مولانا عبدالماجد دریا بادی کا سفر نامہ حجاز

عبدالقادر صدیقی

حج ایک عاشقانہ عبادت ہے جس میں خدا کے دیوانے عشق کی منزل سروں کے بل طے کرتے ہی ۔یہ عبادت مستانہ ہے جس میں بندہ نازسے نیاز کے مقام پر پہنچ جاتا ہے ۔ خدا کے عاشق بے شمار گذر گئے ، لا تعداد موجود ہیں اور ان گنت آگے بھی آتے رہیں گے ۔حج بہتوں نے کیا ہے اور تا قیامت کرتے رہیں گے ۔ حج کا سفر نامہ بہتوں نے اپنی اپنی زبان میں لکھا اور آئندہ بھی لکھتے رہیں گے ۔ اردو زبان میں بھی کئی عاشقان خدا نے سفر حج لکھا ہے اور اپنی عاشقی اور رب ربوبیت اور محبوبیت کو بیان کیا ہے۔ لیکن عشق اور آداب عشق، وارفتگی اور نیاز مندی کا جو انداز مولانا عبدالماجد دریا بادی کے سفر نامہ’’ سفر نامہ حجاز‘‘ میں نظر آتا ہے وہ نمونہ شاید ہی کہیں نظر آئے ۔اس سفرنامہ پر تبصرہ کرتے ہوئے مفکر اسلام علی میاں ندوی لکھتے ہیں ’’ 1929 میں مولانا نے حج سے فراغت حاصل کی اور سفر نامہ ان کے قلم سے نکلا جو نہ صرف کی تحریروں بلکہ ان لا تعداد کتابوں میں جو اس موضوع پر لکھی گئی ہیں امتیاز خاص رکھتا ہے۔ جہاں تک یاد ہے یہ مولانا کی پہلی کتاب تھی جو میں نے بڑے شغف اور انہماک سے پڑھی ۔ پڑھتا تھا اور مولانا کے زور قلم اور البیلے طرز تحریر پر جس میں ادب اور واردات قلبی کا نہایت حسین اور دلآویز امتزاج ہے جھوم جھوم جاتا تھا۔ ‘‘ مولانا نے1929 میں حج کیا تھا اور اپنے سفر نامہ کو اخبار سچ میں قسط وار شائع کیا تھا جو بعد میں کتاب کی شکل میں مرتب ہوئی ۔ ادب و انشاء سے مزین اور عشق حقیقی کے سوز و ساز سے لبریز مولانا کا یہ سفرنامہ باوجود آٹھ دہائی گزر جانے کے وہی تازگی اور شگفتگی رکھتا ہے۔ کتاب کا جو بھی صفحہ الٹیے تحریر سے حب الٰہی اور حب رسول چھلکتا محسوس ہوتا ہے۔ ب سفربطور نمونہ دیکھیے سفر حج کے مقصد کو مولانا عبدالماجد دریا بادی کیسے دلکش انداز میں بیان کرتے ہیں:
’’سفر سیر و تفریح کے لیے نہ تھا ۔ تحصیل’’ علوم‘‘ و تکمیل ’’ فنون‘‘ کے لیے نہ تھا ۔ علمی و ادبی تحقیقات اور تاریخی و اثری تفتیش کے لیے نہ تھا ۔ کشمیرو شملہ کا نہ تھا لندن و پیرس آکسفورڈ اور کیمبرج کا نہ تھا ۔۔۔۔ہوٹلوں اور پارکوں ، آبشارو ں اور سبزہ زاروں کی طرف نہ تھا ، خشک چٹیل میدانوں بے آب و گیاہ ویرانوں اور و خاک برسانے والے ریاستان کی جانب تھا ایک گنہگار امتی ، اپنے شفیق آقا کے آستانے پر حا ضر ہو رہا تھا بندے کی حاضری اپنے مولا کے دربار میں ۔ بھاگا ہو غلام تھک ہار کر ، پچھتا کر اور شرما کر پھر اپنے مالک کی طرف رخ کر رہا تھا ۔ ‘‘
بیشک حج بیت اللہ میں ہوتا ہے، صفا مروا،عرفات، منی اور مزدلفہ میں ہوتا ہے لیکن عاشقین خدا دیارے حبیب خدا بھی جاتے ہیں ۔ بہت سے حجاج کرام پہلے شہر رسول یا مدینۃالرسول جاتے ہیں اور پھر وہاں سے بیت اللہ کے لیے روانہ ہوتے ہیں اور بہت سے حج کے بعد شہر رسول تشریف لاتے ہیں۔ دیار حبیب پر حاضری اور اس کے جواز پروہ قران کریم کی سورت نساء کی آیت 64 و لو انھم اذ ظلمو آانفوسھم جاؤک کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں :
’’خوش نصیب تھے وہ لوگ جنہوں نے اللہ سے گڑ گڑ ا کر معافی مانگی اور رسول نے جس کے حق میں سفارش فرمائی ، لیکن آج اس چودھویں صدی میں امت کا کوئی فاسق و فاجر بد عمل اور نامہ سیاہ اگر حکم ’’جاؤک‘‘ کی تعمیل کرنا چاہے تو کیا اس کے لیے سعادت و ہدایت کا دروازہ بند خدا نخواستہ قیامت تک کے لیے بند بالکل بند ہوچکا ہے ۔ اور اس کی قسمت میں بجز مایوسی و محرومی کے اور کچھ نہیں ؟ موسم گل جب چمن سے رخصت ہو چکتا ہے اور کوئی بوئے گل کا متوالا آ نکلتا ہے تو عرق گلاب کے شیشوں اور قرابوں کو غنیمت سمجھتا ہے پھر اگر آج کوئی بوئے حبیب کا متوالا حکم ’’جاؤک ‘‘ کے تعمیل میں ، اپنے کو ہزاروں میل کے فاصلہ سے دیارے حبیب تک پہنچتا ہے اور اپنے مظالم نفس کی تلافی و عذر خواہی کے لیے اپنے ایمان اور اپنی بیعت کی تجدید اپنی تباہ کاریوں پشیمانی اور اشک افشانی کے لیے حبیب تک نہ سہی آستانہ حبیب تک گرتا پڑتا پہنچتا ہے تو کیا اس پر ’’ بدعت و شرک ‘‘ کا فتوا لگایا جائے گا؟جہاں اللہ کے سب سے بڑے پرستار (رسول ﷺ ) نے نماز وں پر نمازیں پڑھیں اور آخری نمازیں پڑھیں ، جہاں عبد و معبود کے راز و نیاز ، حیات ناسوتی کی آخری سانس تک جاری رہے جہاں ہیبت اور خشیت سے لرزتے ہوئے گھٹنے خدا معلوم کتنی بار رکوع میں جھکے ،جہاں ذوق و شوق سے دمکتی ہوئی پیشانی بارہا سجدے میں گری ، جہاں امت کے گنہگاروں اور سیہ کاروں کے حق میں درد بھری دعاوں کے لیے ہاتھ اٹھے اور ہلے ، جہاں ، ٹوٹی ہوئی آس والوں کی بیشمار مرتبہ تشفی کرائی گئی ، جہاں وہ جسد اطہر آج آرام فرما ہے جس کے طفیل میں آسمان بھی وجود میں آیا اور زمین بھی اس عظمت اور جلال والی اس برکت اور نورانیت والی زمین مقدس مکیں کے مقدس مکان پر بھی حاضر ہونا کس آئین ’’ توحید‘‘ و سنت کے مطابق ہو سکتا ہے؟ (صفحہ :101 )
عاشقین رسول گنبد خضرا کو دیکھ کے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرتے ہیں اور مکین گنبد خضرا سے مل کر اور سلام پڑھ کر دل ٹھندا کرتے ہیں ۔مسجد نبوی میں نمازیں پڑھ کر اور روضہ رسول پر حاضر ہوکر اپنے لیے سفارش کا طالب ہوتا ہے ۔ مسجد نبوی میں داخلہ اور وضہ ء رسول پر حاضری ہر ممومن کی تمنا اور دیرینہ آرزو ہوتی ہے لیکن جب یہ موقع آتا ہے اور جب یہ سعادت نشیب ہوتی ہے اس وقت عارفین رسول کی کیا کیفیت ہوتی ہے اسے تحریر ماجدی سے سمجھا جاسکتا ہے۔
’’طور کی چوٹیاں جس وقت کسی تجلیات جمالی کی جلوہ گاہ بننے لگیں تو پاکوں کے پاک اور دلیروں کے دلیر موسی کلیم تک تاب نہ لا سکے ۔اور اللہ کی کتاب گواہ ہے کہ کچھ دیر کے لیے ہوش حواس رخصت ہوگئے معراج کی شب جب کسی کا جمال بے نقاب ہونے لگا تو روایت میں آتا ہے ہے کہ اس وقت وہ عبد کامل جو فرشتوں سے بڑھ کر مضبوط دل قوی دل پیدا کیا گی تھا ۔ اپنی تنہائی کو محسوس کرنے لگا اور ضروورت ہوئی کہ رفیق غار کا تمثل لا کر آب گل کے بنے ہوئے پیکر نور کی تسلی کا سامان کیا جائے۔ پھر وہ مشت خاک اور ہمہ غلاظت ہو،جس کا ظاہربھی گندہ اور باطن بھی گندہ اگر وہ رسول ﷺ کی مسجد اقدس قدم رکھتے ہوئے ہچکچا رہاہو ، اگر اس کا قدم رسول کے روضہ انور کی طرف بڑھتے ہوئے لڑکھڑا رہا ہو ، اگر اس کی ہمت رحمت و جمال کی سب سے بڑی تجلی گاہ میں قدم رکھنے سے جواب دے رہی ہو اگر اس کا دل اس وقت اپنی بیچارگی و دردماندگی کے احساس سے پانی پانی ہو اجارہاہو تو اس پر حیرت کیوں کیجیے؟ خلاف توقع کیوں سمجھیے؟ اور خدا کے لیے اس ناکارہ آوارہ بیچارہ و دردماندہ کے اس حال زار کی ہنسی کیوں اڑائیے؟ ‘‘(صفحہ:110 )
مکہ میں حاضری مسجد حرام کی زیارت اور کعبہ کا دیدار ہر مسلمان کی آرزو اور جستجو ہے ۔کہتے ہیں کعبہ پر پڑنے والی پہلی نظر مقبول ہوتی ہے ۔ کعبہ سے عقیدت رب کعبہ کی محبت کی دلیل ٹہری ، رب کعبہ جلیل و جمیل ہے اور اسکا گھر بھی حسین و جمیل ہے ۔ بیت المعمور کی عین نیچے کعبہ بیت اللہ ہزاروز برس سے موجود ہے۔ جو تعمیر آدم نے کی تھی اسی تاسیس کی ابراھیم اور اسماعیل اور اس کی ذریت تجدید و تعمیر کی ہے جگہ وہی ہے عمارت کا نقشہ وہی ہے ۔ دنیا میں نے بیشمار انقلاب دیکھے مگر کعبہ جہاں تھا وہیں ہے۔ ’’ تجھ میں کچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشان ۔۔۔۔ تو جواں ہے گردش شام و سحر کے درمیان‘‘ کے تصور کو آ’’سفر حجاج ‘‘ کے آئینہ میں اس روپ میں دیکھا جاسکتا ہے۔
’’اللہ اللہ ! اس طویل اور بے حساب مدت میں اس ناقابل پیمائش عرصے میں کتنے عبادت خانے بنے اور بگڑے کتنے مندر تعمیر ہوئے اور کھدے کتنے گرجے آباد ہوئے اور اجڑے، کیسے کیسے انقلابات زمین نے دیکھے اور آسمان نے دکھلائے ۔ بلندیاں پست ہوئیں اور بلند ہوئیں ، بابل مٹا ، مصر مٹا ، چین مٹا ۔ ہندوستان مٹا ، ایران مٹا، یونان مٹا ، رومہ مٹا خدا معلوم کتنے ابھرے اور ابھر کر مٹے ، کتنے بڑھے اور بڑھ کر گھٹے، پر ایک عرب کے ریگستان میں خاک اور ریت کے سمندر میں چٹانوں اور پہاڑوں کے وسط میں وادیوں اور گھاٹیوں کے درمیان یہ سیاہ چوکور گھر ، جسے نہ کسی انجینئر نے بنایا نہ کسی مہندس نے ، جوں کا توں کھڑا ہوا ہے ۔ صدہا طوفان ہزارہاانقلاب ، بے شمار زلزلے آئے اور گزر گئے اور اس پاک اور پیارے گھر کو نہ کوئی ابرہہ مٹا سکا نہ کوئی زار نکولس اور نہ کوئی گلیڈ اسٹن ،جو اسے مٹانے کے لیے اٹھا خود مٹ گیا اور اللہ کے گھر میں جو عبادت اآدم اور حوا نے کی تھی وہی آج آدم کے فرزند اور حوا کی بیٹیا ں کر رہی ہیں۔‘‘
عرفات میں قیام حج کا رکن اعظم سمجھا جاتا ہے ۔ میدان عرفات میں کہیے کہ حاجیوں کا میلہ لگتا ہے ، خداکے سارے پیارے اور پیاری بندے اور بندیاں اس میدان میں خدا کے حضور جان کر دعا و مناجات میں گزارتے ہیں ۔ رحمت الٰہی کے جو برسات یہاں بندوں پر ہوتی ہے مولانا عبدالماجد دریابادی کے الفاظ میں دیکھیے:’’آج کی رحمتوں کا نہ کوئی حد ہے نہ حساب ، نہ کو ئی اندازہ ہے نہ پیمانہ بڑے سے بڑے مجرم اآج رہا کیے جاتے ہیں سب کو عفو کی بشارت ہوتی ہے وہ جو ہمہ رحمت و مرحمت اور ہمہ شفقت و مغفرت ہے ، اس کی تجلیات رحمت امت کے بڑے سے بڑے تباہ کار کو بھی اپنے آغوش میں لیے لیتی ہیں اور اسی کو مولا اپنے بندو کے قریب آجانے سے تعبیر کرتا ہے ۔ اور بندووں نے تو اپنے مالک پر خدا معلوم کتنی بار فخر کیا ہی ہوگا آج وہ دن ہے کہ خود مالک اپنے بندوں پر فخر کرتا ہے۔‘‘
حج کے اراکین میں ایک رکن رمی جمرات یا شیطان کو ’’ رجم ‘‘ کرنا بھی ہے ۔مولانا عبدالماجد دریابادی رمی کے احکام کی تعمیل و تکمیل کی بعد لکھتے ہیں:’’ پتھر کے ستونوں پر مار پڑتے سب نے دیکھا پر دل کے پردوں کے اندر جو وہ بھی کبھی مجروح ہوا ؟ خلیل اور ابن خلیل کو بہکانے کی جس مردود نے کوشش کی تھی وہ تو مو منو کے ہاتھوں لاکھوں کروڑوں بار مار کھا چکا ہے ۔ لیکن خلیل کے نام لیوا اور رب جلیل کے پرستار جس موذی کے دام بلا میں ہر لمحہ اور ہر آن گرفتار رہتے ہیں اسے بھی ذلت خواری نصیب ہوئی ؟ اس ظالم کا جسم بھی ان کنکریوں سے چھلنی ہوا؟ ‘‘
عشق و محبت او نذر و عقیدت سے لبریز تاثرات سے کتاب ہر ہر ورق بھرا پڑا ہے ۔ جس کے مطالعہ سے حب للہ اور حب رسول کے جذبہ کو جلا ملتی ہے اور دیار حبیب اور حرم مقدس کی زیارت کی تڑپ بڑھ جاتی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔