’’ملے نہ پھول تو۔۔۔‘‘

سفینہ عرفات فاطمہ

’ملے نہ پھول تو کانٹوں سے دوستی کرلی‘ کے مصداق کچھ لوگ ’خزاں‘ کے موسم میں ’بہار ‘سے لطف اندوز ہونے کاہنر جانتے ہیں۔سہولتوں اور آسانیوں کے ساتھ زندگی کاہاتھ تھام کرچلنا کوئی کارنامہ نہیں۔ لیکن جب مشکلیں ‘کانٹوں کی طرح راہوں میں بکھرجائیں توزخمی پیروں کے ساتھ زندگی کے نشیب وفرازسے گزرنا بڑا ہی دشوارہوتا ہے ۔’منفی‘ کو ’مثبت‘ میں بدلنے کی صلاحیت رکھنے والے لوگ‘اس دشوار مرحلے کوطئے کرہی لیتے ہیں ۔

یہاں ہرانسان کسی نہ کسی کمی‘ کمزوری ‘ خامی سے دوچار ہے۔ہم میں سے بیشتر لوگ اپنی کمیوں اورکمزوریوں کا ماتم منانا تو جانتے ہیں ‘لیکن اپنی کسی ’خامی‘ کو ’ خوبی‘ میں بدلنے کے فن سے ناواقف ہوتے ہیں ۔
اگرکوئی پستہ قد ‘عام شکل و صورت کی موٹی بھدی لڑکی محض یہ سوچ کررہ جاتی کہ میری یہ ظاہری خامیاں مجھے ’ٹی وی‘ کی دنیا تک نہیں لے جاسکتیں تو وہ کسی تاریک کمرے میں کڑھتی رہ جاتی ۔
بے رحم ‘ خودغرض اوربے حس لوگ اس کے پست حوصلوں کو اور بھی پست کردیتے‘ اپنے رویوں سے اس کی کمزوریوں کواوربھی نمایاں کردیتے‘لیکن اس لڑکی نے پھولوں کے نہ ملنے کاشکوہ کرنے کی بجائے کانٹوں کے ساتھ جینے کا راز پالیا۔اس کا جسم ‘اس کا چہرہ ‘خوبصورتی کے بندھے ٹکے معیار پر پورا اترنے کے قابل نہ تھا‘ پھرکیسے اس نے خود کو ’’اہل‘‘ ثابت کیا؟اس نے اپنے لیے ’مزاح‘ کا میدان منتخب کیا۔اپنی باطنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے فربہی کی اپنی ’خامی‘ کو ’خوبی‘ کی صورت عطاکردی۔پہلے بھی لوگ اس پر ہنستے ہوں گے‘ آج بھی ہنستے ہیں ‘لیکن اس ’ہنسی‘ میں بہت فرق ہے۔پہلے لوگ اس کے موٹاپے پرہنستے تھے‘ آج اس کے ’ہنسانے کے فن‘ کے سبب ہنستے ہیں ‘محظوظ ہوتے ہیں۔وہ ناقابل قبول تھی‘ اس نے خود کو قابلِ قبول بنالیا۔
ہرانسان اپنی نااہلی کو دورکرسکتا ہے‘وہ خود کو اہل ثابت کرسکتا ہے۔اگربنے بنائے راستے موجود نہیں ہیں تو راستے بنائے بھی جاسکتے ہیں۔
دراصل یہ دنیا امکانات سے خالی نہیں‘ اب یہ اور بات ہے کہ ہم ’’خالی‘‘ ہوا کرتے ہیں ‘حوصلوں سے ‘چاہتوں سے ‘ جستجو سے۔ حتی کہ ہم لوگ تو خواب دیکھنا بھی نہیں جانتے‘ہمارا تصور‘ہمارا تخیل ‘ہماری آنکھیں سب ’اسیر‘ ہیں‘ ہم روایتوں کے غلام ہیں۔
ہم اپنی تمام تر محرومیوں کے باوجود بھی زندہ رہ سکتے ہیں‘ زندگی کو ایک نئے مفہوم سے آشناکرسکتے ہیں۔ ایک نئی راہ پر قدم رکھ سکتے ہیں ۔ اپنے لیے ایک ایسا ’ہدف‘ چن سکتے ہیں جوایسی روحانی خوشی عطاکرسکے جولہولہان پیروں کی اذیت کو زائل کردے۔
سنگ ہوجاتے ہیں سختی میں تو نرمی میں گلاب
زندگی تجھ سے نبھانے کا ہنر رکھتے ہیں

تبصرے بند ہیں۔