ملک کا اقتصادی بحران حکومت کی بے حسی اور عوام کی بے بسی

نہال صغیر
بڑے نوٹوں پر مودی حکومت کی اچانک کارروائی سے ملک اقتصادی بحران میں گھر چکا ہے ۔لیکن بی جے پی اور ان کے وزیر اعظم ہندو ہردے سمراٹ نریندر مودی کہتے ہیں عوام مزے میں ہیں انہیں کوئی تکلیف نہیں ہے ۔جبکہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ پچاس سے زائد لوگ اس اقتصادی بحران کا شکار ہو چکے ہیں۔ایسے ایسے ویڈیو سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر نظر آرہے ہیں جنہیں دیکھ کر کبھی کسی شخص کی بے چارگی پر رونا آتا ہے کبھی حکومت اور حزب اقتدار کی بے حسی پر غصہ ۔مسٹر وزیر اعظم کہتے ہیں کہ اس سے کالادھن روکنے میں مدد ملے گی ۔پتہ نہیں ان کی باتوں میں کتنی سچائی ہے ۔ہم ایسے بہت سارے اصلاحات دیکھ چکے ہیں ۔لیکن اس کے باوجود بدعنوانی اور کالی کمائی کا دیو مرتا ہی نہیں ہاں حکومت کے ایسے ناعاقبت اندیشانہ فیصلوں سے عوام میں موت کی تعداد میں اضافہ ضرور ہو رہا ہے ۔موجودہ نوٹ پر پابندی جس سے عوام اپنے آپ کو ٹھگا سا محسوس کررہے ہیں ۔آج ان کی ہی برسوں کی محنت کی کمائی کو بھیک کی طرح بینک کی لائین میں لگ کر لینا پڑرہا ہے۔لیکن سیاسی پارٹیوں نے بھی حکومت سے کوئی سخت باز پرس نہیں کی سوائے کیجریوال اور ممتا کے کوئی مودی حکومت کی احمقانہ فیصلوں کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔اب یہ خبر آرہی ہے کہ حکومت بڑے نوٹوں کی تبدیلی پر 24 ؍تک پابندی عائد کرسکتی ہے ۔یعنی عوام ایک اور مار جھیلنے کے لئے تیار رہیں ۔ابھی جو وہ اپنی خون پسینے کی کمائی بھکاریوں کی طرح ہی سہی تبدیل کروارہے ہیں وہ نوٹ 24 ؍نومبر کو ان کا نہیں رہ جائے وہ ردی کی طرح ہو جائے گا ۔کئی معاملات میں سو موٹو لینے والے سپریم کورٹ نے بھی غریب عوام کو مایوس ہی کیا ۔حالانکہ سپریم کورٹ اگر کرنسی بین پر پابندی نہیں بھی لگاتا جب بھی وہ حکومت کو کوئی سخت پیغام تو دے ہی سکتا تھا ۔لیکن یہ بات مسلسل دیکھنے میں آرہی ہے کہ عدلیہ سے عوام مایوس ہو تے جارہے ہیں ۔ایسے حالات میں آئندہ سال یوپی الیکشن میں عوام نے اگر خاموشی کے ساتھ مودی حکومت پر اپنا سرجیکل اسٹرائیک کردیا تو سمجھ لیجئے کہ ڈھائی برسوں میں عوام نے موجودہ حکومت کی ناقص پالیسی کے سبب جو تکالیف برداشت کیں ہیں یہ اس کا کفارہ ہو جائے گا ۔ورنہ جو بھگتنا ہم بھگت رہے ہیں وہ جانے کب تک جھیلنا ہو گا ۔اس سلسلے میں حزب اختلاف کو سخت فیصلے لینے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے ۔اس کے بغیر کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
پورے ملک میں کرنسی بین کے بعد جو سب سے بڑی کوئی بات ہوئی ہے تو وہ پارلیمنٹ میں عوامی نمائندوں کے ذریعہ حکومت کو گھیرنے کی کوشش ہے ۔دوسرے دن بھی پارلیمنٹ ہنگاموں کی نذر ہو گیا ۔اس میں کلیدی کردار ممتا کی پارٹی کا ہے ۔ممتا خود بھی سادہ طرز زندگی گزارتی ہیں اور شاید یہی سبب ہے کہ وہ غریبوں کی زندگی حالات کو زیادہ بہتر طریقے سے جانتی ہیں ۔موجودہ کرنسی بحران میں بھی انہوں نے ہی سخت رویہ اپنایا اور ان کا ساتھ دیا ہے کیجریوال نے ۔کیجریوال نے تو بدعنوانی کے ایسے ایسے معاملات کا بھانڈا پھوڑ کیا ہے کہ اگر ملک میں ایماندار اور ذمہ دار نظام آزادانہ کام کررہا ہو تا تو اب تک کئی اہم افراد جیلوں کی ہوائیں کھا رہے ہوتے ۔لیکن یہاں معاملہ یہ ہے جو ملک کے لئے گھر اور خاندان چھوڑدینے کی بات کہہ کر عوام کا جذباتی استحصال کررہا ہے اس میں اتنی اخلاقی جرات نہیں کہ وہ خود آگے بڑھ کر کہے کہ میں جانچ کے دائرہ میں آنے کو تیار ہوں ۔لیکن وہ سیاست داں ہی کیا جو اس طرح کی اخلاقی جرات دکھائے ۔یہ جرات تو کیجریوال جیسا ہی کوئی سیاست داں دکھا سکتا ہے جس نے موجودہ سڑے ہوئے سیاسی نظام میں تبدیلی لانے کی جی توڑ کوشش کی ہے ۔لیکن ہمارا سیاسی نظام ہی سڑا گلا ہوا نہیں ہے بلکہ عوام بھی بقول کاٹجو کے احمق ہیں ۔اب تو اس کا فیصلہ کہ عوام احمق ہیں یا نہیں اتر پردیش کے انتخابات کے موقعہ پر ہو جائے گا ۔جیسا کہ بعض لوگ خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ بی جے پی اتر پردیش کا انتخاب جیت جائے گی ۔یہ تو موجودہ حکومت کے کام کرنے کے انداز سے ظاہر ہو گیا ہے کہ اس کے پاس ہر موقعہ کے لئے الگ الگ فلمیں تیار ہیں جو موقعہ بموقعہ ریلیز ہو تی رہیں گی ۔عوام جب کسی ایک ایشو کو زیادہ اہمیت دینے لگیں گے تو دوسری فلم ریلیز کردی جائے گی جس میں الجھ کر وہ یہ بھول جائیں گے کہ بھوپال میں آٹھ بے گناہوں کا قتل عام کردیا گیا یا اس سے قبل مودی حکومت میں ٹیلی کام میں بد عنوانی کا بڑا معاملہ آیا تھا لیکن وہ ذاکر نائیک کے معاملہ میں دبا دیا گیا ۔آپ اطمینان رکھیں آئندہ بھی یہ حکومت اسی طرح عوام کو الجھاتی رہے گی ۔اگر اسے دکھوں اور موجودہ پریشانیوں سے نجات حاصل کرنا ہے تو اسے بیدار رہنا ہوگا ۔جیسا کہ کسی نے ٹیوٹ کرتے ہوئے کہا کہ ابھی جیسے جاگے ہو ویسے ہی جاگتے رہنا ورنہ کسی دن یہ حکومت رات کے اندھیرے میں دستور ہند کو بھی تبدیل کردے گی اور آپ کچھ نہیں کر پائیں گے۔
کرنسی بین کا سب سے زیادہ نقصان جو عام آدمی کو ہوا ہے سو تو ہوا ہی ساتھ مودی حکومت نے بڑے بڑے صنعت کاروں کو فائدہ پہنچانے خواہ وہ بھاری قومی قرضے کی صورت میں ہو یا لاکھوں کروڑ کے ٹیکس کی معافی کی صورت میں اب انہوں نے اس کرنسی بین سے یہ کیا ہے کہ چھوٹے پیمانے کے کاروباریوں کی کمر توڑ دی ہے ۔چودہویں دن صورتحال یہ ہے کہ بازار سنسان پڑے ہیں اور بینکوں کی لائینوں میں عوام اپنے اخراجات کے لئے دو ہزار کی رقم کے لئے گھنٹوں کھڑے ہیں۔چھوٹی صنعتیں جو کہ پہلے سے ہی کساد بازاری کا شکار تھے بالکل ٹھپ ہو گئے ہیں ۔شروع میں جو لوگ مودی حکومت کی اس پالیسی کی حمایت کررہے تھے اب وہ بھی بددل ہوتے نظر آرہے ہیں ۔موجودہ صورتحال انتہائی خطرناک ہے ڈر ہے کہیں ہندوستان معاشی طور پر دیوالیہ نہ ہو جائے ۔کیوں کہ کرنسی بین سے لوگوں کی اپنی برسوں کی کمائی یا تو بیکار ہو گئی یا پھر بینکوں میں جمع ہونے کی صورت میں وہ منجمد ہیں۔پیسہ قانونی ہو یا غیر قانونی لیکن جب وہ عام لوگوں کے پاس ہوتا ہے تو ملک میں معیشت کی شریانوں میں زندگی بن کر دوڑ رہا ہوتا ہے جس سے بازار میں رونق اور کارخانوں کی مشینوں کی کھٹ کھٹ سے زندگی کا احساس ہوتا ہے ۔لیکن جب یہ سارے اثاثے منجمد ہو جائیں اور عوام بھکاری بن جائے تو چھوٹی صنعتیں بند ہو کر بازار کی ویرانی اور کارخانوں کے سناٹے پن میں تبدیل ہو جاتے ہیں جیسا آجکل مودی حکومت کی احمقانہ پالیسی سے صورتحال پیدا ہو چکی ہے ۔حالات اتنے خراب ہیں کہ کوئی چھوٹے کارخانوں اور چھوٹے بازاروں کی سناٹوں اور ویرانی پر دھیان ہی نہیں دے رہا ہے ۔ایسے میں بس دعا کیجئے کہ جیسا کہ مودی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ جنوری میں حالات بہتر ہو جائیں گے اور عوام کی مشکلات دور ہو جائیں گی ۔یعنی انتظار کیجئے کہ جنوری میں کوئی چمتکار ہو جائے گا اور سارے سناٹے اچانک دور ہو جائیں گے ۔شاید مہا بھارت کے دور میں سدرشن چکر گھومکر دشمن کا تیا پانچا کردیاکرتا تھا شاید مسٹر مودی اسی طرح کی کوئی چمتکاری شکتی کی آس لگائے بیٹھے ہیں ۔آپ بھی اسی آس میں بیٹھے رہیں کیوں کہ اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ۔عوام کی اکثریت جو انتہائی مفلوک الحال ہے وہ اس کے علاوہ اور کچھ کر بھی نہیں سکتے ۔بڑے لوگ تو امریکہ اور یوروپ کی منڈیوں میں اپنے بہتر مستقبل کی تعمیر کے لئے پر امید ہو بھی سکتے ہیں کیوں کہ فی الحال وہاں نریندر مودی جیسے کسی ایسے فرد کی حکومت نہیں ہے جو بغیر ہوم ورک کئے ہی عوام کے سر پر دہشت انگیز فیصلہ تھوپ دے اور پھر غیر ملک میں تفریح کے لئے چلا جائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔