کوئی چھٹکارا دلائے مجھے ویرانی سے

عبدالکریم شاد

کوئی چھٹکارا دلائے مجھے ویرانی سے

جی بہلتا نہیں دنیا کی فراوانی سے

شعلہء نفس بھڑکتا ہے اسی پانی سے

"آنچ آتی ہے ترے جسم کی عریانی سے”

وصل کے بعد مرے چہرے کی رنگت بدلی

آئینہ دیکھ رہا ہے مجھے حیرانی سے

ایسا لگتا ہے اسے اب مری پروا ہی نہیں

تنگ آتا ہی نہیں اب مری من مانی سے

مدعا لب پہ رکا رہ گیا آتے آتے

قلب کا حال عیاں ہو گیا پیشانی سے

میرا دل اور تری زلف ہیں یکساں اس طور

باز آتے نہیں دونوں ہی پریشانی سے

عقل مندی کہیں گمراہ نہ کر دے تجھ کو

عشق میں کام لیا جاتا ہے نادانی سے

شاد رکھتی ہیں مجھے ہجر میں تیری یادیں

جیسے روشن ہے قمر شمس کی تابانی سے

تبصرے بند ہیں۔