اردو ہماری گنگا جمنی تہذیب کی میراث ہے

جاوید رحمانی

پروفیسر اے۔ ایم۔ خسرو ممتاز مفکر، ماہرِ معاشیات، مدیر، وائس چانسلر اور چانسلر جیسے اہم عہدوں پر فائز رہنے کے باوجود وہ ہمیشہ اپنی تہذیب و ثقافت سے بھی جڑے رہے، اس لیے انھیں یاد کرنا گویا اپنی زبان اور تہذیب و ثقافت کو یاد کرنا ہے۔ انھیں اردو اور انگریزی میں یکساں ملکہ حاصل تھا، وہ فارسی پر بھی عبور رکھتے تھے۔ آزاد ہندستان میں ملک کے معماروں میں پروفیسر اے۔ ایم۔ خسرو کا نام بھی ضرور شامل رہے گا۔ وہ متعدد اداروں سے وابستہ رہے اور ہر جگہ اپنے نقوش ثبت کیے۔ ان خیالات کا اظہار معروف اسکالر اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، جودھپور کے وائس چانسلر پروفیسر اخترالواسع نے یکم مئی 2017 کو انجمن ترقی اردو (ہند) اور فاؤنڈیشن فار ایکٹو سوشل ٹرانفارمیشن (فاسٹ) کے زیرِ اہتمام اردو گھر میں منعقدہ پانچواں ڈاکٹر اے۔ ایم۔ خسرور میموریل لکچر دیتے ہوئے کیا۔

 پروفیسر اخترالواسع نے ’ہندستان میں اردو: آج اور کل‘ کے موضوع پر لکچر دیتے ہوئے آزادی کے بعد سے آج تک کی اردو کی صورتِ حال پر انتہائی عالمانہ اور مدلل گفتگو کی اور کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ آزادی کے بعد شمالی ہند کے جو علاقے اردو کی جنم بھومی اور کرم بھومی رہے ہیں یعنی اترپردیش، بہار اور دہلی وغیرہ؛ اردو کے لیے یہاں حالات سازگار نہیں رہے لیکن بہار اور دہلی میں رفتہ رفتہ حالات بہتر ہوئے، مگر سب سے زیادہ ناگفتہ بہ حالات اترپردیش میں ہیں اور اس کے ذمے دار صرف سرکاریں ہی نہیں بلکہ ہم سب ہیں ، کیوں کہ زبانیں زندہ رہتی ہیں اپنے بولنے والوں اور عوامی سرپرستی کے بل بوتے پر۔ جب دورِ ملوکیت میں اردو نے اپنا لوہا منوالیا تھا تو جمہوری حکومت میں اسے یہ مرتبہ کیوں نہیں حاصل ہوسکتا؟ لہٰذا ضرورت ایک ایسے لائحۂ عمل مرتّب کرنے کی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر اردو کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کیا جاسکے اور اسے عوام کے دلوں سے جوڑا جاسکے تبھی اردو کے لیے ماحول ہموار اور سازگار ہوں گے۔ پروفیسر اخترالواسع نے مزید کہا کہ شمالی ہند کے مقابلے جنوبی ہند کا منظرنامہ دوسرا ہے۔ میں مہاراشٹر اور آندھرا و تلنگانہ کی مثال نہیں دے رہا ہوں بلکہ اردو مراکز سے دور ریاست تامل ناڈو کے علاقے میل وشارم، وانمباڑی اور کوئمبٹور وغیرہ کے گلی کوچوں میں بھی اردو کا کافی استعمال اور چلن دیکھنے کو ملا ہے۔

 پروفیسر اخترالواسع نے اردو کی ترقی اور فروغ میں مدارس، فلم اور میڈیا کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ اگر مدارس نے اردو کو قاری عطا کیے تو فلموں نے اسے عوامی رابطے کا ذریعہ بنادیا۔ اس وقت ملک میں اردو کے تقریباً پانچ چینل ہیں ، سب سے مقبول چینل ای ٹی وی اردو ہے۔ اس کے علاوہ زی سلام، منصف ٹی وی، عالمی سہارا اور ڈی ڈی اردو ہیں ۔

 پروفیسر اخترالواسع نے کہا کہ زبانوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا بلکہ ہر مذہب کو زبانوں کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے اردو کو کسی مذہب سے وابستہ کرنا اس کے ساتھ بڑی زیادتی ہوگی، کیوں کہ اردو کی شہرت اور مقبولیت میں ڈی سی ایم کے مشاعرے، محترمہ کامنا پرساد کے جشنِ بہاراں مشاعرے اور سنجیو صراف کے جشنِ ریختہ کے رول کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ پروفیسر اخترالواسع نے مزید کہا کہ چار میٖم یعنی ماں ، مادری زبان، ملک اور مذہب کا تعلق دل سے ہوتا ہے۔ زبان وہ زندہ رہتی ہے جس میں ہماری مائیں لوریاں سناتی ہیں اور اردو ایسی ہی زبان ہے۔

  پروفیسر اخترالواسع نے کہا کہ کچھ لوگ اردو کی کامیابی کے لیے اردو کے رسمِ خط کو ترک کردینے کی بات کرتے ہیں ، ایسے ہی لوگ اردو کے سب سے بڑے دشمن ہیں ۔ اس سے نہ صرف اردو کا اہم سرمایہ تلف ہوجائے گا بلکہ اردو کے لیے یہ سمِ قاتل ثابت ہوگا۔

 اس سے قبل فاسٹ کے چیئرمین جناب سریش ماتھر وفاؔ نے اپنے تعارفی خطاب میں ڈاکٹر اے۔ ایم۔ خسرو میموریل لکچر کی غرض و غایت بیان کی اور کہا کہ یہ پانچواں میموریل لکچر ہے۔ ماتھر صاحب نے پروفیسر خسرو کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے انھیں اعلا اخلاق و اقدار کا حامل شخص قرار دیا اور کہا کہ وہ ایک جاں نثار اور ہر دل عزیز شخصیت کے مالک تھے۔

صدرِ جلسہ جناب خواجہ محمد شاہد (سابق پرووائس چانسلر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی) نے کہا کہ ایک ایسے جلسے میں جس میں پروفیسر خسرو کی شخصیت اور خدمات کو یاد کیا جائے، اس میں شریک ہونا میرے لیے باعثِ فخر و انبساط ہے۔ وہ میرے استاد تھے۔ وہ متعدد خوبیوں کے مالک تھے اور اُن کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ بہت ہی خوب صورتی سے اپنی باتوں کو ذہنوں میں جاگزیں کردیتے تھے۔ میرتقی میرؔ کے سینکڑوں اشعار اُن کو از بر تھے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے لیے اُن کی کوششوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ وہ انتہائی دور اندیش اور مدبرانہ صلاحیتوں کے مالک تھے۔ آج کے حالات میں اُن جیسی شخصیت اور قیادت کی ازحد ضرورت ہے۔

 خواجہ محمد شاہد صاحب نے کہا کہ پروفیسر اخترالواسع صاحب نے اردو کے ستّر سالہ سفر پر انتہائی عالمانہ اور مدلل گفتگو کی ہے۔ خواجہ محمد شاہد صاحب نے اپنے تجربات کی روشنی میں بتایا کہ اردو ہندی سمیت تمام زبانیں متعدد مسائل سے دوچار ہیں اور ان سبھی پر انگریزی زبان کا دباؤ اور پریشر ہے۔ اردو کی ترقی اور فروغ کے لیے ضروری ہے کہ اسکولوں میں اردو کی درس و تدریس کا نظم کیا جائے اور تعلیمی معیار کو بھی کسی صورت میں نظر انداز نہ کیا جائے۔ اس موقعے پر پروفیسر خسرو کے نواسے زین صاحب نے بھی اپنے نانا کی وسیع القلبی اور اُن کی ہر دل عزیزی کا تذکرہ کیا۔

 آخر میں انجمن ترقی اردو (ہند) کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر اطہر فاروقی نے پروفیسر اے۔ ایم۔ خسرو کو انتہائی متوازن اور معتدل انسان قرار دیتے ہوئے تمام مہمانوں اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔ جلسے کی نظامت کے فرائض جناب جاوید رحمانی نے بہ حسن و خوبی انجام دیے۔

تبصرے بند ہیں۔