ملک بچاؤ تحریک: ایک دردمندانہ اپیل

عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

یہ بات ہر ادنی شعور رکھنے والا غیرمتعصب شہری بلا خوف تردید کہےگا کہ 2014ءسے مرکز میں حکومت بنانے کے بعد بی جے پی نے گذشتہ تین برسوں میں ملک اور عوام کی ترقی کے لیےکوئی بھی مضبوط اورٹھوس قدم نہیں اٹھایاہرچند کہ عام انتخابات سے قبل‘‘ سب کا ساتھ سب کا وکاس’’ اور ‘‘اچھے دن واپس لانے’’کےبلندبانگ نعرے لگائےگئے ؛مگرکرسئ اقتدارپر براجمان ہونے کےبعد  کیا ہوا ؟؟؟

 مہنگائی آسمان پر پہنچ گئی،مسلم دشمنی بام عروج پر آگئی ،معصوم افراد کو ناکردہ گناہوں کی سزادی جانےلگی،ملک کو ایک خاص رنگ میں رنگنے کےتانے بانے بنے جانے لگے،مسلمانوں کے پرسنل لاء پر گرما گرم مباحثوں کاآغازکردیاگیا،مختلف ٹرین حادثات نےجانوں کےتحفظ کودشوارگزار مسئلہ بنادیا، کسانوں کا جینا دوبھرہوگیا، ایک عام بل کہ متوسط آدمی کے لئے بھی مادروطن اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود تنگ نظر آنے لگا   ۔

غورکیاجائے توماضی قریب تک بھی بی جے پی نےہر وقت اپنےمتعصب رویےاورمتشددافراد کے ذریعے نفرتوں کا بازار  گرم کیا اور نوٹ بندی کا اعلان کر کے کہا کہ وہ دہشت گردی اور بدعنوانی کا خاتمہ کرنا چاہتی ہے اور یہ فیصلہ بھی یکایک ایک دن میں لیا گیا؛ جس کی وجہ سے آج تک عوام پریشان اور چند درچند مسائل کا شکارہے حتی کہ اپنے خون پسینے کی کمائی نکالنے کے لیےاب تک 200؍سے زائدافراد فناءکی گھاٹ اتر چکےہیں اور تاہنوز یہ بحران جاری ہے؛ لیکن ملک کے وزیر اعظم اوراعلی عہدیداروں نے کسی ایک موت پر آنسوکا ایک قطرہ نہیں بہایا اور آج تک یہ نہیں بتلایا کہ کتنی مقدارمیں بلیک منی کو ردی بنایا گیا؛جبکہ یہ دیکھا گیا کہ جتنا نقد لوگوں کے پاس تھا اتنا نقد دوبارہ بینکوں میں آگیا اور کوئی بھی بلیک منی کسی کے گھر میں خراب نہیں ہوئی؛بل کہ مقتدر پارٹی کےمختلف لیڈرکھلے عام بدعنوانی کرتےپکڑےگئے ۔ نوٹ بندی کے بعد 50؍دن میں حالات بحال کرنے کی بات کرنے والے وزیر اعظم اپنی اسکیم میں فلاپ ہو گئے اور ملک کی معاشی حالت خراب بل کہ خراب تر ہو گئی اور لاکھوں لوگ بے روزگار ہو گئے۔

 ان تمام وجوہات کی بنا ٔ پر یہ بات تو طئے تھی کہ یو پی کے الیکشن میں بی جے پی کا صفایا ہو جائے گا؛لیکن بی جے پی کو دو تہائی اکثریت سے یو پی اسمبلی میں کامیابی ملی۔ سماجوادی پارٹی اور کانگریس کا اتحاد جس طرح سے ہارا اور مایاوتی جس طرح  حاثیہ پر چلی گئی وہ اےوی ایم گھوٹالے کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ حالانکہ نتائج کے بعد مایاوتی نے خود کہا کہ بی جے پی کی جیت کی وجہ مشینوں کا گھوٹالا ہے۔ماہرین کاکہنا ہے کہ اے وی ایم مشین کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے، یہ کیلکولیٹر کی ایک شکل ہے اور اس میں ہیر پھیر کرنا بہت آسان ہے۔ بہت ہی کم تکنیکی معلومات کے ذریعہ، ایک چِپ (Chip) کی مددسے ،کسی وائرلیس آلے یا پھر بلوٹوتھ کااستعمال کر کے ای وی ایم میں چھیڑ چھاڑ کی جاسکتی ہے اور انتخابی نتائج بدلے جاسکتے ہیں ، اسلئے دنیا کے کئی ممالک میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر اعتبار نہیں کیاجاتا ہے۔

جرمنی میں وہا ں کی سپریم کورٹ نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو دستور مخالف قرار دیا اورالیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال پر پابندی عائد کردی۔ تکنیکی اور تعلیمی اعتبار سے جرمنی ہندوستان سے زیادہ ترقی یافتہ ملک ہے، جب کہ ہمارے ملک کے ستر فیصد دیہاتی علاقوں میں تعلیم اور ٹیکنالوجی کی سوجھ بوجھ بہت کم ہے، ہمارے ملک کے دیہاتی علاقوں میں بھی جہاں تکنیک اور الیکٹرانک  آلات کی قابل قدر سوجھ بوجھ بھی نہیں ہے، الیکٹرانک ووٹنگ مشین استعمال کی جارہی ہے، جن میں ہیرا پھیری آنکھوں کے سامنےدکھائی دے رہی ہے،برملا دھاندلی کی کئی ایک مثالیں نیوز چینلوں پر گشت کررہی ہیں ؛اس موقع پرہر خردمند کا یہی سوال ہے کہ

کیایہ جمہوریت کے ساتھ بھونڈا مذاق نہیں ؟ سیکولرزم کے ساتھ الکٹرانک فراڈ نہیں ؟

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 2004 میں امریکہ میں رہنے والے ایک ہندوستانی انجینئر ستی ناتھ چودھری نے اے وی ایم مشینو ں میں ہیرا پھیرا کے متعلق سپریم کورٹ میں پی آئی ایل داخل کی تھی۔ وہ ایک سافٹ ویئر انجینئر تھے اور اس الیکٹرانک فراڈ سے بخوبی واقف تھے۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا نے ماہرین کی باتوں پر سنجیدگی سے آج تک توجہ نہیں دی، مدراس ہائی کورٹ میں بھی ایسی ہی ایک پٹیشن فائل داخل کی گئی تھی؛مگر وہ بھی سرد خانے کےنذرہوگئی ۔

ایسے پرآشوب ماحول میں بی جے پی کی معنی خیز خاموشی  کے علاوہ تمام سیاسی پارٹیوں نے ای وی ایم مشینوں پر شک ظاہر کیا ہے اس لیے متعدد بین دلائل وشواہد کےبعد پارلیمنٹ راجیہ سبھا کی جانب سے ھندوستانی عوام کو AVMمشین سے ووٹنگ پر اپنی رائے دینے کا موقع دیا گیا ہے؛جس کی آخری تاریخ 4 مئی ہے۔

اس لئے ملک کے تمام انصاف پسند باشندوں سےاپیل کی جاتی ہے کہ وہ اس کاز میں پرسنل لاء کا ساتھ دیں اور حضرت مولانا خلیل الرحمن سجادنعمانی صاحب مدظلہ کی سوشل میڈیاپر گشت کررہی آڈیوکلپ مکمل سنیں اور اس کے مطابق عمل درآمد کریں ۔

شاید مسلم پرسنل لا بورڈ نے بھی تحریرکا ایک نمونہ تیار کیا ہے ؛جس میں ای وی ایم مشینوں پر بے اعتمادی ظاہر کرتے ہوئے ان کے ہٹانے کا پرزور مطالبہ کیا گیاہے،اسی تحریر کو یا اس کے مماثل کسی بھی تحریر کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے 4 مئی سے پہلے پہلے متعلقہ ای میل پر ارسال کردیں ۔

اخیر میں مفکراسلام علی میاں ندوی کےبرادران وطن کے نام  ایک فکر انگیزخطاب کے اقتباس پر قلم روکتا ہوں ،فرماتے ہیں کہ

‘‘ہم اور آپ ایک کشتی کے سوار ہیں ، ایک نیّا کے مسافر ہیں ، ہماری نیّا میں کچھ لوگوں نے بہت بڑا سوراخ کرنے کا ارادہ کیا ہے، چھوٹے سوراخ تو بہت سے ہیں اور بہت دنوں سے ہیں ، پانی تھوڑا تھوڑا آ رہا تھا، لیکن یہ کشتی چونکہ بہت بڑی ہے، اور بڑی کشتی دیر سے ڈوبتی ہے ، چھوٹی ناؤ ہو تو فوراً ڈوب جائے، ہمارے دیش کی کشتی ذرا بڑی ہے، اس لیے ابھی آپ کو نظر نہیں آ رہا ہے کہ اس میں کتنا پانی آ گیا، ایک جگہ آیا ہے، دوسری جگہ نہیں آیا، کئی منزلیں ہیں ، اور بہت بڑی بڑی، اس کا کوئی اور چھور نہیں ، یہ کئی کروڑ کی آبادی کا ملک ہے، اور بہت بڑا ملک ہے، کہتے ہیں ہاتھی کو مرتے مرتے دیر لگتی ہے،ایک چڑیا ہے ، اس کو آپ انگلی میں لیجیے اور مسل ڈالیے، اس کا گلا گھونٹ دیجیے، لیکن ہاتھی تو دیر میں مرے گا۔

 سنیے! یہ ہمارا ملک بہت بڑا ملک ہے، اور خدا کا شکر ہے کہ بڑا ملک ہے،یہ جہاں خوشی کی بات ہے وہیں یہ بات بڑی ذمہ داری کی بھی ہے، اس ملک کو سنبھالیے، اب اس ملک میں اس بات کی زیادہ گنجائش نہیں ہے کہ جو لوگ سوراخ کر چکے ہیں یا سوراخ کرنے پر کمر بستہ ہیں ، ہم ان کو ڈھیل دیں ،چھوٹ دیں کہ یہ جانیں ان کا کام جانے۔

 اب تو ہم کو اور آپ کو مل کر اس کشتی کو سنبھالنا ہے، اور اس دیش کی خبر لینی ہے، ورنہ پھر بھائی

’’تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں ‘‘۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔