ملک کے موجودہ حالات میں کیا ہومسلمانوں کی حکمت عملی؟ 

جاوید جمال الدین

ہندوستان میں لوک سبھا انتخابات 2019کے نتائج سے پیداشدہ سیاسی صورتحال انتہائی سنگین نظرآرہی ہے، ملک کے حزب اختلاف کا جو حال ہوا ہے، اور آہستہ آہستہ ان کا شیرازہ بھی بکھیرنے لگا ہے،لیکن حالیہ انتخابات میں جونتائج سامنے آئے ہیں ان کی وجہ سے سب سے زیادہ مسلمان متاثر ہوئے ہیں، وہ مختلف قسم کے دعوے کریں اور اپنے آپ کو تسلی دینے کی کوشش کریں، لیکن اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ اقلیتیں اور دلت خصوصاً مسلمان ایک بحرانی دور سے گزررہے ہیں اورخوف وہراس میں مبتلا ہیں۔کیونکہ سیکولراور ہمخیال پارٹیوں نے بھارتیہ جنتاپارٹی (بی جے پی )کے خلاف طلب کیا گیا ان کا ووٹ حزب اختلاف کو مل بھی گیا مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ ان کے متحد نہ ہونے کے سبب ووٹوں کی اہمیت گھٹ کر رہ گئی اور بی جے پی اور اتحادیوں کو اس کا فائدہ پہنچ گیا، یہ بھی سچ ہے کہ مسلمانوں کے ووٹوں کی اہمیت کو سبھی جانتے بھی ہیںاور انہیں اس کا احساس بھی ہے،بلکہ بی جے پی کا ایک طبقہ بھی ووٹ کی طاقت کو تسلیم کررہا ہے۔

لوک سبھا کے 23مئی کے نتائج کے بعد معمولی وقفہ کے دوران وزیراعظم نریندرمودی نے دومرتبہ مسلمانوں کے تعلق سے لچک دار رویہ اپنایا ہے، اور ان کے رویہ اچانک حیرت انگیز تبدیلی رونما ہوئی ہے،پہلے انہوںنے پارلیمنٹ کے سینٹرل ہال میں بی جے پی اور این ڈی اے میں شامل دیگر پارٹیوں کے منتخبہ ممبران پارلیمنٹ کے سامنے جو بیان دیا، اس کی گونج اور اس پر بحث کاسلسلہ ابھی خاتم نہیں ہوا تھا کہ انہوںنے عید الفطر کے موقع پر ایک نئے انداز میں اردواور انگریزی عید کارڈٹوئیٹ کردیا اور مسلمانوں کو عیدالفطر کی مبارکباد پیش کی، اپنے پیغام میں کہا کہ ”عید الفطر کے پُرمسرت موقع پر مبارکباد۔خداکرے کہ یہ خصوصی دن،ہمارے معاشرے میں، ہم آہنگی،رحم دلی اور امن کے جذبات کو فروغ دے۔ہرکس وناکس کی زندگی مسرتوں سے ہمکنارہو۔“اسی قسم کا ایک پیغام مودی نے پہلے بھی دیا تھااور انہوںنے واضح کیا کہ ”ہمیں اقلیت کے دل ودماغ سے ڈروخوف نکالنا ہے اور اس کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ سابقہ حکومتوں نے انہیں ایک طرح کے دھوکہ میں رکھا ہے،جس میں سے انہیں باہر نکالنا ہوگا، ہم سب کی ذمہ داری ہوگی کہ ہم اسے ختم کریں اور اقلیت کا اعتماد بحال کیاجائے۔ حزب اختلاف نے ووٹ بینک کی سیاست کرتے ہوئے، اقلیتوں کو خوف و ہراس میں رہنے پر مجبور کیا، بہتر ہوتا کہ اقلیتوں کی تعلیم پراور ان کی صحت پر توجہ دی جاتی، لیکن اب ان کے اعتماد کو جیتنے، اس سابقہ دھوکے کو ختم کرنے اور سب کو ترقی کے راستے پر لے جانے کی ضرورت ہے۔“ان دونوں بیانا ت اورگزشتہ پانچ سالہ دورمیں ”مسلم نوجوانوں کے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے میں کمپیوٹر “دینے کے بیان بھی رکھے جائیں تو پتہ چلے گاکہ پہلے اتنا آگے بڑھی نہیں تھی، لیکن اس مرتبہ وزیراعظم نے جو انداز اپنا یا ہے، اس سے مسلمانوں نے ایک حد تک راحت کی سانس لی ہے، پہلے بھی وہ کسی ڈروخوف میں نہیں رہے، اور اس وقتی بحران کے بعد بھی اسی ڈر وخوف سے ابھر جائیں گے۔ایسی امیدکی جاسکتی ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ قومی سطح پر بی جے پی نے جو جیت حاصل کی ہے اور یہ بات یقینی ہے کہ این ڈی اے کی دیگر پارٹیوں کی حمایت کے ساتھ ا سکی حکومت مرکز میں آئندہ پانچ سال مکمل کرے گی، جبکہ اپوزیشن کمزور نظرآنے کے ساتھ ساتھ دست وگریباں ہے اور مطلع آبر آلودہ ہے تو اس کا حل کیسے تلاش کیا جائے اور مستقبل میںمعاشی، تعلیمی اور سماجی سطح پر اپنی بہتری کے بارے میں سوچا جائے کہ کیا ہمیں ایک جامع وٹھوس حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟

وزیراعظم نریندر مودی کے بیان پر کچھ لوگ ناک منہ چڑھا سکتے ہیں، لیکن کیا مخالفین کی کسی پہل کا مثبت جواب نہیں دیا جاسکتا ہے۔ صرف یہ سوچنا کہ گزشتہ پانچ سال کے عرصہ میں اقلیتوںاور خصوصاً مسلمانوں کے خلاف ہونے والی اشتعال انگیزی کے خلاف ظاہری طورپر کچھ نہیں کہا گیا، اس کی وجہ سے بی جے پی کے چھٹ بھیا لیڈرہی نہیں بلکہ کئی قدآوربھی بیان بازی سے باز نہیں آتے ہیں،حال میں ایک ایسے ہی وزیراور بہارکے متنازع بیانات کے لیے معروف گری راج سنگھ کو بی جے پی صدراور وزیرداخلہ امت شاہ نے پھٹکار لگائی ہے، دراصل روزہ افطارکے ایک معاملہ میں انہوںنے نتیش کمار کو لپیٹنے کی کوشش کی تھی اور یہی وجہ ہے کہ ان کے کان موڑ دیئے گئے جسے ایک اچھی شروعات سمجھاجائے۔ مسلمانوں کا ایک طبقہ اور خصوصاً تعلیم یافتہ طبقہ کی کوشش ہے کہ اسے مثبت قدم سمجھا جائے کہ مودی نے ”سب کا ساتھ، سب کا وکاس “ کے ساتھ اب’ سب کا وشواش‘ بھی جوڑدیا ہے اور انہوںنے مسلمانوں کے اعتماد جیتنے کی بھی کہی ہے، اس سلسلہ میں متعدد شحصیات کھل کر اظہار کررہے ہیں اوران میں صدرانجمن اسلام ڈاکٹر ظہیر قاضی کا خیال ہے کہ یہ ایک خوش آئند امر ہے کہ مسلمانوں کا ذکر نہیں کیا گیا بلکہ ان کی حالت پر تشویش کا اظہاربھی کیا گیاہے اور ان کی سماجی، معاشی اور تعلیمی بہتری اور فلاح وبہبود کی بھی باتیں بھی کی گئی ہیں،لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے طورپرباقاعدہ ایک حکمت عملی تیار کریں اوراپنے درمیان اتحاد واتفاق کی مضبوط قائم کریں، ہماری کوشش ہونا چاہئے کہ حال میں الوداع ہوئے ماہ رمضان میں نکالی جانے والی خیرات وزکوة کا صحیح طورپر استعمال کرنے کے لیے منصوبہ سازی کریں اور اس رقم سے جوکہ کروڑوں۔اربوں میں تقسیم کی جاتی ہے، تعلیمی اداروں اور یتیم خانوںاور دیگرامدادی امورکے شعبوں میں پہنچا کراس کا بہتر استعمال کریں۔تاکہ حقداروںکو ان کا حق برابر مل سکے۔

انہوں نے مسلم معاشرے میں ضرورت مندوں اور یتیموں کا بھی حوالہ دیا، جن کو معاشرے میں پنپنے کا موقعہ نہیں ملتا ہے۔ خصوصی طورپر یتیم لڑکیوں کی رہائش اوران کی تعلیم کے سلسلے میں کئی منصوبوں پر عمل کیا جانا چاہئے،دراصل نئے قانون کے تحت 18سال کے بعد انہیں یتیم خانوںمیں رکھنا منع ہے، مسلمان صاحب حیثیت اس جانب توجہ دے رہے ہیں اور انہوںنے دلچسپی بھی دکھائی ہے،لیکن پھر بھی اس میں اضافہ ہونا چاہیئے۔ بس معاشرہ میں اچھے کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے نہ کہ ان کی ٹانگ کھینچی جائے۔ڈاکٹر ظہیر قاضی نے حال میں مودی کے ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس اورسب کا وشواس ‘ کے نعرے کی ستائش کی ہے اور ان کے مسلمانوں کی جانب قدم بڑھنے پر کہا کہ اس کا مثبت جواب دیا جانا چاہئیے۔

مذکورہ صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد یہ سچ بھی محسوس ہوتا ہے کہ اگر موجودہ حکومت اس نعرے کے تحت مسلمانوں کی تعلیمی بہتری اور صحت کے سلسلے میں اہم اقدامات کرنے کی سوچ رہی ہے، تو کیا اس بات کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے، جہاں تک تعلیمی بہتری کی بات ہے تو حکومت کو یہ مشورہ دیا جانا چاہیئے کہ مسلم اکثریتی علاقوںمیں جہاں مسلمانوں کی آبادی کا فیصدکچھ زیادہ ہے،ان اضلاع اور شہروںمیں کیندریا ودیالیہ اور نوادیایہ جیسے رہائشی اسکول کھولے جائیں۔ تاکہ اس سے دوسروں کو بھی فائدہ ملے، اس کے ساتھ ہی اقلیتی اداروںکے ذریعہ اسکول اور کالج کی درخواستوںکومنظوری دینے میں تاخیر نہ کی جائے بلکہ اقلیت کے متعلق اداروںکو منظوری دینے میں رعایت برتی جائے۔ دینی مدارس بھی سرکاری امداد کے حقدار ہیں، انہیں مالی مدداور سہولیات ملنی چاہئیے، لیکن اس کے ساتھ عصری تعلیم کے اداروں کو بھی مکمل حمایت اورتعاون ملناچاہئیے کیونکہ ان دینی مدارس میں محض چار فیصدطلباءزیرتعلیم ہیں، اصل میں ہمیںعصری تعلیمی اداروں کو سہولیات مہیاکرانے کی ضرورت ہے اور اگر حکومت نے اس تعلق سے نیک نیتی کا اظہار کیا ہے تو یہ ایک اچھی علامت ہے۔اگر اس پہل کا خیر مقدم کرتے ہوئے ہم حکومت کی جانب ہاتھ بڑھاتے ہیں، ان تک اپنے مسائل پہنچا نے کی کوشش کرتے ہیں تو بہتر نتائج سامنے آئیں گے اور اگرایسانہ کر پائے تو کافی دشواری پیش آسکتی ہے، ہمیں درپیش مسائل کو حل کرانے کے لیے خود آگے آنا چاہئیے تاکہ ایک نئے دورکا آغاز ہو،کیونکہ گزشتہ پانچ سال میں مرکزاور ریاستوں کی بی جے پی حکومتوں نے تعلیمی سطح پر بھر پورتعاون دیا اور ساتھ ساتھ نئے اداروں کو کھولنے کی منظوری بھی دی ہے،اس میدان میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش نہیں ہوئی ہے،جوکہ ایک مثبت پہل ہے۔اب یہ ہمیں سوچنا ہے کہ اونٹ کو کس کروٹ بیٹھائیں۔ اتنا ضرورہے کہ ہمیں اپنے درمیان اتحادواتفاق کا مظاہرہ کرنا ہوگااورکسی کا انتظار کیے بغیر آگے بڑھ کر جام کو تھام لینا ہے،یہی سرحروئی کی علامت ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔