ملت کی بیٹیوں کو تعلیم  سے دور رکھنے کی سازش

عظیم اللہ خان

    آہ سیکولر کہے جانے والے اس ملک میں یہ نفرت کی انتہا نہیں تو کیا ہے، کہ مسلم لڑکیوں کو کالج میں آنے سے محض اس لئے روک دیا گیا کہ وہ حجاب پہن کر کالج آتی ہے، اب اسے ہم محض مسلم دشمنی کہیں یا پھر ملت کی بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے روکنے کی سازش، جو بھی ہو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اب اس ملک کے تعلیمی اداروں میں بھی تعصب کا ذہر گھول دیا گیا ہے، اور یہی نہیں کالج میں پڑھنے والے اسٹوڈنٹس جو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھی ہوا کرتے ہیں، ان میں بھی اب تعصب نظر آنے لگا ہے، غرض کہ جہاں محبت کی تعلیم دی جاتی تھی وہاں اب نفرتیں سکھائی جارہی ہے اور حجاب پر لگنے والی یہ پابندی اسی بات کا ثبوت ہے۔

 ملت کی بیٹیاں اس فیصلے کے خلاف برسر احتجاج ہے، دبی آواز ہی میں سہی ملت کے کچھ افراد اس کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں، ہو سکتا ہے کہ یہ احتجاج اور پر زور ہوجائے، ہو سکتا ہے کہ کالج  حجاب کے خلاف لیا گیا یہ فیصلہ واپس بھی لے لے،۔۔۔ اور واپس لینا ہی پڑیگا،۔۔۔۔ سوال یہ ہے کہ فیصلہ واپس لے لینے کے بعد ہم مطمئن ہو جائیں کہ چلو اب ہماری بہنیں اور بیٹیاں کالج حجاب پہن کر جائیں گی،۔۔ کیا صرف حجاب پہن کر کالج آنے کی اجازت مل جانے سے ہمیں خوش ہو جانا چاہیے،؟ ہرگز نہیں, حجاب پہننے کی اجازت مل بھی جائے، اور ملے گی ہی کیوں کہ ملت کی بہنیں اور بیٹیاں اپنے اس حق کو کسی حال نہیں چھوڑیں گی،۔۔ لیکن مسئلہ یہی پر ختم نہیں ہوگا، کیونکہ اس وقت ملک میں جو ذعفرانی ذہنیت پل رہی ہیں، اس سے آج ملک کے اسکول اور کالج بھی محفوظ نہیں ہیں،۔۔ اور پھر اس میں یہ مخلوط تعلیم کا نظام جس کو اسلام کبھی پسند نہیں کرتا، اس نظام نے اسکول اور کالجز کو ذہنی عیاشی اور فحاشی کا اڈّا بنادیا ہے، اور اس میں بھی پلاننگ کرکے ہماری بہنوں اور بیٹیوں کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے، اور اس وقت جو ارتداد کے واقعات سامنے آرہے ہیں، اسی کا نتیجہ ہے، اور یہی سب دیکھ کر کئی ذہین لڑکیوں کو پڑھنے سے روک دیا جارہا ہے، کئی والدین اس وقت یہ فیصلہ نہیں کر پارہے ہیں کہ کیا وہ مخلوط تعلیم کے اس دلدل میں اپنی بیٹیوں کو دکھیل دیں یا پھر ان ذہانت کو گھروں میں ہی دباکر رکھ دیں۔

آج بھی ہماری بچیوں میں بہت ٹلینٹ ہیں، وہ بہت کچھ کر سکتی ہیں لیکن وہ پلیٹ فارم یہاں موجود نہیں ہیں، جس کو کئی سالوں سے امت کی بیٹیاں تلاش کر رہی ہیں، میں بات کر رہا ہوں، ایسے کالجس کی جہاں مخلوط تعلیم نہ ہوں، جہاں صرف لڑکیاں پڑھتی ہوں، جہاں کالج کی تعلیم کے ساتھ اخلاق بھی سکھائے جاتے ہوں۔ کئی سالوں سے ملت کی بیٹیاں آس لگائے ہوئے ہیں کہ بے تہاشہ مدرسوں کو چلانے والے ملت کے یہ با اثر لوگ ہمارا بھی کچھ انتظام کریں ہمارے لئے بھی کچھ ادارے کھولیں، کالجس کھولیں جہاں ہم اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں،۔۔ وہ اس ملک کے سیاست دانوں کی طرف،۔۔ اس ملک کے با اثر اور صاحب استطاعت لوگوں کی طرف،۔۔ اور ملک میں کام کرنے والے تنظیموں اور جماعتوں کی طرف بھی دیکھ رہی ہیں کہ کوئی تو آگے آئیں اور ہمیں مخلوط تعلیم کے اس دلدل سے نکالیں، وہ کب تک روز روز ہونے والی نکتہ چینوں کو سہہے گی،۔۔ کب تک ان کی طرف اٹھنے والی ان گندی نظروں کے وار سہے گی، وہ تو سلام ہے ملت کی بیٹیوں کو جو اس نظام تعلیم میں بھی اپنی شناخت اپنی تہذیب کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم ان سے بس اپنے آپ کو بچانے کا مطالبہ ہی کرتے رہیں۔ نہیں اب وقت آچکا ہے کہ جہاں ہم کئی فلاحی کاموں میں، مدرسوں کو بنانے میں، مسجدوں کو سجانے میں بے تحاشا پیسے خرچ کرتے ہیں وہیں، ملت کی بیٹیوں کے لئے کالجس کھولنے کے لئے بھی ہمیں آگے آنا ہوگا۔

 آج بھی امت مسلمہ میں پیسے دینے کا جو جذبہ ہے وہ کسی اور میں نہیں ہیں، ضرورت ہے کہ ملک میں کام کرنے والی تنظیمیں اور جماعتیں، بڑے بڑے مدارس چلانے والے ذمہ داران، اور صاحب استطاعت لوگ آگے آئیں، اور ملت کی بیٹیوں کے تعق سے سوچیں کہ کیا انہیں ایسے ہی مخلوط تعلیم کے اداروں میں پلیٹوں میں رکھ کر غیروں کے سامنے پروسنا ہیں، یا پھر ان کی ذہانت کو گھروں کے چولہوں کے اندر جلادینا ہیں،۔۔۔۔۔ ہم سب کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اس وقت ہماری لڑکیوں کا بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا بہت ضروری ہے، اب یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم انہیں ایسا تعلیمی ماحول پیدا کرکے دیں کہ جہاں ان کی عزتیں بھی محفوظ رہیں، جہاں ان کو اپنی تہذیب، اپنی حیا چھوڑنی نہ پڑے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔