حیف باعث ترے عتاب کا میں

افتخار راغبؔ

حیف باعث ترے عتاب کا میں

کیا کروں اپنے اضطراب کا میں

تیری آنکھوں کے آئنے میں رہوں

عکس بن جاؤں تیرے خواب کا میں

ربط میں بھی حساب اُن کا کام

اور قائل ہوں بے حساب کا میں

بخشیے مت کوئی سوال مجھے

منتظر آپ کے جواب کا میں

سرد مہری کا ہے لحاف اُن پر

اور پیکر ہوں اضطراب کا میں

مجتنب میرے التفات سے وہ

تختۂ مشق اجتناب کا میں

جو محبت کے نام ہے منسوب

اک ورق ہوں اسی کتاب کا میں

کیا کروں آئنہ ہے میرے پاس

دیکھ دشمن نہیں جناب کا میں

متن رودادِ عشق کا راغبؔ

یا خلاصہ جنوں کے باب کا میں

تبصرے بند ہیں۔