مقدمہ کتاب ’’انقلاب ِشام‘‘ عالم اسلام کی تشکیل نو کا آغاز

پروفیسر محسن عثمانی ندوی

            (مذکورہ بالا عنوان کے تحت مولانا ابو تراب ندوی صاحب نے بہت جامع اور معلومات سے بھری کتاب لکھی ہے۔ شام اور اس کے ارد گرد جو جنگ برپا ہے وہ مسلمانوں کو خون کے آنسو رلا رہی ہے۔ محترم ابو تراب نے اس جنگ کا تجزیہ قرآن و حدیث اور تاریخ کی روشنی میں کیا ہے۔ یہ کتاب قابل مطالعہ ہے اور اس سے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ انتہائی غور و فکر کے لائق ہے۔ کتاب پر مقدمہ مشہور عالم دین اور مصنف مولانا پروفیسر محسن عثمانی ندوی نے لکھا ہے۔ اسے پڑھنے سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس کتاب میں کیا کچھ ہے اور کیوں اس کتاب کو آج کے صحافی، ادیب اور مسلم کارکنوں کو پڑھنا ضروری ہے۔ عبدالعزیز)

            حدیث میں علماء کو ورثۃ الانبیاء کہا گیا ہے۔ ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ جو مسلمانوں کے معاملات و مسائل سے دلچسپی نہ لے وہ ہم میں سے نہیں۔ چونکہ فکر امت صفات پیغمبری کا نمایاں پہلو ہے۔ اس لئے امت کے مسائل کی فکر کرنا، امت کی پریشانیوں سے بے چین ہونا، ان کے غم کو اپنا غم بناتے ہوئے امت کی صحیح فکری رہنمائی کرنا پیغمبروں کی وراثت ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ اہل علم جنھوں نے اسلامی دنیا کے حالات پر اپنی نگاہ رکھتے ہوئے عالم اسلام کے غم کو اپنا غم بنایا ہے۔ جب اسلامی دنیا ظلم و استبداد کے پنجوں میں کراہ رہی ہو، مسلمانوں کا خون بہایا جارہا ہون، بے گناہ لوگوں کو پس دیوار زنداں ڈالا جارہا ہو، اس وقت سب سے اہم کام مظلوم کی حمایت و مدد ہوتی ہے۔ ارشاد ربانی ہے: وَمَنْ اَحْیَاہَا فَکَاَنَّمَا اَحْیَاالنَّاسَ جَمِیْعًا ’’جس نے کسی انسان کو زندگی بخشی، اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخشی‘‘۔ زندگی بخشنے کا مطلب بے جان مردہ لاش کو زندہ کرنا اور اس میں روح پھونکنا نہیں ہے۔ زندگی بخشنے کا مطلب موت سے بچانا ہے اور کسی کو موت سے بچانے کے طریقے متعدد ہوسکتے ہیں۔ ظالم کو ظلم سے روکنا، انصاف کی عدالت میں ظالم کے خلاف مقدمہ قائم کرنا، تحریر و تقریر یا بیان کے ذریعہ احتجاج کرنا اور لوگوں کو ازالۂ ظلم کی طرف متوجہ کرنا، یہ ساری تدبیریں زندگی بخشنے کے مفہوم میں داخل ہیں۔

            یہاں مسلمانوں کی اتنی تنظیمیں ہیں لیکن ہم نے نہیں دیکھا کہ مسلم ممالک میں اسلامی شخصیات کو نا حق پھانسی دی جائے، چمن اسلام کے گلہائے تازہ کو کچل دیا جائے اور غنچوں کو مسل دیا جائے تو کسی مسلمان قائد کا دل اس پر مضطرب ہوا ہو۔ مصر میں سینکڑوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے، دینی ذہن و فکر رکھنے والی شخصیتوں کو دار و رسن کی منزلوں سے گزارا جائے تو اس پر کسی کا دل اس طرح دکھا ہو کہ اس نے اخبارات کے ذریعہ اپنے کرب و غم کا اظہار کیا ہو۔ عرب ملکوں میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جائے، عوام پر ظلم ہو اور غیر قانونی طور پر سیاسی مخالفین کو جیلوں میں بند کر دیا جائے تو کسی عالم، کسی جماعت کے امیر نے، کسی صوفی، کسی فقیر نے، کسی جمعیت کے مقتدا و پیشوا نے غم و غصہ کا اظہار کیا ہو، الا ماشاء اللہ! یعنی اب خون سفید ہوگیا ہے، اب مسلمانوں میں باہمی محبت کی آگ بجھتی جاری ہے، باہمی رحم و کرم کی انگیٹھی سرد پڑتی جا رہی ہے، وہ ملت جو ایک جسم کے مانند تھی اب اس کے اعضاء کٹ کر بکھر چکے ہیں، زندگی کی رمق سے خالی ہوتے جارہے ہیں، ہماری مثال تو ایسی ہے کہ ’’شفقت کی مثال ایک جسم جیسی ہے کہ ا گر کوئی عضو بھی کسی الم کا شکار ہو تو پورا جسم بے خوابی و بخار میں مبتلا ہوجائے‘‘ (متفق علیہ)، لیکن اب صورت حال ہے کہ مسلمانوں کے معاملات سے دوری و بے تعلقی عام ہوگئی ہے۔

            اسلام ایک عالمی دعوت اور امت مسلمہ ایک عالمگیر کنبہ ہے، گزشتہ چند صدیوں سے دشمنوں نے ہمیں سرحدوں میں بانٹ دیا ہے۔ دشمنانِ اسلام کی سازشیں کامیاب ہوتی نظر آتی ہیں۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان ایک جسد واحد کی صفت کھوتے جارہے ہیں۔ اب دشمن کیلئے ہمیں ایک ایک ملک میں ایک دوسرے کو کاٹ کر شکار بنانا آسان ہوگیا ہے۔ ہندستان میں ہمارے علماء کا امتیاز رہا کہ انھوں نے پوری ملت اسلامیہ کے غم کو اپنا غم بنایا۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ سے لے کر شیخ الہند مولانا محمود الحسن، مولانا شبلی نعمانی، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی اور مولانا ابوالحسن علی ندویؒ تک علماء و مفکرین اپنے وقت کے حالات سے غافل نہیں رہے۔ وہ عالم اسلام سے بے تعلق نہیں رہے، وہ باطل کے خلاف شمشیر بے نیام رہے۔ انھوں نے اپنے قلم کو اور اپنی زندگی کو ملت کی صحیح رہنمائی کیلئے وقف کر دیا۔ ایسے وقت میں جب عالم ایک سرے سے دوسرے سرے تک جل رہا ہے تو اخوت اسلامی اور دنیائے اسلام کے قلب میں مسلمانوں کی ابتلاء و آزمائش کا عمیق کرب لئے ہوئے کتاب ’’انقلاب شام‘‘ ہمارے ہاتھوں میں پہنچی ہے۔

            اس وقت عالمی پیمانہ پر صورت حال یہ ہے کہ صلیبی و صیہونی جنگ اسلامی دنیا کے خلاف چھیڑ دی گئی ہے، شیعی دنیا بھی صلیبیوں اور صیہونیوں کے ساتھ مل گئی ہے، ایرانی رہنما آیت اللہ خامنہ ای کا بیان اکتوبر 2014ء کے تیسرے ہفتہ میں دہلی کے اردو اخبارات میں آچکا ہے کہ ’’اگر بشار الاسد کو تخت اقتدار سے ہٹایا گیا تو اسرائیل کے وجود کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی ہے‘‘۔ اس بیان کا صاف مطلب ہے کہ ایران اسرائیل کی بقاء چاہتا ہے اور یہ کہنا چاہتا ہے کہ اگر صدر بشار کو ہٹایا گیا تو اقتدار میں جو لوگ آئیں گے ان سے اسرائیل کو خطرہ ہے، اس لئے امریکہ و مغربی طاقتیں بشار الاسد کو ہٹانے سے باز آجائیں۔ ہر مسلمان کو جاننا چاہئے کہ اس وقت عالم اسلام بے حد کمزور اور صلیبی و صیہونی اور شیعی محاذ کے نرغے میں ہے۔ تاریخ میں پہلے بھی شیعی و صلیبی اتحاد وجود میں آچکا ہے۔ عماد الدین زنگی، نورالدین زنگی صلاح الدین ایوبی کی زندگی ان طاقتوں سے لڑنے میں گزری۔

            بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ مصر میں جب محمد مرسی اقتدار میں آئے تو ایرانی حکومت نے جامع ازہر اور سیدنا زینب کے علاقہ کو ایرانی انتظام میں دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ محمد مرسی نے یہ مطالبہ ٹھکرا دیا تھا۔ محمد مرسی نے ایران جاکر بھی نا وابستہ ممالک کی کانفرنس کے موقع پر شامیوں کی جنگ آزادی کی حمایت کی تھی اور بشار الاسد کو اقتدار سے نکال باہر کرنے کی آواز اٹھائی تھی لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کا ایک چھوٹا سا حلقہ ہر حال میں سعودی حکومت کی حمایت پر تلا ہوا ہے، وہ محمد مرسی پر یہ الزام عائد کرتا ہے کہ وہ ایران سے بہت قریب ہوگئے تھے۔ سعودی عرب کی اس اندھی حمایت کے پیچھے درہم و دینار کی طلب کے سوا کچھ نہیں ہے۔ آج دنیائے اسلام کے قلب میں اعدائے اسلام کی اندرونی و بیرونی سازشیں اپنے شباب پر پہنچ چکی ہیں، ان حالات میں اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ اس پہلو سے مسلمانوں کی بیداری کا فریضہ مسلسل انجام دیا جائے اور یہ گراں قدر کتاب اس سلسلے کی اب تک کی سب سے وقیع کوشش ہے جس کا مطالعہ مسلمانوں کیلئے بصیرت افروز ہوگا۔

            اس وقت مشرق وسطیٰ صلیب کے نشانہ پر ہے، اگر چہ نام صلیبی جنگ کا نہیں ہے۔ تاریخ میں یہی خطہ پہلے بھی صلیبی حرص و آز کا نشانہ تھا اور آج بھی یہی علاقہ اس کی سازش کا ہدف ہے۔ غم اس بات کا ہے کہ عربوں کو اور پوری اسلامی دنیا کو اس خطرہ کا احساس نہیں۔ متاعِ کارواں کے لٹ جانے کا غم اتنا شدید نہیں جتنا اس بات کا غم ہے کہ کارواں کے دل سے احساسِ زیاں بھی جاتا رہا۔ عرب ممالک میں امریکہ کھلے آسمان سے بمباریاں کر رہا ہے۔ عرب انتہائی کمزور ہیں، وہ ہتھیلی پر رکھے ہوئے اس گوشت کی طرح ہیں جسے کوئی چیل کسی وقت بھی جھپٹا مار کر لے جاسکتی ہے۔ یہ عرب ممالک امریکہ اور مغربی ملکوں سے ہتھیار لیتے ہیں۔ کیا یہ ان کی سادگی ہے کہ جس سے بیمار ہوئے اسی سے دوا لیتے ہیں یا اس کے پیچھے کہانی کچھ اور ہے۔ خاص و عام سبھی جانتے ہیں کہ عرب ممالک کو امریکہ سے ہتھیار بس اسی قدر مل سکتے ہیں جس قدر وہ اسرائیل اور خود مغرب کیلئے خطرہ نہ بنیں۔ پٹرول کی دولت سے عرب ملکوں میں صنعتی و سائنسی انقلاب آنا چاہئے تھا، اسلحہ سازی میں خود مختاری ہونی چاہئے تھی لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں، تو اس کے حقیقی اسباب کیا ہیں اگر تفصیل میں جانے کی طلب ہو، سربستہ رازوں کا پردہ چاک ہوتے دیکھنے کی خواہش، اگر کسی کے اندر یہ خواہش ہو کہ ابتدائے اسلام سے آج تک ہلال و صلیب کی کشمکش کی مختصر اور وقیع تاریخ کا مرقع اس کے ہاتھوں میں ہو تو حقائق کے متلاشی یہ کتاب ان سارے پہلوؤں سے ایک قیمتی تحفہ ہے۔

            داعش کے خلاف جنگ احزاب چھیڑ دی گئی ہے، سارا یورپ متحد ہے اور چشم بد دور عرب خلیجی ممالک بھی ساتھ ہیں اور سب امریکہ کے زیر قیادت داعش پر بمباری کر رہے ہیں۔ شام اب تک دو لاکھ لوگوں کا قتل عام اور لاکھوں لوگوں کی جلا وطنی و پناہ گزینی کی حالت امریکہ کو بے چین نہیں کرسکی لیکن جیسے ہی نوری المالکی کے ظلم و عدوان اور سنیوں پر مظالم کو چیلنج کرتے ہوئے عراق میں داعش میدان میں آئے، امریکہ ان لوگوں کو میدان سے ہٹانے اور مارنے کیلئے میدان میں آگیا۔ یہاں داعش کی حمایت مقصود نہیں اور اس کی غلطیوں پر پردہ ڈالنا بھی مقصود نہیں، علماء نے بجا طور پر اس کی مذمت کی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ اہل سنت کے شہیدان وفا کا خون ہے جو داعش کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ داعش پر مسلسل بموں کی اس بارش کے پیچھے اہل سنت کو کمزور کرنا اور بشار الاسد اور اسرائیل کو مضبوط کرنے کا جذبہ کام کر رہا ہے۔ یہ گزشتہ صلیبی جنگوں کا تسلسل ہے، دہشت گردی کو ختم کرنا صرف ایک بہانہ ہے، یہ صرف فسوں اور افسانہ ہے۔

            عیسائیوں کا بھی عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام شام کے مقدس شہر دمشق میں اتریں گے، اس لئے عیسائی اس پورے خطۂ ارض سے نہ صرف خود کو وابستہ رکھنا چاہتے ہیں بلکہ صیہونی و شیعی تعاون سے اپنی بالواسطہ حکومت کو جاری و ساری دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسلام میں ظہور مہدی اور نزول مسیح کی روایتوں کا تعلق بھی اسی خطہ سے ہے۔ ظہور مہدی کا ایک الگ عقیدہ شیعوں کے نزدیک بھی ہے، اسی لئے شیعوں نے بھی اس خطہ میں اپنی برتری کیلئے پوری طاقت جھونک دی ہے۔ چنانچہ ایران و عراق، لبنان و یمن اور بحرین کو ملاکر شیعی استعمار کا ہیولا تیار ہورہا ہے۔ اس طرح سے صیہونیت، صلیبیت اور شیعیت کا اتحاد قائم ہوگیا اور اسی لئے ان تینوں طاقتوں کی متحدہ جنگ مسلمانوں کے خلاف جاری ہے۔ اس جنگ میں مسلمانوں کے خلاف مغرب کے ساتھ بہت سے عرب ممالک بھی امریکہ کے اشارے پر شریک ہیں، صرف ترکی ایک ایسا ملک ہے جس نے اپنی عزت نفس کا سودا نہیں کیا ہے۔ اس وقت عیسائیوں کی مذہبی تثلیث کی طرح مشرق وسطیٰ میں سیاسی تثلیث ابھر کر سامنے آئی ہے۔ اور اس سیاسی تثلیث نے خطرہ کو شدید تر کر دیا ہے۔ اب ارض حرم اس سہ طرفہ اتحاد کے گھیرے میں ہے۔ ایران کا اثر و نفوذ شیعہ آبادی کے ذریعہ سعودی عرب کے اندر دور دور تک پھیل چکا ہے۔ اس پر مستزاد سعودی عرب کے اندر اور اس کے گرد و پیش صلیبی فوجی چھاؤنیاں، کتنے شدید خطرات منڈلا رہے ہیں۔ کہیں یہ شعلہ دامان حرم تک نہ پہنچ جائے، کہیں یہ آگ مرغان حرم کے آشیان کو خاکستر نہ کردے، کہیں اسلام کی مقدس سر زمین غارت گری کا شکار نہ ہوجائے، اب شطرنج کی بساط پر شہ پڑچکی ہے اور بس ظالم کی نیت کے بگڑنے کی دیر ہے۔

بگڑتی ہے جس وقت ظالم کی نیت … نہیں کام آتی دلیل اور حجت

            اس وقت عالم اسلام کے خلاف صلیبی جنگ ایک نئے انداز سے برپا کی گئی ہے۔ سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد کئی مفکرین کی کتابیں آچکی ہیں کہ مغرب کو خطرہ صرف اسلام سے باقی ہے۔ جاپانی نژاد امریکی مفکر ’’فوکو یاما‘‘ (Fukuyama) کی کتاب "End of History and the last man (1992)” میں یہ کہا گیا کہ سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد اب تاریخ اپنی انتہا کو پہنچ گئی ہے، اب آخری آدمی جس کے سر پر دنیا کی شہنشاہیت کا تاج ہے وہ وہائٹ ہاؤس میں جلوہ افروز ہے۔ ’’سیموئل ہنٹنگٹن‘‘ (Samuel Huntington) کی کتاب "Clash of civilization (1993, 1996)” میں جو دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتابوں میں ایک ہے، یہ بتایا گیا کہ سوویت یونین کے خاتمہ سے امریکہ کو یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ تمام خطروں کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ اسلام سے الخدر، سوبار الخدر، اصل ٹکراؤ اسلام سے ہے، جس کے پھیلنے اور آبادی میں اضافہ کی رفتار اندیشہ ناک ہے۔ اب مغربی طاقتوں کی ساری کوشش یہ ہے کہ ایک دشمن جو باقی رہ گیا ہے اس کا قصہ بھی ختم کیا جائے عالم اسلام میں جو کچھ ہورہا ہے اس کو اس روشنی مین سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ امریکہ دنیا کو پولس مین بن چکا ہے، امریکہ اور مغربی طاقتوں کو برداشت نہیں کہ ان کی مرضی کے خلاف کوئی سیاسی و فوجی قوت ابھر پائے۔ صلیب و ہلال کی اس کشمکش میں عرب حکومتوں کا کردار افسوسناک ہے۔ اس وقت سعودی عرب اور خلیجی ممالک نے جس طرح مصر میں عبدالفتاح السیسی کی حمایت کی ہے اور عالم اسلام کی سب سے بڑی دینی جماعت کو دہشت گرد قرار دے دیا ہے، متحدہ عرب امارات کی حکومت نے ایک قدم آگے بڑھ کر نہ صرف اخوان المسلمون کو بلکہ دنیا کی بے شمار دینی و فلاحی کام کرنے والی جماعتوں کو دہشت گرد قرار دے دیا ہے، اس کی فہرست میں انٹرنیشنل یونین آف مسلم اسکالرز کی تنظیم بھی ہے جس کے سربراہ علامہ یوسف القرضاوی ہیں، اس کی فہرست میں یورپ میں کام کرنے والی فیڈریشن آف اسلامک آرگنائزیشن جیسی تنظیم اور دیگر تنظیمیں بھی ہیں جو یورپ میں سرگرم ہیں۔ دہشت گرد قرار دینے کا یہ جنون ہے جس کی وجہ سے 80 فیصد سے زیادہ مسلمان پوری دنیا میں سعودی عرب اور خلیجی ممالک کو ناپسند کرنے لگے ہیں، خلیجی ملکوں کے خلاف غم و غصہ کی لہر پھیلتی جارہی ہے۔

            اگر حالات کے پس منظر میں عیسائی دنیا اور یورپ میں کوئی فکر انگیز کتاب شائع ہوتی ہے تو وہ Best seller بن جاتی ہے۔ لوگ اسے پڑھنے کیلئے ٹوٹ پڑتے ہیں، ہاٹ کیک کی طرف کتاب فروخت ہوتی ہے۔ ہم نے اسی تحریر میں دو اسی طرح کی انگریزی کتابوں کا نام لیا ہے، جن کی اشاعت دس دس لاکھ سے زیادہ ہوئی ہے، جن کے بے شمار ایڈیشن نکلے، لیکن یہ تذکرہ جاندار قوموں کی کتابوں کا ہے، مردہ قوموں کی کتابوں کا نہیں۔ اردو میں یہ کتاب بھی اپنے موضوع پر اہمیت کے لحاظ سے کسی بھی زبان کی کتاب سے کم نہیں، یہ صرف شام کی مفصل تاریخ نہیں بلکہ اس میں صلیبی جنگوں پر اور عصر رواں کے حالات پر، عرب دنیا کی صورت حال پر، قضیۂ فلسطین پر، سیریا میں نصیریوں کے وحشیانہ مظالم پر اور اخیر میں اتحادی طاقتوں کے ذریعہ داعش پر حملہ کے مقاصد پر توازن کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ تازہ صلیبی، صیہونی، شیعی اتحاد اور مسلمانوں کے خلاف متحدہ جنگ کا منظر نامہ بھی ہے، شیعوں کے ہاتھوں اہل سنت پر مظالم کی داستان بھی ہے۔ خون مسلم کی یہ ارزانی خود کو مسلمان کہنے والے شیعوں کے ہاتھوں ہوئی، اس کتاب سے اندازہ ہوگا کہ ایران و لبنان اور عراق میں مسلمانوں کے ساتھ کیا ہوا اور کیا ہورہا ہے۔ کتاب کا اسلوب تحقیقی ہے، حوالوں کا اہتمام کیا گیا ہے، مصنف کتاب ایک طویل عرصہ تک عرب دنیا میں رہ چکے ہیں، اسلئے وہ محرم راز درون میخانہ بھی ہیں۔ ان کے شعور میں پختگی اور قلم میں شگفتگی ہے۔ ان کی فکر ارجمند میں ندوۃ العلماء کی وراثت ہے جس کی ایک عظیم شخصیت مولانا ابوالحسن علی ندوی نے کہا تھا ’’میری تخیلات کی دنیا، میری تمناؤں کا مرکز، میرے طائر روح کا نشیمن عرب کی محبوب سر زمین رہی ہے‘‘۔ اگر اس بیحد اہم کتاب کی اشاعت دس ہزار تک بھی پہنچ گئی تو ہم سمجھیں گے کہ مسلمان قوم ابھی مردہ نہیں ہوئی، اس کے جسم میں زندگی کی رمق باقی ہے۔ اگر واقعی زندگی کی اور ایمان کی رمق اس ملت میں موجود ہے تو اس کتاب کو صرف کتب خانوں میں نہیں بلکہ ہر گھر میں اور ہر اردو جاننے والے کے ہاتھ میں ہونا چاہئے تاکہ وہ عالم اسلام کی موجودہ صورت حال سے پوری طرح باخبر ہو اور اس کے غم ہائے خونچکاں سے واقف ہو، وہ ایک باشعور فرد کی حیثیت سے امت مسلمہ کے مستقبل میں اپنے مقام کا تعین کرسکے۔ اللہ تعالیٰ اس کتاب کو اپنی بارگاہ میں بھی قبول فرمائے، آمین! و الیہ یصعد الکلم الطیب والعمل الصاح یرفعہ

تبصرے بند ہیں۔