کرن رجیجو کے جوتا مارنے کی بات پر سوال!

رویش کمار

جو نیوز پلانٹ کر رہے ہیں وہ ہمارے یہاں آئیں گے تو جوتا کھائیں گے۔’ بھارت کے وزیر داخلہ كرن رجيجو کا یہ بیان ہے۔ آئینی عہدے پر بیٹھے شخص سے کم از کم توقع کی جاتی ہے کہ اس کی زبان شائستہ ہو۔ شائستہ نہ بھی ہو تو کم سے کم جمہوری ہو۔ عام لوگ بھی اکثرو بیشتر جوتا مارنے کی بات کر دیتے ہیں، اس لئے کہ ذات اور جاگیردارانہ لسانی ثقافت ہم سب میں گھل مل جاتی ہے۔ ہونا یہ چاہئے کہ ایسی ثقافت سے نجات حاصل کرنے کے لئےپوری زندگی مشق کرتے رہیں۔ لیکن جب آپ وزیر کے عہدے پر بیٹھ کر کسی کو چیلنج دیتے ہیں کہ ہمارے یہاں آئیں گے تو جوتا کھائیں گے تو اسے خاص طور پر نوٹس لینا چاہئے، کیونکہ اس وقت یہ دھمکی بھی ہوتی ہے۔ باقی ہندوستان کا تو نہیں کہہ سکتا لیکن شمالی ہند لسانی ثقافت سے آنے کی وجہ بتا سکتا ہوں کہ جوتا مارنا، جوتا کھانا کھلانا نہایت ہی جاگیردارانہ اور نسل پرست غرور کا لفظ تصور کیا جاتاہے۔ اس کا استعمال غریب اور ذات  کےفریم ورک میں کمزور لوگوں کے خلاف ہوتا ہے۔ پھر اس کا استعمال آپس میں بھی ایک دوسرے سے طاقتور ہونے کا احساس دلانے کے لئے کیا جاتا ہے۔ مگر شمال مشرق سے آنے والے ایک وزیر کی زبان میں یہ عناصر کس طرح آ گئے؟

 وزیر داخلہ كرن رجيجو وزارت میں راج ناتھ سنگھ کا ہاتھ بٹاتے ہیں، اس وزارت کا کام  ہندوستان کے اندرونی سیکورٹی کے نظام کو منظم کرنا ہے۔ یہ وزارت ہندوستانی پولیس فورس سے لے کر نیم سیکورٹی فورسز کی بھی ایک طرح سے  اہم اور اعلی وزارت ہے۔  چاہے جیسی تصویر ہو لیکن پولیس ہمارے محلے میں آئینی سرپرست ہے۔ کم از کم ہم پولیس پر سوال اٹھا سکتے ہیں کہ وہ آئین اور قوانین کے مطابق کیوں نہیں چل رہی ہے؟ ظاہر ہے یہ سوال ہم ریاستوں میں وزیر اعلی اور پولیس کے سربراہ سے کریں گے اور مرکز میں مرکزی وزیر داخلہ اور وزیر داخلہ سے کریں گے کہ پولیس کا انتظام کیوں خراب ہے؟ اب اس وزارت کے سربراہ ساتھی ہی پولیس پر اعتماد نہ کرکے یہ کہیں کہ جو لوگ نیوز پلانٹ کر رہے ہیں وہ ہمارے یہاں آئیں گے تو جوتا کھائیں گے تو اس کا کیا مطلب ہے؟ آخر رجيجو کا جو ‘ہمارے یہاں ہے’ کیا وہ آئین اور سسٹم سےاوپر ہے جہاں اعتراض کرنے پر قانون سے نہیں جوتوں سے نمٹا جاتا ہے۔

‘انڈین ایکسپریس’ کی خبر سے وزیر داخلہ کو بالکل اعتراض ہو سکتا ہے،  لیکن اگر وہ ان کی وزارت پر ہی انحصار کرتے تو مقدمہ کرتے۔ قوانین کی بات کرتے۔ جوتا کھلانے کے لئے مدعو نہیں کرتے۔ وزیر صاحب کے اس جملے سے دو مسائل ہیں۔ انہیں آئینی عہدے پر رہتے ہوئے جاگیردارانہ اور ذات  کے نظام پر مبنی لفظ کا استعمال کرنے سے بچنا چاہئے۔ ایسی غلطی ہم سب سے ہو جاتی ہے، بہتر ہے کہ ہمیں اس غلطی کا احساس ہو۔ ‘ہمارے یہاں آئیں گے جوتا کھائیں گے’، بولنا وزیر کا نہیں، محلے کا دادا ٹائپ سنائی دیتا ہے۔ کیا وزیر اس خبر کے ردعمل میں کسی بھیڑ کو اکسا رہے ہیں جو ان کے یہاں کی ہے جہاں جانے پر جوتے پڑیں گے۔ دنیا کی حکومتیں، اپوزیشن لیڈر نیوز پلانٹ کراتے ہیں۔ وزیر خود نیوز پلانٹ کراتے ہیں۔ کسی بھی نیوز کو آسانی سے پلانٹ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ پلانٹ کیا ہوا نیوز غلط ہی ہو مگر مناسب طریقے سے چیک نہ کریں تو غلط ہو سکتا ہے۔ قاعدے سے اس کی شکایت پریس کونسل آف انڈیا میں ہو سکتی ہے یا پھر اخبار کے ایڈیٹر کو کی جا سکتی ہے، لیکن سوال پوچھنے پر جوتا کھلانے کی بات کیا آپ کو ٹھیک لگی۔

 کیا وزیرصاحب ‘انڈین ایکسپریس’ کے صحافی کو کہہ رہے ہیں کہ ان کے یہاں گیا تو جوتا كھلائیں گے یا اس سے کہہ رہے ہیں کہ جو نیوز کا سورس ہے۔ تو کیا وزیر رجيجو کو معلوم ہے کہ یہ خبر کون پلانٹ کروا رہا ہے۔ اگر معلوم ہے تو بھی کیا اس کا طریقہ جوتا ہے۔ یہ بات صرف كرن رجيجو کے لئے نہیں، بلکہ خود میرے لئے، ہم سب کے لئے ہے کہ جاگیردارانہ اور ذات  کے نظام پرمبنی الفاظ سے روزانہ نجات کی مشق کریں۔ امید کرتا ہوں کہ وزیر صاحب افسوس ظاہر کریں گے۔ ‘انڈین ایکسپریس’ کے صحافی دیپتمان تیواری کی خبرسموار کو شائع ہوئی اور پھر منگل کو بھی۔

 مختصر میں بتا رہا ہوں کہ اروناچل پردیش میں نارتھ ایسٹرن الیکٹرک پاور کارپوریشن (NEEPCO) کے کئی افسران کے خلاف چیف ویجلنس افسر نے 129 صفحات کی رپورٹ تیار کی ہے۔ اس رپورٹ میں چیئرمین، منیجنگ ڈائریکٹر اور ٹھیکیداروں پر 450 کروڑ کے گھوٹالے میں شامل ہونے کا الزام ہے۔ ایک سب کانٹریکٹر جنہیں رجيجو کے رشتے کا بھائی بتایا جاتا ہے، اس پر اسکوٹر، کار، موٹر سائیکل سے پتھر کے ٹکڑے کی ڈھلائی کی رسید دے کر ٹرک سےڈھلائی کے بل بنانے کے الزامات ہیں۔ یہ رپورٹ جولائی کے مہینے میں ہی مرکزی وزارت توانائی، مرکزی ویجلنس کمشنر اور سی بی آئی کو بھیجی جا چکی ہے۔ سی بی آئی نے تفتیش بھی کی لیکن ایف آئی آر نہیں ہوئی، مگر رپورٹ تیار کرنے والے گجرات کیڈر کے آئی پی ایس افسر ستیش ورما کا وہاں سے تبادلہ ہو گیا۔ نپكو نے ٹھیکیدار کی ادائیگی روک دی، تو ‘ایکسپریس’ کے دعوے کے مطابق 4 نومبر، 2015 یعنی اس سال کی نوٹ بندی کے ٹھیک ایک سال پہلے كرن رجيجو نے توانائی کی وزارت کو خط لکھا کہ ٹھیکیدار کی ادائیگی کر دی جائے۔ کانگریس پارٹی نے منگل کو ایک پریس کانفرنس میں آڈیو ریکارڈنگ پیش کی، جس میں وزیر جی کے بھائی ستیش ورما کو فون پر دلاسہ دے رہے ہیں کہ بھیا آپ کی مدد کر دیں گے۔ اس خبر کو آپ  تفصیل سے ‘انڈین ایکسپریس’ کی ویب سائٹ پر تلاش کر سکتے ہیں۔

 ہندوستانی معاشرے میں ممکن ہے کہ رشتہ دار اور بھائی کسی کے نام کا غلط استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ بھی سمجھنا چاہئے، لیکن اس بھائی کی کمپنی کی ادائیگی کے لئے وزیر داخلہ نے وزارت توانائی کو خط کیوں لکھا؟ سیاسی الزامات کا مسئلہ یہ ہے کہ کبھی انجام تک ٹھیک سے نہیں پہنچتے۔ وزیر داخلہ كرن رجيجو اور توانائی وزیر پیوش گوئل نے اس خبر کی تردید کر دی ہے۔

مترجم: شاہد جمال

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔