انسانی اقدار،اقلیتوں کے تحفظ میں ممتابنرجی نمایاں – کیوں نہ انہیں لوگ بڑھ چڑھ کرووٹ دیں

کسی بھی ملک کی بقاء واستقامت کیلئے ،ملک میں قومی یکجہتی،فرقہ وارانہ ہم آہنگی ایک اہم ترین عنصرہے۔ہم آہنگی اورقومی یکجہتی سے ملک میں امن وامان ،نظم کی برقراری ہواکرتی ہے۔تب کھیتوں،کلیانوں میں زراعت ہواکرتی ہے۔کل کارخانوں میں مشینیں چلتی ہیں۔پیداوار ہوتی ہیں۔صنعتی وزراعتی ترقی ہواکرتی ہیں۔ترقی کی خاطرتعلیم بھی ایک اہم عنصرہے۔مکتب اسکول وکالج چلاکرتے ہیں۔آنے والی نسلوں کی آب یاری ہوتی ہے۔جس پرقوموں،ملکوں کامستقبل انحصار کرتاہے۔
ہماراملک صدیوں سے متعدد مذاہب،زبانوں،کلچرل کاگہوارہ ہے۔سبھی میں محبت بھائی چارہ،امن وآشتی قائم ہے۔یہاں کثرت میں وحدت ہے۔اتحاد واتفاق قومی یکجہتی ہے۔؂
گلہائے رنگارنگ سے قائم ہے زینت چمن
جوذرہ جہاں ہے وہی آفتاب ہے
اگرفرقہ وارانہ ہم آہنگی یکجہتی نہ ہوتو اس کااثرملک کی تعمیروبقا ہی کیلئے خطرہ ہے بلکہ ملک کی استقامت کے لئے بھی ایک بڑاخطرہ ہے۔یہ ملک کی بدقسمتی ہے کہ اپنی بے جاخواہشات اور نفس پرستی کی بناء پر دلوں میں نفرت کدورت پھیلانے کی باتیں بھی ہواکرتی آئی ہیں۔اپنے آپ کوبرترکرنے کیلئے،وہ ملک کے امن وامان،فرقہ وارانہ ہم آہنگی،قومی یکجہتی کے ساتھ کھلواڑکرکے،ملک کی تعمیروبقا کیلئے خطرات بنے ہوئے ہیں۔ان ہی منفی رحجانات کولئے ہوئے ،ہندوتواواد،برہمن وادجاری ہے۔اس کاماخذراشٹریہ سیوم سنگھ یعنی آرایس ایس ہے۔ہندی۔ہندواورہم کبھی گاؤماتاکی حفاظت کبھی وندے ماترم کبھی اس ملک میں شریعت کاقانون نہیں چلے گا،اس قسم کی باتیں آرایس ایس کیاکرتی ہے۔دلوں میں نفرتوں کابازارگرم کرتے چلی آئی ہے۔ان برہمنوں کویہودیوں کی طرح زعم ہے کہ وہ ہی اللہ کے پیارے بندے ہیں۔باقی سب ہیچ ہیں۔یہ برہمن وادہی ہندوؤں میں ذات پات کوہزاروں سال سے جاری کئے ہوئے ہے۔جس کے ہاتھوں دلتوں پسماندہ طبقات کوبے پناہ ہزہمت اٹھانی پڑتی آئی ہیں۔دلتوں کے لیڈرڈاکٹرباباصاحب امبیڈکرنے کہاتھاکہ میں ہندؤں میں پیداہواہوں مگرہندوبن کرمرنانہیں چاہتا۔انہوں نے لاکھوں دلتوں کے ہمراہ بودھ مذہب اختیارکرلیاتھا۔یہ دلتوں پرہندوتواوادیوں کے ظلم وستم کی بناء پرہوا۔آرایس ایس کوملک کی دیگراقلیتوں سے بھی بے پناہ نفرت ہے۔عیسائیوں،مسلمانوں کی زندگی اجیرن کئے ہوئے ہے۔یہ ان کودوسرے درجہ کاشہری مانتی ہے۔ہندوتوااورآرایس ایس کے خطرناک عزائم،اس کے لیڈران کی تقاریروتحریرسے ہی آشکارہیں۔ملک کی آزادی کے بعدسے اب تک جس قدردستوری آزادی نہ ملنے کے سبب ملک کی اکثریتی آبادی سالوں سال سے ہزیمتیں اٹھاتی آئیں ہیں۔اس کاسبب برہمن واداورہندوتواہی ہے۔ملک کے وزیراعظم مودی آرایس ایس کے پرچارک رہے ہیں۔بی جے پی آرایس ایس کاگویاایک بازوہے۔اس کی بی جے پی کے علاوہ بے شمار شاخیں ہیں۔ملک میں آزادی کے بعد ۵۰؍ہزارسے زیادہ فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔جس میں مسلمانوں کابے انتہاجانی ومالی نقصان ہوا۔فسادات کے بعد،فسادات کی جانچ میں بٹھائے گئے سرکاری کمیشنوں نے اپنی جانچ میں فسادات میں شامل ہونے والے آرایس ایس اوراس کی ذیلی شاخوں سے تعلق رکھنے والوں کے نام بتلائے۔پہلے کوآرایس ایس سیاست سے بیرتھا۔اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے وہ سیاست میں شامل ہوگئی،پہلے جن سنگھ اوراب بی جے پی اسی کی پیداوار ہے۔
ملک کے سارے ہندو،ان کی اکثریت،برہمن وادکے خلاف ہے۔ملک کی اکثریت، تکثیریت وامن وامان میں یقین رکھتی ہے۔یہ ہماراسینکڑوں سال پرانااثاثہ ہے۔آج مرکز میں ہندوتواوادی بی جے پی کو۳۱؍فیصد ووٹ ملے۔باقی ووٹ تقسیم ہوئے،اگریہ نہ ہواہوتاتو بی جے پی کی مرکز میں حکومت نہ بنتی۔مغربی بنگال اسمبلی کاالیکشن انتہائی اہمیت کاحامل ہے۔
متعدد صوبوں میں جہاں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے اقلیتوں دلتوں کے حالات دن بدن خراب ہورہے ہیں۔مرکزمیں بی جے پی کی حکومت آنے سے ہندوتواکواپنے ناپاک عزائم کومکمل ہوتے جگہ جگہ دیکھاجاسکتاہے۔مہاراشٹرمیں بی جے پی کی حکومت آتے ہی بیف پرپابندی لگادی۔مسلمانوں کے تعلیمی ریزرویشن کومنسوخ کردیا۔اس کے علاوہ بھی اقلیتوں ومسلمانوں کے ساتھ کیاکچھ نہیں ہورہاہے۔ گجرات،راجستھان،مدھیہ پردیش وغیرہ میں جہاں بی جے پی کاراج ہے۔مسلمانوں کے ساتھ بربریت ہورہی ہے۔ہندوتواکوروکنے میں ملک کے سیکولرسیاست دانوں میں،لالوپرساد،نتیش کمار،اروندکیجریوال کے ساتھ ساتھ مغربی بنگال کی وزیراعلی محترمہ ممتابنرجی کانام نمایاں ہے۔پورے ملک میں ہندوتواکے بڑھتے اثرات ،عوام الناس پرہندوتواکے ظلم وستم کوروکنے کیلئے چندمہینوں پہلے بہارکے سبھی مذاہب کے لوگوں نے بری طرح سے ہندوتواوادی بی جے پی کواسمبلی الیکشن میں شکست فاش دی۔اس سے پہلے دہلی الیکشن میں عوام نے عام آدمی،کیجریوال کوکامیاب بناکر،بی جے پی کوشکست وہارکی دھول چٹادی۔
مغربی بنگال کے اسمبلی الیکشن میں ممتابنرجی کی ترنمول کانگریس بی جے پی،کمیونسٹوں اورکانگریس کامحاذ حصہ لے رہاہے۔سبھی کی کارکردگی جگ ظاہرہے۔کانگریس کے راج میں آزادی سے آج تک کتنے فسادات ہوئے۔کس نے فرقہ واریت کوروکنے میں منافقت کی،اورفرقہ واریت کوپروان چڑھایا۔اسے لکھنے کیلئے کئی ہزارصفحات درکارہیں۔ملائم سنگھ یادو،شردپواراورمتعدد سیکولرپارٹی کے لیڈران صرف کہنے کے لئے سیکولرلیڈرہیں۔ملائم سنگھ نے گذشتہ پارلیمانی الیکشن میں بی جے پی کوسجاکر،تھال میں رکھ کر،۸۰؍پارلیمانی الیکشن میں ۷۳؍پارلیمانی سیٹیں،یوپی سے بی جے پی کودے دیں۔گذشتہ پارلیمانی الیکشن سے پہلے ہی یوپی میں ہندوتواپرزور طریقہ سے سرگرم تھی،متعدد فسادات ہورہے تھے۔ہندوتواوادیوں کوآزادی تھی۔جومنہ میں آیا،مسلمانوں کے خلاف شرانگیزبیانات دے رہے تھے۔فرقہ وارانہ فسادات جاری تھے۔اقلیتوں کے جان ومال کاعظیم ترین نقصان جاری تھا۔فسادیوں کوآزادی تھی۔چاہے جوبولوکرو،فسادات ،فرقہ وارانہ پارٹیوں کی کامیابی کاضامن ہواکرتے ہیں۔گذشتہ پارلیمانی چناؤمیں ہندوتواکی آگ نے ملائم سنگھ یادو،سماجوادی پارٹی کی نااہلی کی بناء پر،نمایاں طورپرپارلیمانی سیٹوں پرکامیابی حاصل کرلی۔مرکزمیں بی جے پی کی ہندوتواوادی حکومت بننے میں آسانی ہوئی ۔
مغربی بنگال میں ،یوپی میں ملائم سنگھ یادوکی طرح ہندوتواکوچڑھنے نہیں دیاگیا۔یہاں بھی کہیں بم دھماکے ہوئے،فرقہ وارانہ کشیدگی سرچڑھنے لگی۔بطوروزیراعلی، مغربی بنگال میں ممتابنرجی نے اسے کنٹرول کیا،متعدد بارانہوں نے ہندوتواوادی مودی کوٹوکا،کہاں کہ یہاں بنگلہ دیشوں کے نام پر،ہندوستانیوں کی گرفتاری کووہ برداشت نہیں کریں گی،کسی میں ہمت ہے توکرکے دکھاؤ۔یہاں تک کہاکہ اگروہ مرکزمیں وزیراعظم ہوتیں تومودی کوگرفتارکرتیں۔قومی یکجہتی کی قدروقیمت کوممتانے اپنے عمل سے کردکھایا۔جس پرگذشتہ چناؤ میں مغربی بنگال کے عوام نے بھروسہ کیا۔بی جے پی ایک بھی سیٹ پر بنگال میں
کامیاب نہ ہوئی۔۴۲؍پارلیمانی سیٹوں پر۳۴؍سیٹوں پرترنمول کانگریس کوکامیابی ملی۔یوں پورے ملک میں،ہندوتواوادیوں کابڑھتاکامیاب ہوتا’’ وجے رتھ‘‘ مغربی بنگال میں گذشتہ پارلیمانی چناؤ میں رک گیا۔شردپوار کی راشٹروادی کانگریس مہاراشٹرمیں موجودہ بی جے پی سرکارمیں آنے سے پہلے کانگریسی سربراہی والی حکومت میں ۱۵؍برسوں تک شامل تھی۔پولس کامحکمہ وزارت داخلہ مسلسل ۱۵؍سالوں تک راشٹروادی کانگریس کے ہاتھ تھا۔پورے ملک میں سب سے زیادہ معصوم مسلم نوجوانوں کے دہشت گردی جیسے سنگین الزامات میں یہاں کانگریس۔راشٹروای کانگریس کے راج میں گرفتارکیاگیا۔مالیگاؤں بم بلاسٹ میں مسلم معصوموں کی مسلسل ۱۰؍برسوں تک جیل وہزیمتوں کے بعدحال ہی میں عدالت سے باعزت رہائی ہوئی۔
ممتابنرجی نے اپنے دوراقتدارمیں اس قدرجھوٹے الزامات میں معصوم مسلمانوں کی گرفتاریاں نہ ہونے دیں،فرقہ وارانہ فسادات اس قدرنہ ہونے دیئے جتناملائم سنگھ کے راج میں یوپی اورکانگریس اورشردپوارکے راج میں مہاراشٹرمیں ہوئے۔
لسانی مذہبی اقلیتوں کے دستوری حقوق کاممتانے خیال رکھا۔مودی کومخاطب کرتے ہوئے ایک بارکہاکہ مغربی بنگال میں یوپی۔راجستھان اورگجرات کے مارواڑی مغربی بنگال میں ہیں۔وہ یہاں قانون سازاداروں میں ہیں۔کیامودی کے گجرات میں ایساہے۔اردوسارے ہندستان کی زبان ہے۔مگراس کاکوئی اپناگھرنہیں۔ممتانے مغربی بنگال میں اردوکی آب یاری میں نمایاں اقدامات کئے،ہندوتواوادیوں نے غزل سنگرغلام علی کاپروگرام ہونے نہیں دیا۔ممتانے مغربی بنگال میں شایان شان غلام علی کاپروگرام کیا۔پوری دنیامیں نمایاں اردوشاعرڈاکٹرعلامہ اقبال کوبعدازمرگ’’ترانہ ہندی‘‘ کے اعزازسے ڈاکٹراقبال کے پوتے ولیداقبال کوپاکستان سے بلاکر ایک عظیم الشان جلسہ عام میں نوازا۔
سماجی معاشی اورانسانی اقدارپرمغربی بنگال کی وزیراعلی ممتابنرجی کاقد اورسیکولروغیرسیکولرلیڈروں میں اعلی وارفع ہے۔یقیناً وہ ووٹوں کی بھی صحیح حق دار ہیں۔انسانی اقداراوردستوری حقوق کے تحفظ میں ہندستان کے سیکولرسیاسی لیڈران سالہاسال سے، کرتے آئے ہیں۔ممتادیدی میں یہ باتیں نہیں ہے؂
میں کہاں رُکتا ہوں عرش وفرش کی آوازسے
مجھے جاناہے بہت دورحدپروازسے
ممتادیدی گویااس شعرکی تفسیرہیں۔ مغربی بنگال کوامن وامان ،تعمیروترقی اوریکجہتی کامزیدمضبوط گہوارہ بناناہے توممتابنرجی کے سوادورتک کوئی اورنہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔