علی گڑھ تحریک اور پونچھ کے شیخ محمدعبداللہ

18اکتوبر2020کو برصغیر ہندکے نامور عالم، دانشور، مصنف، رہبر اور مفکرقوم سرسید احمد خان کو 203ویں یومِ پیدائش پریادگیا، اسی روز علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام کے سوبرس بھی مکمل ہوئے جس پر خصوصی طور دنیا بھر میں سرسید احمد کے چاہنے والوں اور علیگ نے جوش وخروش کے ساتھ اِس دن کو منایا۔مسلمانان ِ ہند کو جدید تعلیم کے زیور سے آراستہ کرانے کے لئے سرسید احمد خان نے جو تحریک شروع کی اُس میں جموں وکشمیر کے سرحدی ضلع پونچھ سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کا بھی اہم رول رہا، جنہوں نے سرسید احمد خان کے شانہ بشانہ کام کیا اور ’تعلیم ِ نسواں ‘کے لئے ناقابل فراموش خدمات انجام دیں۔ علی گڑھ تحریک یا پھر سرسید احمد خان کا جب بھی ذکر آتا ہے تو اگر اُس شخص کی خدمات کو فراموش کردیں تو بہت زیادتی ہوگی۔

اِس شخص کو دنیا آج’شیخ محمداللہ‘کے نام سے جانتی ہے،خاص کر ’علیگ ‘ اِن کی ذات سے بخوبی واقف ہیں۔21جون1874کوپونچھ ضلع میں پیدا ہوئے شیخ محمد عبداللہ بنیادی طور سدن تھے اور سکھ مذہب کو مانتے تھے۔پونچھ میں جہاں آج بھی اُن کے رشتہ دار موجود ہیں ،اُن کی ایک بھتیجی شعبہ تعلیم میں ہے۔ تعلیم کے سلسلے میں وہ اُس وقت جموں آئے ، جہاں سے لاہور پاکستان چلے گئے کیونکہ اُس وقت جموں کا راست رابطہ لاہور، سیالکوٹ کی طرف تھا۔اُس وقت ہرسوں سرسید احمد خان کے کافی چرچے تھے جنہوں نے مسلمانوں کو انگریزی وعصری تعلیم حاصل کرنے کے لئے جدوجہد شروع کر رکھی تھی، کئی جگہوں پر اُن کی مذمت اور کہیں اُن کی حمایت ہورہی تھی۔ دورانِ طالبعلمی اِنہیں ایک مرتبہ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس میں سرسید احمد خان کی تقریر سننے کا موقع ملا جس سے وہ اس قدر متاثر ہوئے کہ اعلیٰ تعلیم کے لئے علی گڑھ منتقل ہوگئے، جہاں پر انہوں نے سرسید احمد خان کی سرپرستی میں خود کو تعلیم کے مشن کے لئے وقف کر دیا، یہیں پر نہوں نے اسلام قبول کیا اور اِن کا نام ’شیخ محمد عبداللہ رکھاگیا‘۔وہ علی گڑھ تحریک کے ساتھ قریب سے وابستہ رہے، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں کئی اہم عہدوں پر اپنی خدمات انجام دیں۔ 1920سے تادم مرگ یونیورسٹی کورٹ کے ممبر رہے۔ 1920سے1928تک ایگزیکٹیو کونسل ممبر اور اعزازی خزانچی رہے۔انتھک کوششوں کے عوض سال1935میں انہیں ’خان بہادر‘کا خطاب دیاگیا اور 1954میں حکومت ِ ہند نے پدم بھوشن ایوارڈ سے نواز۔ وہ ’پاپامیاں‘کے نام سے بھی کافی مشہور تھے،1995کو عظیم کام انجام دیکر دنیا فانی سے چل بسے۔

خواتین کی تعلیم کو لیکر وہ کافی فکر مند تھے، سرسید احمد خان جہاں مجموعی طور مسلمانوں کو تعلیم کی طرف راغب کرنے کے لئے سرگرم عمل تھے، تو شیخ عبداللہ نے علی گڑھ تحریک کے بینر تلے ’تعلیم ِ نسواں‘پر توجہ مرکوز کر دی جس میں اُن کی اہلیہ وحید جہاں بیگم المعروف ’اعلیٰ بی‘نے بھی بھر پور حمایت کی، جو از خود اعلیٰ تعلیم یافتہ اور دور اندیش خاتون تھیں۔ بچیوں کی تعلیم کیلئے عوامی حمایت حاصل کرنے اور رائے عامہ ہموار کرنے کی غرض سے انہوں نے سال1904میں ماہانہ جریدہ’خاتون‘نکالنا شروع کیا۔ انہوں نے اپنے پختہ عزم اور انتھک کی کوششوں کی بدولت سخت مخالفت کے باوجود سال 1906میں بچیوں کے لئے اسکول شروع کیا جس میں محض پانچ طالبات ایک ٹیچر تھی۔ مخلوط تعلیم ہونے اور گھر سے دوری کے سبب والدین اپنی بچیوں کو تعلیم کے لئے نہیں بھیجتے تھے،شیخ عبداللہ نے شدت سے اس ضرورت کو محسوس کیاکہ رہائشی صورت میں ادارہ قائم کیاجائے تاکہ دور دراز علاقہ جات کے والدین اپنی بچیوں کو پڑھنے بھیجیں۔ اُن کا یہ خواب 7نومبر1911کو شرمندہ تعبیر ہوا جب بھوپال میں بیگم سلطان جہان (1858تا1930)نے بچیوں کے لئے پہلے ہوسٹل کا سنگ ِ بنیا د رکھا۔ایک واحد ہوسٹل سے شروع ہوئے اس عمل کا پھل علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے آج 9ہوسٹل ہیں اور پورے کمپلیکس کا نام ’عبداللہ ہال‘ رکھاگیاہے ۔جدیدترین سہولیات سے لیس عبداللہ ہال میں اِس وقت ڈیڑھ ہزار کے قریب بچیوں ملک وبیرون ِ ملک سے رہائش پذیر ہیں۔2006میں خواتین کی تعلیم کے سو برس مکمل ہونے پر’شیخ محمد عبداللہ‘پرعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی طرف سے خصوصی The Rising Stars In Sheikh Muhammad Abdullah’s Galaxy کتابچہ بھی جاری کیاگیا۔ اُن پرDreams & Destinations’نامی ایک تفصیلی کتاب بھی لکھی گئی جس میں اُن کی خدمات اور سوسال کے دوران تعلیم نسواں میں حاصل کی گئی کامیابیوںکا تفصیلی ذکر کیاگیاہے۔ شیخ محمد عبداللہ کی کاؤشوں کی وجہ سے آج تک اس ادارہ سے فارغ التحصل ہزاروں خواتین پروفیسر،ڈاکٹرز، انجینئرز، سائنسدان، اسکالرز، صحافی، سماجی کارکنان، وکلاء اور سیاستدان کی شکل میں ملک وسماج کی خدمات انجام دے رہی ہیں۔

’شیخ محمد عبداللہ ‘کی محنت کا پھل ہے کہ اللہ وتبارک وتعالیٰ کا خاص فضل اور مرحوم سرسید احمد خان کی روح پونچھ کی سرزمین پر کافی مہربان رہی ہے۔1947میں تقسیمِ برصغیر ہند سے پہلے اور خاص کر اس کے بعد سے ہی اس خطہ سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد نے علم کی پیاس بجھانے کے لئے علی گڑھ میں قائم اس ادارہ کا رْخ کیا جس کو سرسید احمد خان نے اپنے خون سے سینچا ہے۔ ان اشخاص نے سیاسی، انتظامی، تعلیمی اور سماج کے دیگر شعبوں میں اپنی گہری چھاپ چھوڑی۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا احسان ہے کہ اس نے راجوری وپونچھ کو ایسے پھول دیئے جن کی خوشبوسے ہر علاقہ، گاوں مہک رہا ہے۔ کسی ایک یا چندایسی شخصیات کا نام لوں تو یہ نا انصافی ہوگی کیونکہ علی گڑھ سے فارغ التحصیل ہر شخص اپنے آپ میں ایک ادارہ کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی ہمہ جہت شخصیت سب کو متاثر کرتی ہے۔ آج ہم عصر حاضر میں راجوری پونچھ اضلاع پر نظر دوڑائیں تو یہاں سیاست،وکالت، عدلیہ ،تعلیم، انتظامیہ میں نمایاں نام انہیں لوگوں کے ہیں جنہوں نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے۔علی گڑھ کے طالب ِعلم دور سے ہی نظر آتے ہیں، ان کا کوئی مخصوص لباس نہیں ہوتابلکہ وہ عام ہوکر بھی خاص ہوتے ہیں۔ ان کا بات کرنے کا انداز، کسی بھی معاملہ پر رد عمل یا رائے زنی کرنے کا طریقہ ، عاجزی انکساری، اخلاقی اقدار اس قدر کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہیں کہ جی کرتا ہے کہ ان سے ہمیشہ کسی نہ کسی موضوع پر گفتگو کرتے ہی رہیں۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نہ صرف ایک تعلیمی دانشگاہ ہے بلکہ انسان کی ذہنی وقلبی اور روحانی تسکین وتشفی کا مرکز ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں کی ہرچیز کی اپنی ہی مہک ہے۔ ہرچیز سے اخلاقیات، انسانیت، ملنساری، عاجزی، انکساری جھلکتی ہے۔ میراشمار ان بدنصیبوں میں ہے جنہوں نے نہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی اور نہ ہی وہاں جانے کا موقع ملا، پر اس علمی مرکز کے دیدار سے فیضیا ب ہونے اور یہاں سے علم کی پیاس بجھا چکی شخصیات سے ملاقات، محوِ گفتگوہونے اور ان سے پڑھنے کا شرف حاصل ہوا ، جن کی علمی بصیرت، اخلاقی اقدار، ملنساری اور نرم مزاجی نے مجھے اس قدر متاثر کیا کہ میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیاکہ اگر ان کی یہ شان ہے تو اس لوگوں کی کیاشان ہوگی جنہیں براہ راست سرسید احمد خان سے علم حاصل کرنے اور ان کے ساتھ رہنے کا موقع ملاہوگا۔اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو اپنی اولین ترجیحی بنائیں جہاں وہ نہ صرف علم حاصل کریں گے بلکہ آپ کی مجموعی طور کردارسازی، شخصیت سازی ہوگی جس سے آپ اپنے علاقہ، گاوں اور والدین کے لئے باعثِ رحمت بن سکیں گے۔

آج بھی جموں وکشمیر اور پونچھ میں ’شیخ عبداللہ ‘جیسی شخصیات کی ضرورت ہے تاکہ صحیح معنوں میں سرسید احمد خان کے آخری پیغام کی کو عملی جامہ پہنایاجاسکے جس میں انہوں نے کہاتھا’’میرے عزیز بچو، آپ ایک خاص سٹیج تک پہنچ چکے ہو اور ایک چیز یاد رکھو کہ جب میں نے یہ کام شروع کیاتھا، تب مجھے چوطرفہ تنقید کا سامنا کرنا پڑتا تھا، ہر طرف سے مجھے گالیاں دی گئی تھیں، میرے لئے زندگی اتنی کٹھن بن گئی تھی کہ میں بہت پہلے بوڈھا ہوگیا، میرے بال جھڑ گئے۔ میری بینائی بھی کمزور ہوگئی لیکن میں اپنے مشن کو نہیں بھولا۔ میرا ارداہ عزم کبھی کمزور نہیں پڑھا۔ میں نے یہ ادارہ آپ کے لئے بنایا ہے اور مجھے یقین ہے کہ آپ اس ادارہ کی روشنی کو دو ر دور تک پہنچائیں گے تب تک جب تلک کہ ہرسوں اندھیرا ختم نہیں ہوجاتا‘‘۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔