ملا کی دوڑ

مجاہدحسین پہراوی

ظہر کی نماز پڑھانے کے بعد وہ اپنے کمرے کی کرسی پر نڈھال بیٹھا تھا، اس کے چہرے پر مایوسی، ناامیدی اور ناکامی کے گہرے اثرات نمایاں تھے، ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کے سارے ارمان آنسوؤں میں بہ گئے ہوں، اس کی جملہ خواہشات کا گلا گھونٹ دیا گیا ہو…… کتنے خواب دیکھے تھے اس نے، سب چکنا چور ہو گئے۔

وہ سوچوں میں گم تھا۔ لوگ صحیح کہتے ہیں "ملا کی دوڑ مسجد تک” چاہ کر بھی اس محاورے کو اپنے لیے ہی سہی، غلط ثابت نہ کر سکا، آخر میں بھی اسی چہار دیواری میں آکرمحدود ہو گیا۔ وہ اپنے پریشان کن خیالات میں غلطاں کب بستر پہ دراز ہوکر نیند کی آغوش میں چلا گیا، پتہ ہی نہ چلا۔

 عصر کی نماز کیلیے وضو خانہ جارہا تھا کے ایک ادھیڑ عمر کا شخص، جو اپنی ہیئت و لباس سے متمول معلوم ہورہا تھا، اپنے ہاتھ سے پانی کا بھرا لوٹا اسے وضو کیلیے بڑی عزت و احترام کے ساتھ پیش کر رہا تھا، وہ اپنے سے دوگنے عمر کے اس شخص کو اس طرح اپنی عزت افزائی کرتے دیکھ کر تھوڑی خفت و شرمندگی محسوس کرنے لگا، وہ پانی کا لوٹا لیتے ہوئے ذرا جھجکا، لیکن جس خلوص و احترام کے ساتھ دیا گیا تھا کے اسے انکار نہیں کیا جا سکتا تھا۔

 اب اس کے سوچنے کا زاویہ بدل چکا تھا، دل کے دریچے کھل گئے تھے۔ یہ تعظیم و تکریم! کچھ تو ہے جس نے اس باپ سمان انسان کو میری عزت کرنے پر آمادہ کیا؛ اس کے چہرے پر قدرے اطمینان کی جھلک نظر آنے لگی تھی۔

  اگلے دن جمعہ کا تھا،منبر پر جاتے ہوئے کئی لوگوں نے دعا کی درخواست کی۔ مصلیوں سے مسجد بھری ہوئی تھی، ہر عمر اور ہر قسم کے لوگ ٹکٹکی باندھے منبر پر تشریف فرما اس خوبرو نوجوان کی باتوں کو بغور سن رہے تھے۔

    وہ ترتیب سے صفوں میں بیٹھے تمام لوگوں کو گردن گھماتے دیکھ رہا تھا، کیوں سن رہے ہیں یہ مجھے؟ .. کون سی چیز ہے، جس کی وجہ سے مجھے اس مقدس جگہ پر بیٹھنے کے قابل سمجھا گیا؟ کیوں کہتے ہیں لوگ مجھے بھی دعا کیلیے؟…….۔

 منبر کی بلندی پر بیٹھے اسے اپنے بادشاہ ہونے کا گمان ہورہا تھا، اپنے ماتھے پہ سجی ٹوپی اسے تاج محسوس ہونے لگی……. نماز کیلیے صفوں کو سیدھی کرتے اسے لگا جیسے کوئی کمانڈر اپنا لشکر ترتیب دے رہا ہو۔

 سنت سے فراغت کے بعد وہ وہیں مڑ کربیٹھ گیا، لوگ آرہے تھے، اور نہایت عقیدت کے ساتھ مصافحہ کرکے جارہے تھے، اس کے چہرے پر سکون و اطمینان سے بھری مسکراہٹ رقص کر رہی تھی، اس کا دل اس سے مخاطب تھا، مانا کہ "ملا کی دوڑ مسجد یا مدرسے تک”۔. پر یہ دوڑ اسے عزت و احترام کی اس منزل اور مقام تک پہنچاتی ہے، جہاں تک پہنچنا ہرکس و ناکس کا کام نہیں ہوتا، یہاں وہ پہنچتے ہیں، جسے پروردگار عالم چُنتے ہیں۔ اس کا وجود ان والدین کیلیے سراپا دعا گو تھا، جنھوں نے اسے ایسی دولت سے مالا مال کیا تھا جو اسے دونوں جہاں میں سرخروئی عطا کرنے والی تھی۔

  اس نے کھڑے ہوتے ہوئے ایک گہری سانس لی، فخریہ انداز میں مسکرایا، اور اپنے کمرے کے اور بڑھ گیا۔

تبصرے بند ہیں۔