کوئی چھٹکارا دلائے مجھے ویرانی سے
عبدالکریم شاد
کوئی چھٹکارا دلائے مجھے ویرانی سے
جی بہلتا نہیں دنیا کی فراوانی سے
…
شعلہء نفس بھڑکتا ہے اسی پانی سے
"آنچ آتی ہے ترے جسم کی عریانی سے”
…
وصل کے بعد مرے چہرے کی رنگت بدلی
آئینہ دیکھ رہا ہے مجھے حیرانی سے
…
ایسا لگتا ہے اسے اب مری پروا ہی نہیں
تنگ آتا ہی نہیں اب مری من مانی سے
…
مدعا لب پہ رکا رہ گیا آتے آتے
قلب کا حال عیاں ہو گیا پیشانی سے
…
میرا دل اور تری زلف ہیں یکساں اس طور
باز آتے نہیں دونوں ہی پریشانی سے
…
عقل مندی کہیں گمراہ نہ کر دے تجھ کو
عشق میں کام لیا جاتا ہے نادانی سے
…
شاد رکھتی ہیں مجھے ہجر میں تیری یادیں
جیسے روشن ہے قمر شمس کی تابانی سے
تبصرے بند ہیں۔