ملک کا پیٹ بھرنے والوں کی ہمیں کتنی فکر ہے؟

رويش کمار

جیسے ہی کسانوں کا گروہ ممبئی میں داخل ہوا، ان کے لئے ممبئی بدل گئی. لال باغ کا فلائی اوور ختم ہوتے ہی محمد علی روڈ پر عام لوگ پوری تیاری کے ساتھ کسانوں کی مدد کے لئے کھڑے تھے. پانی کی بوتل دینے لگے، کیلے اور بسکٹ کھلانے لگے. ان کے ساتھ ڈاکٹروں کی ٹیم بھی تھی جو کسانوں کے پاؤں کی مرہم پٹی کرنے لگی. پین کلر دینے لگے. لوگ کسانوں کے درمیان جاکر پوچھنے لگے کہ بتائیے آپ کو کوئی تکلیف تو نہیں ہے. رلا دینے والا منظر تھا یہ. یہی نہیں، جب کسانوں کا یہ گروہ رات کو سومايا گراؤنڈ سے آزاد میدان کی طرف بڑھنے لگے تو مقامی لوگوں نے بزرگ کسانوں کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر آزاد میدان تک چھوڑا. اس رات جب ہم بے خبر رہے، ممبئی کے یہ لوگ ہندوستان کے اس حصے کے لئے اٹھ رہے تھے جو اپنے تنہائی میں نہ جانے کتنے سال سے پھانسی کے پھندے پر لٹكر کر جان دے رہے تھے. شاید انہی کے رت جگے کا اثر ہے کہ آج بھی اس پر پرائم ٹائم کر رہا ہوں تاکہ یہ جذبہ اور بھی دوسرے شہروں میں پھیل جائے اور آپ تمام ناظرین کی جانب سے ممبئی کے ان شہریوں کو سلام بھی بھیج سکوں.

 شیوسینا نے بھی تھانے میں ان کسانوں کے لئے رکنے، ٹھہرنے اور ٹوائلیٹ کا انتظام کیا تھا. چائے کے ٹھیلے لگائے تھے. ان کے ممبر اسمبلی ایکناتھ شندے تو چھ لوگوں کی کمیٹی میں بھی تھے. بعد میں آزاد میدان میں ہر پارٹی کے لوگ کسانوں کی مدد کے لئے آگئے. شاید یہ پہلا موقع ہوگا جب مہاراشٹر کے ان کسانوں کو لگا ہوگا کہ ان کے لئے بھی کوئی ہے. کوئی ہے جو راتوں کو جاگ سکتا ہے.

کیا صرف  اپنے مطالبات کے تئیں کمٹمنٹ کی وجہ سے لوگ اپنے گھروں سے نکل کر ان کی مدد کرنے لگے یا پھر انہیں کسانوں کی زندگی کے ساتھ ہو رہے مذاق کا کھیل سمجھ آ گیا کہ کوئی ہزاروں کروڑوں کا لون لے کر آرام سے بھاگ جاتا ہے اور کوئی اپنی غریبی اور قرض سے لڑنے کے لئے 180 کلومیٹر پیدل چل کر حکومت کے پاس آتا ہے. جب یہ کسان چلے تو دو دنوں تک ان کا اپنا کھانا تھا مگر ان کے ارادے نے راستے میں پڑنے والے قصبوں شہروں کو بدل دیا. ریلی کے آرگنائزر اناج اور سبزیاں مانگ کر کھانا تیار کرنے لگے.

سیریا کے جنگی حالات میں مدد کے لئے پہنچ جانے والے خالصہ ایڈ کے لوگ بھی پانی کی بوتلیں صبح سے بانٹنے لگے. انہی کے درمیان ریزیڈینٹس ویلفیئر والے موزے لے کر بانٹنے لگے. کوئی کھانا لے آیا تو کوئی چائے لے آیا. ممبئی کے ٹوکری والے بھی کھانا لے کر آ گئے. طالب علموں کا جتھہ بھی یہاں مدد کے لئے آگیا. لوگوں نے حکومت سے زیادہ اپنی جیب سے ان کسانوں کا خیال رکھ کر بتا دیا کہ ان کسانوں کے تئیں غفلت اب برداشت نہیں کی جائے گی.

گزشتہ ایک سال تک کسانوں نے کئی مقامات پر مظاہرے کئے. سوائے سیکر کے کہیں بھی انہیں عوام کی حمایت نہیں ملی. وہ دہلی آئے تو ان کے لئے دہلی نہیں گئی. وہ لوٹ گئے دہلی نے راحت کی سانس لی. دہلی کے جنتر منتر پر کسان آتے رہتے ہیں، نہ سماج کو فرق پڑتا ہے نہ حکومت کو. تمل ناڈو کے کسان یہاں 40 دن تک دھرنا پردرشن کرتے رہے. انہوں نے کھلی سڑک پر دال اور چاول رکھ کھا لیا مگر کسی کا دل نہیں پگھلا. ممبئی میں پورے شہر کے پاس بھلے وقت نہ ہو مگر بہتوں کے پاس ان کے لئے ایک رات کافی تھی.

جنتر منتر پر بھارتیہ کسان یونین کے کسان جمع ہوئے ہیں. ان کسانوں کی مانگ بھی وہی ہے جو مہاراشٹر کے کسانوں کی ہے. یوپی کے کسان بربادی کے راستے پر ہیں. انشورنس کمپنیوں کے دباؤ میں بینک والے کسانوں کی معلومات کے بغیر پریمیم کاٹ لے رہے ہیں. کسان اب سود کے ساتھ پریمیم بھی دے رہا ہے. بھارتیہ کسان یونین کا مطالبہ ہے کہ موجودہ فصل انشورنس یوجنا کسانوں کے حق میں نہیں ہے. اس سے صرف انشورنس کمپنیوں کو فائدہ ہو رہا ہے. اس انشورنس کے تحت مکمل پنچایت کے نقصان کو بنیاد مان کر نقصان کا تجزیہ کیا جاتا ہے. بھارتیہ کسان یونین کا مطالبہ ہے کہ کھیت کو اور کسان کو آدھار کی بنیاد پر انشورنس دیا جائے نہ کہ پنچایت کو. جن کسانوں نے خود کشی کی ہے ان کے خاندان کے بحالی کی قومی پالیسی بنے. لاگت کا ڈیڑھ گنا دام کسانوں کو دینے کا بندوبست کیا جائے. گنے کی بقایا رقم فوری طور پر  ادا کی جائے.

چاہے بی جے پی کی حکومت ہو یا کانگریس کی حکومت ہو، کسانوں کو لاگت کا ڈیڑھ گنا کسی نے نہیں دیا. کانگریس کو کسان تحریک سے خوش ہونے سے پہلے اپنے بچے ہوئے ریاستوں میں پتہ کرنا چاہئے کہ وہاں کسانوں کی حالت کیا دیگر ریاستوں سے بہتر ہے. پنجاب کے کسانوں کی شکایات ابھی دور نہیں ہوئی ہیں. بھارتیہ کسان یونین کے بینر تلے کچھ کسان پنجاب سے بھی آئے تھے جہاں کانگریس کی حکومت ہے. معاہدہ تو ہو جاتا ہے، اخبار میں خبر بھی چھپ جاتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ممبئی کی کسان تحریک کامیاب ہے، باقی جگہوں کیوں فیل ہے؟

مترجم: محمد اسعد فلاحی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔