قرآن کا پیغام والدین کے نام – رمضان، قرآن اور بچے (3)

’’شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہٖ الْقُرْآنُ ھُدیً لِلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدیَ وَ الْفُرْقَانِ فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمْ الْشَّھْرَ فَلْیَصُمْہٗ‘‘ (البقرہ:۱۸۵)

ترجمہ: ’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیاجو انسانوں کے لئے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہے لہٰذا جو شخص اس مہینے کو پائے اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے‘‘۔
* رمضان روزے کا مہینہ ہے اسے یہ خصوصیت نزول قرآن کی وجہ سے ملی ہے۔ اسی لئے رمضان کو روزے کے ساتھ ساتھ قرآن سے بھی خصوصی نسبت ہے اور اسی بناء پر رمضان میں جہاں روزے کا اہتمام لازم ہے وہیں قرآن پڑھنے اور سننے کا اہتمام بھی ضروری ہے۔
* یوں تو انسان شعور کی منزلوں کو پہنچنے کے بعد احکام الٰہی کا پابند ہوتا ہے لیکن پابند بنانے کے لئے اگر پہلے ہی سے کوشش کی جائے تو عین وقت پر پابندی آسان ہو جاتی ہے۔ اسی لئے مکلف نہ ہونے کے باوجود رسول اللہﷺ نے سات سال کی ہی عمر میں بچے کو نماز پڑھنے کی ترغیب دینے کی ہدایت فرمائی ہے اور اگر دس سال کی عمر میں نماز پڑھنا شروع نہ کرے تو رحمۃ للعالین ہونے کے باوجود سزا دینے کا حکم صادر فرمایاہے۔ اسی طرح روزے کے سلسلے میں بھی بچہ مکلف نہیں لیکن مانوس کرنے اور آئندہ بسہولت انجام دینے کی مشق بہم پہنچانے کے لئے اگر بالغ ہونے سے پہلے ہی بچے کو روزہ رکھنے کی ترغیب دی جائے اور اس کا اہتمام کیا جائے تو اس کی پوری گنجائش موجود ہے بلکہ یہ حوصلہ افزا عمل ہے۔ والدین کو اس پر توجہ دینی چاہئے۔ صحیح بخاری میں منقول ہے ۔ ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ’’ہم خود روزہ رکھتے تھے اور اپنے بچوں کو رکھواتے تھے جب وہ بھوک سے روتے تھے تو ہم ان کو روئی یا اون کی گڑیا دے کر بہلاتے تھے یہاں تک کہ افطار کا وقت ہو جاتا‘‘۔حضرت عروہؓ اپنے بچوں کو روزہ رکھواتے جب تک ان میں برداشت کی طاقت ہوتی اور نماز کا حکم دیتے جب ان میں کسی قدر سمجھ آجاتی (مصنف عبدالرزاق:7293) ۔
حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ فرماتے ہیں ’’اپنے بچوں سے نمازکی پابندی کراؤ اور انہیں نیکی کے کاموں کا عادی بناؤ۔ کیونکہ نیک کام کی عادت پابندی کرنے سے ہوتی ہے ‘‘(مصنف عبدالرزاق7299)
* رمضان کی جو دوسری خصوصیت ہے قرآن پڑھنا، سننا سنانا ، رمضان کے اس ساز گار ماحول کو بچوں کے حق میں بہت مفید بنایا جاسکتا ہے اور اس سلسلے کی کوشش بچوں پر بار بھی نہیں ہوگی۔ بلکہ قرآن سیکھنے اور سکھانے کے لئے بچپن کی عمر ہی بعض پہلوؤں سے زیادہ موزوں ہے مثلاً بچوں کا ذہن خالی ہوتاہے، حافظہ انتہائی مضبوط ہوتاہے۔ اگر اس مرحلے میں قرآن کی آیات اور سورتیں زبانی یاد کرائی جائیں تو وہ کبھی نہیں بھولتیں ۔ ہمیشہ کے لئے نقش ہو جاتی ہیں۔ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ فرمایا کرتے تھے: ’’لوگو! مجھ سے تفسیر کا علم حاصل کرلو کیونکہ میں نے بچپن ہی میں قرآن مجید حفظ کرلیا تھا‘‘۔ مزید فرما تے ہیں ’’جس نے بلوغت سے پہلے قرآن حفظ کرلیا اسے بچپن ہی میں دانائی نصیب ہوئی ‘‘(الآداب شرعیہ لابن مفلح: 1/244) اس طرح بچپن میں بچوں کی زبان نرم ہوتی ہے۔ اس حالت میں تلفظ کی صحیح ادائیگی اور تجوید کے اصول و قواعد سکھاناآسان ہے ورنہ بڑی عمر میں یہ چیز بہت مشکل ہو جاتی ہے۔ والدین اگر تھوڑی توجہ دیں تو رمضان کے سازگار ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے بچوں کو قرآن سیکھنے اور سکھانے کا بآسانی اہتمام کرسکتے ہیں ۔ اس سلسلے میں درج ذیل اقدامات مفید رہیں گے:
1۔ جب آپ خود تلاوت کے لئے بیٹھیں تو ترغیب دلانے کے لئے اپنے بچوں کو بھی پاس بٹھائیں ۔ سید قطب شہیدؒ جنہوں نے منفرد اور مشہور زمانہ تفسیر ’’فی ظلال القرآن‘‘ لکھی ہے۔ ان کا بیان ہے کہ بچپن میں جب میری والدہ تلاوت قرآن کے لئے بیٹھتیں تو مجھے پاس بٹھاتیں اس کی یادیں آج تک ذہنوں میں نقش ہیں۔ اسی سے یہ ترغیب ملی کہ قرآن پر غور و فکر کرسکوں اور اسی کانتیجہ ہے کہ آج میں قرآن کی کچھ خدمت کے لائق بن سکا۔
2۔ جب تراویح کے لئے جائیں تو بچوں کو ساتھ لے جائیں۔ وہ جس قدر شریک رہیں کافی ہے۔ پاکیزہ ماحول اور کانوں میں پڑنے والی آواز سے کچھ تو سیکھیں گے۔
3۔ تلاوت قرآن کی کیسٹیں سنائیں۔ بہت سی آیات اور چھوٹی چھوٹی سورتیں صرف یوں سن سن کر یاد ہو جائیں گی۔ امام شافعیؒ کے سلسلے میں آتا ہے کہ وہ یتیم تھے ۔ والدہ کے پاس استاد کو دینے کے لئے کچھ نہتھا۔ یوں ہی ایک استاد کی مجلس میں بھیج دیا۔ امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ میں نے استاد کو سنا کہ وہ بچے کو کسی آیت کی تلقین کررہے تھے ۔ میں نے اسے سنااور یاد کرلیا۔ استاد نے جب میری دلچسپی اور ذہانت کو تاڑ لیا تو فرمایا ’’میرے لئے تم سے کچھ لینا جائز نہیں ہے۔ اس طرح امام شافعیؒ مجلس میں سنتے اور پڑھتے رہے یہاں تک کہ سات برس کی عمر میں ہی مکمل قرآن کریم حفظ کرلیا۔
4۔ رمضان میں دن کے اوقات میں زیادہ فراغت رہتی ہے۔ آپ خود بچوں کو قرآن پڑھائیں اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو کسی ماہر عالم و قاری کے پاس بیٹھا کر پڑھائیں۔ جتنا اچھا استاد ہوگا اتنا اچھا بچے سیکھ سکیں گے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’اپنے بچوں کو تین باتیں سکھلادو، اپنے نبیﷺ کی محبت اور ان کے اہل کی محبت اور قرآن کریم کی تلاوت، اس لئے کہ قرآن کریم یاد کرنے والے اللہ کے عرش کے سایہ میں انبیاء اور مختلف لوگوں کے ساتھ ہوں گے جس روز اس کے سایہ کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا ‘‘۔(طبرانی )
5- تلاوت کے بعد یا رات میں سوتے وقت قرآنی قصے سنائیں اور سبق آموز پہلوؤں کو اجاگر کریں۔ اس سے ان کی ذہن سازی اور کردار سازی اور فہم قرآن کی راہیں بھی کھلیں گی۔
اخیر میں عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ (جو علماء صحابہ میں سے تھے) کا قول گوش گزار کرتا چلوں۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’قرآن پاک کو لازم پکڑو، قرآن سیکھو اور اپنے بچوں کو سکھاؤ۔اس سے متعلق تم سے باز پرس ہوگی اور اس کا تمہیں بدلہ ملے گا۔ صاحب عقل کے لئے قرآن نصیحت کے لئے کافی ہے‘‘۔

(مضامین ڈیسک)

تبصرے بند ہیں۔