ملت اور ملی اداروں کی حقیقت 

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

اہل ایمان ایک ملت یا جسم کی طرح ہیں۔ اس کا ایک حصہ تکلیف میں ہو تو پورا جسم محسوس کرتا ہے۔ ہر فرد الگ رہتے ہوئے بھی اس کا جز ہے۔ اس لحاظ سے ہر مسلمان ملت کا نمائندہ ہے۔ یہ ایسا رشتہ ہے جسے سرحدوں میں محدود نہیں کیا جا سکتا لیکن یہاں گفتگو بھارت کے تناظر میں کی گئی ہے۔ ملک میں جب بھی کوئی شخص لیک سے ہٹ کر کوئی قدم اٹھاتا ہے تو اس کے بارے میں تین طرح کے تاثر سنائی یا دکھائی دیتے ہیں۔ کس حیثیت سے اس شخص نے سیاسی جماعت یا حکومت سے قوم کے حق میں بات کی یا گفتگو کا فیصلہ لیا۔ اسے یہ اختیار کس نے دیا، ملت کا نمائندہ کس نے بنایا، ان کو کم از کم ملی رہنماو ¿ں کو تو اعتماد میں لینا چاہئے تھا وغیرہ۔ یہ سوال واجب ہونے کے ساتھ قابل توجہ بھی ہے کہ کوئی بھی مسلمان از خود آگے بڑھ کر سیاسی، مذہبی جماعتوں یا حکومت سے مسلمانوں کے متعلق کیوں بات کرتا ہے۔ جبکہ ملت نے اسے یہ ذمہ داری نہیں دی ہے۔

یہ صحیح ہے کہ مسلمانوں کی بھلائی کا شوق رکھنے والے خود ساختہ لیڈران کی وجہ سے کئی مرتبہ ملت کو آزمائش سے گزرنا پڑا ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلم سماج میں گاو ¿ں سے لے کر ملک تک جواب دہی کا کوئی نظام نہیں ہے۔ جبکہ انفرادی ہو یا اجتماعی اسلام زندگی کے ہر شعبہ میں تنظیم پر زور دیتا ہے۔ نتیجہ کے طور پر ملک میں ایک بھی ادارہ، جماعت یا شخص ایسا نہیں ہے جسے تمام مسلمانوں کا اعتماد حاصل ہو۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ملک میں مسلمانوں کے ادارے اور تنظیمیں کام نہیں کر رہے۔ مگر یہ ادارے، تنظیمیں یا تو شخصی ہیں یا پھر مذہبی، مسلکی یا چند لوگوں کے ذہن کی پیداوار۔ اس لئے ان کا دائرہ ¿ کار و اثر محدود ہے۔ لیکن سب ملی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ملت کے کسی فرد یا افراد کے قائم کردہ ادارے کو آپ ملی کہہ سکتے ہیں لیکن حقیقت میں اس ادارے یا تنظیم کو ملت کا اعتماد حاصل نہیں ہوتا۔ کیوں کہ اس کے قیام یا ذمہ داروں کے انتخاب میں ملت کی کوئی کوشش شامل نہیں ہوتی۔

اس کسوٹی پر ہم اپنے اداروں یا تنظیموں کو پرکھیں تو کوئی بھی ادارہ یا تنظیم ملی ہوتے ہوئے بھی ملت کی نہیں ہے۔ مسلم ایجوکیشنل کانفرنس بھلے ہی سرسید احمد خان نے قائم کی تھی، لیکن یہ ایک ملی تنظیم تھی جسے مسلمانوں کی تعلیمی بیداری کےلئے بنایا گیا تھا۔ اس تعلیمی مہم کو چند مذہبی علماءکے علاوہ مسلم اکثریت کی حمایت حاصل تھی۔ اس کے نتیجے میں مسلم تعلیمی اداروں کا ملک میں جال پھیل گیا۔ علیگڑھ میں ایم اے او کالج (مسلم یونیورسٹی) دولت مند طبقہ کے مسلم بچوں کی تعلیم کےلئے قائم کیا گیا تھا۔ لیکن وقت کے ساتھ یونیورسٹی میں سبھی کےلئے تعلیم کے دروازے کھل گئے۔ عرصہ تک نہ صرف مسلم یونیورسٹی کے طلبہ کا مسلمانوں میں احترام کیا جاتا تھا بلکہ ہر مسئلہ پر علیگڑھ کی طرف نظریں لگی رہتی تھیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ بھی مسلم یونیورسٹی کے طلبہ نے ہی قائم کی تھی لیکن اسے ملت میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی والا مقام حاصل نہیں ہوا۔

مذہبی تعلیم یافتہ حضرات نے ملت کے تعاون سے ملک بھر میں دینی تعلیمی ادارے قائم کئے۔ ان میں سے کئی کو عربی یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہے۔ اور کئی میں عربی و دینی تعلیم کے ساتھ انگریزی، کمپیوٹر اور دیگر مضامین کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ دینی مدارس نے غریب خاندانوں کے بچوں کو تعلیم سے جوڑ کر حکومت کے قومی خواندگی مشن کو بھی آگے بڑھایا۔ ملک کی تعلیمی تاریخ میں ان کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا، مگر مسلمانوں میں ان سے مسلکی عصبیت اور اختلافات کو مضبوطی ملی۔ یہ ادارے ملی تعاون سے چلتے ضرور ہیں لیکن یہ ملت کے نہیں ہیں۔ ان پر کسی خاندان یا کسی عالم دین کا قبضہ ہے۔ اس کی وجہ سے مقامی سطح پر اثر رکھتے ہوئے بھی مقامی لوگ نہ ان کی کفالت کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے بچوں کو پڑھنے بھیجتے ہیں۔ نتیجہ کے طور پر مدارس کو اپنے اخراجات پورے کرنے کےلئے ملک اور بیرون ملک سے چندہ کرنا پڑتا ہے۔ بہر حال ان کی اپنی افادیت ہے جس پر الگ سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔

اب آیئے ملی تنظیموں اور ملی رہنماو ¿ں کے بارے میں بھی جان لیں جن کو اعتماد میں لینے یا ان سے بات کرنے کے بارے میں اکثر کہا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے درمیان سب سے بڑی تنظیم جمعیت العلمائے ہند ہے۔ اسے ملک کے صاحب النظر دینی علماءنے قائم کیا تھا۔ یہ پہلے علمائ دیوبند کی اور بعد میں مدنی خاندان کی تنظیم بن کر رہ گئی۔ اسی سے اختلاف کے نتیجہ میں مرکزی جمعیت اور ملی کونسل وجود میں آئی۔ مولانا فضیل قاسمی نے مولانا سید احمد ہاشمی کی مدد سے مرکزی جمعیت قائم کی تھی جبکہ مولانا اسرارالحق قاسمی کی تحریک پر مولانا مجاہد الاسلام قاسمی نے ملی کونسل بنائی تھی۔ مولانا اسرارالحق قاسمی صاحب اس کے نائب جنرل سیکرٹری اور نائب صدر رہے۔ مرکزی جمعیت اور ملی کونسل کو مسلم سماج میں وہ مقبولیت حاصل نہیں ہوئی جو جمعیت العلمائے ہند کو تھی اور ہے۔ جمعیت العلماءکو دستیاب وسائل اور افرادی قوت پر قبضہ کو لے کر چچا بھتیجے کے درمیان تنازعہ عرصہ تک رہا۔ مولانا ارشد مدنی صاحب کے امیرالہند بننے کے بعد لگتا ہے کہ چچا بھتیجے کے درمیان مصالحت ہو گئی ہے۔

ملی جماعتوں میں امارت شرعیہ بہار، جھارکھنڈ و اڑیسہ ایک اہم نام ہے۔ مولانا محمد سجاد صاحب نے ملی ادارے کے طور پر اسے قائم کیا تھا۔ مگر مولانا منت اللہ رحمانی صاحب کے بعد امارت شرعیہ میں امیر شریعت کا جھگڑا شروع ہوا۔ قاضی شریعت مولانا مجاہد الاسلام قاسمی صاحب نے حکمت کے ساتھ امارت کو تنازعہ سے دور رکھا لیکن بعد میں مولانا ولی رحمانی صاحب امیر شریعت بن گئے۔ مسلمانوں کے درمیان جماعت اسلامی ہند بھی بڑی ملی جماعت ہے۔ اس کے ارکان کی تعداد ساڑھے بارہ ہزار ہے۔ مگر اس سے اتفاق رکھنے والوں کی تعداد خاصی ہے۔ ایک اور بڑی ملی تنظیم مسلم پرسنل لا بورڈ ہے۔ اس میں تمام مکاتب فکر کے مذہبی علماءو مسلم دانشور شامل ہیں لیکن اس میں لئے جانے والے فیصلے حنفی مسلک کے مطابق ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ باقی حضرات صرف نام کےلئے اس میں شامل ہیں۔ تین طلاق کے معاملہ میں پرسنل لا بورڈ کی وجہ سے تمام مسلمانوں کو فضیحت اٹھانی پڑی۔ اس کے علاوہ مسلم مجلس مشاورت بھی مسلم مسائل کو حل کرنے کےلئے بنائی گئی تھی۔ جو سید شہاب الدین صاحب کی زندگی تک فعال رہی۔ گو کہ انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کے ممبران کی تعداد بہت کم (چار ہزار) ہے۔ ان میں غیر مسلم حضرات بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی مسلم ادارہ یا تنظیم ایسی نہیں ہے۔ جس کے عہدیداران کا انتخاب ممبران کے ذریعہ کیا جاتا ہو۔ ان کے علاوہ بھی تنظیمیں ہیں لیکن وہ کسی خاص مسلک یا علاقے سے تعلق رکھتی ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ ملت کے نام پر بنی تنظیموں یا اداروں نے مسلمانوں کے درمیان کام نہیں کیا ہے۔ سب اپنی بساط بھر کام کر رہے ہیں۔ مثلاً جمعیت العلماءکی مظفر نگر فساد کے بعد متاثرین کو دوبارہ بسانے و بے گناہ مسلمانوں کو مقدمہ لڑ کر جیلوں سے رہا کرانے اور قدرتی آفات میں مدد باہم پہنچانے کی کوشش بلاشبہ قابل تعریف ہے۔ جماعت اسلامی کا تیار کردہ اسلامی لٹریچر کتنے ہی آسودہ ذہنوں کو سیراب کر رہا ہے۔ فسادات کے دوران اس نے ریلیف کا مثالی کام کیا ہے۔ امارت شرعیہ کے تکنیکی تعلیم کے ادارے اور سول سروسز کےلئے بچوں کو تیار کرنا بھی قابل ذکر ہے۔ تمام چھوٹے بڑے ادارے یا تنظیمیں مسلمانوں کے درمیان جو مثبت کام کر رہے ہیں، ان کا اعتراف کرنا اور حت الامکان ساتھ دینا چاہئے۔ مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ادارے یا تنظیمیں تمام مسلمانوں سے پوچھ کر یا انہیں اعتماد میں لے کر کام نہیں کرتے ہیں۔ اور نہ ہی ان کے ذمہ داران کا انتخاب ملت کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ اس لئے اگر کوئی شخص ملت کے حق میں کوئی مثبت پہل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو ان اداروں یا تنظیموں کو یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ ہم سے پوچھ کر یا ہمیں اعتماد میں لے کر یہ کام کرنا چاہئے۔ تنقید کرنے یا انگلی اٹھانے کے بجائے سنجیدگی سے اس کے کام کا جائزہ لیا جائے کہ جو قدم اٹھایا جا رہا ہے، وہ ملت کے حق میں ہے یا نہیں؟ اپنے مشاہدہ اور تجزیہ کے مطابق اسے مشورے دیئے جائیں تاکہ غلطی کا امکان کم اور بہتری کی امید بڑھ جائے۔ مزاج کی اس تبدیلی سے ملت کے ہر شخص کو یہ خیال رہے گا کہ اسے کوئی دیکھ رہا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔