ملاقات

سالک جمیل براڑ

ہمارے شہرمیں شاعرتو درجنوں کے حساب سے ہیں۔ مگر نثرلکھنے والے اکادکاہی ہیں۔ جن کوانگلیوں پر گناجاسکتاہے۔ اس کی کیاوجہ ہے۔ یہ تومجھے بتانے کی ضرورت نہیں کہ نثرلکھنا آسان کام نہیں۔ نثرلکھنے کے لیے وقت چاہیئے۔ یہی تو ایک ایسی چیزہے جوآج کے انسان کے پاس نہیں۔ پچھلے پانچ چھ ماہ سے میں دیکھ رہاہوں کہ کئی نئے لکھنے والے افسانوی دنیامیں قدم رکھ چکے ہیں۔ میرے لیے توخوشی کی با ت ہے کہ ہمارے یہاں افسانہ لکھنے کا ماحول پیداہورہا ہے۔ اب تو ہرروز یہاں ایک نیا افسانہ نگارجنم لیتاہے۔ روزنامہ ’نیادور‘کا افسانہ ایڈیشن اٹھاکردیکھو، ہر ہفتے آپ کوکوئی نہ کوئی نیانام ضرور نظرآئے گا۔ ان میں سے بہت سے توفصلی بیٹر ہیں۔ اور کئی ایسے ہیں جوہربارچھپتے ہیں۔ ان نئے لکھنے والوں میں سے بیشتر کومیں جانتاہوں شایدیہ مجھے بھی جانتے ہوں کہ میں بھی افسانہ لکھتا ہوں۔ اسلم واحدایسانام ہے جس کو بدقسمتی سے میں نہیں جانتا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ ضروری نہیں کہ میری پورے شہرسے جان پہچان ہو۔ اکثرمیری ان نئے قلم کاروں سے ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں۔ اب میری دلی خواہش ہے کہ اسلم نام کے افسانہ نگارسے بھی ملاجائے۔ اچھّا لکھتاہے۔ مگر موضوعات وہی پیارمحبت اور دوسری عام باتوں کے اردگرد گھومتے ہیں۔ شاید آپ سوچ رہے ہوں کہ میں اس سے حسد کرتاہوں نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔ اصل میں وہ لکھتا بہت زیادہ ہے۔ اس لیے کئی بار موضوع بہت زیادہ ہلکے ہوتے ہیں۔ کافی سوچ وِچارکے بعد میں نے اسے خط لکھا۔ دس دن بعد جواب موصول ہوا۔ جواس طرح تھا۔

………شہر

………تاریخ

 محترمی آداب!

 میرے لیے یہ بڑے فخر کی با ت ہے کہ آپ مجھ جیسے حقیر قلم کارسے ملنے کے خواہش مندہیں۔ افسانوں کی پسندیدگی کے لیے شکریہ۔ خط ملتے ہی مجھ سے ٹیلی فون پر بات کریں۔ یہ رہامیرانمبر(264467)

            مخلص:

             محمداسلم

اُسی شام میں نے اسلم کو فون کیا۔ ’’ہیلو‘‘

’’ہیلو‘‘ …………دوسری طرف سے آوازآئی۔

’’جی اسلم صاحب سے بات کرنی ہے‘‘ میں نے کہا۔

’’آپ کون صاب(صاحب)‘‘

 ’’جی میں …………… رشیدعباس‘‘۔

’’پلیز……ہولڈکریں۔ ‘‘دوسری طرف سے آوازآئی۔

کچھ لمحوں کے انتظارکے بعد دوسری طرف سے آوازآئی۔ ’’ہیلو‘‘

’’ہیلو‘‘ میں نے جواب دیا۔

’’اور کیاحال ہے رشید عباس صاحب ‘‘اس نے میری خیریت پوچھی۔ ‘‘

’’خدا کا شکرہے آپ سنائیں۔ ‘‘

’’آج شام……چھ بجے آپ فری ہیں ؟‘‘اُس نے پوچھا۔

’’ہاں ……ہاں ‘‘میں نے جواب دیا۔

’’توبس چھ بجے آپ کاانتظاکروں گا۔ ‘‘

ابھی چھ بجنے میں بیس منٹ باقی تھے۔ میں بالکل تیارتھا۔ تحفے کے طورپر میں نے نامور افسانہ نگارجناب احمد ندیم قاسمی کے افسانوں کی کتاب ہاتھ میں لے لی اور موٹرسائیکل پر سوارہوکراپنی منزل کی طرف روانہ ہوگیا۔ میرے ذہن میں اسلم کی شکل وصورت کے بارے میں طرح طرح کے خاکہ ابھرنے لگے۔ کیونکہ میں اس کی شکل وصورت سے واقف نہ تھا۔ اخبار میں بھی کبھی اس کی فوٹونہیں چھپی تھی۔ خیرپانچ منٹ کے سفر کے بعد میں اس کے گھرکے باہر کھڑا تھا۔ میں نے گھنٹی بجائی۔ اور ایک نوجوان نمودارہوا۔ لمباقد، گورا رنگ، درمیانی صحت، چھوٹی چھوٹی آنکھیں اندرکودھنسی ہوئیں۔ اچھی شکل وصورت۔ مجھے ایسے محسوس ہواجیسے میں اسے جانتا ہوں۔ ہاں ہاں یادآیا۔ کالج میں اسے کئی باردیکھاہے۔

’’آئیے آئیے میں آپ ہی کاانتظار کررہاتھا۔ ‘‘اس نے مجھے اندرآنے کے لیے کہا۔

وہ مجھے ایک کمرے میں لے گیا۔ کمرے میں ایک طرف دیوان، پاس ہی دو کرسیاں ایک طرف کونے میں سٹڈی ٹیبل جس پرکورس کی کتابوں کے علاوہ کاغد بکھرے پڑے تھے۔ ساتھ ہی ایک خوبصورت ٹیبل لیمپ اچھّاخاصا تخلیقی ماحول تھا۔

’’ایسانہیں لگتا……کہ ہم پہلے ہی سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں یعنی بائی فیس (By Face)‘‘ میں نے بات چیت شروع کی۔

’’جی میں ان کا چھوٹابھائی امجدہوں ……انھیں کسی ضروری کام کی وجہ سے جانا پڑا………سوری(Sorry)آپ کو کچھ دیر انتظار کرناپڑے گا۔ ‘‘ اس لڑکے نے کہا۔

’’کوئی بات نہیں ……‘‘میں نے جواب دیا۔

کمرے میں مکمل خاموشی چھاگئی۔ میں بیٹھادیواروں کوگھورتا رہا۔

’’رشیدصاحب۔ آپ کواسلم کے افسانے کیسے لگتے ہیں ؟‘‘ اس نے میری رائے پوچھی۔

’’بہت اچھّے‘‘میں نے مختصر ساجواب دیا۔

 بھئی اس وقت تواسلم شہرمیں ٹاپ پرہے۔ شہرکے ادبی حلقوں میں اس کے افسانوں کی دھوم ہے۔ کل بھی دوتین صاحبان اس سے ملنے آئے تھے۔ اسلم شہرکی سبھی ادبی تنظیموں کی پہلی پسند ہے۔ ہر کوئی اسے اپناممبربناناچاہتاہے۔ مختلف شہروں سے تعریفی خطوط آرہے ہیں آج کل وہ ڈرامہ لکھنے میں مصر وف ہے۔ باقاعدہ ایک ہائی کلاس ڈائریکٹر اس سے ملنے آیاتھا۔ مجھے ایسے محسوس ہو رہاتھا۔ جیسے کوئی ماں اپنے کالے کلوٹے اور بدصورت بچے کوکہے کہ میرابیٹا چاند جیسا۔ مجھے اس کی باتیں سن کر غصّہ تو بہت آیا۔ کہ ابھی ٹھیک سے عبارت تو نہیں لکھنی آئی۔ ڈرامہ کیاخاک لکھے گا۔ خیرمیں نے صبرکاگھونٹ پیااور چپ رہا۔

 ’’ہوں ‘‘ میں نے اشارہ کیاکہ سن رہاہوں۔

توبہ توبہ اسلم کے بھائی نے تومیرے کان کھالئے۔ بس بیٹھااپنے بھائی کی تعریفوں کے پل باندھتا رہا۔ اورمیں سنتارہا۔ آخرایک گھنٹے کے لمبے انتظار کے بعد میں گھرواپس آگیا۔ مجھے اسلم کی اس بیوقوفی پربہت رنج گزرا۔ بدھ کے دن روزنامہ ’نیا دور‘ کاافسانہ ایڈیشن شائع ہوتا ہے جس میں ایک افسانہ ضرورہمارے شہرکے کسی نہ کسی قلمکارکا ہوتاہے۔ اسلم تقریباً ان دنوں ہر ہفتے چھپ رہاتھا۔ بدھ کا دن تھا۔ صبح کے تقریباً ساتھ بج رہے تھے۔ ہمیشہ کی طرح میں اخبارکے انتظارمیں بیٹھا تھا۔ اسی دوران گیٹ کے نیچے سے اخبارپھسلتاہوااندر آیا۔ میں نے اخبار اٹھایا۔ اورافسانہ ایڈیشن دیکھنا شروع کیا۔ جس میں اسلم کا افسانہ بھی شائع ہواتھا۔ افسانے کا عنوان ’’میاں مٹھو‘‘تھا۔ آج پہلی بار اسلم کا فوٹوبھی شائع ہواتھا۔ میں اسلم کی فوٹودیکھ کر ایک دم چونک گیا۔ ’’یہ کیا؟……یہ تواسلم کے بھائی کا فوٹو……توکیاوہ خوداسلم ہی تھا۔ جواس کا بھائی بن کر اپنے ہی قصیدے گاتا رہا۔

تبصرے بند ہیں۔