ملک میں اور بھی مسائل ہیں سوشانت کے سوا

بہار، اتر پردیش، اڑیسہ، آندھرا پردیش، کیرالہ، کرناٹک،
تمل ناڈو، مدھیہ پردیش، ہریانہ، پنجاب، راجستھان، مغربی بنگال، آسام وغیرہ ریاستیں بھاری بارش اور سیلاب کا سامنا کر رہی ہیں ۔ این ڈی ایم آئی کے مطابق ملک بھر میں ایک کروڑ 43 لاکھ 50 ہزار لوگ سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں ۔جبکہ مرنے والوں کی تعداد گیارہ سو کا آنکڑا پار کر چکی ہے ۔ زخمی اور سیلاب میں بہہ جانے والے اس میں شامل نہیں ہیں ۔ لاکھوں لوگ آشیانہ اجڑ جانے کی وجہ سے راحت کیمپوں میں پناہ گزین ہیں ۔ کروڑوں روپے کی فصلیں برباد ہوئی ہیں ۔ بارش، سیلاب نے سب سے زیادہ تباہی بہار اور آسام میں مچائی ہے ۔  صرف بہار میں 77 لاکھ 18 ہزار لوگ سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں ۔ کتنے ہی پل ٹوٹے اور سڑکیں بہہ گئیں ۔ ستر فیصد رقبہ پانی میں ڈوب گیا ۔ بارش، سیلاب کی وجہ سے ڈینگو، ملیریا، ڈائریا جیسی بیماریاں شباب پر ہیں ۔ اوپر سے کورونا وائرس قہر برپا رہا ہے ۔ دوسرے شہروں سے گھر لوٹے مزدوروں کی پریشانیاں الگ ۔ مگر صوبائی حکومت کی توجہ ان مسائل کے بجائے آنے والے الیکشن پر ہے ۔ بی جے پی، جے ڈی یو اتحاد سوشانت کے سہارے اپنی انتخابی نیا پار لگانا چاہتا ہے ۔
کورونا انفیکشن کے 42 لاکھ متاثرین کے ساتھ برازیل کو پیچھے چھوڑ بھارت دنیا کا دوسرا ملک بن گیا ہے ۔ لاک ڈاؤن اور ان لاک کے باوجود بیماروں میں نوے ہزار سے زیادہ نئے مریضوں کا یومیہ اضافہ ہو رہا ہے ۔ اگر یہ تعداد یوں ہی بڑھتی رہی تو وہ دن دور نہیں جب بھارت کووڈ-19 سے لڑنے میں ناکام ہونے والا دنیا کا پہلا ملک بن جائے گا ۔ کیوں کہ بحران کے زمانہ میں حکومت بے حسی کو روز نئی اونچائیوں پر لے جا رہی ہے ۔ اس وقت دنیا بھر کی حکومتیں عوام کو راحت پہنچانے والے فیصلے لے رہی ہیں ۔ چاہے کاروبار کو رفتار دینا ہو، روزگار نہ رہنے پر تنخواہ کا انتظام کرنا ہو، گھریلو خواتین کی مدد ہو یا پھر طلبہ کی پڑھائی ۔ ہر سطح پر اس طرح کے فیصلے لئے جا رہے ہیں کہ خطرناک بیماری کے دور میں عوام اور خوفزدہ نہ ہوں ۔ بلکہ اپنی زندگی عزت دار طریقہ سے جی سکیں ۔ لیکن بھارت میں عوامی فلاح حکومت کی ترجیحات میں شاید ہے ہی نہیں ۔ اس لئے لاک ڈاؤن کے دوران سڑک پر آئے کروڑوں مزدوروں کو ان کی قسمت کے بھروسے چھوڑ دیا گیا، ملک ایک بڑے انسانی سانحہ کا گواہ بنا، جو حکومت کی بے حسی کا ہی نتیجہ تھا ۔ اب بیماروں کی تعداد میں ہو رہے اضافہ پر حکومت پوری طرح خاموش ہے ۔
ملک پہلے ہی معاشی بحران سے گزر رہا تھا ۔ کورونا انفیکشن کو پھیلنے سے روکنے کے لئے اچانک ملک بندی نے معیشت کو اور کمزور کر دیا ۔ حکومت کے فرمانوں کا چابک پڑا تو وہ بستر مرگ پر پہنچ گئی ۔ 2020 کے پہلے کواٹر میں مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) 23.9 – فیصد نفی میں ریکارڈ کی گئی ۔ گزشتہ چالیس سال میں جی ڈی پی کبھی بھی اتنی نیچے نہیں گئی ۔ موجودہ حکومت کے پاس معیشت کو پٹری پر لانے کا کوئی ویژن نہیں ہے ۔ تبھی تو وہ اسے ایکٹ آف گوڈ بتا رہی ہے ۔ مرکزی حکومت نے ریاستوں کو جی ایس ٹی کا پیسہ دینے سے بھی فی الحال انکار کر دیا ہے ۔ اس صورتحال پر ملک کی قیادت کو بے چین ہو جانا چاہئے تھا اور میڈیا کو اس مدے پر پرائم ٹائم میں بحث کرانی چاہیے تھی ۔ مندی اور گرتی معیشت سے ملک کو بچانے کے لئے وزیراعظم کو ماہرین معاشیات کی مدد لینی چاہئے تھی لیکن وہ مور کو دانا چگانے، آوارہ کتوں کو کھانا کھلانے اور بطخوں کی فوٹو کھینچنے میں مصروف نظر آئے تو میڈیا سوشانت سنگھ راجپوت کیس کی گتھی سلجھانے میں ۔
مانا جا رہا تھا کہ من کی بات میں وزیراعظم بے روزگاری، مندی، سیلاب زدگان کی پریشانیوں، چین اور کووڈ مہاماری پر ضرور بات کریں گے ۔ وہ متاثرین کو دلاسا دیں گے، ان کے زخموں پر مرحم رکھیں گے اور عوام کی ہمت بڑھائیں گے ۔ لیکن اگست مہینہ میں من کی بات پروگرام انہوں نے بالکل نئے انداز میں پیش کیا ۔ ٹھیٹھ مارکیٹنگ والے انداز میں سیلسمین کی طرح ۔ اس بار انہوں نے بچوں کا سہارا لے کر کھیل کھلونوں کی بات کی ۔ سینئر صحافی ہرش دیو اسے امبانی کے برطانیہ کی سب سے بڑی کھلونا کمپنی ہیملیج کی ریٹیل چین خریدنے سے جوڑ کر دیکھتے ہیں ۔ انہوں نے اپنی فیس بُک وال پر پوسٹ لکھ کر اس کا اظہار کیا ہے ۔
کتنی عجیب بات ہے کہ غریبوں کو دو وقت کا کھانا میسر نہیں ہو رہا لیکن وزیراعظم من کی بات میں نیوٹریشن اور نیشن کی جگل بندی کر رہے ہیں ۔ جیسا ان ویسا من کا گیان دے رہے ہیں ۔ لوگ روزگار، کاروبار کو لے کر فکر مند ہیں طلبہ جے ای ای، نیٹ کے امتحان اور اپنی تعلیم کو لے کر پریشان ہیں ۔ مگر مودی جی نے من کی بات میں کھیل کھلونوں کی بات کی ۔ ان کے من میں ضروری مدوں کو چھوڑ کر باقی ساری باتیں کرنے کا خیال آتا ہے ۔ کھیل کھلونوں کی بات کرتے ہوئے انہوں نے اس پر غور نہیں کیا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے کتنے بچوں کا بچپن وقت سے پہلے ختم ہو گیا ۔ کیلاش ستیارتھی فاونڈیشن کی رپورٹ کے مطابق کورونا وبا سے پیدا ہوئے معاشی بحران کی وجہ سے 21 فیصد خاندان اقتصادی تنگی کے چلتے اپنے بچوں سے مزدوری کرانے کو مجبور ہیں ۔ رپورٹ میں لاک ڈاؤن کے بعد بچوں کی تسکری کے معاملے بڑھنے کا اندیشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے ۔ مودی جی بچوں کے مستقبل سے جڑے ان اصل مسائل پر بات کرتے تو من کی بات کرنا کامیاب ہوتا جس میں وہ چوک گئے ۔ ملک چلانا کھیل کھیلنے جیسا نہیں ہے ۔ کھیل میں ہارنے کے بعد دوبارہ جیتنے کی کوشش کی جا سکتی ہے ۔ مگر ملک سے کھیلنے کا مطلب ہے عوام کو تکلیفوں میں جھونکنا ۔
حکومت ان تمام دشواریوں کے باوجود جملے گڑھنے سے باز نہیں آ رہی ۔ 2020 کا جملہ ہے خود انحصار بھارت، جس پر آئے دن مودی جی پروچن کرتے رہتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ حالات میں ملک خود انحصار کیسے بنے گا ۔ جبکہ روزگار کو من ریگا تک محدود کر دیا گیا ہے ۔ راحت پیکج کے نام پر نجی کرن کو آسان بنانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ ملک کے اثاثے ایک کے بعد ایک کارپوریٹ کے حوالے کئے جا رہے ہیں ۔ نوکریوں میں کٹوتی ہو رہی ہے ۔ جو آسامیاں خالی پڑی ہیں ان کو بھرنے کے لئے حکومت کے پاس فنڈ نہیں ہے ۔ بنکوں کا 23 لاکھ کروڑ کا قرض ڈوبنے کے کگار پر ہے ۔ وہ این پی اے کے بوجھ سے دب رہے ہیں ۔ بینک کا قرض نہ لوٹانے والوں میں بڑی تعداد کارپوریٹ کی ہے ۔ حکومت بھی انہیں کا قرض معاف کرتی ہے جبکہ قرض کی وجہ سے کسان خود کشی کر رہے ہیں ۔ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو بنکوں کو ناکام ہونے سے بچانا مشکل ہو جائے گا ۔
بینک ہوں یا صنعتیں ان کو بچانے اور فروغ دینے کا حکومت کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے ۔ برسراقتدار جماعت دھیان بھٹکا کر یا لوگوں کو مذہب، ذات، طبقہ کی بنیاد پر آپس میں لڑا کر اقتدار میں بنے رہنے کو فوقیت دیتی ہے ۔ اسے کسی کا یہاں تک کہ ممبران پارلیمنٹ کا سوال کرنا بھی پسند نہیں ہے ۔ تبھی تو سرکاری ایجنسیاں اور میڈیا ملک کے بنیادی مسائل پر اداکار سوشانت سنگھ کی موت کے راز سے پردہ اٹھانے کو ترجیح دے رہا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت اپنے ہمنوا میڈیا کے ذریعہ سوشانت کے بہانے ایک ساتھ کئی نشانے سادھنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ وہ چاہتی ہے کہ سیلاب زدگان اپنی تکلیفیں بھول جائیں ۔ عوام کا دھیان کورونا کے مریضوں کی کسمپرسی کی طرف نہ جائے ۔ وہ سوشانت کی موت کے معمہ میں الجھے رہیں ۔ اس کے بہانے بی جے پی مہاراشٹر حکومت کو گھیرنا چاہتی ہے ۔ سوشانت کے نام کی رودالی کے سہارے وہ بہار الیکشن میں کامیابی کا بھی خواب دیکھ رہی ہے ۔ اسی سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت دیوندر فڈنویس کو بہار الیکشن میں اتارا گیا ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ملک اور بہار کے عوام اپنے مسائل کے حل کو اہمیت دیں گے یا پھر فلمی اداکار کی ناوقت موت پر جذباتی ہو کر فیصلہ لیں گے۔
یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔