مقننہ اور انتظامیہ کے لئے صلاحیت وشہادت کی ضرورت

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی

پہلے زمانہ میں کسی بھی کام کے لئے درکارآدمی کے اندرصرف اس کی صلاحیت(Ability)کودیکھ کرہی اسے موزوں یاناموزوں قراردیاجاتاتھا،پھرزمانہ کی ترقی کے ساتھ ساتھ ڈگریاں بھی دیکھی جانے لگیں، یعنی صلاحیت اورشہادت (Certificate) دونوں دیکھنے کے بعدہی یہ طے پاتاہے کہ یہ لائق ہے یانالائق، اوریہ کام کے تقریباً تمام شعبوں میں ان دونوں لازمی قراردیاجاچکاہے، یقیناً یہ ایک خوش آئندبات ہے کہ دونوں کی موجودگی کی وجہ سے طمانینتِ قلب حاصل ہوجاتاہے۔

 لیکن ہمارے ملک کے بعض اہم شعبے آج بھی ایسے ہیں ، جہاں ان دونوں امورکولازمی قرارنہیں دیاگیاہے، جس کا نتیجہ بھی بہت بھیانک صورت میں سامنے آیاہے، ایسی بھیانک صورت، جس پرقابوپانابہت مشکل ہے، تاہم قابوپائے بناکوئی چارۂ کاربھی نہیں ، ہم تمام قوم پرلازم ہے کہ اس پرجلدازجلدقابوپانے کے لئے لائحہ ٔ عمل نہ صرف یہ کہ تیارکریں ؛ بل کہ سرعت کے ساتھ اس پرعمل درآمدگی بھی ہو۔

 جن اہم شعبوں کی یہ بات ہورہی ہے، ان میں سے ایک پارلیمنٹ ہے، جسے ہم ’’مقننہ‘‘ کے نام سے بھی جانتے ہیں ، جوکسی بھی جمہوری ملک کے لئے ضروری چار ستونوں میں سے ایک ہے؛ بل کہ یہ سرفہرست ستون ہے، یہ شعبہ ملک کے چلانے کے لئے قانون سازی بھی کرتاہے اوراس سے بڑھ کریہ شعبہ دراصل ایک صحت مندجمہوری ملک کے عوام کاترجمان ہوتاہے، یعنی اس شعبہ میں ملک کے ہرکونہ سے معززشہریوں کاکوئی ایساترجمان ہوتاہے، جس کوشہریوں نے خود اپنی کامل رضاسے اپنی ترجمانی سونپ دی ہوتی ہے۔

 جب یہ شعبہ اتنااہم ہے توکیااس شعبہ کے لئے وہ دوامورلازم نہیں ہونے چاہئیں، جوآج کے زمانہ میں ایک چپراسی کے لئے بھی ضروری قراردئے جاتے ہیں ؟یہ ایک بہت اہم سوال ہے، جس کے بارے میں پوری قوم کودیانت داری کے ساتھ سوچناچاہئے اوراسی پربس نہیں کرنی چاہئے؛ بل کہ اس کے لئے مباحثے بھی ہونے چاہئیں ، ڈیبیٹ بھی کراناچاہئے، پرنٹ اورالکٹرانک میڈیاز، نیزسوشل میڈیاز کے ذریعہ سے اس سوال کواتناپھیلاناچاہئے کہ اس معاملہ میں آج تک سوتی رہنے والی قوم اُٹھ کھڑی ہواوراس قوت سے اٹھ کھڑی ہو، جس کاراستہ کوئی نہ روک سکے۔

 ہندوستان کی آزادی کے سترسال ہوچکے ہیں ؛ لیکن آج تک ہمارے ملک کے ذہین دماغوں نے قوت کے ساتھ اس سوال کی طرف یاتودھیان ہی نہیں دیا، یا اس کی طرف دھیان تودیا؛ لیکن جس قوت کے ساتھ اس پربات کرنی چاہئے تھی، اس قوت کے ساتھ اس موضوع پربات نہیں کی، جس کاخمیازہ پوری قوم کوبھگتناپڑرہاہے اورجب تک ان دوامورکواس شعبہ کے لئے لازم نہیں کیاجائے گا، اس وقت تک بھگتناپڑے گا۔

 غورکرنے کی بات ہے کہ ہم نے ملک کوکن لوگوں کے ہاتھوں میں دھمایاہے؟ اس کی مثال بس ایسی ہی ہے، جیسے کسی کاشت کار(Farmer)کے ہاتھ میں آلات ِجراحی(Surgical instruments) تھمادی جائے اوراس سے کسی کااوپریشن کے لئے کہاجائے، ظاہرہے کہ اس کے ہاتھ لوگوں کی جان توجاسکتی ہے، بیماری ٹھیک کبھی نہیں ہوسکتی، ہم نے بھی قانون سازی ایسے لوگوں کے حوالہ کررکھی ہے، جوقانون کی ’’قاف‘‘ سے واقف نہیں ، ظاہرہے کہ قانون کس قسم کابنے گا؟ اس کاحالیہ سالوں میں خوب تجربہ ہوچکاہے، اس سلسلہ میں مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ۔

  دوسرااہم شعبہ ’’انتظامیہ‘‘ہے، جسے ہم ’’حکومت‘‘ بھی کہتے ہیں ، یاتینیکی زبان اگراستعمال کرناچاہیں تو’’بیوروکریسی‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں ، یہ بھی جمہوریت کے چار ستونوں میں سے اہم؛ بل کہ دوسراستون ہے، یہ ایک مستقل ادارہ ہے، جس کاانتخاب کسی زمانہ میں ’’بصیرت‘‘ کی بنیادپرہواکرتاتھااورحق بھی یہی ہے کہ اس شعبہ سے تعلق رکھنے والوں کاانتخاب ’’بصیرت‘‘اور’’میرٹ‘‘ کی بنیادپرہو، اسی لئے معلم سیاست ارسطوکاقول ہے:’’ ریاست کاانتظام اہل دانش کے سپرکیاجاناچاہئے‘‘ ؛ لیکن موجودہ زمانہ میں ان کے قول کاوزن بے معنی ہوکررہ گیاہے اوراس شعبہ کی باگ ڈور’’ہرایرے غیرے، نتھوخیرے‘‘ کے حوالہ کردیاجاتاہے، جس کانتیجہ ’’بھدے مذاق‘‘ کی شکل میں ظاہرہوتاہے؛ لیکن اس میں غلطی خوداپنی بھی ہے۔

  ہم ایک ترقی کی راہ پرگامزن ملک کے باشندے اورباشعورقوم کہلاتے ہیں ؛ لیکن ہماراشعورکہاں ہے؟ مقننہ اورانتظامیہ کے انتخاب میں یہ شعورکیوں نہیں بیدارہوتا ہے کہ ہم صلاحیت وشہادت والے کاانتخاب کریں ؟ہم بغیرسوچے سمجھے لوہارکے ہاتھ میں ہیرا(اورذرابھونڈے الفاظ میں ’’بندرکے ہاتھ میں ناریل‘‘)کیوں دھمادیتے ہیں ؟ہم کیوں نہیں سوچتے ہیں کہ ’’جیسی روح، ویسے فرشتے‘‘ آتے ہیں ؟انتخاب کے وقت ہم ووٹ کے بدلے نوٹ لیتے ہیں ، ذات اوربرادری کی دہائی دیتے ہیں ، ہندومسلم کے نعرے لگاتے ہیں ، کام کے آدمی کوڈھونڈتے تک نہیں ، تونتیجہ کیسانکلے گا؟

  ہمارے ملک کے اندرجومختلف قسم کے عقل میں نہ آنے والے فیصلے صادرہورہے ہیں ، ان کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ مقننہ اورانتظامیہ میں ایسے لوگ درآئے ہیں ، جن کے وہ کسی اعتبارسے اہل نہیں ، اس کا اندازہ آپ سولہویں لوک سبھا کے ممبران سے لگاسکتے ہیں ، ایک رپورٹ کے مطابق جب سولہویں لوک سبھاکے ممبران کاانتخاب عمل میں آیا، اس وقت ا س کے دس ممبران (Non-matriculate) میٹرک پاس بھی نہیں تھے (دیکھئے:www.quora.com)، جب کہ انڈین پارلیمینٹ ویب سائٹ کے مطابق پینتالیس (۴۵) ایم پیز انٹرپاس، تیرہ(۱۳)انڈرمیٹرک، چوالیس میٹرک پاس اورتیس (۳۰) ڈاکٹریٹ ڈگری ہولڈرس تھے(دیکھئے:www.indiatvnews.com, www.quora.com)۔

 اس سے بھی زیادہ تعجب خیزبات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ایم پی(MP) اورایم ایل اے(MLA) بننے کے لئے کسی بھی قسم کی تعلیمی لیاقت کی ضرورت نہیں (دیکھئے:www.merinews.com )، ظاہرہے کہ ایسی صورت میں ’’کوئی‘‘ بھی شخص ایم پی اورایم ایل اے بن سکتاہے اورجب ’’کوئی‘‘ بھی شخص ایم پی اورایم ایل اے بنے گا توترقی معکوس ہی کانتیجہ برآمدہوسکتاہے، جیسا کہ ہم اپنے ’’سونے کی چڑیا‘‘ کہلانے والے ملک کی حالت کامشاہدہ اپنے سرکی آنکھوں سے کرتے چلے آرہے ہیں ،ایسی صورت حال میں ملک کی سا لمیت اورسلامتی کے بارے میں سوچنابے فائدہ ہے۔

   اگرہم حقیقی اورزمینی طورپر ملک کی ترقی دیکھناچاہتے ہیں توپوری قوم کویک جٹ ہوکریہ آواز بلندکرناہوگاکہ جب چپراسی کی نوکری کے لئے صلاحیت اورشہادت درکارہے تومقننہ اورانتظامیہ کے لئے اس سے بڑھ کرصلاحیت اورشہادت کوضروری قراردیاجاناچاہئے، اورچوں کہ موجودہ دورمیں بی اے کی تعلیم بھی معمولی کہلاتی ہے؛ اس لئے ایم پی اورایم ایل اے کولازمی طورایم اے(M.A) پاس ہوناچاہئے، جب کہ پی ایم(P.M) کی کرسی پراسی کو براجمان ہونے کی اجازت ملنی چاہئے، جوڈاکٹریٹ کرچکاہو، اگراس طرح کاکوئی ریزیلیوشن پاس کرالیاجائے توتعلیم یافتہ لوگوں کے ہاتھ میں باگ ڈورہوگی اوراس طرح ہمارملک ایک ایساتہذیب یافتہ ملک بن سکے گا، جہاں بدحالی کے بجائے خوشحالی اورنفرت کے بجائے محبت کی کھیتی ہوگی اورایک بارپھرسے ہماراملک ’’سونے کی چڑیا‘‘ بن جائے گا، بصورت دیگر موجودہ حال سے بھی بدترحال میں پہنچ جائے گا، اب فیصلہ آپ کے ہاتھوں میں ہے کہ ملک کیساچاہئے؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔