مسلم معاشرے کو مومن ڈاکٹرز کی ضرورت ہے

ڈاکٹر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی

جس طرح دولت و مفلسی، علمی لیاقت وپسماندگی، شجاعت و بزدلی، حاکمیت و غلامی، حریت و پیرانہ سالی، عزت و رسوائی، عیش و عشرت و بھوک مری، حیات و دنیا سے رخصتی، ہدایت و گمراہی، طمانیت و بے قراری، صالحیت و بدچلنی، نیک طینت و بد بختی اللہ تعالی کی طرف سے ہوتی ہیں اسی طرح صحت و تندرستی اور نقاہت و بیماری بھی اللہ تعالی ہی کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ چنانچہ حضرت سیدنا ابراہیمؑ ربوبیت کے مختلف مراحل سے دنیائے انسانیت کو روشناس کرواتے ہوئے حقیقت کے اس پہلو کی طرف بھی توجہ دلائی اور فرمایا۔ ’’اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھے صحت بخشتا ہے‘‘ (سورۃ الشعراء آیت 80) جب انسان کو کوئی بیماری لاحق ہوجاتی ہے تو اس کی زندگی کے تمام معاملات معطل ہوجاتے ہیں اور وہ دوسروں کا محتاج ہوجاتا ہے جس سے ہمیں اس طرف اشارہ ملتا ہے کہ انسان چاہے کتنی ہی خصوصیات و امتیازات کا حامل کیوں نہ ہو لیکن اگر طبیعت میں ذرہ سے ناسازی پیدا ہوجائے تو انسان مجبور محض بن جاتاہے۔ لہذا ہمیں سونچنا چاہیے کہ ہم کسی چیز پر فخر کرنا کب زیب دیتا ہے۔ اگر ہم جسمانی بیماری کا شکار ہوجاتے ہیں تو ہم اپنے جسم کو حرکت دینے کی بھی طاقت نہیں رکھتے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ تندرستی ہزار نعمت ہے۔ حضور پرنُورﷺ کا ارشاد گرامی ہے پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں یعنی (1) جوانی کو بڑھاپے (2)صحت کو تندرستی (3)مالداری کو تنگدستی (4) فرصت کو مشغولیت اور (5) زندگی کو موت سے سے پہلے غنیمت جانو۔ (مستدرک للحاکم) محولہ بالا آیت شریفہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بیماری اور اس سے شفایابی اللہ تعالی کی رحمت و عنایت پر منحصر ہے۔

چونکہ دنیا دار الاسباب ہے اسی لیے اللہ تعالی نے بعض خوش نصیب لوگوں کو بیماری کا مداوا کرنے کے لیے پیدا فرمایا ہے جنہیں عرف عام میں ڈاکٹر کہا جاتا ہے۔ چونکہ اللہ تعالی ڈاکٹر کے ذریعہ سے انسان کو بیماری سے نجات دیتا ہے اسی لیے معاشرے میں یہ پیشہ بڑی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور پیشۂ طب خالص خدمت خلق کا مظہر تصور کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹرز کی خدمات انسانی معاشرے کے لیے ناقابل فراموش اور انمول ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس پیشہ کو کچھ عرصہ پہلے تک غیر منفعت بخش اداروں میں شمار کیا جاتا تھا لیکن اب مغرب پرستی کا خمیازہ، مادہ پرستی کا وبال اور شریعت مطہرہ سے دوری کا عذاب ہے کہ وہ مقدس پیشہ جسے خدمتِ خلق کے جذبہ سے سرشار ہونا چاہیے تھا اب اہم تجارتی مرکز میں تبدیل ہوگیا ہے۔ علم وہ نور ہے جو تاریک پردوں کو چاک کرکے انسانیت کو روشنی عطا کرتا ہے لیکن موجودہ معاشرے میں انسان نے تعلیم سے زیادہ ڈگری کے حصول پر اپنی توجہ مرکوز کررکھی ہے یہی وجہ ہے کہ جتنی تعلیمی ڈگریاں بڑھتی جارہی ہے اتنا ہی زیادہ معاشرے کو خطرہ لاحق ہورہا ہے۔ مثال کے طور پر جہیز جو بذات خود ایک لعنت ہے جو معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ طرفہ تماشہ یہ کہ ہم میں سے اکثر نے جہیز جیسی لعنت کو علم کے ساتھ جوڑ دیا ہے یعنی جہیز کا تعین اب ہمارے معاشرے میں تعلیمی ڈگریوں کی بنیاد پر ہونے لگا ہے اگر میٹرک پاس لڑکے کے والدین لڑکی والوں سے جہیز میں پانچ لاکھ روپیوں کا مطالبہ کررہے ہیں تو وہ والدین جن کا لڑکا ڈاکٹر یا انجینئر ہے وہ جہیز میں بیس لاکھ روپیوں کی مانگ کو اپنا جائز حق سمجھ رہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ انسان کو کسی نعمت سے سرفراز فرماتا ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ انسان اس نعمت کو اپنی خواہشات اور تمناؤں کے مطابق استعمال کرے بلکہ اس پر اولین ذمہ داری یہ عائد ہوتی ہے کہ وہ اس نعمت کا شکر ادا کرے اور شکر ادا کرنے کا عملی تقاضہ اور بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس نعمت کا استعمال خدا اور اس کے رسولﷺ کی خوشنودی کے لیے کیا جائے۔ چونکہ یہ حقیقت ہے کہ انسان کتنے ہی امتیازات و خصوصیات کا حامل کیوں نہ ہواگر وہ بغاوت، سرکشی اور معصیت کے دلدل میں دھنس جاتا ہے تو یہ روش اس کے حق میں نعمات کے زوال کا سبب بن جاتی ہے اور زحمت و مشقت اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ اور اگر انسان اپنی قوت، استعداد، مہارت کا استعمال اور مفوضہ ذمہ داریوں کو احسن طریقہ سے انجام دیتا تو اس کا یہ عمل جہاں معاشرے کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوتا ہے وہیں اس کے حق میں بقائے نعمت، ترقی اور کمال کا سبب بھی بنتا ہے۔ لہذا ہماری ذمہ داری ہے کہ نعائم الہیہ پر فخر کرنے کے بجائے عاجزی و انکساری کے ساتھ زندگی گزارنے کو ترجیح دیں۔ اگر ایسا کرنے میں ہم ناکام ہوگئے اور نعمتوں کا حق ادا نہ کرسکے تو اللہ تعالی فرماتا ہے ’’پھر ضرور پوچھا جائے گا تم سے اس دن جملہ نعمتوں کے بارے میں ‘‘ (سورۃ التکاثر آیت 8)

یعنی دنیا میں تو کسی طرح عیش و عشرت کی زندگی گزارلوگے لیکن قیامت کے دن تمہیں ہر نعمت کا جواب دینا ہوگا۔ انسانی شرافت اور اس کی عظمت کا تقاضہ تو یہ ہے کہ اس کا ہر طرح سے اکرام و احترام کیا جائے لیکن مادہ پرستی نے ہمیں اس قدر غافل کردیا ہے کہ ہم اس انسان کو ذلیل و رسوا کررہے ہیں جسے قدسی صفات ملائکہ نے سجدہ کیا، جو چمنستان تکوین کا گلِ سرسبد ہے، جو ساری کائنات کا خلاصہ اور تمام مخلوقات پر فضیلت رکھنے والا ہے۔ قرآن بارہا اس قصے کو دہراتا ہے کہ معلم الملائکہ، طاؤس الملائکہ اور میر ملائکہ شیطان صرف اس لیے راندۂ درگاہ اور معلون یعنی رحمت کردگار سے محروم ہوا چونکہ اس نے انسان کی اصل یعنی حضرت سدنا آدمؑ کا احترام نہیں کیا۔ نہ صرف وہ جنت سے خارج کردیا گیا بلکہ وہ طویل عرصے سے بجالانے والے عبادات و اعمال کے ثمرات و برکات سے بھی محروم کردیا گیا۔ اگر ہم بھی وہی روش اختیار کریں گے تو نتیجہ تو بالکل وہی برآمد ہونا ہے جو شیطان کا ہوا تھا یہی وجہ ہے کہ مالی آسودگی اور معاشی مرفع الحالی کے باوجود ہم سکونِ قلب سے محروم اور انسانی اقدار سے عاری ہوتے جارہے ہیں جس کے سبب سارا معاشرہ زحمات و تکالیف کی آماجگاہ بنتا جارہا ہے۔

جب کوئی مریض انتہائی تکلیف اور کرب کے عالم میں ہاسپٹل سے رجوع ہوتا ہے تو اکثر دواخانوں میں اس کے لیے Consultation Fee یعنی مشورہ حاصل کرنے کے لیے فیس ادا کرکے ملٹی کلر عمدہ و نفیس کاغذ پر طبع شدہ کارڈ بنوانا ضروری کردیا گیا ہے جس میں ڈاکٹر کے تعلیمی کوائف اور ہاسپٹل کی تفصیلات کے علاوہ چند سطریں اور صفحات مریض کے لیے مختص ہوتی ہیں۔ گویا یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اس کارڈ کی طباعت پر جو مصارف عائد ہوتے ہیں وہ لاگت مریضوں سے وصول کی جارہی ہے۔ حد تو اس وقت ہوجاتی ہے جب کارڈ کی قیمت ادا کرنے کے بعد مریض سے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ آپ کا علاج یہاں ممکن نہیں کسی اور دواخانے سے رجوع ہوں۔ کیا ہمارا یہ عمل ان غریب اور متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے مریضوں کے حق میں صحیح ہے جن کی یومیہ آمدنی بمشکل 100 یا 300 روپے ہوتی ہے؟ آج کل دواخانے میں امیر طبقہ کے لیے ایرکنڈیشنڈکمرے اور غر با کے لیے عام کمرے بنائے جارہے ہیں کیا یہ جذبہ مساوات انسانی کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف نہیں ہے؟۔ مریض اور اس کے اہل خانہ کے لیے یہ لمحہ آخرت کو یاد کرنے کا ہے لیکن ہم ان نازک لمحات میں بھی عیش و عشرت کو ترجیح دے رہے ہیں کیا یہ ہماری غفلت کی طرف اشارہ نہیں ہے؟۔

اگر ہم شریعت کے مزاج پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندوں کو انکی بشری طاقتوں سے بڑھ کر حکم نہیں فرماتا۔ نماز کھڑے ہوکر پڑھنا مشروع ہے اگر کوئی شخص کھڑا نہیں ہوسکتا اسے بیٹھ کے پڑھنے کو کہا گیا اگر کوئی بیٹھ نہیں سکتا تو اسے لیٹ کر ادا کرنے کی سہولت دی گئی اگر لیٹ کر ادا نہیں کرسکتا تو اسے اشاروں سے نماز پڑھنے کا اختیار دیا گیا۔ نماز کو سفر میں قصر کرنے کا حکم ہے، وضو کرنے میں دشواری ہو تو تیمم کرنے کا حکم ہے۔ نقاہت و کمزوری کے سبب زندگی بھر روزہ نہیں رکھ سکتے ان کے لیے فدیہ کا نظام دیا گیا، اگر کوئی حالت سفر یا مرض میں ہے تو انہیں افطار کی سہولت بخشی گئی۔ اسی طرح مالی عبادتوں یعنی زکوٰۃ اور حج میں بالترتیب نصاب اور استطاعت کی شرط رکھی گئی۔ چونکہ زکوٰۃ اور حج ادا کرنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہے۔ جب اللہ تعالی اپنے بندوں پر اتنا رحیم و کریم ہے تو ہمیں کیا حق پہنچتا ہے کہ ہم انسان کی تکالیف دور کرنے کے بجائے اسے مزید تکالیف میں مبتلا کردیں۔

بحیثیت خلیفہ ہم پر لازم ہے کہ ہم انسان کی استطاعت دیکھ کر اس کے ساتھ معاملات کریں لیکن اکثر دواخانوں میں یہ دیکھا جارہا ہے کہ ڈاکٹر مریض کو مختلف ایکسرے کروانے کو کہتے ہیں جس کی ضرورت بھی نہیں ہوتی لیکن یہ صرف اس لیے کروائے جاتے ہیں چونکہ ایکسرے کرنے والوں سے ڈاکٹر یا انتظامیہ کے درمیان کمیشن کا معاہدہ ہوتا ہے۔ یہی حال میڈیکل ہالس کا بھی ہے ڈاکٹر مہنگی اور مختلف اقسام کی دوائیاں تجویز کرتے ہیں جہاں دو تین دن کی دوائیوں سے مریض کو افاقہ ہونا ممکن ہوتا ہے وہاں اسے پندرہ دن یا پھر ایک ماہ کی دوائیاں لینے پر مجبور کیا جاتا ہے تاکہ کمیشن پر کوئی اثر نہ پڑے۔ اسلام مادہ پرستی نہیں بلکہ انسانیت نوازی کی دعوت دیتا ہے چنانچہ خلیفہ اول حضرت سیدنا ابو بکر صدیقؓ ارشاد فرماتے ہیں کسی کو رنج و مصیبت میں مبتلا کرنے والا کبھی خوش نہیں رہ سکتا۔

خلیفہ دوم حضرت سیدنا عمر فاروقؓ ارشاد فرماتے ہیں کسی کی بے بستی پر مت ہنسو کل یہ وقت تم پر بھی آسکتا ہے۔ خلیفہ سوم حضرت سیدنا عثمان غنیؓ ارشاد فرماتے ہیں کسی کی آنکھ تمہاری وجہ سے نم نہ ہو کیوں کہ تمہیں اُس کے ہر آنسو کا قرض چکانا ہوگا۔ خلیفہ چہارم حضرت سیدنا علی المرتضیؓ ارشاد فرماتے ہیں مظلوم کی آہ سے بچوچونکہ مظلوم کی آہ اور اللہ تعالی کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔ مذکورہ بالا خلیفہ راشدین کے اقوال زریں کی روشنی میں ہم لازم ہے کہ ہم مظلوموں بالخصوص مریضوں کے ساتھ انتہائی شفقت اور رحمدلی کے ساتھ پیش آئیں۔ ہمارا ایک عمل جہاں انسان کی راحت کا سبب بن سکتا ہے وہیں اسے تکلیف پہونچانے کی وجہ بھی بن سکتا ہے فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے ہمیں کیا کرنا ہے چونکہ کل بروز قیامت ہم سے ہمارے ہر عمل کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ دولت کمانا یقیناًانسانی احتیاجات کی تکمیل کے لیے ضروری ہے اور اسلام بھی اس کی اجازت مرحمت فرماتا ہے لیکن حد سے زیادہ دولت سے محبت انسان کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام نے حرص اور لالچ کو انتہائی معیوب گردانا ہے اور انسان کو اسے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ بیمار کی عیادت کرنے کی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے چنانچہ حضرت سیدنا ثو بانؓ سے مروی ہے حضورﷺ نے فرمایا مسلمان جب اپنے بھائی کی عیادت کرتا ہے تو واپس آنے تک وہ جنت کے تازہ پھلوں کے چننے میں مصروف رہتا ہے۔ (مسلم شریف)اور ایک روایت میں اس طرح آیا ہے کہ جب مریض کی عیادت کے لیے جاؤ تو اس سے درخواست کرو کہ وہ تمہارے حق میں دعا کرے کیونکہ اس کی دعا فرشتوں کی دعا کی مانند ہے۔ (ابن ماجہ)

اسلام میں جس قدر بیمار کی مزاج پرسی کرنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے اس سے کہیں زیادہ اس بات کی تاکید کی گئی کہ ہمارے کسی حرکت سے مریض کو تکلیف نہ پہنچے۔ لہذا ڈاکٹرز اگر مالی منفعتوں کو قربان کرتے ہوئے تعلیمات اسلامی کے مطابق عمل کرنا شروع کردیں تو جہاں مریضوں کو راحت ملے گی وہیں اغیار کو اسلام کی انسانیت نواز تعلیمات کو سمجھنے میں مدد ملے گی اس طرح ہم اپنے منصب تبلیغ اسلام کا حق ادا کرنے میں کسی قدر کامیاب ہوسکتے ہیں اور یہ پہل وہی ڈاکٹرز کرسکتے ہیں جن کے دل نور ایمانی سے منور و مجلی ہوں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفی ﷺ ہمیں قرآن اور صاحبِ قرآنﷺ کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔ آمین

تبصرے بند ہیں۔