منافق و منافقت: باغباں بھی خوش رہے، راضی رہے صیاد بھی!

عبدالکریم ندوی گنگولی

چراغ مصطفویﷺ سے ستیزہ کار شرار بولہبی مختلف ادوار میں اپنے ناپاک عزائم ومقاصد کی تکمیل اور باطل نظریات وعقائد کی تبلیغ وتنشیر اور اس کے تحفظ کے لئے حق کے خلاف مزاحمت ومخالفت کی مختلف شکلوں وصورتوں پر کاربند رہااور مشام جاں کو معطر کرنے والی حق کی پرلطف وپرامن فضاکو تعفن زدہ کرنے کی فکر میں کوشاں رہا، لیکن ان تمام صورتوں میں اس کی ایک صورت جو ہردور میں جہد باطل میں یکساں طور پر کارفرمانظر آتی ہے، ’’منافقت‘‘ہے۔

منافقت ایسے طرز عمل کوکہتے ہیں جو قول وفعل کے تضاد سے عبارت ہو، جس میں انسان کا ظاہر باطن سے مختلف ہوبلکہ برعکس ہو، ایسا شخص اپنے مذعومہ مفادات کاتحفظ، ناپاک عزائم اور خواہشات نفسانی کے حصول میں حق وباطل کے ہردوطبقات سے یامطلقاً کسی بھی دوگروہوں، دوجماعتوں حتی کے دوشخصوں سے وابستگی کا اظہار کرکے ناپاک ذہنیت کے ساتھ جہد مسلسل کرتارہتا ہے، ایسے ہی شخص کو منافق اور اسی طرز عمل کو منافقت کہتے ہیں۔

 اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں منافقوں سے متعلق جن آیات میں ان کی فتنہ انگیزیوں اور منافقانہ رویوں کا تذکرہ فرمایا، اس سے منافقت کے دوبنیادی روپ سامنے آتے ہیں، ایک اعتقادی منافقت، دوسرا عملی منافقت، جہاں تک اعتقادی منافقت کی بات ہے، اس کا تعلق زیادہ تر حضورﷺ کے عہد مبارک کے ساتھ خاص معلوم ہوتاہے اور تاریخ بین گواہ ہے کہ چھٹی صدی کی چشم نے ان حیرت انگیز اعتقادی منافقانہ واقعات وحادثات کا مشاہدہ کیاہے، جوکتب حدیث وسیر میں جلی حروف میں نمایاں ہیں۔ آئیے اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں :

انسانیت نوازی کا آفتاب جب سرزمین مدینہ میں ہجرت کے عنوان سے طلوع ہوا، تو مدینہ کے اصل باشندے انصار کے دامن خوشیوں سے بھر گئے اور یہود کے عزائم خاک میں مل گئے، جو مدینہ میں ایک بالادست، سیاسی، اقتصادی اور سماجی طبقے کی حیثیت سے زندگی بسر کررتے تھے اور مدینہ میں انہیں کا سکہ رواں تھا، ان کا ایک نامور رئیس عبداللہ بن ابی کی رسم تاج پوشی اداہونے والی تھی، اسلام کی شان وشوکت اور پیغمبر اسلام ﷺ کی ذاتی وجاہت وعظمت سے مرعوب ہوکر یہ لوگ اسلام کی کھل کر مخالفت نہ کرسکے، البتہ ان میں سے بعض بظاہر دائرۂ اسلام میں داخل ہوکر غلبہ حق کی اس عالمگیر تحریک کوگزند پہنچانے میں مصروف ہوگئے، بادجود اس کے سرکار دوعالم ﷺ ان کی باطنی کیفیت سے آگاہ تھے، تاہم بعض مصلحتوں کی بناپر ابتداء ً ان کے خلاف کسی قولی یا عملی کارروائی سے اعراض فرماتے رہے، تاہم رب العزت نے ان لوگوں کے اندازفکر وطرز عمل اور فتنہ پرداز ذہنیت کو شرح وبسط کے ساتھ اہل ایمان کے سامنے رکھ دیا ؛تاکہ وہ ان کی محض ذہنیت، قول وعمل کے تضاد اور مذموم عزائم سے باخبررہیں اور اس طرح ان کی معاندانہ سرگرمیوں کا سد باب کیاجاسکے اور ان میں حق وباطل میں امتیاز کا صحیح شعورپیداہوسکے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ میں اس سلسلے میں اہم اشارات فراہم کیا ہے اور منافقوں کی حقیقت وعلامات واشگاف کردیا ہے، ارشاد خداوندی ہے ’’ومن الناس من یقول آمنا۔ ۔ ۔ ۔ تا۔ ۔ ۔ ۔ ان اللہ علی کل شیء قدیر(۸ تا ۲۰)

 مذکورہ آیات میں ذکرکردہ منافقوں کی علامتوں میں سے ایک علامت ایسی مہلک اور زہر آلودہے کہ موجودہ دور اور موجودہ ادارے جماعتیں، تنظیمیں، تحریکیں اور خدمت خلق یا کسی بھی مقصد سے قائم شدہ مختلف عنوان ومتنوع نام سے موسوم ادارے ہی نہیں بلکہ ہردور میں امت مسلمہ کواور مذکورہ اداروں کوجس کاخمیازہ بھگتنا پڑا وہ ہے ’’کردار کا دوغلاپن اور ظاہر وباطن میں تضاد‘‘جن منافقین کا یہ طرزعمل بیان کیا ہے گرچہ ان کا یہ رویہ بزدلانہ تھا، وہ لوگ مسلمانوں کے اثر ورسوخ، رعب ودبدبہ کی وجہ سے اپنے کفر کااظہار کرنے کی ہمت نہیں کرتے تھے اور دوسری طرف اپنا تعلق سرمایہ کاروں سے منقطع کرنا نہیں چاہتے تھے، ان کا یہ وطیرہ اس دوغلے کردار کی غمازی کرتاتھا:

باغباں بھی خوش رہے، راضی رہے صیاد بھی

کتب تاریخ کاایک ایک ورق اس بات پرگواہ ہے کہ یہ وہ منافقانہ عمل ہے جس نے بڑی طاقتورونامور قوموں کی عزت وناموس کو خاک میں ملادیااور دنیا میں سوپر پاور کہلانے والے ملکوں کوجلاکر خاکستر کردیا، نام ونمود اور رفعت وبلندی میں ہمالہ کی چوٹی سر کرنے والے اداروں کو قعر مذلت میں ڈھکیل دیا، شہرت یافتہ، عالی جاہ وجلال، عظیم عہدوں پر فائز شخصیتوں کی ذاتوں اورپوشیدہ ارادوں کو پیروں تلے روندیااور آج بھی یہ منافقانہ عمل اسی آب وتاب کے ساتھ بعض شکم پرور، مفاد پرست، نفس پرست اورمطلب پرست لوگوں کے رگ وریشہ میں پیوست ہے اور غیر شعوری طورپر ایک بااثر مسلمان اس ناپاک ذہنیت والے شخص کو جگہ دے کراپنی بربادیٔ زندگی کے راستے ہموار کررہا ہے اور اس کی باتوں میں آکر خس وخاشاک کی طرح بہتاجارہاہے، یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی اس کے پردۂ سماعت سے انجام بد کی خبریں ٹکراتی ہیں اور بدنامی کی تیز وتندہوائیں چلنے لگتی ہیں تو اس وقت کف افسوس ملنا اور واویلا مچانااور اپنی بدنامی کا ڈھنڈوراپیٹنا بے فائدہ عمل ہے۔

تلخ نوائی معاف !آج کوئی ادارہ ہو یا تحریک، کوئی جماعت یا ہوتنظیم یا کسی بھی مقصد ومنزل کو لے کر پروان چڑھنے والی شخصیت (الا ماشاء اللہ) حتی کے حاملین قرآن وسنت، عاملین دین وشریعت، جبہ ودستارمیں ملبوس حضرات کی نگاہیں اور امیدیں ایسے منافق وملمع کارافراد کی متمنی ہوتی ہیں، جو ان کے اشاروں پر ناچے، ان کے تلوے چاٹے اور دوسروں کے حق میں آستین کا سانپ بن کر ان کا پرستار اور ثناخواں بنارہے، اس طرح یہ دونوں آپس میں رفیق ودم ساز بن کرمفادپرستی وشکم پروری کے نشہ میں چورضلالت وگمراہی کے عمیق سمندر میں ڈوب جاتے ہیں، کہ پھر جس کی گہرائی سے چاہتے ہوئے نکلنا دشوار ہوجاتا ہے، سوائے موت کو آواز دینے کے کوئی چارہ وسہارانہیں رہتا۔

چشم فلک نے بعض ان منافقوں کو بھی دیکھا ہے، جن کے منافقانہ رویوں اور خبیث چالاکیوں کی کسی کوبھنک تک نہیں تھی اور وہ مفادپرستی کے گرداب میں پھنس کراپنے آپ کو کامیاب وہوشیار سمجھ کر چین وسکون کی نیند سورہے تھے لیکن خالق کائنات کی پکڑ نے انہیں فوراً پکڑلیا اور وہ کف افسوس ملتے ہی رہ گئے، خود کلام اللہ نے ایسے منافقوں کے سوء انجام کا تذکرہ دوٹوک انداز میں فرمایاہے کہ جو شخص اپنے ناپاک عزائم اورنفسانی مفادکے حصول کے لئے منافقانہ چال چلے گا اور دوغلاپن اختیار کرے گا، اللہ اسے بھلادے گا اور جسے اللہ ہی بھلادے، اس کا اس کائنات میں کوئی حامی یا مددگار کیسے ہوسکتا ہے مزید اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لئے دردناک عذاب بھی تیار کررکھاہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’ اَلْمُنٰفِقُوْنَ   وَالْمُنٰفِقٰتُ   بَعْضُھُمْ   مِّنْ  بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْکَرِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ وَیَقْبِضُوْنَ اَیْدِیَھُمْ  نَسُوا اللّٰہَ فَنَسِیَہُمْ  اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ ھُمُ الْفٰسِقُوْن وَعَدَ اللّٰہُ الْمُنٰفِقِیْنَ  وَالْمُنٰفِقٰتِ  وَالْکُفَّارَ نَارَ جَھَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا ھِیَ حَسْبُھُمْ وَلَعَنَھُمُ اللّٰہُ وَلَھُمْ عَذَاب  مُّقِیْم ۔‘‘

’’منافق مرد اور منافق عورتیں ایک دوسرے (کی جنس )ہیں، یہ لوگ بری باتوں کا حکم دیتے ہیں اور اچھی باتوں سے روکتے ہیں اور اپنے ہاتھ (اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے)بند رکھتے ہیں، انہوں نے اللہ کو فراموش کردیاتو اللہ نے (بھی)انہیں فراموش کردیا، بے شک منافقین ہی نافرمان ہیں، اللہ نے منافق مردوں، منافق عورتوں اور تمام کافروں سے دوزخ کی آگ کا عہد کررکھا ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، وہی ان کو راس آئے گی، اللہ نے ان پر پھٹکار ڈال دی ہے اور ان کے لئے اٹل عذاب ہے‘‘۔

مذکورہ آیات میں ذکرکردہ عذاب کی روشنی میں منافقانہ اعمال، نازیبا وناشائستہ حرکات پر عمل پیرا ہونے والوں کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے، کہ کہیں مفادپرستی کے حصول میں زندگی کی کشتی ہی نہ غرق ہوجائے اور کئے ہوئے نیک اعمال اکارت چلے جائیں اور دنیا وآخرت میں ناکامی وبدنا می، ذلت ونکبت کا چہرہ دیکھنا نہ پڑے، اللہ ہی بس عمل کی توفیق سے نوازے۔ آمین۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔