ملاّجان محمد – ایک ناقابل فراموش کردار

عبدالعزیز
ملا جان محمد کا اصلی نام جان محمد تھا۔ وہ پشاور کے ایک محلہ ایکاتوت میں 1903ء میں پیدا ہوئے۔ کلکتہ میں پھلوں کے ایک مشہور تاجر فقیر محمد صاحب ملا صاحب کو کلکتہ اس وقت لائے جب وہ جواں سال تھے۔ فقیر محمد صاحب نے ہی کلکتہ میں خلافت کمیٹی کی تشکیل کی تھی۔ مچھوا پھل منڈی میں فقیر محمد صاحب کی دکان میں ملا صاحب کام کرتے تھے لیکن خلافت کمیٹی قائم ہونے کے بعد ملا صاحب کلکتہ خلافت کمیٹی کے ہمہ وقتی کارکن ہوگئے۔ خلافت کمیٹی اکثر و بیشتر مولانا ابوالکلام آزاد آیا کرتے تھے۔ ملا صاحب ان کی بڑی خدمت کرتے تھے۔ ملا صاحب کو اکثر و بیشتر دینی مجلسوں میں شرکت اور دینی کاموں سے شغف کی وجہ سے مولانا ابوالکلام آزاد نے جان محمد کو ’ملا، ملا‘کہہ کر پکارنے لگے جس کی وجہ سے ملا کا لفظ جان محمد صاحب کے ساتھ ایسا جڑ گیا کہ وہ ملا جان محمد ہی کے نام سے مشہور تھے۔ ملا صاحب کا محلہ ایکاتوت قصہ خوانی محلہ سے بالکل متصل تھا قصہ خوانی ہی میں مشہور ہندستانی فلمی ادا کار یوسف خان (دلیپ کمار) پیدا ہوئے۔ قریبی محلہ کے سبب ملا صاحب کی یوسف خان سے آشنائی تھی۔ ملا صاحب بمبئی جاتے تو یوسف خان سے ضرور ملاقات کرتے اور اگر یوسف خان کلکتہ آتے تو ملا صاحب سے ملے بغیر بمبئی واپس نہیں جاتے۔ ملا صاحب یوسف خان کو اپنے محلہ ہی کا آدمی بتانے میں فخر محسوس کرتے تھے۔
دسمبر1963ء اور جنوری 1965ء میں کلکتہ شہر میں بڑے پیمانے پر فساد ہوا۔ پھر مارچ اور اپریل 1964ء میں مشرقی ہند کی اس صنعتی علاقہ میں جس میں رانچی ، جمشید پور اور روڈ کیلا واقع ہیں ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت بھیانک اور ہولناک فساد کی لہر چل پڑی ہزاروں مسلمان شہید ہوئے،کروڑوں کی جائیدادیں تباہ و برباد ہوئیں فساد زدہ علاقوں سے مسلمانوں کے پاؤں اکھڑنے لگے۔تباہی اور بربادی اتنے بڑے پیمانے پر تھی کہ ہندستان بھر کے مسلمان چیخ پڑے۔ملا جان صاحب اس موقع پر فسادیوں کے خلاف دل جمعی کے ساتھ کھڑے ہوگئے اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اہل اقتدار اور اہل سیاست سے باتیں کرنے میں کبھی نہ ہچکچائے۔
خلافت کمیٹی اور ملاجان محمد کانام اکثر سنتا اور ان کے ریلیف کے کاموں کے بارے میں بھی لوگ چرچا کرتے۔ میری رہائش گاہ150لور چیت پور میں گول کوٹھی کے پاس تھی جو خلافت کے دفتر سے قریب تھی۔ ہمت کرکے ملا جان محمد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے گذارش کی ایسے طلبہ و طالبات کو آپ کی طرف سے اگر کتابیں دی جائیں جو فساد کی وجہ سے کتابوں سے محروم ہیں تو بڑی اچھی بات ہوگی۔ ملاّ صاحب راضی ہوگئے۔ ایسے اسٹوڈنٹس کی فہرست دوڑ دھوپ کرکے تیار کی گئی جو ضرورت مند تھے اور کتابیں بھی پہنچادی گئیں۔
اسکول فائنل کے امتحان کے بعد ملاّ صاحب سے میرا ملنا جلنا شروع ہوا ۔ رابطہ بڑھتا گیا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ ہر صبح سویرے نماز فجر کے بعد ان کی خدمت میں حاضرہوتا۔ملاّ صاحب ہندستان کی بڑی شخصیتوں میں مولانا محمد علی جوہر کا ذکر سب سے زیادہ کرتے اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ان سے زیادہ کسی اور سے متاثر نہیں ہیں۔ برسوں انہوں نے علی برادران(محمد علی شوکت علی) کی خدمت کی تھی۔ آج کی پیڑھی شاید نہ علی برداران سے واقف ہے نہ ان کی تحریک خلافت کو جانتی ہے اور نہ ہی خلافت کمیٹی کی حقیقت سے علم رکھتی ہے۔ مولانا سیدابوالحسن علی ندوی نے اپنے قلم سے اس دور کی تصویر کشی کی ہے جب خلافت تحریک چلائی جارہی تھی آزادی کی تحریک سے یہ بڑی تحریک تھی بلکہ آزادی کی تحریک کو خلافت تحریک ہی سے تقویت اور جلاملتی تھی۔ اس کی ایک جھلک ملاحظہ ہو:
’’جنہوں نے21۔22ء کا زمانہ نہیں دیکھا، ان کو کیا بتایاجائے کہ اس وقت ہندوستان کس طرح کوہ آتش فشاں بنا ہوا تھا، اتحادیوں کی فتح سلطنت عثمانیہ کے خلاف ان کے منصوبوں اور خلافت کو ختم کردینے کی کوشش کی خبر نے سارے ہندوستان میں آگ لگارکھی تھی،مسجدوں،مجلسوں،مدرسوں، گھروں، دکانوں اور خلوت و جلوت، کہیں گویا اس گفتگو کے سوا کوئی گفتگو نہ تھی، ہمارا شہر لکھنؤ جو شروع سے سیاسی تحریکوں کا بڑا مرکز رہا ہے، اس تحریک میں بھی پیش پیش تھا، اسی تحریک کے ایک بڑے رہنما مولانا عبدالباری صاحب اسی شہر کے رہنے والے تھے، جن کا دولت خانہ محل سرائے فرنگی محل اس تحریک کے ہندومسلم رہنماؤں کی لکھنؤ میں فرودگاہ تھی، اور خود گاندھی جی وہیں ٹھہرا کرتے تھے، اسی شہر میں چند سال پہلے مولانا شبلی نے اپنی وہ زلزلہ انگیز نظم پڑھی تھی، جو ’’ہنگامۂ بلقان‘‘ کے نام سے سارے ہندوستان میں مشہور ہوئی اور جس کے پہلے دو شعر یہ تھے ؂
خلافت پر زوال آیا تو نام و نشاں کب تک
چراغ کشتۂ محفل سے اٹھے گا دھواں کب تک؟
زوال دولت عثمان زوال ملک و ملت ہے
عزیزو!فکر فرزندوعیال و خانماں کب تک؟
اسی زمانہ میں ہر بڑے چھوٹے بوڑھے بچے اور مرد و عورت کی زبان پر یہ شعر تھا ؂
بولیں اماں محمد علی کی
جان بیٹا خلافت پہ دے دو
آگے لکھتے ہیں کہ:
’’معلوم نہیں یہ شعر کس کا تھا؟ لیکن اس کی جو شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی وہ کم شعروں کو حاصل ہوئی ہوگی، یہ یاد نہیں کہ اس شعر سے پہلے یہ محبوب نام کان میں پڑچکا تھا یا یہی شعراس کاذریعہ بنا، بہرحال اس میں شک نہیں کہ اس پوری بارات کا نوشہ محمد علی تھے اور وہ اس وقت ہندوستان کے بے تاج بادشاہ معلوم ہوتے، گھر سے نکلنا اور کسی عزیز کے ساتھ امین آباد تک جانا ہوتا تو اس سڑک کے دونوں کناروں پر جس کے دونوں جانب پارک ہیں، چھوٹے چھوٹے رسالے جن میں اس طرح کی نظمیں ہوتیں، تصویریں جن میں دکھایاگیا ہوتا کہ انگریزوں اور ہندوستانیوں کے درمیان رسہ کشی ہورہی ہے، ہندوستانیوں کی ٹیم میں مولانا محمد علی اور سب کے آخر میں مولانا شوکت علی اپنے بھاری بھرکم حبثہ کے ساتھ ہیں اور انہیں کا پلہ بھاری ہے، شہر میں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انگریزوں کی حکومت اٹھ گئی ہے اور علی برادران اور گاندھی جی ہی کی حکومت ہے‘‘۔
ملاّ صاحب کا حافظہ بلا کاتھا۔ مولانا محمد علی جوہر کے سینکڑوں اشعار یاد تھے۔ مولانا ظفر علی خاں ایڈیٹر زمیندار کے اشعار اور رباعیاں بھی سناتے تھے۔ مولانا محمد علی کے دو اشعار خاص طور پر سناسناکر خوش ہوتے ؂
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لئے ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ڈر ہے جوہو ساری خدائی بھی مخالف
کافی ہے اگر ایک خدا میرے لئے ہے
مولانا ظفر علی خاں اور محمڈن اسپورٹنگ کے تعلق پر بھی کبھی کبھی مزے لے لیکر تبصرہ کرتے۔ کہتے کہ جب ٹیم کامیاب ہوتی تو محمڈن کلب میں بیٹھ کر اشعار کہتے۔ ایک بار 1936ء میں ٹیم لیگ چمپئن ہوئی تو اسلامی ٹیم کی فتح اور انگریزی ٹیم کی شکست کے عنوان سے مولانا نے نظم لکھی جن کے دو اشعار ضرور سناتے:
جن کے بازو تھے قوی آج و مغلوب ہوئے
ناتواں نے تواناؤں کی دل آج شکست
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرتبہ ہوگیا اسلام کا دنیا میں بلند
حوصلے ہوگئے انگریز کے بنگال میں پست
مولانا ظفر علی خاں کی درج ذیل رباعی ملاّ صاحب سے ہی سنی تھی جس سے آج تک حوصلہ ملتا ہے ؂
کہاں ہیں وہ مسلماں اگلے زمانے والے
قیصر و کسراکی گردنیں جھکانے والے
بات کیا تھی نہ روما سے دبے نہ ایراں سے مٹے

چند بے تربیت اونٹوں کے چرانے والے
جب بڑا ہوا تو علامہ اقبال کے جواب شکوہ میں اس کا جواب بھی پڑھا:۔
ہر مسلماں رگ باطل کے لئے نشترتھا
اس کے آئینہ ہستی میں عمل جوہر تھا
جو بھروسہ تھا اسے قوت بازو پر تھا
ہے تمہیں موت کا ڈر اس کو خدا کا ڈر تھا
ملاّ صاحب کے ساتھ محمڈن اسپورٹنگ کے میچوں میں بھی شرکت کرنے لگا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ کہیں بھی فساد ہوجاتا مجھے بلاتے اور حالات خراب ہونے کے باوجود اپنی جیپ میں بٹھا کر چلنے کیلئے کہتے۔ کلیم الدین شمس کی انتخابی میٹنگوں میں بھی مجھے ساتھ لے جاتے اور تقریر کیلئے آمادہ کرتے۔ملاّ صاحب کی کئی باتیں آج بھی یاد ہیں۔ اکثر کہتے کہ محمڈن اسپورٹنگ کا ایک گول علماء کی ہزاروں تقریروں پر بھاری ہوتا ہے۔ اس سے ان کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ مسلمانوں کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے حالانکہ وہ حوصلہ اور جذبہ کتنی دیر تک قائم رہتا اسی پر گفتگو نہیں کرتے۔ یہ بھی کہتے تھے کہ اگر کوئی کام نہیں کرنا ہے تو کمیٹی بنادو۔ اس پر بھی زور دیتے کہ زکوٰۃ خیرات کھا کر کوئی مجاہد نہیں بن سکتا۔مولویوں کے بارے میں کہتے کہ وہ دعوت کبھی نہیں دیتے مگر دعوت میں کھانے کے لئے بے چین رہتے ہیں۔ تقریروں میں اکثر آخر میں اپیل کرتے ’’نیک ہو جاؤ اور ایک ہوجاؤ‘‘۔
ملاّ صاحب فسادات کی آگ بجھانے اور مسلمانوں کاحوصلہ بلند کرنے میں جو حصہ لیتے تھے اس کی وجہ سے مسلمان ان کو قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھتے۔محمڈن کلب سے بھی زیادہ اسلامیہ اسپتال سے بھی دلچسپی لیتے تھے۔ ڈاکٹر مقبول احمد اور ملاّ صاحب اسلامیہ اسپتال کیلئے کارہائے نمایاں انجام دیتے۔ ملاّ صاحب کاایک کارنامہ کل ہند مسلم مجلس مشاورت کوقائم کرنے اور چلانے میں ناقابل فراموش ہے۔
لکھنؤ کے اجلاس میں جب پورے ملک سے لوگ نئی امیدیں اور نئے حوصلے کے ساتھ جمع ہوئے تھے تو ایک وقت خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ بغیر کسی فیصلہ کے اجلاس کااختتام نہ ہوجائے ملاّ صاحب نے تمام شرکاء کے سامنے کہا کہ وہ بغیر فیصلہ اور نتیجہ کے اپنی جگہ سے کسی کو اٹھنے نہیں دیں گے بالآخر مثبت فیصلہ ہوا اور مشاورت وجود میںآگئی۔ مولانا علی میاں نے اجلاس کی روداد ختم کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’ اجتماع تین روز کی کارروائی اور بحث و مباحثہ کے بعد جس میں کئی بار انتشار و بد مزدگی اور ناکامی کاخطرہ پیدا ہوا۔ خیر و خوبی سے ختم ہوگیا اور ملاّ جان کے الفاظ میں جو وہ اپنے دوروں کی ہر تقریر میں کہا کرتے تھے، شرکاء جلسہ نے اعلان کیا ؂ ’ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا‘‘
مولانا علی میاں نے مسلم مجلس مشاورت کے وجود میں آنے کی داستان بیان کرتے ہوئے ملاّ صاحب اور خلافت کا ذکر کچھ اس طرح کیا ہے:
’’اس اجتماع کو زیادہ شہرت نہیں دی گئی تھی اور اس سے بچنے کی کوشش کی گئی تھی کہ وہ سیاسی بازیگروں کا اکھاڑانہ بن جائے لیکن اس پر ملک کے تمام درد مند مسلمانوں کی نگاہیں لگی ہوئی تھیں اور وہ اس کی تجاویز اور نتائج کے لئے گوش برآواز تھے، ہندوستان کی چار موقر جماعتوں جمیعتہ العلماء، جماعت اسلامی، مسلم لیگ اور خلافت کمیٹی کے سربراہ اور صدر و سکریٹری موجود تھے، بعض دوسری مسلم تنظیموں ، تعمیر ملت حیدرآباد، امارت شرعیہ بہار کے ذمہ دار بھی تھے، ہم جیسے کچھ ایسے لوگ بھی تھے جن کا کسی سیاسی پارٹی سے تعلق نہ تھا، ان میں بمبئی کے محمد یٰسین نوری صاحب بیرسٹر، حیدرآباد کے محمد یونس سلیم صاحب ( جو بعد میں مرکزی حکومت میں نائب وزیرقانون ہوئے) مدارس کے این، ایم انور صاحب ممبر پارلیمنٹ اور بہار کے سابق ایم پی سید مظہرامام صاحب لکھنؤ کے ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی اور مولوی سید کلب عباس صاحب، صدر شیعہ کانفرنس خاص طور پر قابل ذکر ہیں بعض سیاسی مشاہدین اور اخباروں کے نمائندے بھی شریک یا گوش بدیوار تھے جن میں سے بعض امریکہ کے کثیرالا شاعت اخبارات سے بھی تعلق رکھتے تھے، اجتماع تاثیرو جذبات سے ڈوبی ہوئی ،فضا میں شروع ہوا،گویا ہندوستانی مسلمانوں کی کشتی بھنور میں پھنسی ہے اور طوفان ہچکولے کھارہی ہے اور کشتی کے ناخدا۔۔۔ اس کو بچانے کی فکر میں ہاتھ پاؤ مار رہے ہیں، قرآن شریف پڑھا گیا، خلافت کے دیرینہ خادم و کارکن ملاّ جان کی فرمائش پر اقبال کی نظم ؂
یارب دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
پڑھی گئی جب خوش الحان کمسن طالب علم اس شعر پر پہنچا ؂
بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل
اس شہر کے خوگر کو پھر وسعت صحرادے
تو کئی آنکھیں پر آب ہوگئیں اور بہت سے دل امنڈ آئے‘‘۔
آزادیِ ہند کے بعد ملا صاحب مغربی بنگال کے ایسے واحد بڑے لیڈر رہ گئے تھے جو ملت کیلئے شب و روز کام کرتے تھے۔ ہر آفت اور ہر مصیبت میں مسلمانوں کے ساتھ کھڑے رہتے تھے۔ بڑی سے بڑی تباہی مسلمانوں پر آتی تو مسلمانوں کو ہر طرح سے ڈھارس دینے اور صبر و تحمل سے کام لینے کی تلقین کرتے تھے۔ ملت کو پست اور تباہ و برباد کرنے والی طاقتوں کے خلاف پرزور آواز بلند کرتے تھے۔ یہ پر وقار و عالی مرتبت شخصیت کی بلند آواز 1973ء میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاموش ہوگئی۔

تبصرے بند ہیں۔