ملّتِ اسلامیہ ہند کی اصلاحِ حال اور ہمارا کردار

تحریر: ڈاکٹر فضل الرحمن فریدیؒ…ترتیب: عبدالعزیز

  تحریک اسلامی ہند کی کامیاب جدوجہد کا بڑی حد تک انحصار مسلمانانِ ہند کی مجموعی صورت حال اور اس سے متعلق ان کے رویے پر ہے۔

 ہم نے ابتدا میں ان متعدد چیلنجوں کا تذکرہ کیا تھا جو اقامت دین کی تحریک کو درپیش ہیں ۔ ان میں سے ایک اہم چیلنج ہم نے ملت اسلامیہ ہند کی عمومی صورت حال کو قرار دیا تھا۔ اپنے اس موقف کی مختصر دلیل ہم پہلے بیان کرچکے ہیں ۔ اس وقت ان کو دہرانا پیش نظر نہیں بلکہ صرف یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ اس ملت کی اصلاح کے بغیر اقامت دین کی تحریک کی پیش رفت اگر ناممکن نہیں تو انتہائی دشوار ضرور ہوگی۔ خوش قسمتی سے ملت کے دردمند حضرات کے مابین یہ بات متفق علیہ ہے۔ علماء ہوں یا مسلم دانشور سب اصلاح حال کی منظم جدوجہد کو لازمی قرار دیتے ہیں ؛ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ مسلمانانِ ہند کے دینی اور دنیوی دونوں طرح کے مسائل کا حل بھی اس صورت حال کی عمومی بہتری کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یہ بھی مقام شکر ہے کہ اس جہت میں کوششیں بھی ہورہی ہیں ، انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی سطح پر بھی۔

 ملت اسلامیہ کی موجودہ صورت حال کی بہتری کیلئے کوئی موثر اور دور رس کوشش اس وقت تک ممکن نہیں جب تک چند بنیادی امور کے متعلق واضح فیصلہ نہ کرلیا جائے۔

 پہلا امر یہ ہے کہ حقیقی صورت حال کیا ہے۔ اس صورت حال کے مختلف عناصر میں کس کو اوّلین ترجیح حاصل ہونی چاہئے اور کس کو ثانوی؛ تاکہ ہم اپنی قوت کار اور وسائل کو سامنے رکھ کر جدوجہد کی ترجیحات اور رخ متعین کرسکیں ۔ بیماریاں بہت ہیں ۔ ان میں سے بعض کو بنیادی اہمیت اس لئے حاصل ہے کہ دوسری بہت سی بیماریوں کا وہ سرچشمہ ہیں ۔ بعض صرف علامتیں اصلی بیماری کی موجودگی کی ہیں اور بعض پیچیدگیاں وہ ہیں جو بنیادی بیماریوں کی وجہ سے شدید ہوگئی ہیں ۔

 دوسرا امر یہ ہے کہ جدوجہد کرنے والے کے ذہن میں بہتری کا تصور واضح ہونا چاہئے۔ وہ صورت حال کی کس تبدیلی کو بہتری سمجھتا ہے۔ کیا اس کے نزدیک بہتری کا وہی تصور ہے جو تہذیب مغرب سے مستعار لیا گیا ہے؟ یا وہ مسلمانانِ ہند کی بہتر صورت حال کا ایسا جامع تصور رکھتا ہے جس کو دین حق نے ہمیں عطا کیا ہے۔ جیسا تصور ہوگا، ویسی ہی کوشش بھی ہوگی۔ جس رخ اور جہت سے بہتری مطلوب ہوگی اسی کے لحاظ سے وسائل اور ذرائع اختیار کئے جائیں گے۔

 تیسرا امر یہ ہے کہ اصلاح احوال کیلئے سب سے اہم اور موثر عامل کہاں سے فراہم ہوگا؟ کیا صرف حقوق اور مطالبات کی منظم جدوجہد اس کا موثر ترین عامل ہوگا یا مسلمانانِ ہند کی ذاتی اور ہمہ جہتی جدوجہد اس کی بنیاد ہونا چاہئے یا پھر دونوں رخ سے جدوجہد کرنا چاہئے؟ کیا صرف عمل، تگ و دو اور تنظیم کی حد تک بیداری کفایت کرے گی یا حقائق کا صحیح شعور اور ادراک اور وسائل کی وسعت اور سنگینی کا تجزیہ بھی درکار ہے؟ جس کی غیر موجودگی میں محض بھاگ دوڑ نتیجہ خیز نہیں ہوسکتی۔

 آخری امر یہ ہے کہ صورت حال کی اصلاح کی کوشش مسلمانانِ ہند کے تمام گروہوں اور طبقات کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اس لئے پوری خوش دلی سے بلا لحاظ مسلک و مذہب ہر با شعور اور درد مند فردِ ملت کو اس جدوجہد میں حصہ لینا چاہئے۔ اس کام کیلئے باہمی ایثار کی بھی ضرورت ہے اور خلوص و دیانتداری درکار ہے۔ ہم سب کو یہ فیصلہ کرلینا چاہئے کہ باہمی تعاون اور اشتراک اس جدوجہد کا کردار ہوگا۔ ہر چھوٹی بڑی کوشش کا اعتراف بھی کیا جائے گا اور ان کی تائید بھی۔ بدقسمتی سے ایک عرصے سے مل جل کر کام کرنے کی اہلیت اور صلاحیت ملت نے کھودی ہے۔ جڑنے کے بجائے بچھڑنے کو اس نے اپنی روش بنالی ہے۔ اعتراف، تحسین اور قدر شناسی کو ہم نے ’’اپنے لوگوں ‘‘ کیلئے مخصوص کر دیا ہے۔ اس عمومی جدوجہد کی تاثیر اور نتیجہ خیزی اسی وقت ممکن ہے جبکہ ملت اپنی اس عادت کو ترک کردے۔

  مذکورہ بالا امور کے درست فیصلے پر مسلمانانِ ہند کی بہتری موقوف ہے؛ ورنہ منتشر اور بے نتیجہ کوششیں تو بہت دنوں سے لوگ کر رہے ہیں ، مگر محدود دائرہ میں معمولی سی تبدیلی بھی مشکل ہوتی ہے۔

 ملت اسلامیہ ہند کی موجودہ صورت حال تقریباً ہر جہت سے محتاج توجہ ہے، وہ دینی اور اخلاقی لحاظ سے پستیوں کی طرف برابر سفر کر رہی ہے۔ اتحاد اور اتفاق کی جگہ گروہی اور مسلکی چپقلش اس کا شعار بن گئے ہیں ۔ اسلام کی اساسی تعلیمات اور اقدار سے عمومی غفلت ہے اور جزوی باتوں پر حق و باطل کے معرکے برپا کئے جاتے ہیں ۔ خاندانی زندگی کے حصار میں دراڑ پڑ گئی ہے۔ کردار کی صلابت ڈھونڈنے سے کسی کونے کھدرے میں مل جاتی ہے۔ مادی افلاس، گندی بستیاں ، ٹوٹے پھوٹے مکانات، خستہ حال سڑکیں ، گلیوں میں آوارہ گھومنے والے بچے اور بچیاں اور غیر معیاری و ناقص اسکول اس ملت کی پہچان بن گئے ہیں ۔

  کسی بھی شہر میں چلے جائیے؛ وہاں مسلمانوں کی اکثریت سلم (Slum) میں رہتی ہے۔ مسلم سماج میں بالعموم ادھورے تعلیم یافتہ اور نیم خواندہ لیڈروں اور دینی رہنماؤں کی کثرت ہے۔ سیاسی لحاظ سے یہ پارٹیوں کی شکار گاہ ہے۔ ایسا زرخیز میدان ہے جس میں تھوڑی سی زبانی سینچائی سے ووٹوں کی بہترین فصل اگائی جاسکتی ہے۔ اس لئے کہ اس ملت کو نہ اپنے حالات کا صحیح علم ہے اور نہ ان کی اجتماعی رائے ہے۔ اس کے افراد جذباتی نعروں کا شکار رہے ہیں اور ان کے سہارے ان کو زندہ رہنے کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ان کی بستیوں میں امراض کی بھی کثرت ہے۔ کوئی متعدی بیماری ہو یا امراض مزمنہ آبادی کے لحاظ سے ان کا تناسب زیادہ ہی رہتا ہے۔ سیاسی استحصال اور فرقہ وارانہ امتیازات کا وہ مسلسل شکار رہی ہے، لیکن نہ تو اس کو قوت حاصل کرنے کے طریقے معلوم ہیں اور نہ ہندستان کے جمہوری نظام میں اس کو اپنے حقوق کا علم ہے۔ وہ ہنگامی اور وقتی رد عمل کی عادی بن گئی ہے۔ اس لئے کہ اس کے خود ساختہ رہنماؤں نے اس کو یہی سکھایا ہے؛ لہٰذا خاموشی اور دیرپا تعمیری جدوجہد سے اس ملت کی اکثریت ابا کرتی ہے۔ مسلمان سماج میں خواتین کی صورت حال بھی ایسی ہے کہ جس کو اسلامی تعلیمات اور حدود کی پابندی نہیں کہا جاسکتا۔ خارجی اثرات اور جہالت نے ایسے رسم و رواج ایجاد کرلئے ہیں جن کی وجہ سے خواتین کو ان حقوق سے محروم کیا جارہا ہے جو دین حق نے انھیں عطا کئے ہیں اور ایسی خرافات ایجاد کرلی گئی ہیں جن کے اثرات خواتین کے مجموعی کردار اور ان کے سماجی مقام پر پڑ رہے ہیں ، مگر ان سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ جدید تحریک آزادیِ نسواں سے مسلم سماج کی خواتین بری طرح متاثر ہورہی ہیں ؛ چنانچہ تعلیم یافتہ خواتین کی ایک معتدبہ تعداد نفس اسلامی سے بے زار ہورہی ہے۔

 مسلمانانِ ہند کی اس حالت کا یہ مختصر خاکہ بھی بدحواس کرنے کیلئے کافی ہے، لیکن اگر گہرائی میں جائیے تو اس بنیادی مرض کا پتا لگانا مشکل نہ ہوگا جس سے یہ تمام خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ۔ مسلمانانِ ہند کا اہم ترین مسئلہ ان کی عمومی جہالت اور ناخواندگی ہے۔ ہندستان کی آزادی کے پچاس برس گزرنے کے بعد بھی بستیوں کی بستیاں ایسی مل جائیں جہاں لوگ حرف آشنا بھی نہیں ہیں ، جہاں نہ تو درس گاہیں اور اسکول ہیں اور نہ ایسے افراد جو بچوں کو ابتدائی تعلیم بھی دے سکیں ۔ حکومت بھی اس معاملہ میں مجرمانہ امتیاز سے کام لیتی ہے۔ دینی تعلیم کے اعتبار سے لاکھوں کی تعداد میں ایسے مسلمان خود شمالی ہند میں مل جائیں گے جو قرآن کریم پڑھ بھی نہیں سکتے۔ ان میں سے بیشتر افراد ایمان اور عقیدہ کے بنیادی امور سے یکسر ناواقف ہیں ۔ اس جہالت کی وجہ سے وہ شرک و بدعات اور خرافات میں مبتلا رہتے ہیں ۔ مثلاً علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اطراف میں ایسی متعدد بستیاں آپ کو آج بھی مل جائیں گی جہاں پر نماز جنازہ پڑھانے والے بھی نہیں ملتے، جہاں نکاح کے وقت غیر مسلم کی رسم پر مبنی تقریبات ادا کی جاتی ہیں ۔ شمالی ہند میں ایسی بستیاں بھی موجود ہیں جہاں نہ بوڑھوں کو اس کا علم ہے اور نہ ہی جوانوں کو معلوم ہے کہ دیوتاؤں کے سامنے ڈنڈوت کرنا حرام ہے۔ ختنہ اسلامی شعار ہے، غیر اللہ سے دعائیں کرنا شرک ہے۔ نکاح وہی شرعاً درست ہے جو قرآنی تعلیمات کے مطابق انجام دیا جائے، جس گروہ کا یہ حال ہو وہ خود بھی مسلمان نہیں رہ سکتا چہ جائیکہ خیر امت کے منصب پر فائز ہو۔

 اس پر مستزاد یہ نیم خواندہ مولویوں کی دکانیں ہیں ، جہاں توحید، رسالت اور نماز و روزہ کی تعلیم دینے کے بجائے اس کے ساتھ اسلامی اصطلاحات کا لباس پہناکر ہر طرح کی گمراہی، بدعات اور خرافات رواج دی جاتی ہیں ۔ خرق عادت کارنامے بیان کئے جاتے ہیں ۔ غیرتِ توحید کو میٹھی نیند سلادیا جاتا ہے۔ بے چارے عوام جنھوں نے کبھی حرف پہچاننا بھی نہیں سیکھا ہے وہ اپنے ایمان کو بچانے کیلئے انہی کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہیں ۔

 دین حق کی ابتدا علم سے ہوتی ہے، ایمان کا پودا پھلتا پھولتا اور بار آور اسی کے سہارے ہوتا ہے، یہ جہالت اور ناخواندگی سے پرورش نہیں پاتا؛ بلکہ جہالت اس کے چشمے کو گدلا ہی نہیں کرتی بلکہ بسا اوقات اس کے سوتے تک خشک کر دیتی ہے۔

 اگر مسلمان یہ نہ جانتا ہو کہ توحید کسے کہتے ہیں ، رسالت اور آخرت کا تصور اسے کیا سکھاتا ہے، اگر وہ یہ نہ جانتا ہو کہ نماز کیسے پڑھی جاتی ہے، روزہ، زکوٰۃ اور حج کے احکام کیا ہیں ۔ طہارت اور پاکیزگی کے مطالبات کیا ہیں ، نکاح کس عمل کا نام ہے، ماں باپ اور والدین کے حقوق کیا ہیں تو اس کے پاس صرف دو ہی چارہ کار رہ جاتا ہے۔ ایک یہ کہ وہ جس حالت میں مبتلا ہے اس پر صبر کرے یا پھر اپنے ایمان اور عمل کی سلامتی کیلئے انہی نیم خواندہ مولویوں پر بھروسہ کرے جو اس کے ماحول میں موجود ہیں ۔ پہلی بات کی خطرناکی تو واضح ہے لیکن دوسری صورت بھی اپنے نتائج کے اعتبار سے اصلاح کے بجائے فساد کا سبب بنتی ہے۔

 اس وسیع و عریض جہالت کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ مسلمانانِ ہند کا سماج بھی مغرب کی مادہ پرستی اور اباحیت پسندی کا تیزی سے شکار ہوتا جارہا ہے۔ عفت و عصمت، دیانت اور پاس عہد، ایمانداری اور سچائی ایک ایک کرکے اپنا مقام چھوڑتے جارہے ہیں اور بے ایمانی، خیانت ، بے پردگی اور لہو و لعب اس کی جگہ لے رہے ہیں ۔ اس انحطاط کا نہایت اہم سبب جہالت ہے۔ دین حق سے ناواقفیت ہے، سچی دینداری کی جگہ رسمی مذہبیت ہے۔

 جس گروہ کو حروف پہچاننا بھی نہ آتا ہو وہ اسلامی عائلی قانون کا احترام اور نفاذ کیسے کر سکتا ہے۔ وہ اسلام کی سماجی اور معاشی اخلاق کا پاسدار کیسے بن سکتا ہے۔ وہ یہ کیسے سمجھ سکتا ہے کہ اسلام نے پاکیزگی، طہارت اور نظامت کو کیا اہمیت دی ہے۔ وہ خواتین کو وہ مقام کیسے دے سکتا ہے جو اسلام نے ان کو عطا کیا ہے۔ وہ ظلم اور نا انصافی کے ازالہ کو دینی ذمہ داری کیسے سمجھ سکتا ہے۔ وہ کیسے یہ سمجھ سکتا ہے کہ ایمان اور عقیدہ کا تحفظ اس کا اپنا فریضہ ہے اور وہ کسی پر بھی اس معاملے میں اندھا اعتماد نہیں کرسکتا۔ رہ گئی یہ بات کہ دین میں کون سی چیز کتنی اہم ہے، کون سی تعلیمات پہلے آتی ہیں اور کون سی بعد میں ؟ یہ سب باتیں بے چارے کی پہنچ سے بھی باہر ہیں ۔

 ایسے گروہ کو بھلا خیر امت ہونے کا شعور کیسے دلایا جاسکتا ہے۔ وہ داعی الی الخیر کس طرح بن سکتا ہے۔ مسلمانانِ ہند کی جہالت اور ناخواندگی ان کے معاشی افلاس کی بھی بڑی حد تک ذمے دار ہے۔ وہ اس ملک کی معاشی اور تعمیری جدوجہد میں دوسروں کے بالمقابل حصہ نہیں لے سکتے، اس لئے کہ ان کے پاس اہم ترین وسیلہ ہی موجود نہیں ہے۔ سائنسی تعلیم یا ہنر دونوں لحاظ سے وہ انتہائی پستی کا شکار ہیں ؛ چنانچہ ان کا بڑا حصہ مزدور ہے، مال بردار قلی ہے، مستری اور چپراسی ہے، ٹھیلے چلانے والا ہے، موٹر ڈرائیور ہے، چھوٹی موٹی دکان داری کرنے والا ہے، گھریلو صنعتوں میں بیڑی یا شیشہ گری، دباغت اور رنگ سازی کرتا ہے، ان میں صنعت کار، افسر، سائنس داں ، معمار آٹے میں نمک کے برابر ہیں ۔

  ان کی بستیوں میں دینی مدارس ہی کی کمی نہیں ہے بلکہ اسکول اور کالجز کی بھی غیر معمولی قلت ہے۔ پرائمری اسکول جو ملتے ہیں وہ وسائل کے اعتبار سے خستہ حال اور معیار کے اعتبار سے پست ہیں ؛ چونکہ ابتدائی تعلیم خستہ حال ہے اس لئے اعلیٰ فنی اور سائنسی تعلیم کے میدان میں وہ مسابقت نہیں کرپاتے، لہٰذا ان کے معاشی حالات خراب ہیں اور مسلسل خراب رہتے ہیں ۔

 دنیوی تعلیم اور دینی آگاہی دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ افلاس اور مفلوک الحالی اس جہالت کے خبیث نتائج ہیں ؛ لیکن اس سے کہیں زیادہ وہ سماجی اور اخلاقی فساد کے ازالے میں رکاوٹ بنتے ہیں ۔ اس صورت حال کا ازالہ ابتدائی تعلیم کے نظام کی بہتری سے ممکن ہے۔ اعلیٰ اور معیاری ریسرچ، ادارے اور یونیورسٹی یا کالج قائم کرنے اس کا علاج ممکن نہیں ہے۔

مسلمانانِ ہند کے متعدد امراض کا علاج ایسی تعلیمی جدوجہد کے ذریعے ممکن ہے جو وسعت کے اعتبار سے غیر معمولی ہو اور اپنی معنویت کے اعتبار سے وہ دینی و دنیوی تعلیمات کا بہترین امتزاج ہو۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔