دیارِ ادب (تحقیقی وتنقیدی مضامین)

محسن خان 

 تلنگانہ کے صدرمقام حیدرآباد کو اُردو ادب میں منفرد مقام حاصل ہے۔کہایہ جاتا ہے کہ اُردو کی کئی اصناف کا آغاز اسی سرزمین یعنی حیدرآباد دکن سے ہوتا ہے۔آج بھی حیدرآباد میں اُردوادب کے فروغ وارتقاء میں شعراء کرام اورادباء سرگرم عمل ہے۔حیدرآباد کی اُردواکیڈیمی سارے ملک میں اپنی ایک منفرد پہچان رکھتی ہے۔تلنگانہ میں حیدرآباد کے بعد نظام آباد کو اُردو ادب کے فروغ کے سلسلہ میں ایک اہم مقام تسلیم کیا جاتاہے۔ نظام آباد کی سرزمین اُردوادب کے لئے بڑی زرخیز رہی ہے ۔نظام آباد سے ممتاز شعراء اور اُدباء نے ملک گیرسطح پر اپنی پہچان بنائی ہے۔ آج بھی نظام آباد میں اُردوصحافت مستحکم ہے یہاں سے تقریباً دس روزنامے ‘ہفتہ وار اخبارات اور ادبی رسائل شائع ہوتے ہیں ۔ نظام آباد کی اسی ادبی روایات کو قائم رکھتے ہوئے نئی نسل بھی اُردو کے فروغ میں مسلسل کوشاں ہے۔ اسی سرزمین سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان قلمکار کو اُردودنیا ڈاکٹر عزیز سہیل کے نام سے جانتی ہے۔

 ڈاکٹرعزیز سہیل بہت ہی کم وقت میں اپنی تحریروں کے ذریعہ اُردوحلقوں میں اپنی منفردپہچان بنائی ہے۔دیارِ ادب اُن کی چھٹویں تصنیف ہے۔ اس سے قبل اُ ن کی پانچ تصانیف ادبی نگینے‘ ڈاکٹرشیلاراج کی تاریخی وادبی خدمات‘ سماجی علوم کی اہمیت‘ میزان نو اور مولوی محمدعبدالغفارؒ حیات وخدمات منظر عام پرآچکی ہیں ۔

زیر تبصرہ تصنیف ’’دیارِ ادب‘‘دراصل ڈاکٹرعزیز سہیل کے تحقیقی وتنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے جس کو دوحصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ حصہ اوّل میں شخصیات اور مضامین شامل ہیں اورحصہ دوم میں اردوزبان وادب اور تہذیب سے متعلق مضامین کو شامل کیاگیا ہے۔ حصّہ اوّل میں پندرہ مضامین شامل ہیں جن میں قابل ذکر سوانح نگاری اورعلامہ شبلی نعمانی کا فن کمال‘ آصف سابع کی قومی یکجہتی اور رواداری ‘ علی سردار جعفری فن کے آئینے میں ‘ بیسویں صدی کی دیدہ ور ‘ہمہ جہت شخصیت مولانا ابوالکلام آزاد‘ مولانا ابوالکلام آزاد اور ’’غبارخاطر‘‘ راجہ نرسنگ راج عالیؔ آصف جاہی عہد کا شیریں زبان شاعر‘ دکنی تہذیب وثقافت کے کوہ نور ڈاکٹرزورؔ‘ عہد ساز افسانہ نگار اقبال متینؔ‘ گلزار ایک ممتاز تخلیق کار‘ ضلع محبوب نگر کا ادبی ماحول اور ڈاکٹرعلی احمد جلیلیؔ کی خدمات وغیرہ اور حصہ دوم میں دس مضامین کوشامل کیاگیا ہے جن میں حیدرآباد دکن میں اردوزبان اور تہذیبی قدریں دورآصفی میں ‘ اردو ذریعہ تعلیم ہماری ذمہ داریاں ‘ اردو صحافت ماضی اور حال‘ جڑچرلہ کا شعری وادبی منظر نامہ ‘ جدید ٹکنالوجی کا رول اورنسلِ نو اورعصرحاضر کے اسلامی تقاضے اوراسلامی ادب وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔

زیر تبصرہ تصنیف کا پیش لفظ حیدرآباد دکن کے ممتازشاعر وادیب ڈاکٹرمحسن جلگانوی نے رقم کیا ہے ۔پیش گفتار کے عنوان سے ڈاکٹرشیخ سیادت علی انسپکٹنگ اتھارٹی مولانا آزاد ایجوکیشن فائونڈیشن (دہلی) اور نعیم جاوید (صدر’’ ادارہ ھدف‘‘دمام۔سعودی عرب) کی تقریظ کوشامل کیاگیا ہے۔

  ڈاکٹر محسن جلگانوی ‘ڈاکٹرعزیز سہیل کو مستقبل کا اثاثہ قراردیا ہے۔ انہوں نے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کے متعلق لکھا ہے ’’ دیارِ ادب کے مصنف ڈاکٹرمحمدعبدالعزیز سہیل ایسی ہی امید کی کرن کا جیتا جاگتا پیکر ہیں ۔انہو ں نے چند برس قبل جامعہ عثمانیہ سے اپنی پی ایچ ڈی کے مقالہ کی تکمیل کی اور پھر ادبی تحریروں کی جانب خود کو مبذول کرلیا۔ انہوں نے لکھنے کی ابتداء ہلکے پھلکے تبصروں ومضامین سے کی تھی لیکن جلد ہی تحقیق‘تنقید‘صحافت ‘تاریخ ادب اوردیگرموضوعات پر اُن کی تحریریں مقامی ‘ملکی اوربیرونی ملک کے اخبارات ورسائل میں آنے لگیں ۔‘‘

 زیرتبصرہ کتاب میں ڈاکٹرشیخ سیادت علی اور نعیم جاوید نے بھی ڈاکٹر عزیز سہیل کی صلاحیتوں کوخوب اجاگرکیا ہے۔ ڈاکٹرعزیز سہیل نے اس تصنیف میں جن موضوعات پر طبع آزمائی کی ہے وہ شخصیات اُردو کے ناموراور ممتاز شخصیات ہیں او رانہوں نے اُردوادب میں بے مثال خدمات انجام دی ہیں ۔ مثلاً ڈاکٹرعزیز سہیل کا پہلا مضمون سوانح نگاری اور علامہ شبلی ؔنعمانی کا فن کمال ہے‘‘۔ علامہ شبلیؔ نعمانی اُردوادب میں اپنی ایک منفرد پہچان رکھتے ہیں ۔ انہوں نے اُردوادب میں صالح شخصیات کی سوانح نگاری کو پیش کرتے ہوئے نئی نسل کو یہ پیغام دیاتھا کہ ہم بھی ان شخصیات کو اپنا رول ماڈل بناکراپنی زندگیوں کو گذاریں ۔ اس مضمون میں ڈاکٹرعزیز سہیل نے سوانح نگاری کے فن کوپیش کیاہے پھر سوانح نگاری میں علامہ شبلیؔ کی خدمات کو اجاگرکیاہے۔’’علامہ شبلیؔ نے بھی سوانح نگاری کی طرف توجہ کی۔ سوانح نگاری کے فن میں شبلیؔ بھی کسی سے کم نہ تھا۔اُردوسوانح نگاری کوفروغ دینے میں انہوں نے نمایا ں کارنامہ انجام دیا ہے۔ علی گڑھ تحریک سے بھی وہ متاثر تھے۔ انہوں نے اسلام کی مایہ ناز شخصیات کویاد دلانے اور اُن کے عظیم کارناموں کواُجاگرکرنے کے لئے سوانح عمریاں لکھیں جن میں خلیفہ مامون الرشید ؒ کی سوانح عمری 1889 ’’المامون‘‘امام ابوحنیفہ ؓ کی سوانح عمری 1891’’سیرت النعمان‘‘فاروق اعظمؓ کی کی سوانح عمری’’الفاروقؓ‘‘ 1898اور امام غزالیؒ کی سوانح عمری’’الغزالی‘‘1902 اور سوانح مولانا رومؒ 1902 شامل ہے۔ ساتھ ہی سیرت نگاری میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح عمری’’سیرت النبیؐ ‘‘ 1910 میں لکھی تھی۔‘‘

  کتاب کے دوسرے حصہ میں شامل مضمون ’’اردو صحافت میں جدید ٹکنالوجی کا رول اور نسل نو‘‘کافی اہمیت کا حامل ہے۔ اس مضمون میں عصرحاضر کے رحجانات کوپیش کرتے ہوئے صحافت کے آغازو ارتقاء اور اردوصحافت میں نسلِ نو کے کردار کواجاگرکیاگیا ہے۔ انہوں نے نسلِ نوکی صحافت سے دوری پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ’’ لیکن ایک مسئلہ اردوصحافت کایہ بھی ہے کہ نسل نواردوصحافت سے جس طرح سے وابستہ ہوناچاہئے ‘اُس طرح ہم آہنگ نہیں ہوپارہی ہے ۔اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ہرسال مختلف یونیورسٹیوں سے سینکڑوں طلبہ ڈگری کی سندحاصل کرتے ہوئے فارغ ہورہے ہیں لیکن بہت کم طلبہ نے صحافت کواپنا پیشہ بنایا ہے جبکہ صحافت کے بڑھتے ہوئے فروغ نے اس بات کے امکانات پیدا کردیئے ہیں کہ صحافت ایک صنعت کادرجہ اختیار کرسکتی ہے۔ اس میں نئی نسل کے لئے روزگار کے کئی مواقع پائے جاتے ہیں ۔‘‘

غرض یہ کہ دیارِ ادب میں ڈاکٹرعزیز سہیل نے اُردوادب کی نمائندہ شخصیات پر مضامین رقم کئے ہیں اوران کی خدمات کو اجاگرکیا ہے وہیں پر انہوں نے عصرحاضر کے شعراء اور قلمکاروں پربھی اپنے مضامین رقم کئے ہیں ۔ساتھ ہی اُردوزبان وادب تہذیب سے متعلق اُن کے مضامین کافی معلوماتی ہیں ۔ انہوں نے یہ مضامین مختلف سمیناروں میں پیش کئے ہیں ۔ ڈاکٹرعزیز سہیل نئی نسل کے نمائندہ قلمکارہیں ۔امید کہ مستقبل میں اُن کی مزید تحقیقی وتنقیدی کتابیں منظرعام پر آئیں گی۔ میں ’’دیارِ ادب‘ ‘کی اشاعت پرڈاکٹرعزیز سہیل کودل کی عمیق گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔کتاب کا سرورق دیدہ زیب ہے البتہ کاغذ بادامی ہے اگرکاغذ سفید ہوتا تو کتاب کی رونق میں مزید اضافہ ہوجاتا۔ اس کتاب کے ناشر بک کارپوریشن دہلی ہیں ۔ 192صفحات کی یہ کتاب 250روپئے رکھی گئی ہے۔ یہ کتاب حیدرآباد ھدیٰ بک ڈپو پرانی حویلی سے حاصل کی جاسکتی ہے۔

مصنف: ڈاکٹرعزیز سہیل،لیکچرار ایم وی ایس گورنمنٹ ڈگری کالج ،محبوب نگر  مبصر: محسن خان ،ریسرچ اسکالر مانو حیدرآباد

تبصرے بند ہیں۔