مشکل تر ہوتی جارہی ہے یوپی میں بی جے پی کی راہ

اس سے قبل کے حالیہ اترپردیش اسمبلی انتخابات میںبی جے پی ،بی ایس پی یا کانگریس سماجوادی اتحاد پر کچھ بات کی جائے منا سب معلوم ہوتا ہے کہ سنگھ کے مختلف لیڈروں کی زبان سے نکلنے والے دلت مخالف بیانات کا سرسری جائزہ لیں ،گزشتہ جمعہ کے روز جئے پورلٹریر فیسٹیول میں آر ایس ایس ترجمان منموہن وید نے اپنے خطاب میں ایسے وقت میںریزرویشن ختم کرنے کا مطالبہ کیا جب ملک کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کی سر گرمیاں چل رہی ہیں۔ظاہر سی بات ہے کہ اتر پردیش میں منموہن وید کے اس بیان کا غلط اثر جائے گا اور دلتوں کا اعتماد جو نوٹ منسوخی کے آمرانہ فیصلے کے نتیجے میںبی جے پی سے پہلے ہی متزلز ہوچکا تھا ،وہ وید کے حالیہ بیان کے بعد با لکل مجروح ہو جائے گا۔ بی جے پی کیلئے تشویش کی بات یہ ہے کہ سماجوادی۔ کانگریس اتحاد اور دلت لیڈر مایا وتی نے پہلے ہی سنگھ کے اس متنازعہ بیان کو اپنا انتخابی ایشو بنالیا ہے۔اطلاعات ہیں کہ سنگھ کے ترجمان منموہن وید کے بیان پر این ڈی اے کی دو حلیف جماعتیں لوک جن شکتی پارٹی اور ’’رالود سپا‘‘سربراہ اوپیندر کشواہا کے سخت تیور بتا رہے ہیں کہ آنے والے وقت میں سنگھ کا یہ بیان بی جے پی کیلئے اور بھی زیادہ مشکلات کا سامان بن سکتا ہے۔

زعفرانی سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں کو شاید یہ بات ابھی بھی یاد ہوکہ 2015کے بہار اسمبلی انتخابات میں اگر چہ آر جے ڈی سپریمو لالو پرساد یادو،وزیر اعلیٰ نتیش کمار کانگریس جیسی زمینی پارٹیوں کے عظیم  اتحاد(مہا گٹھ بندھن) نے نمایا ںکردا ادا کیاتھا۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عین انتخابی سرگر میوں کے درمیان دلتوں سے ریزرویشن چھین لینے والے متنازع بیان نے بہار کے دلتوں کے پیروں میں بیڑیاں ڈال دی تھیں اور آخر کا ریاست بہار کے دلتوں نے تھوک کے حساب سے اپنے ووٹ مہا گٹھ بندھن کی جھولی میں ڈال دیے تھے۔مجھے بی جے پی کے سینئر لیڈر اور مدھوبنی اسمبلی حلقہ سے ممبر  پار لیا منٹ حکم دیو نارائن یادوکا وہ بیان اس وقت شدت سے یاد آ رہا ہے ،جس میں مسٹر نارا ئن نے  بہار میں بی جے پی کی پسپائی پر روشنی ڈالتے ہوئے مایوس لہجے میں کئی انکشافات کئے تھے اور پارٹی کی شر مناک شکست کیلئے راست طور پر سنگھ سر برا ہ موہن بھاگوت کے ریزرویشن مخالف بیان کو ذمہ دارقرار دیتے ہوئے مایوسی ظاہر کی تھی۔بہار کی پسپائی کیلئے صرف حکم دیو نارائن یادو نے ہی سنگھ پر تنقید نہیں کی تھی بلکہ ریاست بہار کے ایک دیگر مضبوط لیڈر سی پی ٹھاکر اور این ڈی اے کے کئی لیڈران نے بہار میں ملنے والی شرمناک ہار کیلئے موہن بھاگوت کے دلت مخالف بیان کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔  درج بالا لیڈران کی باتوں پر اس لئے یقین کرنا پڑے گا کہ اسمبلی انتخابات میں مذکورہ سبھی لیڈروں کے بیٹے الیکشن لڑ رہے تھے ، اس وجہ سے یہ لیڈران زمینی سطح پر کام کر رہے تھے اور رائے دہندگان کے درمیان ان لوگوں نے لگ بھگ دوماہ گزارے تھے اور رائے دہندگان سے راست طور پر مستقل رابطے میں تھے ،ان کے ساتھ پارٹی کے چھوٹے چھوٹے علاقائی لیڈر ان اور دیہی نمائندے بھی ہوا کرتے تھے ،جن کے سامنے رائے دہندگان بے خوف اور پختہ لہجے میں اپنا موقف بھی پیش کررہے تھے۔ اسی دوران این ڈی اے کے کئی مقامی اور دہی پارٹی لیڈروں نے  بی جے پی سینئر لیڈران کے  سامنے مایوس انداز میں اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ سنگھ سربراہ کے بیان سے تو یہی لگتا ہے کہ بی جے پی ریاست میں اقتدار ملتے ہی ریزرویشن  ختم کر دے گی،لہذا ہم  آپ کوکس امید اور بھروسے پر ووٹ دیں ؟انتخابات سے عین قبل موہن بھاگوت کے دلت ،پچھڑا مخا لف بیان نے نہ صرف یہ کہ دلت ووٹروں کیلئے بی جے پی کے دروازے بند کردیے تھے ،بلکہ بڑی تعداد علاقائی اور دیہی پارٹی رضاکاروں نے بی جے پی کو طلا ق دے کر اس کے خلاف انتخابی مہم بھی چلائی تھی۔

سیاسی مبصرین کے مطابق ایسی نوبت اتر پردیش میں بھی بی جے پی کے ساتھ آ سکتی ہے۔ دراصل ریزرویشن  جاری رہنے کے سلسلے میں بی جے پی کے جن بڑے لیڈروں نے بیان دیے ہیں، ان میں سے کسی نے بھی نہ تو موہن بھاگوت کا نام لیا اور نہ ہی منموہن وید کاذکر کیا،اس کا صاف مطلب یہی نکلتا ہے کہ بظاہر کتناہی مضبوط بھاجپائی لیڈر کیوں نہ ہو ،مگراس پر سنگھ کا خوف ہمیشہ طاری رہتاہے۔ بی بی جے پی لیڈران کے علاوہ اپوزیشن سیاسی جماعتیں  اور ریزرویشن  پانے والی تمام برادریوں میں آر ایس ایس کے بارے میں یہی تشویش پائی جاتی ہے کہ آر اے ایس ایس دلتوں اور کمزور طبقات کی مخالف ہے اور اس کی ساری سر گرمیوں کا مقصد فقط اعلیٰ ذاتوں یعنی فاروارڈ بلاک کو فائدہ پہنچانے تک محدود رہتا ہے۔ اس لئے یوپی کے علاوہ پورے ملک کے اندر دلتوں میں یہی شبہات پائے جاتے ہیں کہ بی جے پی حکومت کے ہاتھوں میں پسماندہ اور دلت برادریوں کو دیا جانے والا ریزرویشن محفوظ نہیں ہے۔ خود بھاجپا کی حلیف جماعتو کے اندر بھی شدید بے چینی کا عالم ہے۔ ان کے دل و دماغ میں یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ اگر آر ایس ایس  کے سربراہان نے 2019 کے لوک سبھا انتخابات سے ٹھیک پہلے ایسا ہی بیان دے دیا تب تو ہماری سیاسی لٹیا غرق  جائے گی۔

غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ریزرویشن ختم کرنے کیلئے دیے گئے منموہن وید کے بیان اگر اترپردیش انتخابات میں اثرانداز ہوئے تو بی جے پی کی کئی حلیف جماعتیں این ڈی اے سے رشتہ توڑ سکتی ہیں۔ رام ولاس پاسوان اور اوپیندر کشواہا کے بیانات سے تواس کاواضح اشارہ مل ہی رہا ہے۔باخبر ذرائع کے مطابق پسماندہ طبقات اور دلتوں سے وابستہ پارٹیاں آر ایس ایس رہنماؤں کے مسلسل ریزرویشن مخالف بیانات سے فکر مند ہیں۔ 2015 کے بہار اسمبلی انتخابات سے ٹھیک پہلے آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کے ریزرویشن  مخالف بیان کاشرمناک انجام بی جے پی کے ساتھ ساتھ اس کی اتحادی جماعتیں بھی جھیل چکی ہیں۔ بھاگوت کے بیان اور اس سے پیدا ہونے والے این ڈی اے مخالف نتائج کے باوجود منموہن وید کے ریزرویشن مخالف بیان نے ایک بار پھر یہی سوال دہرا دیا۔جانکاروں کا تجربہ ہے کہ سنگھ کوئی بیان بہت سوچ سمجھ کراور اعلیٰ ذات کی فلاح والی پالیسی کو ذہن میں رکھ کر ہی دیتا ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے بیانات کے پیچھے کیسنگھ کا منشا کیا ہے؟ میڈیا میںاس سوال پر طرح طرح کی تشویشناک قیاس آرائیاں جمعہ کے روزہی سے گر دش کررہی ہیں۔ ایل جے پی لیڈر رام ولاس پاسوان اور’’ رالوسپا لیڈر‘‘لیڈر اوپیندر کشواہا کے تازہ بیانات سے ان لیڈروں کی فکر کابخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے۔یو پی کا معرکہ بی جے پی کیلئے اس لئے بھی آسان نہیں ہو گا کہ ٹکٹ تقسیم پر پارٹی کے اندر خانہ جنگی شروع ہوگئی ہے۔بی جے پی کے سینئر لیڈر یوگی آدتیہ ناتھ کی تنظیم’’ہندویووا واہنی ‘‘نے تو اپنے 68امیدواروں کا اعلان بھی کردیا ہے جسے بی جے پی کیلئے کسی اچھی کا میابی کا پیغام نہیں کہا جاسکتا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔