مغربی بنگال کے خمیر میں جلد تغیر پسندی شامل نہیں

کیرالہ کے بعد خواندگی کی شرح میں سب سے آگے 

جمہوریت میں جہاں بہت سی خوبیاں ہیں وہیں بہت سی کمیاں اور خامیاں ہیں، جیسے ہمارے ملک میں 31 فیصد افراد کی رایوں سے ایک فرقہ پرست حکومت ترقی اور اچھی حکمرانی کے نام پر چل رہی ہے جبکہ 69 فیصد کی رائے بے معنی اور غیر متعلق (Irrelevant) ہوکے رہ گئی ہے۔ مغربی بنگال کے اسمبلی کے حالیہ انتخاب میں ترنمول کانگریس کے حق میں لگ بھگ 45 فیصد ووٹروں کی رائے ہے کہ انھیں دوبارہ اقتدار کی کرسی پر بٹھایا جائے جبکہ 55 فیصد کی رائے کچھ اور ہے۔ اس خرابی کی اصلاح ہوسکتی ہے۔ ووٹ کی جو حصہ داری (Share) ہے اس کے تناسب سے پارٹیوں کی سیٹیں نمائندگی کیلئے فراہم کی جائیں۔ کانگریس اور لفٹ محاذ کے حق میں 38 فیصد ووٹ پڑے ہیں یعنی 7 فیصد کا فرق ہے۔ اگر متناسب نمائندگی کا قانون نافذ ہوتا ہے تو محاذ اور ترنمول کی سیٹوں میں صرف 7 فیصد کا فرق ہوتا ہے۔ ووٹ کے تناسب سے نمائندگی دی جاتی تو اتحاد کو لگ بھگ 114 سیٹیں ملتیں اور ترنمول کو 135 سے زیادہ سیٹیں نہیں ملتیں۔ باقی سیٹیں بی جے پی اور دیگر پارٹیوں کو ملتیں۔ یہ چیز حقیقی جمہوریت کے قریب ہوتی۔ اس کی آواز کچھ پارٹیوں اور دانشوروں کی طرف سے اٹھی تھیں۔ مسلم مجلس مشاورت مغربی بنگال کی طرف سے ڈاکٹر مقبول احمد اور راقم نے مرارجی ڈیسائی کو میمورنڈم بھی اس سلسلے میں دیا تھااور گفتگو بھی کی تھی جب وہ وزیر اعظم کے عہدے پر فائز تھے مگر انھوں نے کہا کہ اس سے ہندستان ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا۔ ان کی منطق سمجھ میں نہیں آئی۔ کچھ ملکوں میں اس طرح کی چیز رائج ہے۔ وہاں کے ملکوں کی سا لمیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
جنوبی ہند میں خاص طور سے کیرالہ اور تاملناڈو میں ہر الیکشن کے موقع پر حکومت تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ دوسری بار تاملناڈو میں خلاف توقع حکومت تبدیل نہیں ہوئی۔ راجستھان میں بھی ایسا ہوتا ہے۔ اتر پردیش میں یہ سلسلہ کچھ سالوں سے جاری ہے مگر مغربی بنگال ایک ایسی ریاست ہے جہاں صورت حال عجیب و غریب ہے۔ بایاں محاذ سے پہلے یہاں کانگریس کی حکومت ستائیس اٹھائیس سال رہی۔ اس وقت دوسری پارٹیاں ایسی نہیں تھیں کہ کانگریس کا مقابلہ کرسکتیں مگر بایاں محاذ کی حکومت 34 سال قائم رہی اور مغربی بنگال کی صنعتی ترقی اور معاشی ترقی رک سی گئی تھی۔ سنڈیکیٹ کے علاوہ حکمراں جماعت کے کیڈرس بھی شری ہوگئے تھے اور تقریباً بہتوں کی ناک میں دم کر چکے تھے۔ کل کارخانے بھی بند ہوگئے تھے۔ یونین بازی کی وجہ سے کارخانوں کے مالکان کا جینا حرام ہوگیا تھا۔ چھوٹے چھوٹے establishment مثلاً ہوٹل اور دکانوں کا حال بھی یونین کی وجہ سے برا تھا۔ آخر میں سدھار کی کچھ کوششیں شروع ضرور ہوئیں۔ مسلم اقلیت کی معاشی حالت بد سے بدتر ہوگئی تھی۔ اس کی طرف بھی جاتے جاتے خیال آیا۔ ان سب کے باوجود حکومت 34سال بعد تبدیل ہوئی۔ محترمہ ممتا بنرجی اپنی پارٹی کی سب کچھ ہیں۔ کرپٹ یا شری لوگوں کو اکیلے روکنا ان کے بس کا کام نہیں ہے۔ ناردا کے معاملے میں انھوں نے کچھ نہیں کیا۔ الیکشن کے موقع پر کچھ کرنے کا اظہار کیا تھا مگر نتائج سامنے آئے تو ان کا من بل بڑھ گیا۔ پہلے دن اعلان کر دیا کہ رشوت خوری یا بدعنوانی کا الزام ان کے لوگوں پر غلط ہے۔ شاردا ، ناردا، فلائی اوور ، سنڈیکیٹ پر سب مل کر ہیبت ناک تصویر سامنے آئی تھی مگر نتائج نے سیاہی کو سفید میں بدل دیا ہے۔ اگر حکومتیں ہر پانچ سال میں بدلتی رہتیں تو آج جو مغربی بنگال کی بری حالت ہے وہ ہر گز نہیں ہوتی۔ یہاں کوئی Investment (سرمایہ کاری) کرنے کی ہمت ہی نہیں کر رہا ہے۔ محترمہ ممتا بنرجی کو سرمایہ دار Anti Investmrnt سمجھتے ہیں۔یونیورسٹیوں کے حالات بھی بدسے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ صحت اور تعلیم پر جو حکومت کو زیادہ خرچ کرنا چاہئے اور خیال کرنا چاہئے وہ بھی نہیں ہورہا ہے۔ مسلم اقلیت جہاں پانچ سال پہلے تھی وہیں کھڑی نظر آرہی ہے۔
اس صورت حال کو کم سے کم محترمہ ممتا بنرجی کو اب دیکھنا چاہئے۔ پریورتن (تبدیل) کرنے کا منصوبہ تیار کرنا چاہئے۔ پانچ سال کیلئے محترمہ کو کام کرنے کا پھر موقع ملا ہے۔ دیکھنا ہے کہ پہلی روش پر قائم رہتی ہیں یا آخری سال میں کچھ کرکے پھر اقتدار کو حاصل کرنے کی کوشش کریں گی؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔