مغربی تہذیب کی تنقید یا خود احتسابی

ڈاکٹر محسن عتیق خان

 مغرب کی نشاۃ ثانیہ اورمسلمانوں کے زوال کے ساتھ مسلم علماء و دانشوروں کے درمیان مغربی تہذیب کی تنقید کا جو فیشن شروع ہوا تھا وہ آج بھی بدستور جاری ہے اور اسی شدومد کے ساتھ۔حالانکہ تنقید کرنے والے ایک کے بعد ایک میدان ہارتے چلے گئے اور توحید کے پرستاروں میں بھی وہ اسی تیزی اور قوت کے ساتھ سرایت کرتی چلی گئی جیسے کہ دیگر تہذیبوں میں ، اور اسکا اصل سبب یہ ہے کہ حقیقی اسلامی تہذیب آخر زمانہ میں اپنی شناخت کھوچکی تھی اور جسے اسلامی تہذیب سمجھا جاتا رہا تھا اس کی حیثیت ایک زوال پذیر تہذیب کے متعفن جثہ سے زیادہ نہ تھی۔

 دوسرا سبب یہ ہے کہ تنقید کرنے والوں نے کبھی روایتی تنقید کے خول سے باہر آکر یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ آخر وہ کون سی وجہ ہے جو لوگوں کو مغربی تہذیب کا دلدادہ بنارہی ہے۔ آخر تمام نقائص کے باوجود اس تہذیب کی ترقی کا راز کیا ہے۔ وہ کون سا ایسا سبب ہے کہ دنیا کی تمام تہذیبیں اس تہذیب کے سامنے سر تسلیم خم کرتی چلی جارہی ہیں ۔ آخر اس تہذیب کے تمام تہذیبوں پر غالب آنے کی وجہ کیا ہے۔ لوگ دین تو وہی پرانا فالو کرتے ہیں مگر رہن سہن کا ڈھنگ بدل دیتے ہیں ، رسم ورواج تو کچھ وہی پرانے سے ہیں مگر سوچنے سمجھنے کا طریقہ بدل گیا ہے۔ تنقید کرنے والوں کو کبھی یہ خیال تک نہیں آتا ہے آخر اپنی تمام کوششوں کے باوجو د وہ پچھلی کئی صدیوں سے شکست کیوں کھاتے چلے آرہے ہیں ، اور انکی تمام مخالفتوں کے باوجود لوگ اسے روز بروز اور زیادہ سے زیادہ کیوں قبول کرتے چلے جارہے ہیں۔

اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ تنقید کرنے والوں کی حالت ظلمت شب کا شکوہ کرنے والوجیسی ہے جو اپنے حصہ کی کوئی شمع جلانا نہیں چاہتے

شکوہ ظلمت شب سے تو یہی بہتر تھا

اپنے حصہ کی کوشمع جلاتے جاتے

انھیں یہ سمجھ میں ہی نہیں آیا یا سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ لوگ مغربی تہذیب کے دلدادہ، مغربی تہذیب کی خوبیوں کی وجہ سے نہیں ہیں بلکہ اس تہذیب کے متبعین کی موجودہ عالمی سماج کی تشکیل میں ناقابل فراموش خدمات کی وجہ سے ہیں ۔ ان کی یہ خدمات ان کے اختراعی جذبے اور تخلیقی کاوشوں کا نتیجہ ہیں جس سے ہم کوسوں دور جاچکے ہیں ۔ موجودہ دور میں مختلف علوم وفنون اور ٹکنالوجی میں ان کی جو تحقیقات اور دریافت ہیں اور جو ایجادات انھوں نے کی ہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ انھوں نے دور حاضر میں تمام طرح کے استحصال کے باوجود انسانی سماج کی فلاح وبہبود کے لئے جو کاوشیں کی ہیں اس کی نظیر نہیں ملتی۔

 اب ہمیں انکی تنقید کی نہیں بلکہ اپنے احتساب کی ضرورت ہے کہ جب تک ہم انسانی سماج کی بھلائی کے لئے کام کرتے رہے ہمیں سر آنکھوں پر بٹھایا گیا اور جیسے ہی ہم نے تساہل اختیار کی اور اپنے فرض منصبی سے ہٹ گئے دنیا کی تمام قوموں نے ہمیں اپنے پیروں تلے روندنا شروع کردیا۔

ہمیں تنقید کے بجائے اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم دنیا کی بھلائی کے لئے کیاکام کر رہے ہیں ، اگر نہیں کر رہے ہیں اور نہیں کرنا چاہتے تو اپنی بے وقعتی کا شکوہ کرنا بے جا ہے کیونکہ ہمیں اپنا کھویا ہو اوقار اسی وقت ملے گا جب ہم انسانی سماج کی خاطرخود کاوش کریں گے۔ یقینا ہمیں بطور امت، بطور قوم ایک نئی پرواز کی ضرورت ہے ایک نئی اڑان بھرنے کی ضرورت ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    جدید مغربی تہذیب انسانیت کے لیے کتنا بڑا ” تحفہ” ہے یہ ایک الگ بحث ہے لیکن پچھلے 500 سال میں مغرب نے انسانیت کی جو خدمت کی اسکا ایک ذرا مختصر سا جائزہ لیتے ہیں ۔

    سب سے پہلے امریکہ کی بات کرتے ہیں ۔ مغرب کو جب طاقت ملی تو اسی دور میں امریکہ دریافت ہوا یعنی آج سے تقریباً پانچ سو سال پہلے ۔۔۔۔۔۔ انکی دریافت سے پہلے ہی وہاں ایک قوم آباد تھی جن کو انہوں نے ریڈانڈینز کا نام دیا۔ ان کی تعداد پر اختلاف ہے بعض ماہرین ایک کروڑ سے اوپر بتاتے ہیں اور بعض دس کروڑ کے لگھ بھگ۔ لیکن دو سے تین کروڑ کی تعداد پر اکثریت متفق ہیں ۔۔۔۔۔ یہ جب وہاں گئے تو وہ پورے امریکہ میں آباد تھے حتی کہ کینیڈا ، وینزویلا اور بولیویا تک پھیلے ہوئے تھے اور تقریبا تمام اچھے علاقوں میں انکی آبادیاں تھیں۔ انہوں نے جاتے ہی انکو ان علاقوں سے بے دخل کرنا شروع کیا۔ ریڈ انڈینرز نے مزاحمت کی لیکن چونکہ وہ بے چارے انکے مقابلے میں نہایت پسماندہ تھے اسلئے بری طرح مارے گئے!!!

    اندازً سو سے دوسو سال کے عرصے میں انہوں نے دو کروڑ کے لگ بھگ ریڈ انڈینز کا قتل عام کیا یہانتک کہ انکی کروڑوں کی آبادی صرف چند لاکھ تک محدود ہو کررہ گئی بعد میں اپنے اس عظیم جرم پر پردہ ڈالنے کے لیے انہوں نے بہت افسانے تراشے اور یہ کہا کہ جیسے ہی یہ لوگ وہاں گئے تو ریڈ انیڈینز کو وباوؤں اور بیماریوں نے گھیر لیااور کچھ موسمی تبدیلیوں نے انکی اکثریت کو فنا کر دیا لیکن حیرت انگیز طور پر یہ خود انہی حالات میں اور اسی دور میں وہاں خوب پھلے پھولے۔۔۔۔۔۔۔!!!

    آج سے تقریبا دو سو سال پہلے یہ آسٹریلیا میں داخل ہوئے جہاں ابارجینیز نام کی ایک قوم آباد تھی۔ انکا بھی انہوں نے وہی حشر کیا جو ریڈ انڈینز کا کیا تھا اندازً انکی آبادی دس لاکھ سے اوپر تھیں انہوں نے جب انکا شکار شروع کیا تو کچھ عرصے بعد انکی آبادی پورے آسٹریلیا میں دو لاکھ سے بھی کم رہ گئ ابارجینیز قوم کی اس خوفناک تباہی کے لیے بھی انہوں نے وہی قصے گھڑے ہیں جو ریڈانڈینز کے لیے گھڑے تھے لیکن چونکہ انکا دور قریب گزرا ہے اسلئے قتل عام کی بے شمار شہادتیں دستیاب ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!!!

    امریکہ کی مقامی آبادی کا صفا یا کرنے کے بعد انکو اندازہ ہوا کہ نئے براعظم میں کاشت کاری اور دیگر کاموں کے لیے مزدوروں کی ضروت ہے جو دستیاب نہیں ہیں۔ تب انکی نظر کرم افریقہ پر پڑی اور پھر دنیا نے تاریخ کی سب سے بڑی انسانی خرید فروخت کا منظر دیکھا انہوں نے براعظم افریقہ پر دھاوا بول دیا وہ وہاں سے انسانوں کو پکڑتے انکو بھیڑ بکریوں کی طرح جہازوں میں بھر بھر کر امریکہ لا تے اور یہاں انکو فروخت کر دیا جاتا ایک اندازے کے مطابق انہوں نے تقریبا ایک کروڑ دس لاکھ سے لے کر ایک کروڑ بیس لاکھ کے درمیان افریقی باشندوں کو غلام بنایا محض چند سالوں کے اندر۔۔۔۔۔۔!

    غلام بنانے کے بعد امریکہ میں انکے جسمانی اعضا کاٹ کر جس طرح ان سے کام لیا جاتا تھ وہ بھی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے جب ہر گورے زمیندار کی ٹوکری شام تک افریقی غلاموں کے کٹے ہوئے اعضاء سے بھری جاتی تھی.

    اسی دور میں جنوبی ایشیاء اور چین بھی انکی عنایات سے محفوظ نہ رہ سکے جنوبی ایشیا جہاں یہ تاجروں کی صورت میں آئے تھے اسکے حال سے آپ بخوبی واقف ہیں صرف دو مثالیں کافی رہیں گی کہ انکی آمد سے پہلے جنوبی ایشیا کا دنیا کی کل پیداوار میں حصہ تقریبا پچیس فیصد تھا اور جس وقت یہ چھوڑ کرجا رہے تھے تو دنیا کی کل پیداوار میں حصہ صرف دو فیصد کے لگ بھگ رہ گیا تھا۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے کتنا لوٹا ہوگا۔ بنگلہ دیش میں انہوں نے اناج کی پیداوار بند کروا کر تمباکو کی کاشت کروائی جس کی وجہ سے کچھ ہی عرصے میں بنگلہ دیش میں تاریخ کا ایک خوفناک قحط آیا جس سے کم از کم پندرہ لاکھ لوگ ہلاک ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!

    انہوں نے افیون کی پیداوار اتنی بڑھا دی کہ اسکی کھپت کے لیے منڈیاں نہیں مل رہیں تھیں تب انہوں نے چین کو نشانہ بنایا وہاں جاکر افیون کا زہر چینی قوم میں پھیلانا شروع کردیا جسکے نتیجے میں چین کی تقریبا پوری آبادی نشے کا شکار ہوگئی۔ جب چین کی حکومت نے مزاحمت کی تو انکو شکست دے کر زبردستی کے معاہدے کروائے گئے اور افیون کے بدلے چین سے اناج اور سونے کی شکل میں اصل دولت یورپ منتقل ہونے لگی —-
    پھر ذرا جدید دور آیا تو اسی مغرب نے پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی صورت میں دو ایسی جنگیں لڑیں جن میں کم از کم آٹھ کروڑ انسان مارے گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آج بھی مغرب اس وقت کئی ممالک پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام سے حملہ آور ہے اور اس جنگ میں بھی اب تک پندرہ لاکھ کے قریب انسان مارے جا چکے ہیں جن میں سے دس لاکھ سے زائد صرف عراق میں مارے گئے ہیں اور بر سبیل تذکرہ دنیا میں انسانوں پر ایٹم بم استعمال کرنے والی واحد قوم بھی یہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
    یہ ہے اس مغرب کا اصل اور مکروہ چہرہ اور انسانیت کی وہ خدمات جو پچھلے پانچ سو سال میں انہوں نے سرانجام دیں اور انکی ان "خدمات” سے دنیا کا کوئی براعظم اور کوئی خطہ محفوظ نہیں رہا۔۔۔۔۔۔!!
    وہ نام نہاد دانشور جو الزام لگاتے ہیں کہ مسلمانوں نے سب کچھ تلوار کے زور پر کیا اور انسانوں کا خون بہایا کبھی مغرب کے اس چہرے سے پردہ نہیں اٹھاتے جس کے دانتوں سے پوری انسانیت کا خون ٹپک رہا ہے۔۔۔۔۔۔!!!!!!
    ویسے یہ موازنہ بھی کافی دلچسپ ہوگا کہ ان کے غلبے کے بعد مغلوب ہونے والوں پر کیا گزری اور مسلمانوں کے غلبے کے بعد مغلوب ہونے والوں پر کیا گزری ۔۔!

تبصرے بند ہیں۔