ملت کی زبوں حالی کا ذمہ دار کون ہے؟

مدثر احمد

پچھلے کچھ دنوں سے ریاست بھر کے مسلمانوں میں ایک بات زیر بحث یہ ہے کہ ریاست میں مسلمانوں کی سیاسی قیادت کمزور ہورہی ہے، مسلمانوں کی قیادت کو کمزور کرنے کے لئے دوسری قومیں اور کئی سیاسی جماعتوں کے لیڈران منظم طریقے سے کوششیں کررہے ہیں، ریاست کے کئی سینئر لیڈروں کو نظر انداز کیا جارہاہے اور وہ اب اپنی سیاسی طاقت کو کھورہے ہیں۔ یقیناََ عام لوگوں کے یہ خیالات صدفیصد درست ہیں مگر مسلم قیادت کو کمزور کرنے کے لئے جہاں دوسری قوموں کی جانب سے سازشیں رچی جارہی ہیں وہیں اپنے سیاسی لیڈروں کی من مانیاں اور خود مختاریاں بھی کم نہیں ہیں۔ کرناٹک میں لنگایت سماج دوسری بڑی اقلیت ہونے کے باوجود لنگایت سماج میں جو اتحاد دیکھا جاسکتاہے وہ قابل رشک ہے، وہاں ہر لیڈر اس بات کی کوشش کرتاہے کہ انکے سماج کا کوئی شخص قیادت کے لئے آگے آئے اور انکی سیاسی بصیرت اس قدر مضبوط ہے کہ وہ ایک لنگایت امیدوار کے ہوتے ہوئے دوسرا لنگایت کبھی یہ نہیں چاہتا کہ اسکی ذات کے امیدوار کے سامنے وہ مقابلہ کرنے کے لئے آگے آئے۔ جبکہ مسلمانوں میں یہ حالات بالکل الگ ہیں، اگر کسی الیکشن میں کوئی مسلمان امیدوار بن کر میدان میں اترتاہے تو درجنوں مسلمان اسکے مقابلے میں اتر آتے ہیں اور انکا منشاء حریف جماعت کو ہرانا نہیں ہوتا بلکہ اپنے ہی مسلمان امیدوار کو اسکی حیثیت دکھانا ہوتاہے جس کی وجہ سے کبھی بھی ایک مسلمان اپنی قوم سے مطمئن ہوکر الیکشن میں حریف کو شکست دے نہیں پاتا۔ بات الیکشن اور سیاست سے ہٹ کر کی جائے تو ہمارے درمیان جو مسلم قائدین ہیں وہ صرف الیکشن کے مینڈک ہیں۔ جس سے طرح سے بارش کے ایام میں مینڈک پانی سے باہر نکل کر ٹرٹراتے ہیں اسی طرح سے  انتخابات آتے ہی مسلم قائدین کہلانے والے لیڈران الیکشن ختم ہونے تک ٹر ٹراتے ہیں، بعد میں انکا اتا پتہ بھی نہیں ہوتا۔

مسلم سماج مختلف مسائل کا شکار ہے۔ مسلمانوں کے مسائل پر غور کرنے والے لوگ نہ کہ برابر ہیں۔ جہاں تک ہماری سوچ ہے کہ ہمارے پاس سیاسی قائدین کی کمی ہے اور ایوان اقتدار میں ہماری قیادت نہیں ہے۔ اس سوچ کے علاوہ بھی کیا کبھی ہم نے یہ سوچا ہے کہ ہمارے پاس کتنے ایسے قائدین ہیں جو ملی مسائل پر آواز اٹھاتے ہوں ؟۔ کتنے ایسے لوگ ہیں جو قوم کی پسماندگی کو دور کرنے کے لئے کمر بستہ ہوں ؟۔ جسٹس سچر کمیٹی کی سفارشات کی ہی بات لے لی جائے۔ اس رپورٹ کو جاری کئے ہوئے قریب 16 سال کا عرصہ بیت چکا ہے، اس طویل عرصے میں تو مسلم قائدین کی کوششوں کے سبب مسلمانوں کے مسائل حل ہوجانے چاہیے تھے، لیکن ہر ایک سیاسی لیڈر اس بات کی کوشش میں رہا کہ وہ اپنے پارٹی کا وفادار رہے، وہ ہر گز بھی نہیں چاہتا کہ اسکی زبان کھلنے سے اسکی پارٹی کی ناکامی جھلک اٹھے اور وہ پارٹی میں اس بات سے جانا جائے کہ وہ پارٹی سے زیادہ اپنے قوم کے تئیں وفادار ہے !!۔ جب ایسی سوچ کے لیڈران ہمارے درمیان رہیں گے تو آخر کس بنیاد پر قوم یہ توقع کریگی کہ ہمارے پاس بھی مسلم لیڈران موجود ہیں !!۔ ماضی میں ہم نے کئی ایسے فرقہ وارانہ فسادات بھی دیکھے ہیں جن میں مسلمانوں کے ساتھ ناانصافیاں ہوئی ہیں۔ مسلمانوں پر ظلم و ستم ہوئے ہیں، ایسے برے وقت میں جب قوم نے اپنے سیاسی لیڈروں کو یاد کیا تو انہوںنے یہ کہہ کر بھی اپنا پلّہ جھاڑ لینے کی کوشش کی ہے کہ اگر وہ براہ راست مسلمانوں کی قیادت کے لئے آگے آتے ہیں اور مسلمانوں کے حق میں بات کرتے ہیں تو دوسری قومیں ان سے ناراض ہوجائینگی اور اسکے اثرات انہیں انکے الیکشن میں دیکھنے کو مل سکتے ہیں اسلئے وہ کبھی بھی مظلوم مسلمانوں کی قیادت کے لئے کھل کر آنے سے گریز کرتے ہیں۔ مسلمان ایک ایسی جذباتی قوم ہے جو اپنے حقیقی لیڈر کو پہچاننے میں ہمیشہ ناکام رہی ہے، یہ صلاحیت آج کی نہیں بلکہ واقعہ کربلا سے ہی شروع ہوا ہے۔ کربلا میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے جب بیعت لینے کا معاملہ آیا تو اہل کوفہ نے حضرت حسین سے زیادہ انکے حریف سے بیعت لینے کو ترجیح دی، جب شہادت حسین ہوئی تو ماتم مناتے ہوئے کہنے لگے تھے کہ یا حسین ہم نہیں تھے، ہم نے آپ کو اپنا خلیفہ ماننے میں تاخیر کی۔ آج بھی یہی حالات ہیں، جب وقت رہتے کسی صحیح مسلمان کو اپنا قائد تسلیم کرنے کی بات آتی ہے تو مسلمانوں کے درمیان اختلافات پیدا ہوتے ہیں اور ان اختلافات کی وجہ سے کوئی غیر مسلمانوں پر حاوی ہوتاہے تو مسلمان اس بات کا رونا رونے لگتے ہیں کہ ہم نے اپنے قائد کے انتخاب میں لاپرواہی برتی ہے۔

فی الوقت کانگریس سمیت مختلف سیاسی جماعتوں میں مسلمانوں کے نام پر جو لوگ سیاست کررہے ہیں دراصل وہ مسلمانوں کے قائدنہیں ہیں بلکہ مسلمانوں کو بے وقوف بنانے والے ٹھگ ہیں، موجودہ سیاسی لیڈروں میں بیشتر سیاسی لیڈروں نے مسلمانوں کا ہر لحاظ سے استحصال کیاہے۔ اگر یہ لوگ اپنی قوم کے تئیں ایماندار ہوتے تو آج غیروں کے درمیان رسواء نہیں ہوتے۔ معمولی لنگایت و برہمن مسلمانوں کو نیچا نہیں دکھا سکتے تھے۔ لیکن حالات اس قدر بدتر ہوچکے ہیں کہ آج مسلم سیاسی قائدین کو دروازوں کے باہر بٹھائے جانے کے باوجود بھی وہ اپنے پارٹیوں کے تئیں وفادار ہیں۔ انکی اس حرکت کو بھلے وہ وفاداری ہی مان لیں مگر یہ ایک طرح کی بزدلی ہے۔ کرناٹک کے گوڈ ا سماج کو ہی لے لیں، آج انکی ایک سیاسی پارٹی ہے۔ جنتادل سیکولر کے نام سے قائم کردہ اس سیاسی جماعت میں بظاہر ہر قوم کے لوگ ہیں، لیکن چلتی ہے تو صرف گوڈا سماج کی۔ اس پارٹی میں بھی مسلمان پارٹ ٹائم لیڈران ہی ہیں۔ الیکشن ختم تو مسلمانوں کی اہمیت ختم۔ اسی طرح سے یادو سماج کی بات کی جائے تو آج اتر پردیش میں مخصوص حلقوں پر اپنا رعب رکھنے والے یادو سماج نے پورے ہندوستان کی سیاست کو اپنی جانب متوجہ کررکھاہے۔ مسلمانوں سے کئی فیصد کم آبادی والی اس پارٹی میں مسلمانوں کو اہمیت تو دی ہے لیکن اس پارٹی کی حد تک ہی انہیں  پر پھیلانے کا حق ہے۔ رہی بات مسلمانوں کی!۔ اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت کہے جانے والے مسلمانوں کے پاس کہنے کو تو کئی سیاسی پارٹیاں ہیں۔ یس ڈی پی آئی، پیس پارٹی، یم آئی یم، مسلم لیگ، اے  یو ڈی یف کے علاوہ مقامی سطح پر بھی سیاسی پارٹیاں ہیں لیکن ان پارٹیوں سے الیکشن لڑنے والا ہر مسلمان بی جے پی کا ایجنٹ بن جاتاہے اور ہر مسلمانوں کی قیادت کرنے والی پارٹی بی جے پی کی ذیلی شاخ بن جاتی ہے۔ مسلمانوں کی سیاسی قیادت کررہی ان سیاسی پارٹیوں کو جہاں کانگریس و دیگر نام نہاد سیاسی جماعتوںنے بدنام کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے وہیں خود مسلم لیڈروں نے بھی کوئی کثر نہیں چھوڑی۔ ان مسلم لیڈروں میں صرف سیاسی لیڈران ہی نہیں بلکہ ملی و مذہبی قائدین بھی برابر کے حصے دار ہیں، یہ خود نہیں چاہتے کہ مسلمانوں کی کوئی سیاسی جماعت ہواور مسلمانوں کے درپر دوسرے آئیں۔

ہم نے ماضی میں ہونے والے انتخابات میں یہ منظر خوب دیکھیں ہیں کہ کس طرح سے مسلم قائدین جن میں مذہبی رہنماء بھی شامل ہیں انہوںنے دوسروں کے درپر خود جاکر اس بات کا حلف لیاہے کہ ہم مسلمان تو آپ کے تابع میں ہیں اور آپ ہی فرقہ پرستوں کو شکست دینے کی طاقت رکھتے ہیں۔ جب کہ اسلام کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عظیم فاتحین نے اپنے بل بوتے پر حکومتیں قائم کی تھیں اور دوسروں کو اپنے ساتھ شامل ہونے کے لئے مجبور کیا تھا۔ جس وقت جنگ احد اور غزوہ بد ر پیش آئے تھے اس دوران مسلمانوں کی تعداد کم ہونے کے باوجود انکے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ کفار مکہ سے مقابلہ کرنے سے قبل چند مٹھی بھر مسلمانوں نے مدینے کے یہودیوں و عیسائیوں کو اپنے ماتحت کرتے ہوئے انہیں اس بات پر مجبورکر دیا تھاکہ وہ کفار مکہ سے مقابلہ کرنے کے لئے مسلمانوں کا ساتھ دیں اور ساتھ دینا نہیں چاہتے ہیں تو اپنے گھروں میں بند رہیں۔ لیکن آج ہمارے ذہینوں پر فسطائی طاقتوں کا خوف اس قدر حاوی ہوچکاہے کہ ہمارے پاس نہ تو خود مقابلہ کرنے کی طاقت ہےنہ ہی مقابلہ کرنے والوں کا ساتھ دینے کی صلاحیت ہے۔ ہمارے ذہین محدود سیاسی جماعتوں کے غلام بن چکے ہیں اور ہم ہر گز بھی نہیں چاہتے کہ مسلمان اپنی طاقت کے بل بوتے پر دوسروں کا مقابلہ کرسکیں۔ اکثر ہم نے ہمارے مذہبی رہنمائوں سے یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ مسلمانوں کی تنزلی کی وجہ انکے دین سے دوری ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ یہ تنزلی دین سے دوری کی وجہ سے ہی ہے لیکن کیا صرف نمازوں کا نہ پڑھنا، داڑھی نہ رکھنا، جھبہ پائجامہ نہ پہننا، ٹوپی نہ پہننا، عورتوں کا بے نقاب ہوکر بازاروں میں جانا ہی دین سے دوری ہے ؟۔ کیو ں ہم اسلامی حکومتوں کے وہ باب یاد نہیں کرتے جس میں مسلم حکمرانوںنے اپنے اللہ کے ساتھ ساتھ اپنے بازوئوں پر بھی یقین رکھا تھا اورجنگ کرنے کی تیاری کرتے پھر اللہ سے مدد مانگتے۔ اب ہم ہندوستان میں کتنے مسلمان ایسے ہیں جو مسلمانوں کی سیاسی جماعتوں پر اعتبار کرتے ہیں۔ بات اسد الدین اویسی کی کی جائے تو کہا جاتاہے کہ وہ بی جے پی کے ایجنٹ ہیں۔ بات مولانا بدرالدین جمال کی کی جائے تو کہا جاتاہے کہ وہ بی جے پی کو ساتھ دینے والوں میں سے ہیں۔ یس ڈی پی آئی کی تائید کرنے کی بات ہوتی ہے تو کہا جاتاہے کہ انکے پاس طاقت نہیں ہے۔ مسلم لیگ کا حوالہ لیا جائے تو کہا جاتاہے کہ انکے پاس اب افراد کی کمی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کانگریس، یس پی، جے ڈی یس اور بی یس پی ہی مسلمانوں کی سیاسی جماعتیں ہیں ؟۔ کیا ان پارٹیوں سے ہی وفاداری کرنے کی قسم مسلمانوں نے کھارکھی ہے ؟۔ کیا ان پارٹیوں کے علاوہ اور کسی کو قیادت کرنے کا موقع نہیں دیا جاسکتا؟۔ جب ان پارٹیوںمیں طاقت نہیں ہے تو کیا انہیں طاقت دینے کے لئے آسمانی مخلوقات زمین پر آئینگی ؟۔ کیا مسلم لیگ، یس ڈی پی آئی، پیس پارٹی میں رکنیت حاصل کرنے کے لئے عرب کے مسلمان آئینگے ؟۔ نہیں نا۔ تو پھر ان پارٹیوں کو عام مسلمانوں سے ہی طاقت دینے کی ضرورت ہے ورنہ ہم تاقیامت تک یہی رونا روتے رہیں گے کہ مسلمانوں کے پاس کوئی قائد نہیں ہے۔ جواب ہمارے پاس ہی ہے بس ہم اس جواب کو تلاش کرنا نہیں چاہتے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔