بچوں کا مشاعرہ

ریحان چھٹیوں میں گاؤں گیا تھا۔ وہاں وہ اپنے چچا زاد بھائیوں کے ساتھ ایک مشاعرے میں بھی گیا تھا۔ مشاعرے میں بہت سے شاعروں نے لہک لہک کر اپنے اشعار سنائے تھے ۔ ریحان کو یہ سب اتنا اچھا لگا کہ اس نے اپنے اسکول میں بھی ایک مشاعرہ کرنے کا ارادہ کرلیا تھا۔ مشاعرے کی بات جب اس نے اپنے دوستوں عارف اور ندیم کو بتائی تو وہ بھی بخوشی تیار ہوگئے طے پایا کہ عید کے دن بچوں کا مشاعرہ ہوگا۔ شاعر بچے اپنا اپنا کلام سنائیں گے۔ اشعار صاف ستھرے ہوں گے ہر شاعر صرف پانچ شعر سنائے گا۔
تمام بچے عید کے دن عصر کے بعد اسکول کے ہال میں جمع ہوگئے ۔ پروگرام کی صدارت ہیڈ ماسٹر صاحب کررہے تھے۔ سب سے پہلے عدیل رحمت ؔ نے اپنی حمد پیش کی۔
خدا نے ہی سارے جہاں کو بنایا
اسی نے ہی ارض و سماں کو سجایا
عقل دی، ہدایت کا سامان بخشا
ہے جنت کے رستے کو آساں بنایا
دیا رزق وافر عنایت ہے اس کی
ضرورت کی چیزوں کو ارزاں بنایا
محمدؐ کو قرآن کی نعمت عطا کی
ہدایت کی عالم کا ساماں بنایا
نمایاں ہے ہر شے سے قدرت خدا کی
بنایا ہے جو کچھ وہ ذیشاں بنایا
عدیل رحمت کی حمد کے بعد شوکت احسانؔ نے نعت کے چند اشعار سنائے۔
لبوں پر مرے کس کا نام آگیا ہے
فرشتوں کا فوراً سلام آگیا ہے
یتیموں کے والی غریبوں کے ساتھی
ذہن میں محمدؐکا نام آگیا ہے
تصور میں جونہی خیال ان کا آیا
نگاہوں میں ماہِ تمام آگیا ہے
شریعت ہی ہے امن عالم کی ضامن
محبت کا گویا پیام آگیا ہے
کرے رشک کیوں نہ مقدر پہ شوکتؔ
کہ ہاتھوں میں کوثر کا جام آگیا ہے
شوکت احسان کی نعت بہت عمدہ تھی آواز بھی بہت ہی پیاری تھی۔ سبحان اللہ اور واہ واہ کی آواز سے پورا ہال گونج رہا تھا۔
حمد اور نعت کے بعد عنایت عرشی نے اپنی نظم سنائی۔
تم کو جومیٹری نے مارا ہے
مجھ کو ظالم حساب نے مارا
جس کو پڑھ کے ڈیڈی بھی پاس نہ ہوں
ایسے مشکل نصاب نے مارا
کون بابر تھا کون اکبر تھا
اس کے مشکل جواب نے مارا
دو دو جوڑو گھٹاؤ پھر
ایسے حساب و کتاب نے مارا
عنایت عرشیؔ نے آخری شعر پر ایسی بے بسی کی شکل بنائی کہ سب لوگ ہنس پڑے ۔ عنایت عرشی کے بعد ندیم حالیؔ نے اپنی نظم پڑھی۔
محنت سے ہمیشہ کام کریں
ممتاز جہاں میں نام کریں
پڑھنے میں لگائیں جی اپنا
تعلیم کا چرچا عام کریں
ماں باپ کے خادم بن جائیں
ہرگز نہ انہیں بد نام کریں
استاد کی عزت دل سے کریں
اونچا ان کا نام کریں
نام خدا ہو لب پہ صدا
ہم صبح کریں یا شام کریں
ندیم کی نظم پر تمام ہی اساتذہ مسکرائے مگر زیادہ مزہ بچوں کو آیا واہ واہ اور شاباش کی صدا کے ساتھ ندیم ڈائس سے واپس آئے اب اکمل جگنوؔ کی باری تھی۔ جگنو اپنے تخلص ہی کی طرح جگمگاتے ہوئے ڈائس پر تشریف لائے اور غزل سرا ہوئے۔
دوا دردِ دل کی اگر کوئی لائے
بہشت بریں میں یقیناًوہ جائے
بہت سوچ کر ہر قدم رکھ رہا ہوں
نہیں کوئی محشر زمانہ اٹھائے
عطاؤں سے بھی مجھ کو ڈر لگ رہا ہے
جفاؤں سے ان کی خدا ہی بچائے
نہ لذت ہے کوئی نہ آہ و فغاں ہے
کہے کوئی جگنو سے نغمہ نہ گائے
اکمل جگنوؔ نے اپنی لہک دار آواز سے خوب داد بٹوری ۔ ناظم مشاعرہ نے اب آواز دی جلیس صوفیؔ کو ۔ جلیس صوفیؔ نے ایک نصیحت آموز نظم سنائی ۔
صبح میں جلدی اٹھ جانا اچھی عادت ہے بچو
رات میں جلدی سوجانا اچھی عادت ہے بچو
کتنے پیارے نبیؐ ہمارے، اچھی اچھی باتیں ان کی
ان کے رستے پر چلنا اچھی عادت ہے بچو
پیارے نبیؐ کا ہے فرمان، پاکی ہے آدھا ایمان
پاکی اور صفائی رکھنا اچھی عادت ہے بچو
ٹی وی ہے شیطان کا آلہ اچھے بچے جانتے ہیں
اس سے ہمیشہ بچ کے رہنا اچھی عادت ہے بچو
صوفیؔ کی نصیحت کو سب نے بغور سنا۔ ناظم مشاعرہ

(مضامین ڈیسک)

تبصرے بند ہیں۔