مسلم نوجوان: وہ فریب خوردہ شاہیں جوپلاہوکرگسوں میں!

ایک 57؍سالہ مسلمان افسرتھا، جس نے اپنی ذمے داریوں کا احساس کرتے ہوئے بطوررشوت کے چارکروڑکی خطیررقم لینے سے انکارکردیااورمتعلقہ کیس میں حق کا سراغ لگانے اورناحق کوفاش کرنے کا رسک لیا،جبکہ دوسری طرف31،29،24 اور21 سال کے چارمسلم نوجوان تھے،جنھوں نے محض دولاکھ روپے کی سپاری لے کراُس افسر کوقتل کرنے کاعزم کرلیا،ان دولاکھ میں سے بھی صرف پچاس ہزارہی انھیں نقد مل سکے اور باقی کے ڈیڑھ لاکھ ملتے ملتے رہ گئے۔ گزشتہ ہفتے این ڈی ایم سی کے قانونی صلاح کارمحمد معین خان کوبٹلہ ہاؤس، جامعہ نگرکے علاقے میں اس لیے قتل کردیاگیاکہ وہ ایک مشہورہوٹل کے ٹیکس کی عدم ادائیگی کے معاملے میں فیصلہ لینے والے تھے اور اس ہوٹل سے کم و بیش140؍کروڑروپے وصول کیاجاناتھا، ہوٹل مالک نے انھیں رام کرنے اور حسبِ روایت رشوت دے کرمعاملے کورفع دفع کرنے کی بہت کوشش کی؛لیکن جب وہ نہیں مانے،تواس نے پیشہ ورقاتلوں کے ایک گروپ کوہائرکرکے ان کا قتل کروادیا،اس طرح کے کیسزہمارے ملک میں آئے دن ہوتے رہتے ہیں،ان میں سے بعض وہ ہوتے ہیں جوکسی وجہ سے روشنی میں آجاتے ہیں،جبکہ بہت سے واقعات پولیس کی فائلوں میں دب کر رہ جاتے ہیں،حالیہ واقعے کی تفتیش جاری ہے،سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے قاتلوں کابھی تقریباً سراغ لگ چکاہے اورتازہ خبروں کے مطابق عام آدمی پارٹی نے اس واقعے میں این ڈی ایم سی کے وائس چیئرمین اور بی جے پی لیڈرکرن سنگھ تنورکے ملوث ہونے کابھی الزام لگایاہے۔مگرمیں اس واقعے کے ایک خاص پہلوکی جانب متوجہ کرناچاہتا ہوں،جس کی طرف میں نے اپنے مضمون کی ابتدائی سطروں میں اشارہ کیاہے ۔ اس طرح کے واقعات موجودہ سیاسی وحکومتی نظام میں گوکہ معمول کا حصہ ہیں،لیکن بحیثیت مسلمان کے ہم پران کے مضمرات و عواقب پر غورکرنے کی ذمے داری بھی عائدہوتی ہے،اس لیے مذکورہ واقعے کے اس پہلوپربھی ہمیں توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ایک مسلمان اپنی دیانت داری و فرض شناسی کا سودا چار کروڑ کے عوض بھی نہیں کرتا،جبکہ چارمسلم نوجوان دولاکھ روپے کے عوض قتل جیسابھیانک ترین جرم انجام دینے کوتیارہوجاتے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ نوجوان کسی بھی قوم کا قیمتی سرمایہ اور اس کے مستقبل کی تعمیر و تشکیل کے لیے اساس اور بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں،نوجوانوں سے ملتیں بنتی ہیں اوران کے عزم و ارادے،قوتِ ارادی و خود اعتمادی سے ہی کسی بھی قوم کی صلاح و فلاح کے راستے ہموار ہوتے ہیں،نوجوان طبقے کی فکر،اس کی ذہنی و علمی صلاحیتیں اور اس کی جرأت،بہادری اوربلندعزائم قوموں کوعروج سے ہم کنار کرتے ہیں،جبکہ کسی بھی قوم کے نوجوان جب بگڑجائیں،جب ان کے اذہان آلودہ اور ان کی فکریں پژمردہ ہوجائیں،جب وہ حالات کا رخ موڑنے کی بجاے حالات کی رومیں بہنے لگیں،جب ان کے سامنے اپنے گھر، خاندان،سماج اور معاشرہ و قوم کے مستقبل کوبہتر بنانے کے حوالے سے کوئی نصب العین،کوئی خاکہ اور کوئی نقشۂ عمل نہ ہو،توپھر ایسی قومیں بے سمتی،بے راہ روی کا شکار ہوجاتی ہیں اورترقی کی راہ میں ان کا کوئی نشان نہیں رہتا۔ دنیابھرکی انسانی تاریخ کا اب تک کا یہی اصول رہاہے،ماضی میں مسلمانوں کو جو کامیابیاں حاصل ہوئی تھیں اور ان کی فتح مندیوں کاعلم جوچاروں سمتوں میں لہرارہاتھا،اس میں نوجوان خون،تازہ فکراور عزمِ جواں کارفرما تھا،پھرجب امت کے نوجوانوں کی فکریں زنگ آلود ہوگئیں،ان کی زندگی میں جدوجہد کی بجاے عیش کوشی و غفلت کیشی آگئی اور وہ اخلاقی و عملی گمراہیوں اور کج رویوں کاشکارہوگئے،تواسی وقت سے مسلمانوں کی رجعتِ قہقریٰ کا دورشروع ہوا،جس کاسلسلہ تاہنوزجاری ہے۔
آج ہم مسلم معاشرے کے نوجوانوں کودیکھیں،ان کی شب و روزکی سرگرمیوں کا جائزہ لیں تومحسوس ہوگاکہ سومیں سے کم ازکم 80؍فیصدمسلم نوجوان عجیب وغریب بے راہ روی کی زندگی گزاررہے ہیں،اوکھلامیں بٹلہ ہاؤس،ذاکرنگر،شاہین باغ اور ابوالفضل وغیرہ دہلی میں مسلمانوں کے طبقۂ اشرافیہ کے رہایشی علاقے ہیں،ملک کی ایک مشہورمرکزی یونیورسٹی اسی علاقے میں قائم ہے،ایک بڑی تعداد میں جے این یو،ڈی یووغیرہ کے مسلم طلبابھی ان علاقوں میں رہتے ہیں،جبکہ پشتینی باشندوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے،جوزیادہ تراعلیٰ تعلیم یافتہ اور دانش وروں پر مشتمل ہے؛لیکن اس سب کے باوجودان علاقوں میں ایسے نوجوان ہمیں بہت کم؛بلکہ نہ کے برابر نظرآتے ہیں،جن کی سوچ،فکراورکرداروعمل میں کوئی امید افزاپہلومل سکے،تعلیم کا معاملہ یہ ہے کہ بڑی سے بڑی ڈگری صرف اس لیے حاصل کی جارہی ہے کہ معاشی آسودگی کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کیاجاسکے اور عمل کی صورتِ حال یہ ہے کہ ہر چوک چوراہے پر، چائے خانوں اورنکڑوں پرنوجوانوں کاایک ہجوم تضییعِ اوقات کے ساتھ مختلف قسم کی غیر اخلاقی حرکتوں میں ملوث نظرآتاہے۔قتل جیسے سنگین ترین جرائم بھی معمول بنتے جارہے ہیں،شراب نوشی،جوکہ اسلام میں اسی طرح حرام ہے،جس طرح خنزیرکھانا؛لیکن غیر تعلیم یافتہ اور جاہلوں کوتوچھوڑیے،پڑھے لکھے اور ’دانش وروں‘ کی صف میں شامل مسلم نوجوان بھی شغلِ مے کشی کے عادی ہیں،اخلاقی حس اور ایمانی شعورکادیوالیہ نکلتاجارہاہے،اقبال مرحوم نے غیر منقسم ہندوستان اور اپنے دورکے عالمی پس منظرمیں مسلم نوجوانوں سے بڑی امیدیں وابستہ کی تھیں،انھوں نے اپنے اشعارمیں جابجاان نوجوانوں کو ’شاہینوں‘ ، ’عقابوں ‘ اور ’شاہبازوں‘سے تشبیہ دی تھی،مگرافسوس کہ اقبال کے یہ شاہین کرگسوں کے ہم نشین ہوچکے ہیں اور ان کی عقابی روح عالمِ جاں کنی میں ہے۔
ایک ایمان داراور فرض شناس مسلمان کادوسرے مسلمانوں کے ہاتھوں قتل کوئی اچھوتااور تنہاواقعہ نہیں ہے،پورے ملک کے مختلف شہروں،علاقوں میں اس طرح کی وباپھیلی ہوئی ہے،جہاں باکردارمسلمانوں کی نایابی اپنے عروج پر ہے،وہیں بے کرداراور بدکردارمسلمانوں کی کھیپ کی کھیپ اسلام اور مسلمانوں کی شناخت اور تشخص پربٹہ اور دھبہ لگارہی ہے۔اس طرح کے واقعات ہماری اجتماعی حس پر کچوکے لگاتے ہیں،ہماری ملی و ایمانی روح کو جھنجھوڑتے ہیں، ہمارے اخلاقی زوال کی نشان دہی کرتے ہیں،مسلمانوں کی مجموعی زبوں حالی میں نوجوان طبقے کی بے راہ روی اور فکری و عملی و بے سمتی کا غیر معمولی کردار ہے، پھرظاہر ہے کہ جب ہم اپنی جوانی کی زندگی بے عملی کے ساتھ یا جرائم اور برائیوں میں ملوث ہوکر گزارتے ہیں،تویہی لت ہمیں اخیر عمرتک بھی لگی ہوتی ہے اورپھر ایسا ہوتاہے کہ چاہ کر بھی اس سے چھٹکارانہیں ملتا،پھرانفرادی طورپرپائی جانے والی یہ اخلاقی و عملی گمراہیاں اجتماعیت کا روپ دھار لیتی ہیں اورنتیجتاً مجموعی طورپرپوری امت کا جوناک نقشہ اور خط و خال سامنے آتاہے،وہ افسوس ناک حد تک مشتبہ؛بلکہ مسخ شدہ ہوتاہے،ایسے میں ہماری سماجی ترقی و بہتری کی راہ کیسے آسان ہوسکتی ہے؟!
اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ آخر ہمارے نوجوان اتنی تیزی کے ساتھ گمراہی کے راستے پرکیسے اور کیوں گامزن ہورہے ہیں،جونوجوان جاہل اور علم سے نابلد ہیں،ان کے بارے میں تویہ کہاجائے گاکہ وہ لاعلمی اور بے شعوری کی وجہ سے اس راہ پر چل پڑتے ہیں،مگرجواچھے خاصے پڑھے لکھے نوجوان ہیں،وہ بھی بہت بڑی تعداد میں جرائم کی دلدل میں پھنستے جارہے ہیں،آخر وجہ کیاہے؟کم وقت میں زیادہ مال بٹورنے کی بھوک؟خاندانی پس منظر؟معاشی تنگ حالی؟والدین کی بے توجہی؟تعلیمی اداروں میں اخلاقی تعلیم و تربیت کامعقول انتظام نہ ہونا؟اپنے مذہب اور مذہبی تعلیمات کے تئیں بدگمانی اوران سے دوری؟صرف اپنی آسایش و خوشحالی کاخیال اورماحول سے بے خبر رہنا؟ہوسکتاہے بعض افرادکے اندران میں سے کوئی ایک سبب،بعضوں میں چنداور بعضوں میں سارے اسباب پائے جاتے ہوں ،جونوجوانوں کوفکروعمل کی تاریک راہوں کامسافربنادیتے ہیں؛لیکن انھیں دورکرنے کی ذمے داری کس کی ہے،یہ سوال بھی فطری ہے اور اس کاجواب انفرادی طورپرہرماں باپ اور اجتماعی طورپرامت کے نمایندہ افراد،اداروں اوراشخاص کوتلاش کرنا چاہیے۔ حدیث پاک میں اللہ کے نبیﷺنے تمام مسلمانوں کو’جسمِ واحد‘قراردیاہے اور اس اعتبارسے اگرکسی بھی مسلمان بطورِخاص نوجوان میں ایمانی،عملی یا اخلاقی کوتاہی کے آثار نظرآتے ہیں،تویہ اُس جسمِ واحدکے لیے ناسورہے اوراسے بروقت ٹھیک کرنامجموعی طورپرسارے ذمے دار،باشعوراور خیر اندیش مسلمانوں کی دینی،اخلاقی اور انسانی ذمے داری ہے۔انفرادی سطح پرہرماں باپ اپنے بچوں کی تعلیم کے ساتھ تربیت (اسلامی تربیت)کابھی انتظام کریں اورانھیں یہ ہرحال میں کرناہوگا،ورنہ جوان اورتعلیم یافتہ ہونے کے بعدوہ بچے سب سے پہلے خوداپنے والدین کے لیے وبالِ جان بنیں گے،جس کے مناظر ہم آئے دن اپنے معاشرے میں دیکھتے رہتے ہیں،ایسی تعلیم گاہوں کاانتخاب کیاجائے،جہاں صرف ڈگریاں نہ تقسیم کی جاتی ہوں؛بلکہ انسان بھی بنائے جاتے ہوں،اخلاقی قدروں کاعلم حاصل کیاجائے اوراس کے لیے ہمیں قرآن وسنت و سیرتِ نبویﷺکاسہارالیناچاہیے،کہ دنیابھرکی تاریخِ انسانی میں تعلیمِ اخلاق کاجومنظم،مفیدتراورنتیجہ خیزسسٹم اسلام نے پیش کیاہے،وہ ماضی و حاضرکے کسی بھی دوسرے مذہب میں نہیں مل سکتاہے،مسلم نوجوانوں کے اذہان میں یہ حقیقت نقش کالحجرکی جانی چاہیے کہ ان کی ذات صرف اُن تک یاان کے والدین،خاندان تک ہی محدود نہیں ہے؛بلکہ ان کا سراپورے مسلم معاشرہ اور آفاقی پس منظرمیں پوری مسلم امت سے جڑاہواہے اوران کے اچھے یابرے عمل کے اثرات محسوس یاغیر محسوس طورپرسارے مسلمانوں پرپڑتے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔