ادب کے تاجدار – تاجدار تاجؔ

راحت علی صدیقی قاسمی

شہر رنگ ونور علم وادب کے مقدس دیار دیوبند کا خمیر فکری یکانگت بلندی اور بلند پروازی کا حامل ہے یہاں لاکھوں افراد آتے ہیں اپنے قلوب میں اس چنگاری کو لیجاتے ہیں اور کائنات کی روشنی کے لئے یہی چنگاری وقت کے بہاؤ میں مشعل کی شکل اختیار کرلیتی ہے تاریخ اور مشاہدہ ان حقائق کو شک وشبہ سے بالا تر کرتا ہے اور اس طرح علم و ادب کی روشنی دنیا کے چار سو پھیل گئی اور خود اس سرزمین سے تعلق رکھنے والے افراد نے ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور ثابت کردیا کہ انکا خمیر کس مٹی سے بنا اور کن اہل علم و فن کے درمیان انہوں نے شعور سلیقہ حاصل کیا کون سی فضا ہے جس میں انکی صلاحتیں مہمیز ہوئی ہیں کن اکابر کا دیدار انکی آنکھوں کو نصیب ہوا انکی شخصیت کن عناصر سے ترکیب پائی یہ وہ حقائق ہیں جو شہر دیوبند کی مٹی کو بھی سونا کردیتے ہیں ہر فن کے شہ پارے اور عظیم فنکار اس تاریخی سرزمین کے سینہ کو کشادہ کرتے ہیں، غزل نظم رباعی تحقیق و تنقید کے شہسوار اس زمین کی گود میں کھیلے اور دنیائے ادب کی آبرو ثابت ہوئے۔ دیوبند کا شعری ذخیرہ جناب وحشی دیوبندی، علامہ انور صابری اور عامر عثمانی سے ہوتا ہوا تاجدار تاج تک پہونچتا ہے یہ سلسلہ اپنے آپ میں ایک دبستان کی حیثیت رکھتا ہے۔ تاجدار تاج کی شخصیت اور انکی شاعری دونوں ہی پہلو عظیم تر ہیں جن پر سیر حاصل بحث بڑا مشکل کام ہے جس مقام کی حامل انکی شاعری ہے، اسی شرف و وقار کی حامل انکی ذات بھی ہے دیوبند میں پیدائش حالات و مصائب سے ٹکرانا اپنے لئے خود راہیں تلاش کرنا وطن عزیز کو خیرآباد کہنا بیگانہ شہر جہاں کی تہذیب سے ناآشناء ہے لوگوں کے مزاج و طبائع کا علم نہیں دیوبند سے ہزاروں میل دور گلیمر کی دنیا خوبصورتی وصناعی کے شہر میں جہاں ہر چیز کی اصلیت کا جاننا ایک معمہ ہوتا ہے اپنی حیثیت بنانا، اپنا مقام بنانا اور اپنی حیثیت تسلیم کرانا،  اپنی زمین تیار کرنا شہرت و عظمت کا گرانقدر سرمایہ حاصل کرنا یہ کوشش وکاوش طویل سفر جس میں نا سفر کی تھکن اور تعب کا شکوہ ہے نا مقدر سے کوئی فریاد نا وقت سے کوئی شکایت نہ زمین و زمان کی تبدیلی کا رونا یہ وہ اعلی صفات ہیں جو انکو عظیم بناتی ہیں۔

انہوں نے ثابت کردیا کہ جد وجہد محنت و مشقت کے ذریعہ ہر زمین فتح کی جاسکتی ہے مشکل تر معاملات کو آسانی سے سر کیا جاسکتا ہے جس طرح تاجدار تاج نے ممبئی کی سرزمین پر اپنے وجود کے اثرات چھوڑے ہیں اسی طرح غزل میں بھی اپنی شناخت قائم کی اور اردو ادب میں اپنی شاعری سے گرانقدراضافہ کیا ہے  جو بلاشبہ اہمیت کا حامل ہے جس سے آنے والے وقت میں اکتساب فیض کیا جاتا رہیگا انکی شاعری وقت کی رفتار کو بھانپتی ہے معاشرہ سماج کلچر اور تہذیب کو گویائی دیتی ہے، وہ سکوت جمود کا شکار نہیں ہوتے بلکہ گردش وقت سے پیدا ہوئے سماجی اخلاقی معاشرتی بحران پر طنز کرتے ہیں اور کاروان حیات کو صحیح سمت پر گامزن کرنے کے لئے کوشاں ہیں وہ صرف طعنہ زنی تک محدود نہیں رہتے بلکہ اصلاح پر بھی بھرپور توجہ دیتے ہیں اس سب کہ باوجود انکا کارنامہ یہ ہے کہ غزل کے نرم ونازک وجودکو اور اسکی خوبصورت شکل کو بدنما نہیں ہونے دیتے وہ شعلہ بیاں خطیب کی تقریر محسوس نہیں ہوتی اس میں نعرہ زنی کا عنصر پیدا نہیں ہوتا اس میں سختی اور کرختگی کا احساس نہیں ہوتا یہی تاجدار تاج کی وہ خصوصیت ہے جو انہیں منفرد و ممتاز کرتی ہے اور انکا تشخص قائم کرتی ہے انہوں نے کھلی آنکھوں سے زندگی کے کھیل کو دیکھا اور فتح و کامرانی نے انکے قدم چومے جس کا بیان بھی انکے اشعار میں نظر آتا ہے احساس ذات سے احساس کائنات تک تاجدار تاج ایک کامیاب شاعر ہیں نمونہ کے طور پر انکے مجموعہ سے چند اشعار پیش ہیں جن سے ہر ذی شعور انکے فن کی بلندی کو محسوس کریگا اور میرا دعوی حقیقت میں تبدیل ہوجائیگا۔

تم تو کہتے تھے دھوپ آئیگی کھڑکی کھول دو ٭ کیوں میرے کمرے میں زہریلی ہوا آنے لگی

ڈر ہے بکھر ناجائے مکاں چپ رہا کرو ٭بچے جواب دیں تو میاں چپ رہا کرو

حصار بام و در سے کوئی گھر نہیں بنتا ٭دلوں کے درمیاں رشتوں کی سچائی ضروری ہے

رشتوں کی سچائی، زہریلی ہوا، بچوں کا جواب دینا کس خوبصورتی سے وہ معاشرہ کی تصویر کشی کرتے ہیں مگر تاجدار تاج کی شاعری کایہ اشعار پورے طور پر آئینہ نہیں ہیں بلکہ در حقیقت انکی شاعری میں احساس ذات کا عنصر غالب ہے انکا درد و کرب انکی مشکلات انکی تکالیف پر اس اچھوتے نرالے انداز سے اپنے احساسات کو پیش کرتے ہیں کہ وہ ہر شخص کو اپنا فسانہ اپنی زندگی کے حقائق محسوس ہونے لگتے ہیں اسی طرح داخلیت سے خارجیت کی جانب انکی شاعری سفر کرتی ہے اور ذات کا کرب سماج کا درد بن جاتا ہے یہ طرہ اور طریقہ انکی فنی پختگی کے اظہار کے لئے کافی ہے انہوں نے شاعری کو اس طرز و انداز میں پیش کیا ہے وہ سامعین کے جذبات و احساسات پر کھرے اترتے ہیں مگر انکی غلامی قبول نہیں کرتے انکی شاعری اس شخص کی ہے جس کی زندگی محنت و مشقت سے عبارت ہے جس نے اپنے خوابوں کو راتوں کی نیند قربان کرکے شرمندہ تعبیر کیا ہے وہ جذبہ انکی شاعری میں موجود ہے مثال دیکھیں۔

 سب اپنے چراغوں کی ہوا باندھ رہے ہیں  ٭محفل میں کسی نے مجھے جلتے نہیں دیکھا

زہر سے تو ایک ہی دن آدمی مرتا ہے تاجؔ٭ روز مرتا ہے کسی کی بات کا مارا ہوا

رنجشوں کے دل شکن صدمات کا مارا ہوا ٭آدمی ہے آدمی کی ذات کا مارا ہوا

یہ اشعار اس آئینہ کے مثل ہیں جن میں ہر انسان اپنی زندگی کو دیکھ سکتا اورمحسوس کرسکتا ہے یہی تاجدار تاج کی شاعری کی روح ہے جو انکے اشعار میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ اس تڑپ تکلیف اور کڑہن کے باوجود جب وہ عشق و محبت کے حسیں جذبات پر دستک دیتے ہیں تو ان مشکلات کا اثر انکی شاعری بالکل نظر نہیں آتا وہ دل آنکھیں حسن و عشق کے محل کو بھی خوبی سے تعبیر کرتے ہیں مگر حیا انکے اور طبیعت میں ہے بے حجابی اور بے حیائی انکے اشعار میں ملتی ہے انکے عشقیہ اشعار جذبات کی تکمیل ناقص نہیں ہیں بڑی خوبصورتی سے انہوں نے یہ میدان جیتا ہے مثال کے طور ملاحظہ کیجئے

اس قدر بھی اپنے جلووں کی فراوانی نہ کر ٭میرے شوق دید کو حیا آنے لگی

آج تک ہم یہ سمجھتے رہے دل دھڑکا ہے٭آج پہچان لی آواز تمہاری ہم نے

ان اشعار سے انداز سے اندازہ کیا جاسکتا ہے عشقیہ جذبے کو انہوں نے کتنے خوبصورت پیرائے میں پیش کیا اور اپنے جذبات کو غزل کا خوبصورت لباس اسی طرح پہنایا ہے جس طرح شمیم، خمارنے، اخترالایمان کے میدان نظم میں بھی انکی حیثیت اور وقار ہے اگر چہ وہ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں مگر انکی نظمیں شہررنگ و نور، میں جس بستی میں رہتا ہوں، میرا وطن اردو ادب کی شاہکار نظموں میں سے ہیں ان کی نظموں میں معنی آفرینی اور زبان کا معیار قابل بیان ہے اور یہ ایک ناقابل انکار حقیقت کہ آنے والے وقت میں ان نظموں کا وقار مزید بلند ہوگاایک وہ زمانہ تھا جب غزل زلف و رخسار کی باتیں، عارض و کاکل کا بیان، عشق و محبت کی داستان ہوا کرتی تھی پھر وقت بدلا اور زندگی کے مسائل پروئے گئے نظم نے حالات و واقعات کو پیش کرنا شروع کیا اور آج ہم جس دور میں ہیں اس دور میں شاعری احتجاج کی شکل اختیار کر چکی ہے پچھلے کچھ عرصہ سے ماں پر بہت اشعار کہے گئے اور خاص طور پر منور رانا نے کثرت سے اشعار کہے، مگر تاجدار تاج کی ایک نظم ان تمام اشعار پر بھاری ہے یہ بلاتأمل کہاجا سکتا ہے میں اس نظم کے چند اشعار پیش کرتا ہوں جو میرے دعوے کی دلیل ہے۔

دودھ کا قرض لہو دے کے چکانا مشکل

 ماں خفا ہو تو خدا کو بھی منانا مشکل

ماں کے مقروض ولی غوث پیمبر سب ہیں

 ماں کے رتبے سے ہو افضل یہ زمانہ مشکل

ان اشعار سے اندزاہ لگایا جاسکتا ہے تاجدار تاج اس عہد کے عظیم شعرا میں سے تھے مگر تنہائی اور خاموشی انکا زیور تھی جو عمر کے ساتھ بڑھتی گئی اور وہ ایک یکسو انسان کی طرح انپے فن کو پیش کرتے رہے ہمہ جہت اور اعلی درجہ کی شاعری کی زبان و بیان پر انکو دسترس حاصل تھی انکے اشعار گویا ہوتے ہیں کہ میں تاجدار تاج کی تخلیق ہوں زندگی کے مسائل و حالات پر فتح پانے کے بعد تاجدارتاج ہمارے درمیاں سے رخصت ہوئے انکے تین مجموعے زبر، آوارہ پتھر، برفیلی زمین کا سورج زیور طبع سے آراستہ ہو کر شہرت عامہ حاصل کرچکے انکا جانا یقینا اردو ادب کے لئے عظیم خسارہ ہے مگر وقت پر کسی کی اجارہ داری اور حاکمیت نہیں ہے دریا کے بہاؤ روکا جاسکتا ہے مگر وقت کو نہیں۔ ان کا وقت موعود آچکا تھا، ان کی پکار آچکی تھی، وہ رخصت ہوگئے اور دیوبند ہی نہیں بلکہ ان کی دنیا اپنے ایک بڑے فنکار سے محروم ہوگئی۔

تبصرے بند ہیں۔