منزل اور مقصد کا شعور

تحریر: پروفیسر خورشید احمد    ترتیب: عبدالعزیز
(پروفیسر خورشید احمد اسلامی معاشیات کے ماہرین میں سے ایک بڑا نام ہے۔ پروفیسر صاحب بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں۔ دنیا کے بہت سے ملکوں میں رہ چکے ہیں۔ انھوں نے مغربی دنیا کو قریب سے دیکھا ہے۔ موصوف اس پر ایمان رکھتے ہیں کہ مسلمانوں کا مقدر تابناک مستقبل ہے مگر یہ تابناک مقدر اسی وقت چمک سکتا ہے جب مسلمان اپنی ذمہ داریوں کو پوری کریں جو اللہ اور اس کے رسولؐ کے ذریعہ ان پر عائد کی گئی ہیں۔ اس کے بغیر تابناک مستقبل خواب و خیال کے سوا کچھ نہیں ہے)۔
منزل اور مقصد کا شعور: تابناک مستقبل تو ہمارا مقدر ہے، لیکن یہ اسی وقت ہمارا مقدر ہے جب ہم اس کا حق ادا کر دیں گے۔ اس کیلئے دو چیزیں بہت ضروری ہیں۔ پہلی چیز خود احتسابی ہے۔ آپ دیانت داری کے ساتھ جائزہ لیں کہ ہماری کمزوری کے اسباب کیا ہیں؟ پھر آپ یہ دیکھیں کہ ان حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے صحیح لائحہ عمل کیا ہوسکتا ہے؟
جدوجہد اور اس کے نتیجے میں کامیابی کیلئے اولین شرط ہے منزل اور مقصد کا شعور؛ یعنی انسان کا وژن، اس کا تصور حیات۔ میں اگر اسے ذرا زیادہ کھل کر کہوں تو اس کا ایمان اور ایمان کی بنیاد پر اس کا مقصد حیات اور زندگی کے اہداف۔ اگر یہ کمزوری کا شکار ہوجائیں تو یہ سب سے بڑی مصیبت اور سب سے بڑی ناکامی ہے۔ آج مسلمانوں کا معاملہ یہی ہے کہ اللہ کی کتاب بھی موجود ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی موجود ہے، ہماری تاریخ بھی موجود ہے اور صلحائے امت کی کوششیں اور کارنامے اور خدمات بھی موجود ہیں؛ لیکن اس کے باوجود عملاً ہم نے بھی زندگی کو خانوں میں بانٹ دیا ہے۔ میں ان کا تذکرہ نہیں کر رہا جو دین سے اتنے غافل ہیں کہ صرف دنیا کو اپنا ملجا اور ماویٰ اور اپنا سب کچھ بنا چکے ہیں۔ میں ان کی بات کر رہا ہوں جو نمازیں پڑھتے ہیں، جو روزہ رکھتے ہیں، جو گڑگڑا کر دعائیں بھی کرتے ہیں، جو صدقات و خیرات بھی دیتے ہیں لیکن وہ نہیں سوچتے کہ اس نماز کے اثرات ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگیوں پر بھی پڑنے چاہئیں۔ کیا ہماری ذمے داری صرف نماز پڑھ لینے کی ہے یا جس خدا نے ہمیں نماز پڑھنے کیلئے کہا ہے، اس نے ہمیں یہ بھی کہا ہے کہ ’’نماز تو وہ ہے جو انسان کو فحش اور منکر سے روکتی ہے‘‘۔ دوسرے الفاظ میں جو پوری زندگی کو اللہ کی بندگی میں لانے کا ذریعہ بنتی ہے۔
ہم بڑے اہتمام سے رمضان کا استقبال کرتے ہیں، سحری اور افطار کا اہتمام کرتے ہیں، عیدیں مناتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ روزہ تو تقویٰ کیلئے ہے۔ یہ روزہ تو اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کیلئے ہے۔ قرآن نے تو اس کا مقصد اور حاصل یہ بتایا ہے کہ جس ہدایت، یعنی قرآن سے تمھیں سرفراز کیا ہے اسی پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکر گزار بن جاؤ۔ ’’گویا روزہ تو اس مقصد کیلئے ہے کہ ہم قرآن کے پیغام کو پھیلائیں، اللہ کی حاکمیت کو قائم کریں اور دین کی سربلندی کی جدوجہدمیں مسلسل مصروف رہیں‘‘ (البقرہ:185)۔
(1 ایمان کی فکر اور ایمان کے مطابق زندگی گزارنے کا عزم ہماری قوت کی پہلی بنیاد ہے۔ ضرورت ہے کہ ہم اپنا جائزہ لے کرکے یہ دیکھیں کہ ایمان، ایمان کے تقاضے، زندگی کا مقصد، اس کے اہداف اور وژن اور اس وژن کے ساتھ ساتھ پھر ایمان اور عمل کے تعلق کی کیا کیفیت ہے۔ اسلام میں ایسا کوئی تصور موجود نہیں کہ ایمان عمل کے بغیر ہو، جس طرح عمل ایمان کے بغیر ممکن نہیں ہے اسی طرح ایمان بھی عمل کے بغیر نامکمل اور بے ثمر ہے، یہ دونوں ساتھ ساتھ ہیں۔ لہٰذا ہماری پہلی کمزوری ایمان کی، تصور زندگی کی، مقصود حیات کی، ہدف کی اور منزل کے شعور کی ہے۔ اگر اسے ہم درست کرلیں تو باقی تمام معاملات صحیح رخ پر آسکتے ہیں۔ اور جب تک یہ درست نہ ہو تو تابناک مستقل ایک خواب اور سراب رہے گا، وہ ہمارا مستقبل نہیں بن سکے گا۔
اخلاقی قوت: ایمان کے ساتھ دوسری بنیادی چیز اخلاقی قوت ہے۔ اخلاقی قوت کی بنیاد ایمان ہے۔ عبادات اس قوت کو پیدا کرنے کا ذریعہ ہیں۔ یہ وہ قوت ہے جو انسان کو سکھاتی ہے کہ وہ ظلم کونہ برداشت کرے بلکہ اسے چیلنج کرے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے صاف کہا کہ اگر تم اخلاق کے اعلیٰ مقام پر ہوگے تو پھر تم میں سے ہر ایک دس دشمنوں کیلئے کافی ہوگا۔ اگر تمہارے اخلاق کمزور ہوجائیں گے تو تم دو کیلئے کافی ہوجاؤگے۔ لیکن آج معاملہ یہ ہے کہ ہم ایک کا مقابلہ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ اس لحاظ سے ہماری دوسری کمزوری یہی اخلاقی قوت کی کمزوری ہے اور اخلاقی قوت ایمان اور عبادات کے ساتھ پیدا ہوتی ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے جِلا پاتی ہے اور دعوت الی الخیر اور قربانی دینے سے اس میں نمواور ترقی رونما ہوتی ہے۔
مادی وسائل کی ضرورت:تیسری اہم بات مادی قوت ہے۔ اگر آپ مادی قوت کو حاصل کرنے میں غفلت برتتے ہیں اور مقابلے کی قوت پیدا کرنے کی فکر نہیں کرتے تو صرف ایمان اور اخلاق کے ذریعے سے آپ یہ بازی نہیں جیت سکتے۔ اسلام ہم میں حقیقت پسندی پیدا کرتا ہے اور فطرت کے قوانین کے احترام کی تلقین کرتا ہے۔
اسلام کی خوبی ہی یہ ہے کہ اس کی قوت اس کے اندر ہے کہ اس نے ایمان، اخلاق اور مادی قوت، ان تینوں کو ایک وحدت میں تبدیل کر دیا ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس بات کا حکم نہیں دیا کہ قوت حاصل کرو، اتنی قوت کہ دشمن پر تمہارا خوف اور دبدبہ قائم ہوسکے اور تم اس کو منہ توڑ جواب دے سکو: ’’اور تم لوگ، جہاں تک تمہارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلے کیلئے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعدا کو خوف زدہ کرو جنھیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے‘‘ (الانفال:60)۔
قرآن میں طاقت کے حصول اور گھوڑوں کو تیار رکھنے کی جو بات کہی گئی ہے وہ محض گھوڑوں تک محدود نہیں بلکہ وہ اس بات کی دعوت ہے کہ اپنے وقت کی بہترین معاشی، سائنسی، عسکری ٹکنالوجی کو اپنی گرفت میں لاؤ۔ اس بارے میں قرآن نے بڑے پیارے انداز میں اپنی بات کہی ہے کہ یہ قوت اتنی ہونی چاہئے کہ تمہارے دشمن کو خوف ہو جو در اصل تمہارا دشمن ہی نہیں، اللہ کا دشمن بھی ہے اور یہ دشمن وہ ہیں جنھیں تم جانتے ہو اور وہ بھی جن کو تم نہیں جانتے لیکن اللہ کو ان کا علم ہے۔
اجتماعی نظام کی اصلاح کیلئے قوت کا حصول ضروری ہے۔ یہ مادی قوت اگر اللہ کے دین کی سربلندی کیلئے ہو، اگر امت مسلمہ کے شہداء علی الناس کے مشن کو ادا کرنے کیلئے ہو تو یہ عبادت ہے۔ یہ دنیا پرستی نہیں ہے، یہ مادہ پرستی نہیں ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ سب کچھ دیا ہی اسی لئے ہے کہ اسے ہم مسخر کرکے ان اخلاقی مقاصد اور نظریات کے غلبے کیلئے استعمال کریں جو استخلاف کی بنیاد پر ہمارے ذمے کئے گئے ہیں۔
معاشرے اور قیادت کا بگاڑ: ان تین بنیادی چیزوں کے بعد پھر میں یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ اس وقت جہاں انفرادی طور پر، الحمدللہ ہمارے معاشرے کے اندر بہت خیر موجود ہے اور میری طرح جن افراد کو بھی دنیا کے گوشے گوشے میں جانے کا موقع ملا ہے، وہ یہ گواہی دے سکتے ہیں کہ خراب مسلمان معاشرہ بھی اپنے اندر بڑا خیر رکھتا ہے، لیکن اس اعتراف کے بعد، یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ آج مسلم معاشرہ، مسلمانوں کا اجتماعی نظام قانون، اخلاقی، معیشت سب زبوں حالی کا شکار ہیں۔ اس پر پردہ ڈالنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ ہمیں سمجھنا چاہئے کہ یہ بگاڑ کی گرفت میں ہیں اور خود پورے معاشرے اور ریاست کی اصلاح اور تعمیر نو تابناک مستقبل کے حصول کیلئے ضروری ہے۔ انفرادی اصلاح کافی نہیں، دعوت، نیکی کا حکم، برائی کو مغلوب کرنے اور معاشرے اور ریاست کو شریعت اسلامی کے مطابق منظم اور سرگرم کرنا بھی دنیا اور آخرت کی کامیابی کیلئے ضروری ہے۔
قیادت کا بگاڑ: پانچویں چیز مسلمانوں کی قیادت کا بگاڑ ہے۔ اور میں یہاں ’قیادت‘ کے لفظ کو اس کے وسیع ترین مفہوم میں استعمال کر رہا ہوں، جس میں گھر کا سربراہ، استاد اور تعلیمی ادارے کا سربراہ، معاشی حیثیت سے قیادت کے مقام پر فائز لوگ اور پھر اجتماعی اور سیاسی قوت اور سربراہی۔ اس وقت امت مسلمہ کا بہت بڑ مسئلہ قیادت کا بگاڑ اور اسلامی معیار سے کوسوں دور ہونا ہے۔ عوام کی خامیاں اپنی جگہ، مگر قیادت کا بگاڑ، اصل خرابی ہے۔ عوام الناس، عمل میں خواہ کتنے بھی گئے گزرے ہوں، ان کی خواہشات اور تمنائیں سب کا ہدف دورِ رسالت مآب اور دورِ خلافت راشدہ ہی ہے۔ آپ کسی اَن پڑھ بڑھیا سے پوچھ لیں کہ تم کون سا نظام چاہتی ہو؟ وہ کہے گی کہ مجھے وہ عدل چاہئے جو حضرت عمر فاروقؓ نے دنیا کو دیا تھا۔ یہ احساس موجود ہے، لیکن قیادت، اس کا قبلہ، اس کی وفاداریاں، اس کی ترجیحات سب بگاڑ کا شکار ہیں اور عوام اور قیادت کے درمیان ایک سمندر حائل ہے۔ صرف سمندر ہی حائل نہیں بلکہ ان کے درمیان مسلسل کشمکش ہے اور اب تو عالم یہ ہے کہ اس قیادت میں ایسے بدنصیب بھی ہیں جن کو یہ تک کہنے کی جسارت ہوتی ہے کہ کیا میں لوگوں کے ہاتھ کاٹ دوں اور اس طرح پوری قوم کو لنجا کردوں۔ انھیں داڑھی اور حجاب کا تمسخر اڑاتے ہوئے بھی کوئی شرم نہیں آتی۔ یہ بگاڑ بڑا بنیاد بگاڑ ہے۔
ہمیں ان پانچوں دائروں میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ ان میں سے ہم کسی ایک کو بھی اگر نظر انداز کرتے ہیں تو پھر تابناک مستقبل ایک خواہش تو ہوسکتا ہے، ایک حقیقت نہیں بن سکتا۔ یقین جانئے ان میں سے کوئی مشکل اور کوئی سبب بھی ناقابل تسخیر نہیں۔ ہم نے آج بھی ان گئے گزرے حالات میں اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کس طرح افراد کی زندگیاں بدلتی ہیں؟ کس طرح قوموں کی تقدیریں بدلتی ہیں؟ (باقی)

تبصرے بند ہیں۔