مسلم پرسنل لابورڈ مسلمانوں کا نمائندہ نہیں!

صادق رضامصباحی

’’اتحادزندگی ہے اوراختلاف موت‘‘جیسےمقولے جتنے بولنے اورسننے میں اچھے لگتے ہیں اس سے کہیں زیادہ ان کے عملی نفاذ میں رکاوٹوں کاسامناکرناپڑتاہےجنہیں عبورکرنابہت کم لوگوں کے بس کا ہوتاہے شایدیہی وجہ ہے کہ ملک میں جتنی شدت سے اتحادکی باتیں ہوتی رہی ہیں اورجس قدر اتحادکی ضرورت محسوس ہو رہی ہے اسی شدت سے اس اتحادکوپارہ پارہ کرنے میں کوئی کسرباقی نہیں چھوڑی جارہی ۔ اس کے پیچھے کوئی اورنہیں خودمسلمانوں کی نمائندہ سمجھے جانے والی جماعتیں اورآل انڈیامسلم پرسنل لا بورڈ کے بعض ذمے داران ہیں ۔صرف دومثالیں پیش کرتاہوں ۔

پہلی یہ کہ تین طلا ق کے مسئلے پربورڈنے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کر دیا ہے کہ اب مسلم کمیونٹی یک بارگی تین طلاق دینے والے کاسماجی بائیکاٹ کرے گی ۔ بظا ہر تویہ بڑا اچھا فیصلہ معلوم ہوتاہے ، بہت سارے لوگ بورڈکے اس اقدام کی ستائش بھی کررہے ہیں مگراس کے ہولناک نتائج پربورڈکی نظرنہیں گئی ہے ۔غلط نتائج کے خدشے کے پیش نظراہل سنت کے علمانے بھی بورڈکے اس فیصلے کو قبول نہیں کیاہے۔یہا ں سوال یہ ہے کہ ایک سیدھاسادھامسلمان کس کی مانے اورکس کی نہ مانے ۔ حکومت کے نزدیک بورڈ ہندوستانی مسلمانوں کی واحدنمائندہ جماعت ہے، وہ تواسی کی مانے گی ، بورڈسے الگ رہنے والوں کی کیوں کرمانے گی ؟نتیجہ یہ ہوگاکہ مسلمانوں میں انتشارجوں کاتوں باقی رہے گا،یہ کبھی ایک پلیٹ فارم پرجمع نہیں ہوں گے ۔دوسری مثال یہ ہے کہ بورڈ کے ایک ذمے دار مولاناولی رحمانی کہہ چکے ہیں کہ بورڈ کوتین طلاق کے مسئلے پر سپریم کورٹ کافیصلہ منظورہوگا۔ان سے پوچھا جاسکتاہے کہ کیا بورڈکو وہ فیصلہ بھی منظور ہوگاجوقرآن و سنت کے مخالف ہوگا؟پتہ نہیں مولانا رحمانی کس خمارمیں یہ بات کہہ گئے ۔بورڈ کو شاید اندازہ نہیں کہ وہ شعوری یاغیرشعوری طورپر حکومت کی آلۂ کاربن چکی ہےاوروہ وہی کہہ رہی ہے جو حکومت اس سے کہلوانا چاہتی ہے ۔

اس تناظرمیں کہنے کی بات صرف یہ ہے کہ بورڈ ہندوستانی مسلمانوں کی نمائندہ جماعت نہیں ہے۔ہاں اسے جزوی یاضمنی طورپروہ ہرمسلک کی نمائندہ ہوسکتی ہے کیوں کہ بورڈ نے سبھی مسالک کے لوگوں کو نمائندگی دی ہے مگرسوال یہ ہے کہ جن لوگوں کونمائندگی دی ہے کیاوہ اپنی جماعت میں اتنی اہمیت رکھتے ہیں ؟کیا انہیں اہم علمی استعدادحاصل ہے؟ کیاوہ کسی مسئلے کاگہری بصیرت کے ساتھ ادراک کرنے کے اہل ہیں؟ کیاان کی ہربات کوان کی جماعت کے بڑے قبول کرلیں گے ؟ اگر وہ اپنی جماعت کے نمائندہ نہیں ہیں توانہیں بورڈمیں شامل کرکے یہ کیوں ثابت کیاجارہاہے کہ بورڈ تمام مسلمانوں کا نمائندہ ہے؟یہاں سوال یہ بھی ہے کہ اگر اہل سنت کی اعلیٰ سطحی قیادت کوپرسنل لا بورڈمیں شمولیت کی دعوت دی جائے گی توکیاوہ اسےآسانی سے قبول کرلیں گے ؟مگراس سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیابورڈکے ذمے داروں نے اہل سنت کی اعلیٰ سطحی قیادت کوبورڈمیں شامل ہونے کی دعوت دی ہے؟ در اصل بورڈکوحقیقی نمائندگی دینی ہی نہیں ،اسے صرف چہرے چاہیے جنہیں دکھاکر حکومت اور سیکولرحلقوں کی جانب سے بورڈ پر ہر مسلک کی مہرلگوائی جاسکے۔یہی سوچ کر بورڈ نے اہل سنت کے تیسرے اورچوتھے درجے کے علماکو شامل کر لیاہے تاکہ ببانگ دہل کہا جا سکے کہ ہم تمام فرقوں کےنمائندہ ہیں ۔اہل سنت کی کسی مستنداوراہم خانقاہ یا اہم ادارے کاکوئی بھی عالم دین اس بورڈ میں شامل نہیں ۔

1972میں ممبئی کےمہاراشٹرکالج کے میدان میں جب مسلم پرسنل لابورڈکی تشکیل ہوئی تھی اس وقت بلاشبہہ سبھی مسالک کے نمائندہ علماومشائخ اس میں شامل تھے لیکن دھیرے دھیرے مسلک اہل سنت کے علماکٹتے چلے گئے اوردیگرمسالک کےعلماکی بہتات ہوتی گئی ۔پھربہت بعدمیں اہل سنت کے چندایسے چہروں کونمائندگی دی گئی جن پراہل سنت کی مقتدرشخصیتوں کووہ اعتبارواعتماد حاصل نہیں جو ہونا چاہیے ۔بہت سارے مسائل میں یہ حضرات خاموش رہتے ہیں ،بورڈکے اعلیٰ سطحی ذمے داران ہی بولتے ہیں اس لیے حکومت اورہندوستانی عوام یہی سمجھتے ہیں کہ بورڈکاموقف ملک بھرکے مسلمانوں کا موقف ہے مگرواقعہ یہ ہے کہ مسلمانو ں کے ایک بڑے حلقے میں بورڈکے موقف کوکوئی اہمیت نہیں دی جاتی ،وجہ وہی اعلیٰ سطحی نمائندگی نہ ہوناہے ۔ سوچنے کی ایک بات یہ بھی ہے کہ جب آغازمیں سارے مسالک کے لوگ شامل تھے توبعدمیں کچھ لوگ الگ کیوں ہوگئے؟ اصل میں یہ حضرات اقدامی پوزیشن کے بجائے دفاعی پوزیشن پراترآئے۔عقائد و نظریات کے اختلافات کے باوجودملی وسماجی مسائل کے حل کے لیے ان حضرات نے ایک پلیٹ فارم پربیٹھنے کے نعرے توبہت لگائے مگرعملاًکچھ نہیں کیاجس طرح بورڈکی تشکیل کے وقت علامہ ارشدالقادری اور مولانامنت اللہ رحمانی نے کیاتھا۔یہ دونوں حضرات بریلی کے ایک عظیم المرتبت پیرطریقت کے حکم پرمسلم پرسنل لابورڈکے اجلاس میں ممبئی آئے تھے ۔

 1972ا ور 2017 میں بہت نمایاں فرق ہے ،نصف صدی ہونے کوہے ،چیزیں الٹ پلٹ ہو چکی ہیں ،دنیابہت آگے بڑھ چکی ہے ،نظریات میں ایسی تبدیلیاں آچکی ہیں کہ اس سے پہلے تاریخ نے کبھی نہیں دیکھی تھیں اورآج ملی مسائل کے اتحادکے لیےجتنی ضرورت محسوس کی جارہی ہے ،اتنی پہلے نہیں تھی مگراب بھی مسالک کے درمیان دوریاں ہیں ۔ اس تناظرمیں مجھے نہیں لگتاکہ اتحادکی راہیں کبھی ہموار ہوسکیں گی ،اوراس کے پیچھے جتناذمے داربورڈ ہے اتنی ہی ذمے داراہل سنت کی اعلیٰ سطحی قیادت بھی ہے ۔ بورڈ اس لیے کہ اسے میڈیااورحکومت کو دکھانے کے لیے صرف چہرے چاہیے تھے ،سو وہ اس نےشامل کر لیے ہیں ،اسے صرف ایسے چہرے چاہیے جواس کی ہربات پر آمنا و صدقناکہتے رہیں ،جوچوں وچراں کی جراء ت نہ کرسکیں ،ظاہرہے کہ کوئی بھی بڑاعالم اوراپنی جماعت کاحقیقی نمائندہ ہربات کو یوں ہی تونہیں تسلیم کرلے گا۔شایدیہی وجہ ہے کہ بالقصداعلیٰ سطحی علمی و روحانی قیادت کونمائندگی نہیں دی جارہی ہے ۔ اور اہل سنت کی اعلیٰ سطحی قیادت اس لیے ذمے دار ہے کہ وہ اس خیال سے کبھی باہرہی نہیں نکلتی کہ وہی حق پر ہیں اس لیے انہیں کوئی ضرورت نہیں دوسروں کےساتھ شامل ہونے کی،وہ حق پرہیں اس لیے وہ اپنے حساب سے کام کریں گےچاہے کتنے ہی طوفان سرسے گزر جائیں ،ملتیں لٹ جائیں ،مسلمان بنام مسلم کاٹ کرپھینک دیے جائیں ،ان کے ملی حقوق پرڈاکے ڈالے جاتے رہیں مگروہ وہی کریں گے جووہ چاہیں گے اورجسے وہ ’حق‘ سمجھیں گے ۔

اہل سنت کی نمائندگی کےلیے مولاناتوقیررضابریلوی نے آل انڈیامسلم پرسنل لا بور ڈ جدید 2002 میں بنایاتھا۔ظاہرہے، پرانے بورڈکی موجودگی میں اسے کیوں اہمیت دی جاتی اور حکومت وعو ام میں اسے کیوں کرقبول عام حاصل ہوتااسی لیے وہ چندہی دن چل سکااورپھربیٹھ گیا۔

ملک کے دردمندعوام اپنے مسائل کاحل چاہتے ہیں ،وہ حالات سے بالکل بیزار ہوچکے ہیں ۔ خا ص طورپرنوجوان پڑھی لکھی نسل ان حالات سے ایسی مایوس ہے کہ وہ سیدھا علماومشائخ کوہی نشانہ بناتی ہے ،اوراس بناپرعلماومشائخ ان پربے روک ٹوک الحاداوردہریت کاالزام لگاکر مطمئن ہو جاتے ہیں ۔ مجھے جیساطفل مکتب انہیں یہ سمجھانے کی جراءت کیسے کرے کہ یہ الحادنہیں اضطراب ہے ، اور اگر یہی حالت رہی تویہ اضطراب بہت جلدالحادمیں بدل جائے گا۔ایک بات یادرکھیے کہ حکومت تین طلاق کاحل نہیں چاہتی وہ دراصل اس راستے سے مسلمانوں میں تفریق کابیج بورہی ہے اوراس کے ذریعے ہندوئوں کو متحد کرنے میں کوشاں ہے۔

بظاہر تو حکومت نے گیندسپریم کورٹ کے پالے میں ڈال دی ہے ،سپریم کورٹ نے بھی اپنافیصلہ محفوظ کر لیا ہے مگرخفیہ ایجنسیوں نے حکومت کواچھی طرح بتادیاہے کہ مسلمان کبھی ایک ہونے والے نہیں ،ان کے درمیان کچھ واقعی اختلاف ہیں اورکچھ ایسے افرادبھی ہیں جواپنی ڈیڑھ کی مسجد ہر حال میں الگ بنانا ہی چاہتے ہیں اس لیے ان کے درمیا ن پھوٹ پڑی ہی رہے گی اس لیے وقت وقت پر ایسے مسائل اٹھائے جانے چاہیے تاکہ یہ قوم بس اسی میں الجھی رہے ۔ہم مسلمان عام طورسیاسی لیڈروں اور حکومتوں کی اپنی زبوں حالی کاذمے دارقراردیتے ہیں لیکن اگرگہرائی سے تجزیہ کیاجائے تواس کے ذمے دار ہم خودہیں ،حکومتیں اورسیاسی لیڈران توبس ہوا دیتےہیں جس سے دبی ہوئی چنگاری ابھرآتی ہے اس لیے ہمیں اپنے احوال کے لیے حکومت سے شکوہ نہ کرکے اپنی قیادت سے سوال کرناچاہیے اور ذمے دارحکومت کو نہیں خودکوٹھہراناچاہیے ۔بس احسا س پیداکرلیجیے کہ احساس نہیں توکچھ بھی نہیں ، احساس نہیں توزندگی نہیں ،احساس کے بغیرزندگی راکھ کا ڈھیرہے ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔