دیدی اور اماں کی جیت

کلکتہ اور چنئی کے دو سر قبیلۂ خاتون کی کہانی

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ کلکتہ اور چنئی کی دو سر قبیلہ خاتون نے اپنی اپنی ریاست کی نئی تاریخ مرتب کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی پَریورتن سال 2011ء کے مقابلے میں 2016ء میں تن تنہا بغیر کسی پارٹی کے اشتراک کے مارکسی پارٹی کے قلعہ کو اس قدر مسمار کر دیا کہ وہ مغربی بنگال کی سیٹوں کے لحاظ سے تیسرے درجے کی پارٹی ہوگئی اور دو تہائی اکثریت بلا شرکت غیر لانے میں کامیاب ہوگئیں اور ان کی ہم رتبہ جے للیتا تاملناڈو میں اپنے سرپرست ایم جی رام چندرن کی طرح تقریباً تیس سال پہلے وزیر اعلیٰ کی کرسی پر رہتے ہوئے کامیابی حاصل کیں۔
محترمہ ممتا بنرجی نے لفٹ اور کانگریس کے اتحاد کو اکیلی اپنے رتھ میں بیٹھ کر لفٹ کو حاشیہ پر کر دیا اور کانگریس کو اس کی اوقات بتادی تو جے للیتا نے بھی ڈی ایم کے اور کانگریس اتحاد کو اقتدار کی کرسی تک پہنچنے سے روک دیا۔ اگرچہ کلکتہ اور چنئی کی سیاست میں بڑا فرق ہے مگر اس بار مماثلٹ کافی رہی جیسے ممتا اور جے للیتا دونوں کرپشن (بدعنوانی) کے گھیرے میں رہیں۔ دونوں نے مدت کارکردگی کی خرابیوں اور بدنامیوں (anti Incumbency) کو دیہی علاقوں میں اپنی اپنی کارگزاریوں کی وجہ سے پردہ ڈالنے میں کامیاب ہوگئیں۔ دیدی اور اماں کو بدعنوانیوں کے الزام سے عوامی عدالت نے ایک طرح سے بھاری اکثریت سے کامیابی سے ہمکنار کرکے بری کردیا۔
عوام نے ممتا کے شاردا اور ناردا الزامات کو پس پشت ڈال دیا تو اماں کو کرپشن کے الزام میں 22دن قید کی اندھیری کوٹھری میں گزارنے کو بالکل نظر انداز کر دیا۔ عام طور پر یہ کہا جارہا ہے کہ دیدی نے جو دیہی علاقوں میں فلاحی کام کئے تھے اور جے للیتا نے جو سماجی فلاحی اسکیموں کو عملی جامہ پہنایا تھا اس کی وجہ سے عوام کی بھاری اکثریت دونوں سے دوسری پارٹیوں کی قیادتوں کے مقابلے میں قریب تر رہی۔ دونوں خواتین آہن (Iron Ladies) اپنی اپنی پارٹیوں میں غیر جواب دہ ہیں جس کی وجہ سے غیر معمولی سیاسی شخصیت بن کر ابھری ہیں۔ دونوں نے محاذ آرائی کا تن تنہا مقابلہ کیا۔ غیر معمولی جیت سے یقیناًدونوں کے ہاتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوں گے۔ دونوں نے میدان سیاست میں اولوالعزمی اور بلند حوصلگی کا مظاہرہ کیا۔ اگر چہ دونوں کو اتنی بڑی اکثریت سے جیتنے کا یقین نہیں تھا۔ دونوں نے ترقی اور اچھی حکمرانی کو ووٹروں کے سامنے فوکس کیا۔ ضمنی اور ضروری بات یہ ہے کہ دونوں کانگریس کے مقابلے میں بی جے پی سے زیادہ قریب ہیں۔ جے للیتا بی جے پی کی حمایت ریاست میں اور پارلیمنٹ میں کھل کر کرتی ہیں۔ ممتا کھل کر بی جے پی کی حمایت کرنے سے قاصر ہیں مگر کانگریس اور سی پی ایم کی دشمنی اور ذہنی ساخت یا مزاج کی وجہ سے بھی بی جے پی سے فطرتاً قریب ہیں۔ کچھ نہ کچھ مجبوریوں کا بھی دخل ہے۔ بی جے پی کے اتحاد میں اور حکومت میں بھی رہ چکی ہیں۔
جے للیتا کو اپنی ریاست کے مسلمانوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور نہ لگاؤ ہے، اس لئے وہ مسلم ووٹروں کو نظر انداز کرتی ہیں۔ ان کی ریاست میں مسلمان سات آٹھ فیصد سے زیادہ نہیں ہیں۔ محترمہ ممتا کی مشکل یہ ہے کہ مغربی بنگال میں مسلمان تیس فیصد سے کم نہیں ہیں جس کی وجہ سے وہ مسلم ووٹروں کو بھی ذہن میں رکھتی ہیں۔ بی جے پی کی حمایت میں قدم پھونک پھونک کر رکھتی ہیں اور ریاست سے باہر ہی یعنی راجیہ سبھا یا لوک سبھا میں حمایت کرتی ہیں جو عموماً مسلم عوام کی نظر سے اوجھل رہتا ہے۔ لیکن ایک بات کا انھوں نے کھلم کھلا نتائج کے فوراً بعد اعلان کر دیا کہ وہ بی جے پی مخالف کسی محاذ کا حصہ نہیں بنیں گی جس میں سی پی ایم اور کانگریس کی شمولیت ہوگی۔ انھیں اچھی طرح معلوم بھی ہے کہ کانگریس بی جے پی کے بعد ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے، اس کے بغیر بی جے پی مخالف یا فرقہ پرست مخالف محاذ نہیں بن سکتا ہے اور اگر بنے گا بھی تو کامیاب نہیں ہوگا۔ ہندستان میں مسلمانوں کیلئے ضروری ہے کہ بی جے پی مخالف محاذ تیار ہو جو ملک کیلئے مفید ہو اور ملت کیلئے بھی کار آمد ہو۔ بی جے پی کانگریس، مسلمان اور کمیونسٹ سے مکت بھارت کا خواب دیکھ رہی ہے۔ حالیہ انتخابات کے نتائج سے اسے اس کا خواب پورا ہوتا نظر آرہا ہے، اسی لئے پھولے نہیں سما رہی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔