یہ اعداد و شمار ہمیں محاسبے کی دعوت دیتے ہیں

دس مئی کی شام یونین پبلک سروس کمیشن نے جب سال 2015 کے نتائج کا اعلان کیا ، تو اس خبر کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر فوری طور پر یہ جاننے کے لیے لوگ بے چین نظر آئے کہ اس سال کامیاب امید واروں میں مسلم نوجوانوں کا فیصد کیا ہے ؟ کتنے مسلم امیدوار وں کو آئی اے ایس رینک ملا، کتنے مسلم نوجوان امتحان میں شریک ہوئے تھے ؟ مسلم لڑکیوں کی نما ئندگی کیا ہے ؟ یہ چند سوالات ایسے ہیں جو لگ بھگ ہر سال نتائج کے اعلان کے بعد موضوع بحث ہوتے ہیں ،اور اس پر تبصرے ، تجزیے پیش کیے جاتے ہیں ، کامیابی کے فیصد کو بڑھانے کے لیے مختلف حلقوں کی طرف کوششیں بھی جاتی ہیں ۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ آنے کے بعد سے اس جانب خصوصی توجہ ہوئی معلوم ہوتی ہے ، مسلم نوجوانوں کی رہنمائی کے کچھ نئےادارے بھی شروع ہوتے ہیں ۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ تمام تر کو ششوں کے باوجود مسلمانوں کا فیصد ڈھائی تین فیصد پر منجمد ہے ، خواطر خواہ کامیابی نہیں مل پا رہی ہے ؟
اس بار 1078 امیدواروں میں سے 37 مسلم امیدوار کامیاب ہوئے ہیں جن کا فیصد سوا تین کے قریب ہے ۔ گزشتہ کچھ برسوں کے نتائج یہ بتاتے ہیں کہ مسلم امیدوراوں کی کامیابی کا فیصد لگ بھگ 3 فیصد کے آس پاس ہی رہا ہے ۔ 2014 میں 1236 کامیاب امیدواروں میں سے 38 مسلم نوجوانوں نے کامیابی حاصل کی تھی کل تین فیصد مسلم کامیاب ہوئے تھے ۔ 2013 میں 1122کامیاب امیدواروں میں 34 مسلمان شامل تھے ، فیصد 3اعشاریہ تین رہا ۔ 2012 میں کامیابی کا یہ فیصد تین اعشاریہ ایک صفر رہا 998 میں 31 مسلم امیدورا کامیاب ہوئے تھے کم و بیش یہی تناسب سال2010 اور گیارہ میں بھی رہا ۔ جبکہ ملک میں مسلم آبادی کے تناسب سے یہ تعداد 175 کے قریب ہونی چاہیے ، ایسی کیا بات ہے جس کی وجہ سے تمام تر کوششوں کے باوجود کامیاب مسلم امیدواروں کے فیصد میں کوئی بہتری نہیں آرہی ہے ؟
یہ اعداد و شمار ہمیں اپنی عملی کوششوں کے محا سبے کی دعوت دیتے ہیں ۔
خیال رہے جب ہم مسلم امیدواروں کے کامیاب فیصد میں بہتری کی بات کرتے ہیں تو ہمیں یہ بھی جاننا ہوگا کہ امتحان میں شرکت کا ہمارا تناسب کیا ہے ؟ سال 2014 کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ درخواست دہندگان کی کل تعداد ساڑھے 9 لاکھ تھی جس میں 2 ہزار سے بھی کم مسلم امیدواروں نے شرکت کی فیصد کے لحاظ سے مسلم امیدواروں کا تناسب صفر اعشاریہ دو ایک رہا ،ان میں سے کامیاب امیدوار 3 فیصد رہے ۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہمارے نوجوانوں میں بے پناہ صلاحیت موجود ہے بس انہیں صحیح رخ دینے کی ضرورت ہے ۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے پاس گریجویٹ نوجوان اتنی بڑی تعداد میں موجود ہیں ؟ جواب نفی میں ہے ۔ سچر کمیٹی رپورٹ کے مطابق مسلم گریجویٹ 4 فیصد سے بھی کم ہیں، رپورٹ کے مطابق آٹھویں سے دسویں کلاس کے درمیان ڈراپ آوٹ بچوں کی تعداد پچاس فیصد ہے ۔ متذکرہ بالا صورت حال جب تک زمینی سطح پر مسلمانوں میں تعلیم کو یقینی نہیں بنایا جائے گا صرف آبادی کے تناسب سے اپنی حصہ داری کی تمنا کار عبث ہی ثابت ہو گی امتحان میں زیادہ سے زیادہ لوگ شریک ہوں اس کے لیے بیداری کی کوششوں کو زمینی سطح تک لے جانے کی ضرورت ہے ۔ یہ بھی جائزہ لیا جانا چاہیے کہ سچر کمیٹی نے جن امور کی جانب نشاندہی کی تھی ان میں کیا بہتری آئی ہے ہماری جانب سے کی جانے والی کوششیں کن مراحل میں ہیں ۔ مسلم گریجویٹس کے فیصد میں کتنا اضافہ ہوا ہے ؟ اگر کچھ اضافہ ہوا ہے تو یونین پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں شرکت پراس کا کیا اثر پڑا ہے جائزےاور احتساب کا یہ عمل مستقل جاری رہنا چاہیے ، تبھی بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔
سول سروسیز مسلم امیدواروں کی تعداد میں کمی کی کئی وجوہ اور ہو سکتی ہیں اس کا جائزہ سیاسی اور معاشی سمیت دیگر کئی پہلوسے بھی لیا جا نا چاہیے ۔ ہماری سیاسی بے وزنی اس کے لیے کس حد تک ذمہ دار ہے ؟ کیونکہ آزادی کے وقت سرکاری نوکریوں میں ہمارا فیصد 35 کے قریب تھا ، مرحلے وار اس میں کمی واقع ہوتی چلی گئی ، یہ کیسے ہوا ہماری تساہلی کا کیا دخل رہا تمام امور تجزیہ طلب ہیں ، خاص طور سے سچر کمیٹی رپورٹ سے قبل اور بعد کی صورت حال کا جائزہ بھی لیا جانا چاہیئے ۔ یہ بھی جاننے کی ضرورت ہے کہ گزشتہ ایک دہائی میں مسلمانوں میں تعلیمی بیداری کا فیصد کیا رہا۔ ہمارے نوجوانوں کی شرکت میں کیا چیزآڑے آرہی ہے اس کا پتہ لگانے اور اس کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔ نیز اس تعلق سے کی جانے والی تمام کوششوں کو اور منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ تربیت و رہنمائی کے ہمارے اداروں کو چھوٹے قصبوں اور دیہی علاقوں کی طرف توجہ کرنا چاہیے جہاں اچھا خاصا ٹیلنٹ موجودہے لیکن معاشی کمزوری اور رہنمائی کی فقدان کی وجہ سے ہمارے بہت سے نوجوان آگے نہیں بڑھ پا رہے ہیں ۔ یہ کام مقامی سطح پر ٹیلنٹ سرچ کے ذریعے بھی کیا جا سکتا ہے ۔ وہ ادارے جو امتحان کی تیاری کرانے میں مالی معاونت اور رہنمائی فراہم کراتے ہیں انہیں شہروں سے نکل کر اپنے تربیتی مراکز دیہی علاقوں تک لے جانے کی پہل کرنی چاہیے ، ایسے بے شمار نوجوان ملیں گے جن میں صلاحیت موجود ہے لیکن رہنمائی کی فقدان کی وجہ سے وہ آگے کی منزل نہیں طے کر پاتے ۔

تبصرے بند ہیں۔