مسلۂ طلاق ثلاثہ: چند قابلِ غور پہلو

کامران غنی صبا

 ’طلاق ثلاثہ‘ پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد طرح طرح کے مباحث سامنے آ رہے ہیں ۔ ایک طبقہ فیصلے کی حمایت کر رہا ہے تو دوسرا مخالفت۔ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اس فیصلے کا مخالف ہے اور اسے شرعی معاملے میں مداخلت تصور کرتا ہے۔ یہ فیصلہ کتنا صحیح ہے یا غلط ،  اس سے قطع نظر طلاق پر ہونے والے مباحث اوران سے پیدا شدہ صورت حال سے جو باتیں ا بھر کر سامنے آتی ہیں ،  انہیں اس خاکے کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے:

منصوبہ

1۔ ایک نشست کی تین طلاق کے مسئلہ میں مسلمانوں کے درمیان جو اختلاف ہے،  اسے ہوا دینا اور اس کی آر میں مسلمانوں کے دیگر مسلکی اختلافات کو فروغ دینا

2۔ مسلم کمیونٹی میں مرد و خواتین کے درمیان خلیج پیدا کرنا۔

3۔ عوام کی توجہ روزگار،  ترقی اور خوش حالی جیسے موضوعات سے ہٹا نا اور انہیں جذباتی باتوں میں الجھائے رکھنا

4۔ اسلامی قوانین کو غیر فطری اور غیر انسانی قوانین کے طور پر پیش کرنا

5۔  یہ تاثر پیدا کرنا کہ مسلمان ملک کے آئین اور عدالت کے فیصلوں پر اپنے شرعی قوانین کو مقدم رکھتے ہیں

6۔ یونیفارم سول کوڈ کی راہ ہموار کرنا

نتیجہ

1۔جزوی کامیابی(شروع میں بعض اہل حدیث اور شیعہ حضرات نے حکومت کی حمایت کی لیکن بعد میں مسئلہ کی نوعیت کو سمجھنے کے بعدخاموشی اختیار کر لی)

2۔ ناکامی( چند ایک معاملوں کو چھوڑ دیا جائے تو تقریباً سبھی مسلم خواتین شرعی قوانین سے مطمئن ہیں ۔

3۔ صد فی صد کامیابی

4۔ صد فی صد کامیابی

5۔ صد فی صد کامیابی

6۔ جزوی کامیابی

 ذہن پر زور دیا جائے تو ان کے علاوہ بھی کئی نکات سامنے آ سکتے ہیں ۔ گویا اس میں کوئی شک نہیں کہ ’مسلۂ طلاقِ ثلاثہ‘ کی آڑمیں ایک تیر سے کئی نشانہ لگانے کی کوشش کی گئی اور اس میں بہت حد تک کامیابی بھی ملی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جو خدشات ابھر کر سامنے آئے ہیں ،  ان کا مقابلہ کس طرح کرنا ہے یہ تو ملی قائدین اور دانشوران قوم طے کریں گے۔ یہاں ہم صرف چندنکات پیش کرنا چاہتے ہیں ،  جن سے مسئلے کی حساسیت کوسمجھا جا سکتا ہے:

تحفظ شریعت مہم میں خواتین کی عدم دلچسپی:

جب سے یکساں سول کوڈ کا معاملہ گرم ہوا ہے۔ ملی اداروں کی طرف سے تحفظ شریعت مہم نے بھی زور پکڑا ہے۔ سمینار،  کانفرنس،  اخبارات میں مضامین وغیرہ کے توسط سے عام مسلمانوں میں شریعت بیداری کی کوششیں تیز ہوئی ہیں لیکن اس مہم میں خواتین کی حصہ داری آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔ جماعت اسلامی اور کچھ دوسرے مسلم اداروں کی خواتین ونگ کو چھوڑ دیا جائے تو عام باشعور مسلم خواتین کی طرف سے احتجاج اور مدافعت کا وہ تیور نظر نہیں آیاجس سے اندازہ ہوتا کہ مسلم خواتین اسلامی شریعت کے بقا و تحفظ کے لیے مردوں کے شانہ بہ شانہ تیار ہیں ۔ اس کی ایک بڑی وجہ عورتوں میں دینی تعلیم کا فقدان ہے۔ عام مسلم عورتوں کو ناظرہ قرآن،  چند احادیث کے ترجمے اور بہشتی زیور سے آگے بڑھنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ مرد تو پھر بھی جمعہ کے خطبے ،  جلسے جلوس اور اخبارات و رسائل کے مطالعہ سے بہت کچھ جان لیتے ہیں ۔لہٰذا ہندوستان میں تحفظ شریعت مہم کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے کہ عورتوں کو اسلامی شریعت سے آگاہ کیا جائے۔

مسلم خواتین میں عدم رواداری اور عدم تحفظ کا احساس:

یہ سچ ہے کہ اسلام نے عورتوں کو جتنے حقوق اور اختیارات دئیے ہیں اتنے کسی مذہب نے نہیں دئیے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتاہے کہ مسلم معاشرہ میں عورتوں کا استحصال ہوتا رہا ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جب میں نے ذاتی طور پر مسلم خواتین سے رائے طلب کی تو اکثر خواتین نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ حکومت ان کی ہمدرد نہیں ہے، کورٹ کے فیصلے پر کسی قسم کے افسوس کا اظہار نہیں کیا۔کچھ باشعور اور تعلیم یافتہ خاتون نے یہ تسلیم کیا کہ عدالت کا یہ فیصلہ یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی راہ ہموار کرنے کے لیے پہلا قدم ہے تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ نوبت مردوں کی ہٹ دھرمی اور ان کے دوہرے رویے کی وجہ سے آئی ہے۔ عورتوں میں یہ شکایت بالکل عام ہے کہ مرد اساس سماج میں انہیں وہ حق نہیں ملتا جس کی وہ مستحق ہیں ۔ مجھ سے اسکول کی ننھی منی بچیاں یہ شکایت کرتی ہیں کہ ان کے والدین بھائیوں کی غلطیوں پر معمولی سرزنش کے بعد انہیں چھوڑ دیتے ہیں لیکن وہی غلطی اگر ہم سے(لڑکیوں سے) ہو جائے تو قیامت برپا ہو جاتی ہے۔ لڑکے دن دن بھر گھر سے باہر گھومتے پھریں، موبائل کا استعمال کریں،  دوستوں کے ساتھ سنیما ہال جائیں انہیں کوئی نہیں ٹوکتا لیکن ہم اپنی سہلیوں کے یہاں بھی مقررہ وقت سے چند منٹ زیادہ نہیں رک سکتے۔اس طرح کی فکر بغاوت پیدا کرتی ہے۔ یہ اسلام کی عظمت ہی ہے کہ عورتیں اتنا کچھ ہونے کے باوجودبھی اپنے مذہب سے پیار کرتی ہیں ۔ تحفظ شریعت مہم اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک عورتوں میں اعتماد اور اطمینان پیدا نہ ہو۔

شرعی احکامات سے راہ فرار:

اس سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتاہے کہ مسلمانوں کی اکثریت اول تو شرعی احکامات سے نابلد ہے،  وہ شرعی عدالتوں سے رجوع کرنے کی بجائے سرکاری عدالتوں کا رخ کرتی ہے۔ جو لوگ شرعی احکامات سے واقف بھی ہیں وہ شرعی عدالت سے خلافِ توقع فیصلہ ہونے کی صورت میں سرکاری عدالتوں میں پناہ لیتے ہیں ۔ ہمارے اس رویے نے ہی اغیار کو ہماری شریعت پر انگلی اٹھانے کا موقع فراہم کیا ہے۔مسلمانوں میں شرعی قوانین کے نفاذ کے لیے ضروری ہے کہ انہیں شرعی قوانین کی اہمیت اور حکمتیں سمجھائی جائیں ۔ وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق ان کی سائنسی توجیح بھی پیش کی جائے۔ ائمہ مساجد اور خطیب حضرات کی تربیت کی جائے اور وہ عام لوگوں کو شرعی قوانین کی باریکیاں سمجھائیں ۔

اختلافی مسائل میں شدت پسندانہ نظریہ:

’طلاق ثلاثہ‘ کا مسئلہ اس وجہ سے بھی پیچیدہ ہوکر سامنے آیا کہ اس مسئلہ میں مسلمانوں کے درمیان پہلے سے ہی اختلاف ہے۔ احناف کے علاوہ ائمہ ثلاثہ اور غیر مقلدین حضرات کے یہاں ایک نشست کی تین طلاق ایک ہی مانی جاتی ہے جبکہ احناف ایک نشست کی تین طلاق کو تین مانتے ہیں ۔ ہر چند کہ حنفیوں کے یہاں ایک نشست کی تین طلاق انتہائی ناپسندیدہ فعل ہے لیکن طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ فقہی مسائل پر اظہار خیال کرنا مجھ جیسے کم علم کو زیب نہیں دیتا تاہم اتنا ضرور عرض کرنا چاہوں گا کہ اختلافی مسائل میں اس قدر شدت پسندانہ اور اٹل رویہ درست نہیں ہے۔ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے کہ’ میری امت گمراہی پرکبھی اکھٹی نہیں ہو سکتی۔‘اس حدیث کی روشنی میں ہم یہ ہرگز نہیں کہہ سکتے کہ ’طلاق ثلاثہ‘ کے مسئلہ میں صرف احناف کا نظریہ ہی درست ہے۔’طلاق ثلاثہ‘ پر ہنگامہ شروع ہونے کے بعد آخر کار مسلم پرسنل لا بورڈ کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ ایک نشست میں تین طلاق دینے والوں کا سماجی بائکاٹ کیا جائے۔یہ اعلان اگر کسی دبائو سے پہلے آ گیا ہوتا تو شاید معاملہ اس قدر طول نہیں پکڑتا۔

 اسلام دین فطرت ہے لہٰذا اس کے قوانین بھی فطری اور قابل عمل ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی قوانین کی باریکیوں سے اپنے اور غیروں کو روشناس کرایا جائے اور دفاعی پوزیشن اختیار کرنے کی بجائے پوری طاقت کے ساتھ اسلامی تعلیمات اور احکامات کی حکمتوں کو بردران وطن تک پہنچایا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے گھر کی اصلاح ہو اور ’افراد خانہ‘ کے دلوں میں اطمینان کا احساس بیدار ہو۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    امام شافعیؒ کے زمانے میں ایک خلیفہ نے اپنی بیوی کو عجیب طریقے سے طلاق دے دی، اور یہ طلاق بعد ازاں فقہ کا بہت بڑا مسئلہ بن گئی۔
    بادشاہ اپنی ملکہ کے ساتھ بیٹھا تھا کہ ہنسی مذاق میں اُس نے ملکہ سے پوچھ لیا کہ، ” تمہیں میری شکل کیسی لگتی ہے ؟ ”
    ملکہ جو بادشاہ کی عزیز ترین بیگم تھیں، وہ مذاق کے موڈ میں بولی، ” مجھے آپ شکل سے جہنمی لگتے ہیں "۔
    یہ فقرہ سننے کے بعد بادشاہ کو غصہ آ گیا اور بولا، ” میں اگر جہنمی ہوں تو تمہیں تین طلاقیں دیتا ہوں۔۔۔! ”
    ملکہ نے یہ سنا تو اُس نے رونا پیٹنا شروع کر دیا۔
    بادشاہ کو بھی کچھ دیر بعد اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔
    اگلے دِن بادشاہ سلامت نے ملک کے تمام علماء، مفتی صاحبان اور اماموں کو دربار میں بلا لیا۔
    اور اُن سے پوچھا کہ،
    ” کیا اِس طریقے سے میری طلاق ہو چکی ہے؟ ”
    سب کا باری باری یہی کہنا تھا کہ، "ہاں، آپ کی طلاق ہو چکی ہے، اور شریعت کی روشنی میں ملکہ عالیہ اب آپ کی زوجہ نہیں رہیں۔۔۔! "،
    لیکن اِس محفل میں ایک نوجوان مفتی بھی موجود تھے، وہ ایک طرف ہو کر بالکل خاموش بیٹھے رہے۔
    بادشاہ نے اُن سے بھی یہی سوال پوچھا تو انہوں نے عرص کیا، ” جناب، یہ طلاق نہیں ہوئی، کیونکہ آپ نے مشروط طور پر کہا تھا، کہ اگر میں جہنمی ہوں تو میں تمہیں تین طلاقیں دیتا ہوں،
    اور ابھی تک یہ طے نہیں ہوا کہ آپ جہنمی ہیں کہ نہیں ہیں،
    آپ کو اگر کوئی شخص جنتی ہونے کی گارنٹی دے دے تو آپ کی یہ طلاق نہیں ہوگی۔”
    بادشاہ سلامت نے جوشیلے انداز میں پوچھا،
    ” لیکن مجھے اِس چیز کی گارنٹی کون دے گا۔۔۔؟ ”
    سب علماء کرام نے اِس سوال کے جواب پر اپنے سر جھکا لیے، کہ دنیا میں کون شخص جنتی ہے اور کون جہنمی ہے اِس کی کوئی گارنٹی نہیں دے سکتا۔
    اُس نوجوان مفتی نے جب تمام علماء کرام کو خاموش دیکھا تو وہ بادشاہ سلامت سے مخاطب ہوا،
    ” بادشاہ سلامت !
    میں آپ کو یہ گارنٹی دے سکتا ہوں،
    لیکن اِس کیلئے میں آپ سے ایک سوال پوچھوں گا، اگر آپ کا جواب "ہاں” ہوا تو میں آپ کو جنتی ہونے کا سرٹیفکیٹ دے دونگا۔۔! "۔
    بادشاہ نے کہا، "ہاں، پوچھو۔۔۔!”
    نوجوان مفتی نے پوچھا،
    ” کیا آپ کی زندگی میں کبھی کوئی ایسا موقع آیا تھا، کہ آپ گناہ پر قادر تھے، لیکن آپ نے صرف اللہ تعالیٰ کے خوف سے وہ گناہ چھوڑ دیا تھا۔۔۔؟ ”
    بادشاہ نے سر اُٹھایا اور کہا،
    ” ہاں، ایک بار ایسا ہوا تھا،
    میں اپنی خواب گاہ میں داخل ہوا تھا اور وہاں ایک نوکرانی صفائی کر رہی تھی،
    وہ لڑکی انتہائی خوبصورت تھی، میں بھٹک گیا،
    میں نے دروازہ اندر سے بند کر لیا۔
    میں غلط نیت سے اُس لڑکی کی طرف بڑھا تو اُس نے رونا شروع کر دیا، اور وہ چلّا کر بولی،
    ” اے بادشاہ ! اللہ سے ڈرو، وہ تم سے زیادہ طاقتور ہے”۔
    میں نے جب یہ سنا تو میرے اُوپر اللہ تعالیٰ کا خوف طاری ہو گیا۔
    میں اگرچہ بادشاہ تھا،
    وہ لڑکی میرے کمرے میں تھی،
    میں نے دروازے کو اندر سے کنڈی لگائی ہوئی تھی،
    اور اُس وقت دنیا کی کوئی طاقت مجھے بُرائی سے نہیں روک سکتی تھی۔
    لیکن میں نے صرف اللہ تعالیٰ کے خوف سے دروازہ کھول دیا، اور اُس لڑکی کو جانے کی اجازت دے دی۔۔۔!”
    یہ سب سن کر وہ نوجوان مفتی مسکرایا اور اُس نے قرآن پاک کی سورہ النٰزعٰت کی آیت نمبر 40 اور 41 کی تلاوت فرمائی،

    *” وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَىٰ o فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَىٰ "*

    ترجمہ :
    جو اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈر گیا اور اُس نے اپنے نفس کو خواہشات میں پڑنے سے بچا لیا تو ایسے شخص کا ٹھکانہ جنت ہوگی”
    اِس کے بعد نوجوان نے بادشاہ سلامت سے کہا،
    ” میں آپ کو گارنٹی دیتا ہوں کہ آپ جنتی بھی ہیں، اور آپ کی طلاق بھی نہیں ہوئی۔

تبصرے بند ہیں۔