معراج….جسم نبوت کا باکمال اعزاز

یہ 27ویں رجب المرجب نبوت کا گیارہواں سال ہے۔
رات اپنے اوپر اندھیرے کی دبیز چادر تانے ہوئے ہے۔ چاند ’’رخصت‘‘پر ہے۔ ستارے اپنے محور میں رقصاں جھلملا رہے ہیں۔ چشمانِ نبوت میں ماضی کے واقعات تیر رہے ہیں۔ اعلان نبوت سے لے کر اب تک گیارہ برس کا طویل عرصہ بیت چکا ہے اس عرصے کا ہر دن آپ کی مظلومیت اور آپ کے صبر و استقلال کی داستانیں سنا رہا ہے۔ اور ہر رات لسان نبوت کے ارتعاش سے بارگاہ ایزدی میں راز و نیاز اور مناجات کے گن گا رہی ہے۔
10 ماہ قبل شوال 10 نبوی کے آخر میں مکے سے نجران کی جانب تقریباً 90 کلو میٹر دور طائف کی وادی میں قبیلہ ثقیف کے سرداروں کی باتیں سماعت نبوت کو خراش رہی تھیں۔ قرن الثعالب پر روح الامین(جبرائیل علیہ السلام )کی ملاقات اور عرض داشت آپ کی آنکھوں کے دھندلکے دائروں میں گھوم رہی تھی۔ مقصود کائنات کے ملائم و گداز وجود پر طائف کے نوکیلے پتھروں کے نقش ابھی باقی تھے کہ
ایک شب حضرت ام ہانی کے دولت کدے پر آپ آرام فرما تھے کہ یکایک مکان کی چھت پھٹی ‘ ملائکہ کے جھرمٹ میں جبرائیل امین اترے اور آپ کو نیم خوابی کے عالم سے بیداری کے عالم میں لائے۔چنانچہ آپ اپنے اسی جسم کے ساتھ یہاں سے مسجد حرام کی طرف روانہ ہوئے ،وہاں آپ حطیم کعبہ میں آرام فرما ہوئے‘ چند لمحوں بعد آپ کو جبرائیل و میکائیل نے جگایا اور زم زم کے کنویں کے قریب لے آئے‘ یہاں آپ لیٹ گئے‘ آپ کے مبارک سینے کو شق کیا گیا اور قلب اطہر کو نکال کر زم زم کے پانی سے دھویا گیا ‘سونے کے ایک طشت کو لایا گیا جو ایمان و حکمت سے بھرا ہوا تھا۔ایمان و حکمت کو آپ کے قلب مبارک میں بھر دیا گیا اورقلب اطہر کو دوبارہ اپنے مقام پر رکھ دیا گیا۔اور دونوں کندھوں کے درمیان ختم نبوت کی ایک مہر لگا دی گئی۔ جبرائیل امین کے ہمراہ بہشت سے ایک سفید رنگ کی سواری براق کو بھی لایا گیا جس کا ایک قدم منتہائے بصر تک پہنچتا ہے۔ آپ اس پر سوار ہوئے اور جبرئیل و میکائیل آپ کے ہمرکاب تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ راستے میں میرا گزر ایک ایسی زمین پر ہوا جس میں کجھور کے درخت بکثرت تھے جبرائیل امین نے عرض کی کہ یہاں اتر کر دو رکعات نماز(نفل) پڑھ لیجیے۔پھر اس جگہ کے بارے میں بتایا کہ یہ یثرب (مدینہ منورہ) ہے‘ جہاں آپ نے ہجرت کر کے آناہے۔ وہاں سے چلے تو وادی سیناء پہنچے جبرائیل نے عرض کیا: حضور یہاں بھی دو رکعت پڑھ لیجیے اور بتایا کہ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام فرمایا تھا۔ وہاں سے حضرت شعیب علیہ السلام کی بستی ’’مدین ‘‘پہنچے ہیں، جبرائیل امین علیہ السلام نے یہاں بھی عرض کیا:دو رکعت آپ پڑھ لیجیے، وہاں سے مقام بیت اللحم پہنچے ہیں، عرض کی : حضور!یہاں بھی دو رکعت پڑھ لیجیے۔ وہاں سے چلے تو بیت المقدس پہنچے ،جبرائیل امین نے عرض کی: حضور یہاں بھی دو رکعت پڑھ لیجیے۔
صحیح مسلم ، سنن نسائی ،مسند ابی یعلیٰ اور خصائص الکبریٰ میں ہے کہ اس سفر مبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر مبارک پر بھی ہوا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود فرماتے ہیں کہ جس رات مجھے معراج کرایا گیا، میں سرخ ٹیلے کے پاس حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر کے قریب سے گزرا۔(میں نے دیکھا کہ)حضرت موسیٰ علیہ السلام قبر میں کھڑے ہو کے نماز پڑھ رہے تھے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ اس واقعے میں جو چیز بطور معجزہ کے ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قبر میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھنا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قبر میں نماز پڑھنا معجزہ نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس رات مجھے معراج کرایا گیا میرا گزر ایسے لوگوں پر ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ اپنے چہروں اور سینوں کو چھیل رہے تھے۔میں نے جبرئیل علیہ السلام سے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے گوشت کھاتے ہیں( یعنی ان کی غیبت کرتے ہیں) اور ان کی بے آبروئی کرنے میں لگے رہتے ہیں۔
آپ نے فرمایا کہ میرا گزر ایسے لوگوں پر بھی ہوا جن کے پیٹ اتنے بڑے بڑے تھے جیسے (انسانوں کے رہنے کے) گھر ہوتے ہیں ان میں سانپ تھے جو باہر سے ان کے پیٹوں میں نظر آرہے تھے۔ میں نے کہا کہ اے جبرئیل ! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا یہ سود کھانے والے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے بھی ہوا جن کے سر پتھروں سے کچلے جارہے تھے، کچل جانے کے بعد پھر ویسے ہی ہوجاتے‘ جیسے پہلے تھے۔ اسی طرح یہ سلسلہ جاری تھا، ختم نہیں ہورہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ لوگ فرض نماز میں سستی کرنے والے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے بھی ہوا جن کی شرمگاہوں پر آگے اور پیچھے چیتھڑے لپٹے ہوئے تھے اور اونٹ وبیل کی طرح چرتے اور کانٹے دار و خبیث درخت اور جہنم کے پتھر کھارہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مالوں کی زکوۃ ادا نہیں کرتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے بھی ہوا جن کے سامنے ایک ہانڈی میں پکا ہوا گوشت ہے اور ایک ہانڈی میں کچا اور سڑا ہوا گوشت رکھا ہے، یہ لوگ سڑا ہوا گوشت کھارہے ہیں اور پکا ہوا گوشت نہیں کھارہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا یہ کون لوگ ہیں؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس حلال اور طیب عورت موجود ہے مگر وہ زانیہ اور فاحشہ عورت کے ساتھ شب باشی کرتے ہیں اور صبح تک اسی کے ساتھ رہتے ہیں اور وہ عورتیں ہیں جو حلال اور طیب شوہر کو چھوڑکر کسی زانی اور بدکار شخص کے ساتھ رات گزارتی ہیں۔
آپ نے اس سفر میں ایک لکڑی دیکھی جو گزرنے والوں کے کپڑوں کو پھاڑ ڈالتی ہے۔ اس کے بارے میں جبرائیل امین نے بتایا کہ یہ ان لوگوں کی مثال ہے جو راستوں میں چھپ کر بیٹھتے ہیں اور ڈاکہ ڈالتے ہیں۔
ایک ایسے شخص پر بھی آپ کا گزر ہوا جس نے لکڑیوں کا بھاری گٹھہ جمع کر رکھا اور اس میں اُٹھانے کی ہمت نہیں پھر بھی لکڑیاں جمع کر کر کے گٹھے کو بڑھا رہا ہے پوچھنے پر جبرائیل امین نے بتایا کہ یہ وہ شخص ہے جو صحیح طور پر امانت ادا نہیں کرتا۔
آپ کا گزر ایسی قوم پر ہوا جن کی زبانیں اور باچھیں لوہے کی قینچیوں سے کاٹی جا رہی تھیں جبرائیل نے بتایا کہ یہ آپ کی امت کے بے عمل عالم ہیں۔ اس طرح آپ کا گزر خوشبو والی جگہ سے ہوا جبرائیل نے بتایا کہ یہ جنت ہے اور بدبو والی جگہ جہنم سے بھی گزر ہوا۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت صحیح بخاری و مسلم میں موجود ہے جس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال اور داروغہ جہنم(جس کا نام مالک ہے) کو بھی دیکھا ہے۔
روایات میں آتا ہے کہ اس سفر میں آپ کا گزر ایک بڑھیا پر ہوا اس نے آپ کو آواز دی حضرت جبرائیل نے آپ سے عرض کی کہ آگے چلیے! پھر آپ کا گزر ایک بوڑھے شخص پر ہوا اس نے بھی آپ کو آواز دی‘ حضرت جبرائیل نے کہا آگے چلیے! اس کے بعد آپ کا گزر ایک جماعت پر ہوا جنہوں نے آپ کو سلام کیا۔ جبرائیل امین نے کہا کہ ان کے سلام کا جواب دیجیے۔ پھر عرض کی کہ بوڑھی عورت دنیا ہے۔ بوڑھا مرد شیطان ہے دونوں کا مقصد آپ کو اپنی طرف مائل کرنا تھا اور جس جماعت نے آپ کو سلام کیا وہ حضرت ابراہیم ، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام ہیں۔
امام احمد نے اپنی مسند میں ذکر کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشبو آئی‘آپ نے پوچھا کہ یہ خوشبو کیسی ہے ؟ جبرائیل امین نے کہا کہ یہ کنگھی کرنے والی(ماشاطہ)اور اس کی اولاد کی خوشبو ہے۔ پھر اس کا مکمل واقعہ آپ کو سنایا کہ ایک عورت ماشاطہ(کنگھی کرنے والے کو کہتے ہیں ) فرعون اور اس کی اولاد کو کنگھی کیا کرتی تھی۔ ایک بارجب وہ فرعون کی بیٹی کو کنگھی کر رہی تھی اچانک اس کے ہاتھ سے کنگھی گر گئی تو اس نے کہا :بسم اللہ۔ فرعون کی بیٹی نے کہا کہ میرے باپ کے بارے میں کہہ رہی ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ جو میرا اور تیرے باپ کا رب ہے یعنی اللہ رب العزت۔ فرعون کی بیٹی نے معاملہ اپنے باپ کے دربار تک پہنچا دیا۔ فرعون نے کہا کہ کیا تو میرے علاوہ کسی اور کو بھی رب مانتی ہے؟ اس عورت نے بڑی دلیری سے جواب دیا کہ ہاں جو میرا اور تیرا رب ہے۔ چنانچہ فرعون نے طیش میں آ کر ایک تانبے کے بڑے برتن میں پانی گرم کرایا اور حکم دیا کہ اس ماشاطہ اور اس کی اولاد کو اس کھولتے ہوئے گرم پانی میں پھینک دیا جائے۔ اس دوران فرعون نے اس سے پوچھا کہ تیری کوئی خواہش ہے تو بتا؟ اس نے کہا کہ ہاں میری اور میری اولاد کی ہڈیاں اکٹھی کر کے ایک جگہ دفنا دینا۔فرعون نے اس کی یہ بات مان لی ۔ چنانچہ اس کی اولاد کو ایک ایک کر کے ابلتے ہوئے پانی میں ڈال دیا گیا جب اس کے شیر خوار بچے کی باری آئی تو خاتون کی ممتا نے جوش مارا اور وہ ذرا پیچھے ہٹی تو اس شیر خوار بچے نے کہا: اماں جان بے خوف و خطر میں اس میں کود جاؤ! آخرت کا عذاب دنیا کے عذاب سے زیادہ سخت ہے۔چنانچہ وہ ماشاطہ اس کھولتے ہوئے پانی میں کود گئی۔
اسی طرح آپ نے چند اہل جنت کے احوال بھی مشاہدہ فرمائے۔ چنانچہ آپ کا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جو ایک ہی دن میں بیج بوتے اور فصل کاشت کر رہے تھے ان کے بارے میں جبرائیل نے بتایا کہ یہ آپ کی امت کے مجاہدین ہیں ان کی ایک نیکی سات سو نیکیوں سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے اور یہ جو کچھ خرچ کرتے ہیں اللہ ان کو اس کا نعم البدل عطا فرماتا ہے۔اسی طرح بعض صحابہ کرام کے محلات بھی آپ نے اس سفر میں دیکھے۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم بیت المقدس پہنچے جہاں پہلے سے انبیاء کرام علیہم السلام اور ملائکہ آپ کی انتظار میں تھے‘ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ کا ہاتھ پکڑا اور مصلیٰ امامت پر کھڑا کردیا ۔آپ نے ان سب کو دو رکعات نماز پڑھائی اور’’ امام الانبیاء ‘‘سے شرف سے مشرف ہوئے۔پھر بعض انبیاء کرام علیہم السلام کی ارواح سے آپ نے اللہ کی حمد سنی اور آخر میں خود آپ نے بھی اللہ کی حمد و ثنا بیان کی۔ امام زرقانی نے اس واقعے کو مفصل ذکر کیا ہے۔
اس کے بعد جب آپ مسجد سے باہر تشریف لائے تو آپ کے سامنے پانی ‘شراب اور دودھ کا ایک ایک پیالہ پیش کیا گیا ۔ آپ نے دودھ کا پیالہ لیا جس پر جبرائیل امین نے کہا کہ آپ نے دین فطرت کو لیا ہے۔ اگر آپ شراب کا پیالہ لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی اور اگر پانی کا پیالہ لیتے تو آپ کی امت غرق ہو جاتی۔
پھربیت المقدس سے عرش معلیٰ تک کا سفر شروع ہوا۔چنانچہ بالترتیب پہلے تا ساتویں آسمان پر آپ نے حضرت آدم ، حضرت عیسیٰ،حضرت یوسف ،حضرت ادریس ، حضرت ہارون ، حضرت موسیٰ اور حضرت ابراہیم علیہم السلام سے ملاقات فرمائی۔ پہلے آسمان پر ملاقات حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی ان کا حق پہلے بنتا تھاکیونکہ آپ ابو الانبیاء ہیں۔ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ہوئی حضرت عیسیٰ علیہ السلام وہ نبی ہیں جنہیں خدا نے زندہ آسمان پر اٹھایا ہے پھر دوبارہ اتارنا بھی ہے،اس کے بعد حضرت یوسف علیہ السلام سے ملاقات ہوئی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ بتانے کے لیے کہ جیسے آپ نے مکہ میں اپنوں سے سختیاں جھیلی ہیں ، یوسف علیہ السلام کے ساتھ بھی اپنوں نے یہ حشر کیا تھا لیکن ایک وقت آیا تھا کہ یہ فاتح بنے تھے، انہوں نے اپنوں کو معاف کیا تھا، حضور!ایک وقت آنا ہے کہ آپ نے بھی فاتح بننا ہے تو یوسف کی طرح آپ نے بھی معاف کردینا ہے،پھر حضرت ادریس علیہ السلام سے ملاقات ہوئی حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے مکہ سے مدینہ جانا تھا اور بادشاہوں کوخطوط لکھنے تھے اس لے حضرت ادریس سے ملاقات ہوئی انہوں نے خطوط ایجاد کیے ہیں۔پھر حضرت ہارون علیہ السلام سے ملاقات ہوئی حضرت موسیٰ جب تورات لینے کوہ طور پر گئے تھے تو پیچھے حضرت ہارون تھے، ان کی قوم نے بچھڑے کی پوجا کی ہے،تواس قوم کو ہلاک کر دیا گیا۔ حضرت ہارون کے دور میں شرک ہوا تو ان کی قوم ہلاک ہوئی، اے نبی! اگر آپ کی قوم شرک کرے گی تو ان کو میدانِ بدر میں قتل کیا جائے گا۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات کرائی ، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے شام میں جہاد کیا، حضور! آپ بھی جہاد کے لیے نکلیں گے چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم شام کے جہاد کے لیے تبوک تک نکلے ہیں، حضرت موسیٰ شام گئے ہیں لیکن فتح خود نہیں کیا بلکہ ان کے جانے کے بعد ان کے جانشین حضرت یوشع بن نون نے فتح کیا، حضور! آپ چلے جائیں گے آپ کے جانے کے بعد آپ کے جانشین حضرت عمر رضی اللہ عنہ فتح کریں گے۔ آخر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ ایک کعبے کا بانی ہے ایک کعبے کا محافظ ہے، اے پیغمبر! ابراہیم نے کعبہ بنایا ہے اور آپ نے کعبہ کی حفاظت کرنی ہے۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے۔ ’’سدرہ‘‘ بیری کا نام ہے اور منتہیٰ کہتے ہیں اختتام کو ۔یہ وہ مقام ہے کہ جہاں نیچے والے اعمال پہنچتے ہیں تو اوپر والے فرشتے یہاں سے اوپر کی طرف لے جاتے ہیں اور اوپر والے احکام وہاں آتے ہیں تو نیچے والے فرشتے وہاں سے نیچے لاتے ہیں، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم مزید اوپرصریف الاقلام تک پہنچے ہیں، ’’صریف الاقلام ‘‘ جہاں تقدیر لکھنے والے قلموں کی آواز آ رہی تھی ،اس کے بعد آپ کے لیے ایک اور سواری رفرف آئی وہاں سے اوپر گئے ہیں‘ آپ عرش معلیٰ تک پہنچے ۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم عرش پر گئے ہیں، خدا سے بات بھی کی اور خدا کا دیدار بھی کیا، اللہ کی بات کو سنا بھی‘ اللہ کی ذات کو دیکھا بھی۔چنانچہ الخصائص الکبریٰ میں ہے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رَاَیْتُ رَبِّی عَزَّ وَجَلَّ میں نے اپنے رب کو دیکھا ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں نے نور اعظم(اللہ )کو دیکھا ہے۔
الجامع لاحکام القران میں ہے کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا: میرے پیغمبر آپ مہمان بن کر آئے ہیں‘ ہمارے لیے کیا لائے ہیں؟ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے عرض کیا: التَّحِیّاتُ لِلہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطیِّبَاتُ149اے اللہ! میری زبانی ‘ بدنی اور مالی عبادت آپ کے لیے ہے۔اللہ رب العزت نے اس کے بدلے میں تین انعامات عطا فرمائے، فرمایااے نبی ! اگر آپ کی زبانی عبادت میرے لیے ہے تو پھر: ’’اَلسَّلَامْ عَلیک ایھا النبیُ ‘‘میرا زبانی سلام بھی آپ کے لیے ‘اگر آپ کی بدنی عبادت میرے لیے ہے تو : وَرَحمَۃُ اللّہِ ،میری رحمتیں بھی آپ کے لیے ۔اگر آپ کا مال میرے لیے ہے تو وَبَرکاتُہ: اس مال میں برکات میری طرف سے ہیں۔چنانچہ اسی موقع پر پانچ نمازوں کی فرضیت کا حکم بھی ہوا ۔ پہلے پہل تو پچاس نمازوں کا حکم تھا پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خواہش پر بار بار کمی کے بعد پانچ نمازیں باقی بچیں۔ بعض روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سورۃ البقرۃکی آخری چند آیات بھی اسی سفر معراج میں بطور تحفہ آپ کو عنایت کی گئیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے مختصر وقت میں تاریخ انسانی کا سب سے طویل سفر طے کیا جس میں مکہ مکرمہ سے بیت المقدس جانا، انبیاء کرام و ملائکہ کی امامت،پھر وہاں سے آسمانوں تک تشریف لے جانا، انبیاء کرام سے ملاقات اور سدرۃ المنتہی ، صریف الاقلام ،قاب قوسین تک رسائی۔اور اللہ جل شانہ کی ذا ت بے مثل کی زیارت ، جنت ودوزخ کا مشاہدہ کر کے واپس تشریف لائے۔صبح اٹھ کر آپ نے اپنے رات والے واقعے کو بیان کیا تو قریشی جھٹلانے لگے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر انہوں نے یہ بات کہی ہے تو سچ فرمایا ہے۔ اس پر قریشی لوگ کہنے لگے کہ کیا تم اس بات کی بھی تصدیق کرتے ہو؟ انہوں نے فرمایا کہ میں تو اس سے بھی زیادہ عجیب باتوں کی تصدیق کرتا ہوں اور وہ یہ کہ آسمانوں سے آپ کے پاس خبرآتی ہے۔ اسی وجہ سے سیدنا ابو بکر کا لقب صدیق پڑ گیا۔ قریش مکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیت المقدس کے احوال دریافت کرنے لگے تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بیت المقدس کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ظاہر فرمادیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم حطیم کعبہ میں تشریف فرما تھے۔ قریشی لوگ سوال کرتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سوالوں کا جواب دیتے جاتے۔

تبصرے بند ہیں۔