مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں

حفیظ نعمانی

بچپن میں اس طرح کے نہ جانے کتنے شعر یاد تھے جیسے

پہلے اس نے ’مس‘ کہا پھر ’تق‘ کہا پھر ’بل‘ کہا

اس طرح ظالم نے مستقبل کے ٹکڑے کردیئے

ہندوستان کے قانون کی کتاب جس نے بھی لکھی ہے اس نے پوری طرح اس شعر پر عمل کیا ہے نربھیا کا حادثہ 2012 ء کا واقعہ ہے۔ اس وقت سارا ملک کانپ رہا تھا اور حکومت نے بھی یقین دلایا تھا کہ وہ جلد سے جلد مجرموں کو سزا دے گی۔ لیکن کچھوے کی چال چلتے چلتے اور والدین کا خون خشک کرتے کرتے مئی 2017 ء میں ہائی کورٹ نے پھانسی کی سزا کو برقرار رکھا۔ لیکن اس کے بعد سپریم کورٹ کی منزل تھی جسے خدا خدا کرکے 09  جولائی کو چوما گیا اور کورٹ نے بھی ہائی کورٹ کے فیصلہ کو باقی رکھا۔ 10  جولائی کے جن اخباروں میں یہ خبر چھپی ان میں ایک گروپ فوٹو بھی ہے جس میں نربھیا کے ماں باپ دوسرے رشتہ دار ایک وکیل کھڑے ہیں اور انگلیوں سے ‘V’ کا نشان بناکر خوشی کا اظہار کررہے ہیں۔ اور برسوں کے بعد مسکرا رہے ہیں۔

نربھیا کے والدین نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ نربھیا کے ساتھ حیوانیت کرنے والے مجرموں کو ایسی سخت سزا دی جائے کہ سب کیلئے مثال بن جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں پھانسی سے کم کوئی سزا منظور نہیں۔ وہ بہت خوش ہیں کہ سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کی سزا کو برقرار رکھا تو کہ پھانسی دے دی جائے گی لیکن انہیں نہیں معلوم کہ یہ ہندوستان ہے۔ اس میں ابھی ایک موقع مجرموں کو یہ دیا جائے گا کہ وہ صدر جمہوریہ کے دربار میں رحم کی درخواست کریں گے جہاں سال دو سال بھی لگ سکتے ہیں اور اگر حکومت اپنی کسی مصلحت کی بناء پر یہ چاہے گی کہ پھانسی نہ دی جائے تو وہ صدر سے لکھوا دے گی کہ پھانسی کے بجائے عمرقید کی سزا کردی جائے۔ اور اگر وہاں سے بھی پھانسی باقی رہی تو ایک اور پٹیشن سپریم کورٹ میں داخل کرکے یہ درخواست کرنے کی مہلت دی جائے گی کہ سزا کم کردی جائے۔ اگر حکومت نے یہ سمجھا کہ 2019 ء کے الیکشن میں ان چاروں کو پھانسی دے کر جانا مفید ہوگا تو مئی میں پھانسی دے دی جائے گی اور اگر یہ سمجھا کہ پھانسی کا مسئلہ لٹکا چھوڑکر الیکشن لڑا جائے تو پھر ایک سال اور انتظار کرنا پڑے گا۔

جو کوئی بھی مجرموں کو پھانسی کی سزا چاہتا ہے اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ دیکھنے والوں کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔ لیکن ہندوستان میں پہلے تو یہ سوچا جاتا ہے کہ جسے موت کی سزا دی جارہی ہے اسے کم سے کم تکلیف کس طرح ہوگی؟ جبکہ اس نے جو جرم کیا ہے اس کی سزا دیتے وقت یہ دیکھنا چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ تکلیف کیسے مارنے میں ہوگی؟ ہندوستان میں پھانسی دی جاتی ہے تو وہ صبح اندھیرے میں ایک ایسی جگہ جہاں کوئی نہ دیکھے۔ جبکہ ضرورت اس کی ہے کہ ایسی جگہ دی جائے جہاں ہر چاہنے والا دیکھے اور یہ دیکھے کہ کیسے تڑپ تڑپ کر جان نکل رہی ہے۔ اس دنیا کے بنانے والے نے جو سزا کا قانون بنایا ہے وہ یہ ہے کہ جان کے بدلے جان آنکھ کے بدلے آنکھ ناک کے بدلے ناک کان کے بدلے کان۔ مقصد یہ ہے کہ جیسے اس نے مارا ہے اسے بھی ویسے ہی مارا جائے۔

حکومت کے ذمہ داروں کو معلوم ہے کہ اس بے قصور شریف لڑکی کو ان شیطان کے بندوں نے کس کس طرح مارا ہے۔ اس کی سزا کا حق یہ ہے کہ ان سب کو اسی طرح مارا جائے کہ دو دن تک تڑپیں پھر جان نکلے اور یہ منظر ہر آدمی ٹی وی پر دیکھے تاکہ وہ ہمت نہ کرسکے۔ حکومت کے اس ڈھیلے قانون اور ریشمی سزا کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ جموں میں اور پورے ملک میں اب تک سیکڑوں واقعات ہوچکے ہیں اور ہر دن ہورہے ہیں اس لئے کہ ایک نے اپنے کو نابالغ ثابت کردیا اور تین سال میں وہ پار نکل گیا۔ جبکہ اگر وہ نابالغ تھا تو ایسی حرکت میں شریک کیسے تھا؟

ہندوستان میں جب تک قانون کی کتاب جلائی نہیں جائے گی اور جیسا کرو ویسا بھرو کا طریقہ نہیں اپنایا جائے گا اس طرح کی وارداتیں کم نہیں ہوسکتیں۔ غضب خدا کا نربھیا کا اتنا واضح معاملہ اور اسے عدالتوں میں فٹ بال کی طرح کھیلتے کھیلتے 6 برس ہوگئے اور ابھی نہ جانے کتنے دن اور لگیں گے؟ جبکہ حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ سخت سے سخت قانون بنے گا اور جلد فیصلہ ہوگا۔ قانون تو بن گیا لیکن فیصلہ اسی رفتار سے ہوا جیسے ہماری عدالتیں کرتی ہیں۔ ہم نے بار بار سعودی عرب کے قانون کا ذکر کیا ہے۔ وہاں کا عدالتی نظام قابل دید ہے۔ ہم جس سال حج کرنے گئے تھے تو وہاں ہمارے بیٹے نے روک لیا الہ آباد کے ایک عزیز دوست کو معلوم ہوا کہ میں ابھی مدینہ میں ہوں تو انہوں نے فون کیا کہ ابھی اور رُک جائو ہم عمرہ کرنے آرہے ہیں ساتھ میں واپسی ہوگی۔ وہ گئے تو ان کے ساتھ ہائی کورٹ کے ایک وکیل قدیر صاحب بھی تھے۔ وہاں انہوں نے ہمارے بیٹے سے کہا کہ یہاں کا عدالتی نظام دکھائو۔ بیٹے نے کہا کہ قدیر چچا وہ آپ کے دیکھنے قابل نہیں ہے۔ پھر اس نے ایک اپنا واقعہ سنایا کہ میرے چچا سجاد میاں مدینہ کی جامعہ یونیورسٹی میں پڑھ رہے تھے اسکالرشپ اتنی تھی کہ اپنا الگ گھر بناکر رہ سکیں۔ انہوں نے آخری برسوں میں اپنی بیوی کو بلالیا اور جامعہ کے قریب ایک مکان کرایہ پر لے لیا۔

اسی سال حکومت کی کسی پالیسی سے مکانوں کے کرایہ بڑھ گئے ان کے مالک نے کہا کہ کرایہ بڑھائیے۔ سجاد میاں نے انکار کیا تو کہا مکان خالی کردیجئے۔ معاہدہ میں نہ کرایہ بڑھانے کا ذکر تھا نہ خالی کرانے کا۔ لیکن اس نے عدالت میں خالی کرانے کا مقدمہ دائر کردیا۔ طلبی پر چچا بھتیجے دونوں تھے۔ عدالت نے مالک مکان سے معلوم کیا کہ معاہدہ میں خالی کرانے کا کوئی ذکر ہے اس نے انکار کردیا۔ پھر سوال کیا گھر کیوں خالی کرا رہے ہو؟ اس نے کہا کہ میرے گھٹنوں میں درد ہے میں اوپر رہتا ہوں پانچ وقت نماز کے لئے اور پھر دوسری ضرورتوں کے لئے آتا جاتا ہوں اس سے تکلیف ہوتی ہے۔ عدالت نے سجاد میاں سے معلوم کیا کہ آپ اوپر رہ سکتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ شوق سے۔ عدالت نے فیصلہ کردیا کہ کرایہ وہی رہے گا مکان خالی کرنے کی ضرورت نہیں سجاد نعمانی اوپر چلے جائیں مالک مکان نیچے آجائیں۔ پھر کہا کہ چچا قدیر آپ وہاں کیا دیکھیں گے اگر یہی مقدمہ ہندوستان میں ہوتا تو دو وکیل اور پھر پیشکار… حاضر ہے فلاں حاضر ہے۔ اور اس کے بعد تاریخ سعودی عدالتیں ایک پیشی میں مقدمہ ختم کردیتی ہیں۔ بات صرف سعودی عرب کی نہیں۔ دنیا کی تمام عدالتوں کو دیکھ کر قانون میں تبدیلی کرنا چاہئے دس سال بیس سال مقدمہ چلے تو ایسا انصاف کس کام کا۔؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔