تحریک آزادی میں شیخ الہند کا کردار

لقمان عثمانی

تاریخِ حریتِ ہند کا ہر ورق ایسے بے شمار علمائے کرام کی بیش بہا قربانیوں سے تاباں و درخشاں ہے؛ جنہوں نے اپنی عقل و فراست کی جودت کو بروئے کار لاتے ہوئے، تفکر و تدبر کے شعور سے لیس ہو کر، فکر و نظر کے وسیع و عریض میدان میں اپنی ذکاوت و ذہانت کو بھر پور جولانیوں کا موقع دیتے ہوئے؛ رسوخ فی العلم کا تمغہ اپنے نام کرایا، تو کبھی علوم نبویہ کی ترویج و تشہیر کے ذریعہ اشاعت دین کی خدمات انجام دے کر اسکا عملی مظاہرہ بھی کیا؛ کبھی سیاسی میدان کو اپنی جولان گاہ بنا کر اپنی بصارت و بصیرت کے روشن چراغ سے ملی تشخص و قومی وقار کو اجاگر کرنے کیلیے جاں گسل کوششیں کیں تو کبھی دلِ دردمند و فکرِ ارجمند لیے غلامی کی زنجیر میں جکڑی ہوئی قوم کو آزادی کی نعمت سے بہرہ ور کرنے اور جوش و جذبے کی تیز و تند طوفانی لہر سے انگریزی سامراج کو خس و خاشاک کی طرح اڑا پھینکنے کیلیے جاں نثاری و جاں سپاری کے وہ محیر العقول نمونہائے گراں مایہ پیش کیے کہ ابدالآباد تک تاریخ کے زریں و بیش قیمت قرطاس و صفحات پر انکے رفیع الشان و عظیم المرتبت اسمائے گرامی اور انکے نقش ہائے قدم؛ تابندگی و درخشانی کی بے کراں وسعتوں کو اپنے جلوں میں سمیٹے ہوئے، آنکھوں کو سرور و فرحت کا اس طرح سامان بخشتے رہینگے کہ اسکی زرق برق ضوفشانی اور بے انت تابانی نگاہوں کو اپنی جانب نہ صرف کھینچتی رہے گی بلکہ تسلسل و تواتر کے ساتھ انہیں مسحور بھی کرتی رہے گی اور یہ احساس بھی دلاتی رہے گی کہ:

کیا لوگ تھے جو راہِ وفا سے گزر گئے

جی چاہتا ہے نقشِ قدم چومتے چلیں

شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی علیہ الرحمہ (1920 – 1851) بھی انہیں ہمہ جہت و گراں قدر شخصیتوں میں سے ایک ہیں ؛ جنکی کتابِ حیات کا ہر باب ایسی لا محدود خدمات و غیر معدود قربانیوں کا آئینہ دار ہے؛ جس میں قوم کے تئیں انکی خیر اندیشی کا عکسِ جمیل جھلکتا اور انکی دردمندی و فکرمندی نمایاں ہوتی ہے ـ انکا نصب العین نونہالانِ وطن کو صرف علوم دینیہ و عصریہ سے آراستہ و پیراستہ کرنے تک ہی محصور نہیں تھا؛ بلکہ قومی بیداری کے ساتھ ساتھ ایسے رجالِ کار تیار کرنا بھی انکا نقطۂ نظر تھا؛ جو حصولِ آزادی کیلیے انگریزی استعمار کے خلاف اعلامِ بغاوت بلند کرتے ہوئے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوجائیں اور انکے ناپاک وجود کو جڑ سے اکھاڑ پھینک کر وطن عزیز کو پاک کریں، تا آں کہ ضرورت پڑنے پر اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کردیں ؛ یہی وجہ ہیکہ جہاں انہوں نے دارالعلوم دیوبند کی مسند حدیث کو زینت بخشی، وہیں دوسری طرف ہندوستان کو فرنگی استبداد سے چھٹکارا دلانے، اس لئیم و خسیس قوم کی چنگل سے اس دھرتی کو آزاد کرانے اور انکی استعماریت کا سر قلم کرکے انکی روز افزوں ظلمی سرگرمیوں کو سربریدہ کرانے کیلیے کئی تحریکیں چلائیں اور قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں ؛ حتی کہ ضعف و نقاہت نے تو انکے جسم کو جھکا دیا تھا؛ تاہم انکی ہمتِ فولادی نے کبھی انہیں پست نہ ہونے دیا، بلکہ:

”کام ہے میرا تغیر نام ہے میرا شباب

میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب“

کے پیشِ نظر رہنے کی وجہ سے روز بہ روز انکے جذبۂ حریت کی امنگ اور استخلاصِ وطن کی ترنگ میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا اور وہ اپنے عزائم کے استقلال و ارادے کے استحکام کے ساتھ تا بہ حیات ٹکے، بلکہ ڈٹے رہےـ

1870ء میں تحصیلِ فراغت کے بعد دارالعلوم دیوبند کے ہی تدریسی میدان میں قدم رنجہ ہوئے اور ساتھ ہی ہندوستان کو مکمل آزادی دلانے کا خواب اپنی آنکھوں میں سما کر، اسکو حقیقت کی تعبیر دینے کیلیے جہدِ مسلسل و سعیِ پیہم کے ساتھ وہ تاریخ ساز کارنامے شروع کیے؛ جس کو تحریکِ آزادیِ ہند کیلیے ”کلیدی کردار“ کہنا قرینِ انصاف کے منافی نہیں ہوگا نیز یہ جذبۂ ایثار کا اعلی نمونہ بھی تھا؛ جو انکے استاذ گرامیِ قدر حجۃ الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی سے انہیں ورثے میں ملا تھا؛ چناں چہ اسی وراثت کی پاسداری کرتے ہوئے قیامِ دارالعلوم دیوبند کے ”در پردہ مقصد“ کی انجام دہی کو اپنامنشا و منصوبہ بنا لیا؛ جس کے نتیجے میں کئی تحریکیں بھی معرضِ وجود میں آئیں :

صبح آزادی کا سورج جسم و جاں کا قرض ہے

اس کی کرنوں کی حفاظت اب تمہارا فرض ہے

حضرت شیخ الہند نے یہ مجاہدانہ اقدام اس وقت کیا تھا جب انگریزوں کے ظالمانہ و جابرانہ و قاہرانہ نظام کی پاداش میں ملک میں پیدا ہونے والے نا گفتہ بہ حالات کی وجہ سے باشندگانِ ہند خوف زدہ و مفلوج الحواس تھے، فرنگی استعمار کے خلاف لب کشائی کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا؛ گویا کمینگی کے اتھاہ سمندر میں تشدد و بربریت کے تیز تھپیڑے تھے اور اس تلاطمِ امواج کو اپنے اوپر برداشت کرنے والے ہندوستانیوں کی طرف سے سمندر کی تہہ میں سکوت کا عالم تھا اور انکی زندگی کی کشتی کسی طوفانی نرغے میں ہچکولے کھا رہی تھی؛ تاہم کوئی بھی اس بڑھتے ہوئے سیلابِ بلا خیز کے آگے عدل و انصاف کا باندھ باندھ کر اسکو کنارہ لگانے والا نہ تھا؛ جبھی امیدوں کی مشعل جلائے حضرت شیخ الہند علیہ الرحمہ حالات کی بھٹی سے کندن بن کر نکلے اور پھر:

پھونک کر اپنے آشیانے کو

روشنی بخش دی زمانے کو

1878ء میں حضرت شیخ الہند علیہ الرحمہ کی سیادست و قیادت میں ”ثمرۃ التربیت“ کا قیام عمل میں آیا؛ جس کا مقصد فضلائے دارالعلوم دیوبند اور دیگر باحوصلہ افراد کی تنظیم تیار کرنا تھا؛ جو دارالعلوم سے مربوط رہ کر 1857ء میں لگے ہوئے گھاؤ کے اندمال اور اس کے خسارے کی تلافی کو یقینی بنانے کیلیے ذہنی تدابیر کی فراوانی کے ساتھ ساتھ مادی وسائل کا بھی نظم کر سکیں ؛ لیکن اسکے دو سال کے بعد ہی انجمن کے سرپرست (مولانا قاسم نانوتوی) کا سانحۂ ارتحال پیش آگیا؛ جس کی وجہ سے ”انجمن ثمرۃ التربیت“ کی سرگرمیوں نے دم توڑ دیا ـ

مرورِ ایام نے ہر طرح کے حالات سے دو چار کیے اور یہ سلسلہ اپنے اندر امیدوں کی اک دنیا بسائے یوں ہی چلتا رہا اور پھر ”انجمن ثمرۃ التربیت“ کے تقریبا تیس سالوں کے بعد 1910ء میں حضرت شیخ الہند علیہ الرحمہ نے ”جمعیت الانصار“ کے نام سے ایک ایسی انقلابی تحریک کی بنیاد رکھی؛ جس نے فرنگی حکومت کے خیموں میں شعلہ باری اور مسلمانوں کے تنِ مردہ میں روح افزائی کا کام کیا؛ کیوں کہ اس تحریک نے بہت تھوڑے عرصے میں ملک گیر جماعت کی شکل اختیار کر لی تھی، حتی کہ 1911ء میں مراد آباد کے اندر، 1913ء میں میرٹھ اور 1914ء میں شملہ کے اندر جمعیت کی طرف سے ہونے والے جلسوں نے کامیابی کے وہ جلوے دکھائے، جس سے ایک طرف باطل طاقتیں لرزاں ہوگئیں اور انکا دل خوف و ہراس کی آماجگاہ بن گیا تھا، تو دوسری طرف مسلمانوں کی امیدیں اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ اوجِ فلک پر سورج کی طرح اپنی تابانیاں بکھیر رہی تھیں ؛ یہی وجہ ہیکہ اس وقت کی بد سرشت و سرتاب حکومت چوکنا بھی ہوگئی تھی؛ کیوں کہ مسلمانوں کا اس طرح حرکت میں آنا اور جذبۂ ایمانی سے سرشار ہو کر ظلم و جور کی گھٹا ٹوپ آندھیوں کے دہانے پر زندہ دلی کی قندیل جلانے اور جلائے رکھنے کی مردانہ کوشش کرنا اور امید افزا فضا بنا کر اس میں پُر جوش استقامت و ولولہ انگیز ثبات قدمی کا پرچم لہرانا؛ کسی  بہت بڑے انقلاب کا پیش خیمہ ہونے کے امکانات کو حتمی بنا رہا تھا؛ جو انکے راحت کدہ میں بدشگونی کا ماحول پیدا کررہا اور کسی بری خبر کی دستک دے رہا تھا؛ جس کا سد باب کرنے کیلیے رد عمل میں دارالعلوم دیوبند کو نشانہ بنایا جانے لگا؛ جس سے دارالعلوم کو خطرہ لاحق ہونے اور اسکے نام و کام پر حرف آنے کی تشویش میں اضافہ ہونے لگا؛ چناں چہ دارالعلوم دیوبند اور اسکے مفاد کے تحفظ و بقا کی خاطر حضرت شیخ الہند علیہ الرحمہ نے لوگوں کو ”جمعیت الانصار“ سے دست بردار ہونے کا حکم دے دیا ـ

لیکن جذبۂ حریت ابھی بھی اپنے بامِ عروج پر پرچم کشا تھا اور اپنی بلند ہمتی کا اعلان کرتے ہوئے ہر کوئی زبانِ حال سے یہ نغمہ سرا تھا کہ:

میں جھکا نہیں، میں بکا نہیں، کہیں چھپ چھپا کے کھڑا نہیں

جو ڈٹے ہوئے ہیں محاذ پر مجھے ان صفوں میں تلاش کر

 اور کسی منظم اقدام کرنے کی تیاری کی جانے لگی؛ چناں چہ جگہ جگہ دینی مشاغل و اسلامی تعلیمات کے نام پر مراکز قائم کیے جانے لگے؛ جس کے پسِ پردہ (خفیہ طور پر) ذہن سازی و تربیت دہی کا کام کیا جا رہا تھا اور بہت ہی رازداری کے ساتھ جہاد پر بیعت لی جا رہی تھی اور انہیں یہ سبق دیا جا رہا تھا کہ:

جینے کا حق سامراج نے چھین لیا

اٹھو مرنے کا حق استعمال کرو 

ذلت کے جینے سے مرنا بہتر ہے 

مٹ جاؤ یا قصر ستم پامال کرو

 امامِ انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی ―رحمہ اللہ― نے بھی اسی دوران دیوبند سے دہلی منتقل ہو کر ”نظارۃ المعارف“ کا قیام فرمایا اور اسکا سر پرستِ اعلی اپنے استاذ و مربی (حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ) کو بنایا تھا؛ لیکن ابھی اس سلسلۃ الذہب کی خوبصورت کڑیاں رحمتِ خدا وندی سے معمور جال کی طرح ملک بھر میں پھیل ہی رہی تھیں، کہ 1914ء میں جرمنی اور برطانیہ کے ما بین پہلی جنگِ عظیم پربا ہوگئی؛ جس موقعِ غنیمت کا فائدہ اٹھانے کیلیے حضرت شیخ الہند علیہ الرحمہ کی دور اندیشی کے نتیجے میں ذہن کے پردے پر اک خیال دستک دیتے ہوئے نہاں خانۂ دل میں جا گزیں ہوگیا، کہ بیرونی ممالک سے بھی تعاون کی درخواست کی جائے تا کہ اس جنگِ عظیم کے دوران ہی ہندوستانیوں و دیگر سرحدی قبائل کے ساتھ برطانیہ کے خلاف برسرِ پیکار ہو کر انکے سرطان وجود کا ہندوستان سے صفایا کر دیں اور تاکہ انکو ہزیمت کا مزہ چکھا کر یہاں سے ہنکایا جا سکے ـ اسی مقصد کی تکمیل کیلیے اپنے شاگردِ خاص مولانا عبیداللہ سندھی کو افغانستان بھیجا؛ چناں چہ مولانا سندھی نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے افغانستان کا رخ کر لیا اور وہاں جا کر اپنے مقصد کی حصولیابی اور وہاں تک رسائی کیلیے راستوں کو ہموار کرنا شروع کر دیا؛ چناں چہ ”الجنود الربانیہ“ کے نام سے ایک فوجی یونٹ بنائی، ساتھ ہی اک عارضی ہندوستانی حکومت تشکیل دی؛ جس کے تین اراکین (راجہ منہدر پرتاپ سنگھ، مولانا برکت اللہ بھوپالی، مولانا عبیداللہ سندھی) تھے اور ہر طرح کی کوششیں کرتے ہوئے اپنی سرگرمیاں پورے جوش و خروش کے ساتھ اسی طرح جاری رکھیں ـ

اس تین رکنی عارضی حکومت نے اپنے بعض متعلقین کے چند وفود بھی بنائے اور ان کو مختلف ممالک میں موجودہ حالات و ممکنہ بغاوت کا جائزہ لینے کیلیے بھیج دیا گیا؛ چناں چہ ایک وفد کو روس، دوسرے کو ترکی اور تیسرے کو جاپان بھیجا گیا؛ لیکن بد قسمتی سے جاپان و ترکی جانے والے دونوں وفد پکڑے گئے اور برطانیہ کے حوالے کر دیے گئے ـ

دوسری طرف حضرت شیخ الہند علیہ الرحمہ نے بھی چوٹی کا زور لگایا ہوا تھا اور وہ مسلسل سر توڑ کاوشیں کیے جا رہے تھے؛ حتی کہ ہر حال میں اپنے مقصد کو عملا کر گزرنے کی نیت سے خود بھی افغانستان و یاغستان اور ترکی وغیرہ کے دورے کا ارادہ رکھتے تھے؛ لیکن چوں کہ حکومت کے علم سب کچھ آچکا تھا؛ اسلیے براہِ راست افغانستان نہ جا کر، پہلے حج بیت اللہ کیلیےحجاز مقدس کا رخ فرما لیا؛ تاکہ وہاں پر قیام کے دوران ہی مستقبل کا لائحۂ عمل تیار کیا جا سکے ـ

مولانا عبیداللہ سندھی نے برطانیہ کے علم میں سب کچھ آجانے کی وجہ سے حضرت شیخ الہند کو افغانستان نہ آنے کی تلقین کرنے اور وہاں انہوں نے جو کارہائے نمایاں انجام دیے تھے، اس کی خبر دینے کیلیے حضرت شیخ الہند کے نام سے زرد رنگ کے ریشمی کپڑے پر دو خطوط لکھے اور ایک خط شیخ عبدالرحیم سندھی کے نام سے لکھا تاکہ وہ ان دونوں خطوط کو حضرت شیخ الہند تک پہنچا دیں اور یہ تینوں خطوط اپنے اک معتمدِ خاص (عبدالحق) کے حوالے کرکے سندھ بھیج دیا؛ لیکن یہ خطوط شیخ عبدالرحیم سندھی تک پہنچنے سے پہلے ہی عبدالحق کی افسوس ناک لا پروائیوں و اندوہ ناک کوتاہیوں کی وجہ سے برطانیہ کے کسی وفادار کے ہاتھ لگ گئے؛ جس کی وجہ سے اس انقلابی تحریک (تحریکِ ریشمی رومال) کا راز فاش ہوگیا اور حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی سمیت اس تحریک سے منسلکین و منتسبین اور اسکے دیگر اراکین کو بھی جزیرۂ مالٹا میں نظر بند کر دیا گیا ـ

حضرت شیخ الہند علیہ الرحمہ ساڑھے تین سال تک اسیری کی مشقت آمیز زندگی گزارنے کے بعد جب 8/ جون 1920ء میں ہندوستان واپس آئے تو انکی جسمانی حالت بہت کمزور ہو چکی تھی؛ لیکن دل و دماغ کی قوت، فکر و نظر کی جدت اور جذبۂ حریت کی شدت میں اب بھی کوئی کمی نہیں آئی تھی، بلکہ ایک اور نئی فکر خون کی طرح انکے رگ و ریشے میں دوڑنے لگی؛ جس سے انکی مفکرانہ طبیعت رنجیدہ و ملول ہونے اور انکی بے کلی و بے چینی یہ کہتی ہوئی نظر آنے لگی تھی کہ:

یہ فکر مجھے چین سے سونے نہیں دیتی

اب کون میری قوم کو بیدار کرے گا

تحریکِ ریشمی رومال کے رازہائے سر بستہ کا قبل از وقت برٹش حکومت پر عیاں ہوجانے کی وجہ سے توقع کی حد تک تو کامیابی نہیں مل سکی؛ تاہم اسی تحریک کی وجہ سے نوجوانانِ ہند کے قلب و جگر میں آزادی کی تڑپ اس قدر حلول کر گئی کہ اسکے حصول کیلیے ”بڑھے چلو بڑھے چلو یہ وقت کی پکار ہے“ کی صدا زبان زد کیے؛ ہر ممکن کوشش کرتے ہوئے کسی بھی حد تک چلے جانے کیلیے کمر بستہ ہوگئے نیز انکے اندر عدل و انصاف کے پیدائشی دشمنوں اور ہندوستانیوں کو مشقِ ستم کا نشانہ بنا کر ظلم و استبداد کی چکی میں پیس دینے والے غیر منصف دوغلوں کو دم دبا کر بھاگ جانے پر مجبور کردینے کا حیرت انگیز داعیہ پیدا ہوگیا تھا؛ چناں چہ حضرت شیخ الہند علیہ الرحمہ نے جو آزادی کی نئی چنگاری جلا کر ملک بھر میں شعلہ زنی کی تھی، وہ دھیرے دھیرے دہکتی ہوئی آگ میں تبدل ہونے اور ہر چہار جانب پھیلنے لگی اور پھر انکے بعد انکے شاگردانِ با صفا نے ”میں ڈرا نہیں، میں دبا نہیں، میں جھکا نہیں، میں بکا نہیں “ کو اپنی پہچان و امتیازی وصف بناتے ہوئے ”وہ چراغِ راہِ وفا ہوں میں، کہ جلا تو جل کے بجھا نہیں “ کو اپنا طرۂ امتیاز بنا لیا اور اس آگ کو مزید ہوا دینے کا کام کیا؛ تا آں کہ اِنہیں تحریکوں سے کئی تحریکیں نکلتی گئیں، ایک ختم ہوتی تو دوسری اسکی جگہ لے لیتی اور یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہا، جب تک کہ شیخ الہند علیہ الرحمہ کی خوابوں کو حقیقت کی تعبیر نہ مل گئی ـ

گویا کہ:

زمانہ ہو گیا گزرا تھاکوئی بزمِ انجم سے

غبارِ راہ روشن ہے بہ شکل کہکشاں اب تک 

تبصرے بند ہیں۔