینے کے لئے اسی قانونی حثییت سے منوانے کی جستجو کررہے ہیں

 ہم کسی فرد واحد یا کسی مذہب کو مورد الزام ٹھرائیں تو یہ سراسرظلم ہے کیونکہ اس گندگی میں ڈبکی لینے کے لئے جنس کی کوئی تمیز نہیں کی جاسکتی بلک، وہی یہ بھی حق ہے کہ اس باطل ذہنیت کے پودے سے خوشہ چینی کے لئے بلا لحاظ مذہب یہ لوگ ایک ہورہے ہیں۔

      ہم جنس پرستی کے شوقین اور متمنی لوگوں کے لیے عام اصطلاحات میں عورتوں کے لیے لیسبئین (lesbian) اور مردوں کے لیے (gay) کی اصطلاع استعمال کی جاتی ہے، تاہم ہم جنس عورتوں اور مردوں دونوں کا حوالہ دینے کے لیے عام طور پر گے (gay) کی اصطلاح زبان ذد عام ہے۔ مختلف وجوہات کی بنا پر محققین کے لیے ایسے لوگوں کی تعداد کے تناسب کا قابل اعتماد اندازہ لگانا مشکل ہے جو خود کو گے (gay) یا لیسبیئن (lesbian) کے طور پر شناخت کراتے ہیں اور ہم جنس سے جنسی تجربات رکھتے ہیں۔ بشمول بیشتر ہم جنسی مرد اور عورتیں ہوموفوبیا (Homophobia) اور ہیٹروسیکسٹ (Heterosexist)تفریق کی وجہ سے کھل کے خود کی شناخت نہیں کراتے۔

اس کی تباہ کاریاں بہت زیادہ ہیں جن کے بارے میں ڈاکٹر محمود حجازاپنی کتاب ” الامراض الجنسی والتناسلی ” ( جنسی اورتناسلی امراض ) میں لواطت کی بنا پر ہونے والے بعض خطرات اورنقصانات بیان کرتے ہو کہتے ہیں وہ امراض جولواطت جنسی سے متقل ہوتے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں :

1 – ایڈز، یہ ایک ایسا مرض ہے جس سے قوت مدافعت جاتی رہتی ہے جس سے عادتاََموت واقع ہوجاتی ہے 2- جگرکی بیماری -3 – زھری کا مرض۔4 – مرض سیلان۔5 – جرثومی میلان کی جلن۔6 – ٹائیفائڈ۔7 – اینماءکا مرض8 – انتڑیوں میں کیڑے پڑنا۔9 – خارش ( چنبل ) 10 زیرناف جوو ¿ں کا پڑنا۔11 – سائٹومگلک وائرس جو سرطان کا باعث بنتا ہے۔12 – تناسلی امراض

اس عمل خبیث کے بارے میں رب الکریم کی کتاب میں فرمان ہے

تم مردوں کے ساتھ شہوت زنی کرتے ہو } پھر اللہ سبحانہ وتعالی نے اس کی قباحت کی تاکید بیان کی کہ لواطت ایسا کام ہے جو مردوں کی فطرت کے برعکس ہے جس پراللہ تعالی نے انہیں پیدا فرمایا ہے، اورانہوں نے اس طبعیت کوبھی بدل کررکھ دیا جواللہ تعالی نے مردوں میں رکھی ہے کہ اللہ تعالی نے جوطبعیت رکھی ہے وہ عورتوں کی خواہش ہے مردوں کی نہیں لیکن انہوں نے معاملہ الٹ کر رکھ دیا اورفطرت وطبعیت کے برعکس چلنے لگے اورمردوں سے مرد تعلقات استوار کرنا شروع ہوگیاتواللہ تعالی نے اسی لیے ان پر ان کے گھروں کوالٹ پلٹ کر رکھ دیا اوراسی طرح انہیں پلٹا اورعذاب میں انہیں سرکے بل گرا دیا۔ پھر اللہ تعالی نے اس کی قباحت کی تاکید کرتے ہوئے اس پرحکم لگا یا کہ یہ اسراف اورحد سے تجاوز ہے۔ فرمان باری تعالی ہے ( بلکہ تم تو اسراف وزیادتی کرنے والی اورحد سے بڑھی ہوئی قوم ہو )

آپ ذرا غورو فکر توکریں کہ زنا میں بھی اس طرح یا پھر اس کے قریب کے فرامین موجود ہیں، اوراللہ تعالی نے ان کے لیے یہ فرمان بھی جاری کیا

 اورہم نے اسے اس بستی والوں سے نجات دی جو خباثتوں اورفحش کام کرتے تھے } پھر اللہ تعالی نے ان کی مذمت کرتے ہوئے انہیں ایک انتہائی اورآخری قبیح وصف سے نوازتے ہوئے فرمایا : بلاشبہ وہ فاسق اوربرائی کرنے والی قوم تھی } الانبیاء ( 74 )۔

اورانہیں ان کے نبی کے قول میں فسادیوں کے نام سے نوازا ور میرے رب مجھے میری فسادی قوم کے خلاف مدد وتعاون عطا فرما } الانبیاء( 75 )۔

اورفرشتوں کی زبان سے ابراھیم علیہ السلام کے سامنے انہیں ظالم کہا ( بلاشبہ ہم اس بستی والوں کوھلاک کرنے والے ہیں بلاشبہ اس کے رہنے والے ظالم قسم کے لوگ ہیں } العنکبوت ( 31 )

آپ غورکریں کہ اس جیسی سزا کسے دی گئی اوراس طرح کی مذمت کس کی گئی ہے۔ لذتیں ختم ہوجاتی ہیں اورحسرت ویاس باقی رہتی ہے، شہوت ختم ہوجاتی ہیں اپنے پیچھے شقاوت و بدبختی وراثت میں چھوڑ جاتی ہے، یہ کام کرنے والے فائدہ توبہت کم حاصل کرتے ہیں لیکن ایک طویل عذاب کا شکارہوجاتے ہیں۔ وہ مضر اور ردی قسم کی زندگی گزارتے رہے جس کی سزا میں انہیں عذاب کا سامنا کرنا پڑا، انہیں شہوات کے نشہ نے مدہوش کردیا اورجب انہیں ہوش آیا تووہ عذاب والوں کے ساتھ تھے، وہ اس غفلت میں سو رہے اورجب بیدارہو تو ھلاکت والے گھر میں تھے۔۔۔۔

کائنات کے امام رسول اکرم ﷺنے فرمایا تھا: ”جب کسی قوم میں بدکاری کی کثرت ہو گی یہاں تک کہ وہ کھلے عام اس کا ارتکاب کرنے لگیں تو ان میں پلیگ اور ایسی تکلیف دہ بیماری کا ظہور ہو گا جو ان کے پہلے لوگوں میں کبھی بھی پیدا نہ ہوئی ہو گی۔“ (سنن ابن ماجہ: 4019 حسن)

 جسے ایسا عمل کرتے پاﺅ تو فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کر دو۔ اس باب میں حضرت جابر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے بھی روایات مذکور ہیں۔ ہم اسے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے صرف اسی طریق سے پہچانتے ہیں۔ محمد بن اسحاق نے اس حدیث کو عمرو بن ابی عمرو سے روایت کیا اور فرمایا قوم لوط کا سا عمل کرنے والا ملعون ہے، قتل کا ذکر نہیں کیا۔ نیز یہ بھی مذکور ہے کہ چوپائے سے بدفعلی کرنے والا بھی ملعون ہے۔ بواسطہ عاصم بن عمر، سہیل بن ابی صالح اور ابوصالح، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی یہ روایت مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: فاعل اور مفعول (دونوں) کو قتل کر دو۔ تابعین جن میں حضرت حسن بصری، ابراہیم نخعی اور عطاءبن ابی رباح رحمہم اللہ شامل ہیں، فرماتے ہیں لواطت کرنے والے کی حد وہی ہے جو زانی کی ہے۔ سفیان ثوری اور اہل کوفہ رحمہم اللہ کا بھی یہی قول ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔