حلب:کاش ہم اپنی موت کامنظر دکھا سکتے

سیف ازہر

دنیا میں بہت سی جگہیں ایسی ہیں جہاں آج کل ندیوں کے بجائے انسانی خون بہتا ہے ۔سڑکیں آمدورفت کے بجائے انسانوں کی لاشوں سے بھری پڑی ہیں ۔سب کی آنکھوں کے سامنے موت رقص کررہی ہوتی ہے مگر لوگ حالات سے اس طرح مجبور ہوتے ہیں کہ وہ کچھ بھی نہیں کر سکتے ۔کشمیر،برما،فلسطین ،یمن اور شام کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں انسانیت کے لئے کوئی جگہ بچی ہو۔کچھ لکھنے کا ارادہ کیا تو بہت سے مسائل ذہن کے نہاں خانوں میں گردش کر رہے تھے مگر ایک خبرنظر سے گزری جس میں کوئی کہانی نہیں بلکہ شام کے شہر حلب کی آخری ہچکی ہے ۔آج میں اپنوں کی بے وفائی اور غیر وں کے ستم کاتذکرہ نہیں کروں گا۔آج مجھے دنیا کی گھٹیا سیاست کا تذکر ہ نہیں کرنا ہے ۔میں آج ایران اور روس کی خونچکاں پالیسیو ں کا ذکر نہیں کروں گا ۔میں یہ نہیں لکھوں گا کہ کون انسانیت کے ساتھ کھڑا ہے اور کس نے انسانیت کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی ہے ۔آج میں شام کی خانہ جنگی کی پانچ سالہ تاریخ پر بھی نہیں جاؤں گا ۔مجھے پتہ ہے کہ اقوام متحدہ کو انسانی حقوق وہیں دکھائی دیتے ہیں جہاں پر ستم کاشکارکوئی غیر مسلم ہوں ۔اس کی ان قراردادوں کی بات کیوں کروں جو پاس تو ہوتی رہیں مگر شام کی خانہ جنگی میں کوئی کمی نہیں آئی ۔اقوام متحدہ کی قراددوں سے کہیں زیادہ ہمارے بھائیوں بہنوں اور بے گناہ لوگوں کی لاشیں اہم ہیں ۔جن کا نہ تو کوئی قبرستان ہے اور نہ کوئی تجہیزوتکفین کرنے والاہے ۔میں آج ان گھڑیالی آنسوؤں کا بھی تذکرہ نہیں کروں گاجو رفتہ رفتہ مفاد پرستوں کی آنکھوں سے ٹپکتے رہے ہیں ۔ہمیں آج کسی کے آنسو کی کوئی فکر نہیں ہے ،ہمیں اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔کیا اس مرہم کی بات کروں جو لگنے کے بعد زخم کواور بڑھادیتا ہے ۔ جنگ کا آماجگاہ بن چکے شام کے محاذوں کا تذکرہ کس زبا ن سے کروں اور کیوں کروں ،کیاان سے ہماری آنکھوں میں کوئی امیدجاگ سکتی ہے ۔کس کو ظالم کہوں اور کس کومظلوم کہوں کیاہمارے یا کسی اور کے کہنے سے کوئی فائدہ ہونے والا ہے ۔اگر کچھ تذکرہ بھی کیا جائے تو کس سے کیا جائے کس سے فریاد کی جائے کیا کوئی سننے والاہے ۔مجھے نہیں لگتا کہ امریکہ اور روس کی چالبازی بیان کرنے سے کوئی فائدہ ہونے والا ہے ۔مجھے ایران اور سعودی عرب کی پالیسیوں سے بھی کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔مجھے آج امریکہ اور روس کی سفاکی پر اقوام متحدہ سے کوئی مطالبہ نہیں کرنا ۔مجھے کسی مسلم دنیا کو نہیں جگانا ہے ۔کسی کوکچھ کیوں کہا جائے ،کیا کسی نیجنگ بند کرانے کا بوجھ اٹھا رکھا ہے ۔میری آنکھوں کے سامنے وہ منظر بھی ہیں ،جہاں دیواروں پر پوسٹروں کے بجائے ننھے منھے پچے چسپاں ہیں ۔وہ ملبہ بھی آنکھوں میں گردش کر رہا ہے جہاں تعمیرات کے کہیں زیادہ لاشیں ہیں ۔وہ بچہ بھی نگاہوں میں ہے جو بے ہوشی کی دوا کی جگہ قرآن کی آیتوں سے ٹاکہ لگواتا ہے ۔میں دل امنڈ رہے اس درد ہوبھی نہیں بیان کروں گا ۔میری آہوں اور مجبوریوں سے حلب کا کوئی بھلا نہیں ہوگا ۔میرے دل کے گردوغبار کو ان سے کیا تعلق۔میری بات ان چیخوں کے سامنے کیا حیثیت رکھتی ہے ۔آج میں کچھ نہیں لکھوں گا ۔لکھوں گا تو وہ جو ان معصوموں کی زبان ہے ۔ایک موت کی داستان ہے ۔ شہر حلب پر موت کے پنجے کی تصویرہے ۔ بیانیہ ہے اس شہر کا ہے جہاں اب کھنڈرات کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔حلب گزر گیا ،حلب اب نہیں رہا ۔حلب میں انسانیت کی کوئی تصویر نہیں بچی ہے ۔مگر ہمارے پاس حلب کے ااس ماں کی آہ ہے جس کو اگلا سورج دیکھنے کی کوئی آس نہیں ہے ۔ایک بھائی کی فغاں ہے جو اپنے آخری لمحے کی کہانی خود رقم طراز کرتا ہے ۔ایک بچی کے آنسو ہیں جو بن کھلے مرجھا گئی ہے ۔اس بہن کا شکایتی اور فریادی لہجہ ہے جو اب بھی کسی صلاح الدین سے نامید نہیں ہے اور نہ جانے کتنی ایسی کہانیاں ہیں اس لیے ان آہوں کوان لفظوں کوبلا کم وکاست سیدھے طورپر رکھ رہاہوں۔
’’پوری دنیا کے لوگوں، سوئیں نہیں، آپ کچھ کر سکتے ہیں، مظاہرے کریں اور اس قتل عام کو رکوائیں۔‘‘یہ ایک موت کا رقص دیکھ رہی لڑکی کا ٹویٹ ہے ۔ساتھ ہی ایک ویڈیو پیغام میں لینا شامی نے کہاکہ ’’ہر کوئی جو مجھے سن سکتا ہو! محصور افراد کا حلب میں قتل عام ہو رہا ہے۔ یہ میرا آخری ویڈیو ہو سکتا ہے۔ آمر اسد کے خلاف بغاوت کرنے والے 50؍ ہزار سے زیادہ لوگوں کے قتل عام کا خطرہ ہے۔ لوگ بمباری میں مارے جا رہے ہیں۔ ہم جس علاقے میں پھنسے ہوئے ہے یہ دو مربع میل سے بھی چھوٹا ہے۔ یہاں گرنے والا ہر بم قتل عام ہے۔ حلب کو بچاؤ انسانیت کو بچاؤ۔‘‘ ایک ویڈیو میں ایک شخص کہہ رہا ہیکہ’’ہم بات چیت سے تھک گئے ہیں، تقریروں سے تھک گئے ہیں،کوئی ہماری نہیں سن رہا ہے، کوئی جواب نہیں دے رہا ہے۔ وہ دیکھو بیرل بم گر رہا ہے۔’یہ ویڈیو بم گرنے کی آواز کے ساتھ ختم ہوتا جاتاہے۔ایک اور حلب کاباشندہ لکھتاہے کہ ’’میں اب اپنے خاص دوستوں کے ساتھ قتل عام کا سامنا کرنے کیلئے اب بھی یہاں ہوں اور اس پر باقی دنیا بالکل خاموش ہے۔ کاش ہم اپنی موت کا براہ راست منظر آپ کو دکھا سکتے۔‘‘ایک سات سالہ بچی بنا العابد نے اپنی ماں کی مدد سے منگل کی صبح دل کو جھنجھورنے والا پیغام ٹویٹ کیا’’میں مشرقی حلب سے دنیا سے لائیو بات کر رہی ہوں۔ یہ میرے آخری لمحے ہیں یا تو میں زندہ بچوں یا مر جاؤں‘‘۔اس سے پہلے کے ٹویٹس میں ’’بنا‘‘ نے لکھاکہ ’’آخری پیغام۔ گذشتہ رات سے لوگ مارے جا رہے ہیں۔ میں بہت حیران ہوں کہ میں زندہ ہوں اور ٹویٹ کر پا رہی ہوں‘‘۔اس کے کچھ گھنٹے بعد بنا نے لکھاکہ’’میرے والد زخمی ہو گئے ہیں۔ میں رو رہی ہوں۔‘‘شامی ریلیف گروپ وائٹ ہلمٹس نے لکھاکہ’’جہنم کا منظر ہے۔ تمام سڑکیں اور منہدم عمارتیں لاشوں سے پٹی پڑی ہیں۔‘‘ عبدا لکافی الحمدہ نیلکھاکہ’’ہر طرف بم گر رہے ہیں۔ لوگ بھاگ رہے ہیں۔ انھیں پتہ نہیں کہ کہاں جا رہے ہیں، صرف بھاگ رہے ہیں۔ سڑکوں پر زخمی پڑے ہوئے ہیں۔ کوئی ان کی مدد کے لیے نہیں جا پا رہا ہے۔کچھ لوگ ملبے میں دبے ہیں۔ کوئی ان کی مدد نہیں کر پا رہا ہے۔ انھیں مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ گھر ہی ان کی قبر ہے۔‘‘ایک لائیو ویڈیو میں کہا جارہا ہے کہ ’’اب اقوام متحدہ پر اعتماد مت کرو۔ بین الاقوامی برادری پر انحصار مت کرو۔ یہ نہ سوچو کہ انھیں نہیں معلوم ہے کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ہم مارے جا رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ہم عہد نو کی تاریخ کے سب سے شدید قتل عام کا سامنا کر رہے ہیں۔‘‘ ایک باپ نے لکھاکہ’’یہ آخری پیغام ہے۔ ان سب کا شکریہ جنھوں نے ہمارا ساتھ دیا اور ہمارے لیے دعا کی۔ اب سب ختم ہو گیا ہے۔ کچھ ہی گھنٹوں بعد وہ ہم سب کو مار دیں گے۔‘‘ایک اورباپ نے ٹویٹ کیاکہ’’ آخری پیغام۔ آپ نے جو کیا اس کے لیے شکریہ۔ ہم نے بہت سے پل ساتھ بتائے۔ یہ ایک جذباتی والد کا آخری ٹویٹ ہے۔ حلب کو الوداع۔
یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔